مضامین

بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کاقیام

مفتی اخترامام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف ،سمستی پور

"بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی” کاقیام
امارت شرعیہ کےفیصلےکوعملی جامہ پہنانےکےلئے”امارت شرعیہ پارلیمنٹری بورڈ "کاقیام عمل میں آیا،جس کےسربراہ حضرت مولاناسجادصاحب ؒہی مقررہوئے،پھرحضرت مولاناؒنےاسی بورڈ کےذریعہ امارت شرعیہ ،تحریک خلافت،اورجمعیۃ علماء کےکارکنوں کے تعاون سے ایک نئی سیاسی جماعت "بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی”کی بنیادرکھی،۲۵/اگست ۱۹۳۵؁ء مطابق ۲۴/جمادی الاولیٰ ۱۳۵۴؁ھ کونواب علی سجاد کی صدارت میں مسٹر ایم محمود بیرسٹرصاحب کےمکان پرایک اجتماع ( جس میں علماء اوردانشوران قوم وملت کی کثیرتعداد شریک ہوئی)میں حضرت مولاناسجادؒ کی طاقتورتحریک پرپارٹی کاقیام عمل میں آیا،اورحضرت مولاناؒ کوان کےانکارکےباوجودمتفقہ طورپر پارٹی کاصدر منتخب کیاگیا ۔
پارٹی کےبنیادی مقاصد
پارٹی کےدواہم مقاصد تھے:
(۱)سیاسی نقطۂ نگاہ سےہندوستان کی مکمل آزادی کامطالبہ۔
(۲)اورمذہبی نقطۂ نظرسےامارت شرعیہ کےفیصلوں کی پابندی ۔
حضرت مولانامنت اللہ رحمانی ؒ کابیان ہےکہ:
"مولاناسجادؒفرمایاکرتے تھے کہ ملکی آزادی کی جدوجہدمیں ہماراایک مذہبی
مقصد یہ بھی ہے کہ آزادجمہوری حکومت میں مسلمانوں پرکم ازکم اسلامی
نظام حکومت کاوہ حصہ توپوری طرح نافذہوسکےجس کاتعلق صرف مسلمانوں
سےہے ”
پارٹی کی پہلی صوبائی کانفرنس
پارٹی کی پہلی صوبائی کانفرنس۱۲، ۱۳/ستمبر۱۹۳۶؁ء مطابق ۲۵، ۲۶/جمادی الثانیۃ
۱۳۵۵؁ھ کوانجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں جمعیۃ علماء ہندکےجنرل سیکریٹری سحبان الہندحضرت مولانا احمدسعید دہلوی ؒ کےزیر صدارت منعقدہوئی ،یہ پہلی کانفرنس بے حد کامیاب ہوئی، موسلادھار بارش ،سیلاب کی بناپر ریلوے لائن خراب ہونےاور گاڑیوں کی آمدورفت بند ہونےکےباوجود تمام اضلاع سے کثیر تعداد میں مندوبین شریک ہوئے،انجمن اسلامیہ ہال اندروباہرکھچاکھچ بھرا ہوا تھا، کچھ لوگ چھتوں پربھی تھے،جب کہ بہت سےلوگ بارش میں کھڑےچھتریاں لیکر پروگرام سن رہےتھے پارٹی کےصدرحضرت مولاناسجادؒنےخطبۂ استقبالیہ پیش کیا،لوگوں نے نہایت توجہ سے سنا،پھر دیگرمقررین نے اظہار خیال کیا،اخیر میں صدراجلاس مولانااحمد سعید دہلوی ؒ ناظم جمعیۃ علماء ہند نےاپنی تقریرمیں ملکی وملی سیاست اور تحریک حریت( ۱۹۳۰؁ء – ۱۹۳۲؁ء) پرروشنی ڈالی،اورمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےقیام پراظہار مسرت کرتے ہوئے فرمایا:
