مضامین

بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس کو کتنا فائدہ؟

تحریر: جاوید اختر بھارتی

ہمارے وطن بھارت میں یاترائیں تو بہت نکالی جاچکی ہیں لیکن مقاصد سب کے سیاسی ہی رہے ہیں اور اقتدار حاصل کرنا یہی اصل مقصد رہا ہے کسی زمانے میں ملائم سنگھ یادو نے کرانتی رتھ یاترا نکالی تھی، لال کرشن اڈوانی نے رام رتھ یاترا نکالی تھی اور سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے بھی ایک بار پد یاترا نکالی تھی لیکن اس کا نام بھی واضح تھا اور مقصد بھی واضح تھا اور بیشمار ایسی چیزیں ملیں گی کہ جن کے نام سے مطلب اور مقاصد دونوں واضح ہوتے ہیں اور کسی بھی چیز کا اور مہم کا نام ایسا ہی رکھنا بھی چاہئے کہ نام سے ہی خیالات و نظریات اور اغراض و مقاصد واضح ہو جائیں مگر کانگریس نے ایک یاترا نکالی ہے کہ جس کے نام سے اغراض ومقاصد کی تصویر واضح نہیں ہو رہی ہے-

کانگریس ایک پرانی پارٹی ہے جس نے ملک میں ایک لمبے عرصے تک حکومت کی ہے لیکن آج اس کانگریس کی حالت انتہائی خستہ ہے اور ظاہر بات ہے کہ جو پارٹی طویل عرصے تک برسراقتدار رہی ہو اس کے لیے اقتدار سے دور رہنا کتنا مشکل ہے،، اسی وجہ سے تو اقتدار حاصل کرنے کے لئے جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ مختلف طریقوں سے کوشش میں لگی رہتی ہیں اسی سلسلے میں کانگریس نے ستمبر کے مہینے سے ایک یاترا شروع کی ہے اور جس کا نام دیا ہے بھارت جوڑو یاترا ،، ویسے تو یہ نام خوب واضح نہیں ہوپا رہا ہے کیونکہ بھارت جوڑو یاترا کا مطلب تو یہی ہوتا ہے کہ لوگ بھارت سے جڑیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کانگریس کی نظر میں لوگ بھارت سے نہیں جڑے ہوئے ہیں،، یاکہ پھر کانگریس اس بات کا خلاصہ کرے کہ وہ ملک کی عوام کو کانگریس پارٹی سے جوڑنا چاہتی ہے یا کسی اور چیز سے،، کیونکہ ہر ہندوستانی چاہے امیر ہو یا غریب، بیک ورڈ ہو یا فارورڈ، شہری ہو یا دیہاتی اور ہندو ہو یا مسلمان وہ پوری طرح ملک سے یعنی وطن عزیز بھارت سے جڑا ہوا ہے اور اپنے وطن بھارت سے بے پناہ محبت بھی رکھتا ہے تو پھر کانگریس کو بھارت جوڑو یاترا نکالنے اور چلانے کی ضرورت کیوں پڑی،، کیا کانگریس کی نظر میں بھارت ٹوٹا ہوا ہے کہ اس نے بھارت کو جوڑنے کے لئے بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کیا،، یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی چیز کا نام بے مطلب اور بے مقصد نہیں ہوتا باپ اپنے بیٹے کا نام رکھتا ہے تو اس لئے کہ لوگ اسے اس نام سے پکاریں اور بلائیں اب وہ زندگی کے جتنے بھی مراحل اور شعبے میں داخل ہوگا تو اسے اس کے نام سے پکارا جائےگا قدرت نے انسان بنایا تو اب باپ بھی انسان اور بیٹا بھی انسان لیکن باپ نے بیٹے کا نام رکھ کر اس کی ایک پہچان قائم کردی- آخر ذات برادری، مذہب و مسلک، گاؤں قصبہ، اضلاع و صوبہ اور ممالک سب کا تو نام ہے،، الگ الگ ذات برادری اور مذہب و مسلک کے نام سے جہاں جانا پہچانا جاتا ہے وہیں ایک ملک کے مختلف علاقوں و اضلاع اور صوبے کو بھی الگ الگ نام سے جانا پہچانا جاتا ہے اگر نام نہ دیا جاتا تو پھر دنیا ہے، انسان ہیں اور جانور ہیں معلوم یہ ہوا کہ دنیا میں ایک دوسرے کی شناخت کے لئے نام کا ہونا ضروری ہے اور صحیح نام کا ہونا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ لفافہ دیکھ کر یہ تو جانا جاسکتا ہے کہ کہاں سے آیا ہے مگر لفافے کے اندر مضمون کیا ہے یہ تو لفافہ کھولنے کے بعد