"صوبہ بہارکےمسلمان لائق تبریک وتہنیت ہیں،کہ ان کےصوبہ
میں امارت شرعیہ قائم ہےجومسلمانوں کابہترین مذہبی ادارہ ہے،
اگراسمبلی اورکونسل میں جانےوالےمسلمان یہ عہدکرکےجائیں،
کہ وہ مذہبی معاملات میں امارت شرعیہ سےاستصواب رائےکے
بعدعمل کریں گے،توان کویقین رکھناچاہئے،کہ وہ اپنی اقلیت کے
باوجودمحفوظ ومصؤن رہیں گے۔
اسی اجلاس کےموقعہ پرپارٹی کےعہدیداران اورمجلس عاملہ وغیرہ کاانتخاب عمل میں آیا،جوحسب ذیل ہے:
صدر: حضرت مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ
نائبین صدر: (۱)مولوی بدرالحسن صاحب ایم ایل اے مظفرپور
(۲)خان بہادرمولاناعبدالعزیزصاحب سنتھال پرگنہ
(۳)نواب سیدعلی سجادصاحب پٹنہ۔
(۴)مولاناغلام احمدصاحب گریڈیہہ ،ہزاری باغ
جنرل سیکریٹری: مسٹرسیدمحمودبیرسٹرپٹنہ
جوائنٹ سیکریٹریز: (۱)حاجی شیخ شرف الدین حسن صاحب باڑھ۔
(۲)مرزابابرحسین صاحب مختارسمستی پور
(۳)مولوی عبدالمجیدصاحب وکیل بھاگلپور
(۴)حکیم سیدمحمدالیاس صاحب رانچی
اسسٹنٹ سیکریٹری: حضرت مولاناعبدالصمدرحمانیؒ مونگیر
خازن : (۱)مولوی جسٹس خلیل احمدصاحب پٹنہ
(۲)مولوی محمداسماعیل صاحب تاجرپٹنہ
پروپیگنڈہ سکریٹری: حضرت مولاناسیدمنت اللہ رحمانی ؒمونگیر
اسسٹنٹ پروپیگنڈہ سکریٹری: مولوی ولی الحق صاحب شاہوبیگہوی
اراکین مجلس عاملہ :
(۱)حضرت مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ(۲)مسٹرمحمدمحمودبیرسٹر(۳)مولانامحمدعثمان غنی ناظم امارت شرعیہ (۴)قاضی احمدحسین(۵)مولوی سیدعبدالحفیظ صاحب ایڈوکیٹ(۶) مولوی عبدالقدوس صاحب وکیل پٹنہ (۷)مولوی سیدجعفرامام صاحب وکیل پٹنہ(۸)مولانا محمد یٰسین صاحب (۹)ڈاکٹرسیدعبدالحفیظ صاحب فردوسی (۱۰)مولوی بدرالحسن صاحب وکیل مظفرپور(۱۱)حاجی شیخ شرف الدین حسن صاحب باڑھ (۱۲)مولوی محمداسماعیل خان صاحب تاجر(۱۳) مولانامنت اللہ صاحب رحمانی (۱۴)مولوی سیدقدیرالحسن صاحب وکیل (۱۵) مولانا عبدالودودصاحب دربھنگہ(۱۶)حافظ محمدثانی صاحب (۱۷)مولاناعبدالصمدرحمانی ؒ (۱۸) مولوی جسٹس خلیل احمد صاحب ایڈوکیٹ(۱۹)مسٹرمحمدیونس صاحب بارایٹ لاء
(۲۰)مولوی حاجی اخترحسین خان صاحب (۲۱)مسٹرسیدتجمل حسین صاحب بیرسٹر
اسی موقعہ پرمجلس عاملہ کےسامنےپارٹی کادستور(مینی فیسٹو)پیش کیا گیااس کامسودہ حضرت مولاناسجادؒکی ہدایات کےمطابق قاضی احمدحسین صاحب ؒنےتیار کیاتھا ، پھرحضرت مولاناسجادؒکی نظرثانی کےبعداس کوآخری شکل دی گئی ، مجلس میں پورے تین گھنٹے تک بحث و تمحیص اورغوروخوض کےبعداس کےاطراف وجہات کومنقح کیاگیااور پارٹی کےدستورکی حیثیت سےاس کومنظورکیاگیا،اس دستور سے اندازہ ہوتاہےکہ یہ پارٹی کتنےجامع اوربلند مقاصدکےتحت قائم کی گئی تھی ،اوراسلامی نظریۂ سیاست سے وہ کس قدرہم آہنگ تھی۔

بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کادستور(مینی فیسٹو)
باب اول (مبادیات)
دفعہ۱:- صوبۂ بہارکی اس سیاسی جماعت کانام "بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی”ہوگا۔
دفعہ۲:- اس جماعت کادائرۂ عمل صوبہ بہارکےتمام اضلاع پرمحیط ہوگا۔
دفعہ۳:- اس جماعت کاصدردفترپٹنہ میں رہےگا۔
باب دوم(بنیادی اغراض ومقاصد)
دفعہ نمبر۴ :- مسلمانوں میں عام بیداری اورسیاسی احساس پیداکرنےکی سعی کرنا۔
دفعہ نمبر۵:-مسلمانوں کےتمام سیاسی واقتصادی، معاشرتی ومذہبی حقوق کی حفاظت اوراس کےحصول کےلئےجد وجہدکرنا۔
دفعہ نمبر۶:-مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح اورمالی ترقی کی سعی کرنا۔
دفعہ نمبر ۷:-قوم ووطن کوغیروں کی غلامی سےآزادکرنےکی حسب استطاعت سعی کرنا۔
دفعہ۸:-(الف)اسلامی اوروطنی مفادکےحصول کےلئےدیگرقوموں سےاشتراک عمل کرنا۔
(ب)اورجب تک باہمی مفاہمت سے مسلمانوں کےتمام قومی ومذہبی حقوق کی حفاظت کےلئےقابل اطمینان اصولوں پراتفاق نہ ہوجائے،ان حقوق کی حفاظت کرنا،جو مسلمانوں کےلئےجدیدانڈیاایکٹ میں مندرج ہیں۔
دفعہ ۹:-صوبہ کےتمام بیکاراوربےروزگارمسلمانوں کی تعدادمعلوم کرنےاوران کی بے روزگاری کودورکرنےکی ہرممکن طریق سےکوشش کرنا۔
دفعہ ۱۰:- مسلمانوں میں دینی اوردنیاوی تعلیم کووسیع ترکرنےاورایسی تعلیم جاری کرنے کی سعی کرناجوبیکاری اوربےروزگاری کاسبب نہ بنے۔
دفعہ ۱۱:-اپنی مادری زبان اردواوررسم الخط کوذریعۂ تعلیم علوم وفنون قراردئیےجانےکی سعی کرنا۔
دفعہ۱۲:-عدالتی اوردیگرسرکاری محکموں میں اردو زبان اوررسم الخط رائج کرانے کی سعی کرنا، سیاسی مسائل اوردیگراہم امورکی اشاعت عامہ کے لئےاردومیں رسائل وکتب شائع کرنا۔
دفعہ ۱۳:- (الف)اس امرکی کوشش کرناکہ نظام حکومت کی مشنری خاص بڑے بڑے عہدہ داروں پرکم سےکم خرچ ہوتاکہ صوبہ کی سرکاری آمدنی کاروپیہ قوم وملت کی ترقی اورعوام کی فلاح وبہبودی میں زیادہ صرف ہو۔