ہی معلوم ہوگا ہاں ایک اندازے کے مطابق کچھ چیزیں واضح ہونے کا اشارہ دیتی ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسی اندازے کے مطابق کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کے مقاصد اشارہ دیتے ہیں کہ کانگریس اقتدار حاصل کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہی ہے جہاں بات راہل گاندھی کی ہے تو وہ کہیں بچوں کو گود اٹھا لیتے ہیں، کہیں نوجوانوں کو گلے لگا لیتے ہیں مگر ان سب کے باوجود ان کے اندر وہ سنجیدگی نہیں ہے جو ہونا چاہئے راہل گاندھی ہر جگہ بی جے پی کے خلاف اور وزیراعظم نریندرمودی کے خلاف گرجتے اور برستے ہیں لیکن کہیں یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے اس یاترا کا نام بھارت جوڑو یاترا کیوں رکھا-
آج بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہے اور بی جے پی حکومت جو کررہی ہے وہ ملک اور ملک کے عوام کے لئے کتنا مفید ہے اور کتنا نقصاندہ اس بات کو سنجیدگی کے ساتھ عوام کو بتانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ عوام کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ ہماری حکومت ہوئی تو ہم کیا کریں گے اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بابری مسجد کا مسلہ کانگریس کے دور حکومت میں پیدا ہوا اور بابری مسجد کو شہید بھی کانگریس کے دور حکومت میں کیا گیا،، دلت مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم بھی کانگریس کے دور حکومت میں کیا گیا ہے اور آج بھی کانگریس کی زبان نہیں کھلتی ہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو دلت مسلمانوں کے ریزرویشن کو بحال کریں گے، فرقہ پرستی بھی کانگریس کے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی جبکہ طویل عرصے تک کانگریس نے حکومت کی،، اگر ہر شعبے میں عوام کے ساتھ انصاف کیا ہوتا تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا،، اور بھارت جوڑو یاترا کی بھیڑ سے خوش ہونا اور یہ یقین کرلینا کہ ہم کامیاب ہیں تو یہ محض ایک تسلی کا سامان ہے اور کچھ نہیں،، کیونکہ سبھی سیاسی پارٹیوں کی ریلیوں میں بھیڑ ہوتی ہے مگر ہاں بھیڑ ووٹ میں تبدیل ہو جائے تو کامیابی ہے –
کل ملا کر دیکھا جائے تو ملک کی سب سے مضبوط اور سب سے بڑی پارٹی آج کے دور میں بی جے پی ہے، اسے بھر پور عوامی حمایت حاصل ہے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے باوجود بھی ملک میں عوام کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو بی جے پی کی حمایت میں ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہے فی الحال کانگریس کے لئے ابھی اچھے دن نظر نہیں آتے ابھی اقتدار اور کانگریس پارٹی کے درمیان لمبا فاصلہ دیکھائی دے رہا ہے اور اس فاصلے کو مٹانے کے لئے اگر کانگریس آج جد و جہد کرہی ہے تو کانگریس کے دیگر لیڈران کہاں ہیں کیوں صرف راہل گاندھی ہی ہرجگہ نظر آتے ہیں اس تو دوہی بات کا اندازہ لگ رہا ہے یاتو کانگریس کے دیگر لیڈران مایوس ہو کر بی جے پی کی طرف دیکھ رہے ہیں یاکہ پھر کانگریس میں آج بھی دوسرے لیڈران کو ربڑ کی مہر سمجھا جاتا ہے بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ راہل گاندھی کی محنت کتنا رنگ لاتی ہے اور کانگریس کی کھوئی ہوئی سیاسی زمین کتنی سرسبز و شاداب ہوتی ہے اس کا صاف نظارہ تو 2024 میں ہی دیکھنے کو ملے گا –

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close