(ب) اورجب کبھی پارٹی مجلس مقننہ میں اپنےمنتخب شدہ ارکان کےلئے سرکاری عہدوں کاقبول کرناتجویزکرےاورحکومت سرکاری عہدہ داروں کوبڑی بڑی تنخواہوں میں تخفیف منظورنہ کرے،تواس پارٹی کاسرکاری عہدہ داراپنی ذاتی ضروریات کےلئےایک مناسب رقم لےکربقیہ رقم اپنی قوم کی تعلیمی واقتصادی مفادپرخرچ کرنےکےلئےپارٹی کو دےگا،جومجلس عاملہ کےمشورہ پرخرچ ہوگا۔
دفعہ۱۴:- اسلامی اصول اورتاریخی روایات کوملحوظ رکھتے ہوئےدیگرقوموں کےساتھ حسن سلوک ورواداری برتتے ہوئےملکی نظام حکومت میں مسلمانوں کی مخصوص ملی وقومی ضروریات کی تحصیل وتکمیل کےلئےجدوجہدکرنا۔
دفعہ۱۵:- سیاسیات میں مسلمانوں کےتمام فرقوں اورنسلی ونسبی قبائل کومتحدرکھنےکی سعی کرنا۔
دفعہ ۱۶:- کاشتکاروں ،مزدوروں ،تاجروں اوردیگراقتصادی طبقات کی فلاح وبہبودکی ہرممکن طریق سے سعی کرنا۔
دفعہ ۱۷:- حکومت کےکسی شعبہ میں خاص کرمجالس مقننہ میں جب کبھی ایسےمعاملات پیش آجائیں جن کامذہب سےتعلق ہوتواس قسم کےتمام معاملات کوامارت شرعیہ بہارواڑیسہ میں بھیجناتاکہ صوبہ کےتمام اسلامی فرقوں کالحاظ کرتے ہوئےہرفرقہ کےمستندعالم دین سے استصواب رائےکےبعدوہ جوکچھ مشورہ دےاس کےمطابق عمل کرنایاخودامارت شرعیہ مسلمانوں کےتمام فرقوں کالحاظ کرتے ہوئےاس کےمستندعلماء دین کےاستصواب رائے کے بعد کسی مسودۂ قانون کوپیش کرنےکی ضرورت محسوس کرے،اوروہ پارٹی کواس کی طرف توجہ دلائے توایسے مسودۂ قانون کومجالس مقننہ سےمنظورکرانےکی سعی کرنا۔
(تشریحی نوٹ)اگرکسی مسودۂ قانون کےمتعلق فرق اسلامیہ کےمذہبی مسائل میں اختلاف ہوتواس فرقہ کےمستندعالم دین اپنےفرقہ کی طرف سے جورائے دیں گےاس کی اطلاع امارت شرعیہ پارٹی کودے گی،تاکہ قانون میں ہرفرقہ کی رعایت ہوجائے،اور کوئی ایساقانون نہ بن جائے جوکسی فرقہ کےمذہب کےخلاف اس فرقہ پرنافذ ہوجائے۔
باب سوم (پارٹی کی رکنیت اوراس کی تشکیل)
دفعہ۱۸:-اس پارٹی کاہروہ شخص ممبرہوسکتاہےجو:
(الف)مردمسلمان ہو
(ب)عاقل وبالغ ہو
(ج)صوبہ بہارکاباشندہ ہو
(د)اورپارٹی کےتمام اغراض ومقاصد سےمتفق ہو
(س)دوآنہ سالانہ فیس رکنیت اداکرتاہو۔
جنرل کمیٹی
دفعہ ۱۹:- پارٹی کی ایک مرکزی مجلس ہوگی،جس کانام جنرل کمیٹی ہوگا،اوراس کےارکان کی تعدادستر(۷۰)ہوگی،جس کی تشکیل حسب ذیل طریق پرہوگی۔
(الف)ہرضلع بارہ(۱۲) نمائندےجنرل کمیٹی کےلئےمنتخب کرےگا۔
(ب)صوبہ کےپانچ (۵)انتخابی شہری حلقوں کوجداگانہ حق نمائندگی مثل اضلاع کےحاصل ہوگا۔
(ج)جن اضلاع میں ایک سےزیادہ انتخابی حلقےہوں گےاس ضلع کےبارہ نمائندوں کواسی ضلع کےحلقوں پرتقسیم کردیاجائےگا،چونکہ شہری حلقوں کی نمائندگی علٰحدہ دےدی گئی ہے،اس لئےاس تقسیم میں دوبارہ حق نمائندگی نہیں دےجائےگی،اورجہاں دواضلاع مل کرایک ہی انتخابی حلقہ بناہوتووہاں دونوں اضلاع کوملاکربارہ(۱۲) اراکین کی نمائندگی دی جائے گی۔
(د)جنرل کمیٹی اپنےجلسہ میں تیس(۳۰) اشخاص کوخودمنتخب کرےگی۔
دفعہ ۲۰:-جنرل کمیٹی کےحسب ذیل عہدہ دارہوں گے:صدرایک ،نائبین صدرچار،جنرل سیکریٹری ایک ،جوائنٹ سیکریٹری چار،خازن ایک۔
ان عہدہ داروں کاانتخاب جنرل کمیٹی میں ہوگا۔
دفعہ ۲۱:-جنرل کمیٹی کاایک تنخواہ دارنائب سیکریٹری ہوگا۔
دفعہ ۲۲:- جنرل کمیٹی کےتمام ارکان اورعہدہ داروں کوسالانہ تین(۳) روپےچندہ ادا کرنا لازمی ہوگا۔
دفعہ ۲۳:- اس پارٹی کی ایک مجلس عاملہ ہوگی،جس کےارکان کی تعدادپینتیس(۳۵) ہوگی، اوران کاانتخاب جنرل کمیٹی کےجلسہ میں ہوگا۔
دفعہ ۲۴:- جنرل کمیٹی کےجوعہدہ دارہونگےوہی مجلس عاملہ کےبھی عہدہ دارہونگے۔
دفعہ ۲۵:- جنرل کمیٹی کےمنتخب شدہ ارکان کی تعدادجب پچھتر(۷۵)تک ہوجائےگی، تویہ تعدادجدیدجنرل کمیٹی کےانعقادکےلئےکافی ہوگی،اورجب تک پچھتر( ۷۵ )کی تعدادپوری نہ ہوگی،سابق کمیٹی بدستورقائم رہےگی اوراس کی تمام کاروائی حسب قواعد وضوابط جائزمتصور ہوگی۔
دفعہ ۲۶:- جنرل کمیٹی کی پہلی تشکیل کےلئےدفعہ ۱۹ کی پابندی لازمی نہ ہوگی،لیکن جب اس پارٹی کی شاخیں صوبہ کےتمام یااکثراضلاع میں قائم ہوجائیں توجنرل سکریٹری کافرض ہوگاکہ وہ تمام اضلاع کی شاخوں میں نمائندوں کےانتخاب کےلئےایک تاریخ مقررکرے،اوران شاخوں کےسیکریٹریوں کواس کی اطلاع دےدےکہ وہ حسب دفعہ ۱۹نمائندوں کےنام منتخب کرکےصدردفترمیں کسی معینہ تاریخ تک بھیج دیں ۔
دفعہ ۲۷:(الف)جب ۷۵ نمائندوں کےنام حسب دفعہ ۲۵صدردفترمیں آجائیں توسکریٹری کافرض ہوگاکہ دوماہ کےاندرجنرل کمیٹی کاایک جلسہ طلب کرےجس میں قدیم اورجدید ارکان مدعوہوں اورقدیم ارکان اپناجلسہ کرکےجدیدکمیٹی کی تشکیل کریں اوراس کمیٹی کے بعدتمام کام اس کےسپرد کردیں ۔
(ب)جنرل سکریٹری جوحسب دفعہ ۱۹بنےگی ،اس کی مدت ایک سال کی ہوگی، لیکن ملک کےحالات اورسیاسی مصالح کی بناپرکمیٹی کی مدت میں ایک سال تک توسیع بھی ہوسکتی ہے۔
دفعہ ۲۸:- (الف)جنرل کمیٹی کےجلسہ کانصاب (کورم)پچاس (۵۰)ہوگا،جب کہ وہ حسب دفعہ ۱۹قائم ہوئی ہوگی اورعارضی کمیٹی جوحسب دفعہ ۲۶ قائم ہواس کانصاب بارہ(۱۲) ہوگا۔
(ب)مجلس عاملہ کےجلسہ کانصاب (کورم)نو(۹)ہوگا۔
دفعہ ۲۹:-جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ کےجلسوں کاانعقادجب باضابطہ تکمیل نصاب کےبعد شروع ہوجائےتوجب تک اورجتنےدنوں تک اجلاس ہوتارہے،اس میں نصاب کی تکمیل ضروری نہیں ہوگی۔
دفعہ ۳۰:- جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ کےباضابطہ مدعوجلسہ میں نصاب (کورم)اگرپورا نہ ہو تو اس وقت مقررہ پریہ جلسہ منعقد نہ ہوگا لیکن اگرسکریٹری نےاس دعوت میں یہ اطلاع بھی ممبروں کودےدی ہوکہ اگرنصاب (کورم)پورانہ ہوگاتوجلسہ وقت مقررہ پردوسرےروز فلاں جگہ ہوگا،تودوسرےروزیہ ملتوی شدہ جلسہ اسی جگہ ہوگاجس میں نصاب کی تکمیل ضروری نہ ہوگی۔
دفعہ ۳۱:- جنرل کمیٹی اوراس کےماتحت کمپنیوں کےتمام جلسوں میں بصورت اختلاف آراء کثرت رائے سےفیصلہ ہوگا۔
دفعہ ۳۲:- تمام کمیٹیوں کےہررکن کی ایک رائے شمارہوگی،بصورت اختلاف رائے صدرکی رائے دورایوں کےبرابرہوگی۔
باب چہارم
جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ کےفرائض واختیارات
دفعہ ۳۳:- جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ پارٹی کےاغراض ومقاصد مصرحہ باب دوم کےماتحت تجاویزپروگرام منظورکرسکتی ہے۔
دفعہ ۳۴:- مجلس عاملہ کی جدیدتشکیل جنرل کمیٹی اپنےباضابطہ اجلاس میں کرےگی۔
دفعہ ۳۵:-جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ کواختیارہوگاکہ وہ دیگرسب کمیٹیاں حسب ضرورت بنائیں اوراس کےحدودواختیارات وفرائض کی تعیین کردیں۔
دفعہ ۳۶:-مجلس عاملہ کی تجاویزوپروگرام میں جنرل کمیٹی ترمیم وتنسیخ کرسکےگی۔
دفعہ ۳۷: -مجلس عاملہ کافرض ہوگاکہ وہ جنرل کمیٹی کی تجاویزکوعملی جامہ پہنانےکےلئے مناسب کاروائی کرے،نیزاس کےپروگرام کوکامیاب بنانےکی سعی کرے۔
دفعہ ۳۸:-پارٹی کی مالیات کاحساب وکتاب کی نگرانی جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ کےذمہ ہوگی۔
دفعہ ۳۹:- مجلس عاملہ دستورہذاکےباب دوم کےکسی دفعہ میں کسی تغیروتبدل کی مجازنہیں ہوگی لیکن دیگرابواب کےدفعات میں حسب ضرورت تغیروتبدل کرسکتی ہے۔
دفعہ ۴۰-جنرل کمیٹی عہدہ داروں کوکسی وجہ معقول سےمعزول اورمنتخب کرسکتی ہے،اسی طرح کسی رکن کوبھی ۔
دفعہ ۴۱:- جنرل کمیٹی اپنےارکان اورعہدہ داران کااستعفیٰ قبول یاواپس کرسکتی ہے۔
دفعہ ۴۲:- جنرل کمیٹی میں جب کوئی جگہ کسی ممبرکی کسی وجہ سےخالی ہوجائے،یاکسی ضلع کی کمیٹی سےنمائندوں کےنام صدردفترمیں موصول نہ ہوں توکمیٹی خالی جگہوں کےلئےاوراس ضلع کےنمائندوں کےلئےممبرمنتخب کرےگی۔
دفعہ ۴۳:- حسب دفعہ ۱۹ضمن (د)کےماتحت جب بیس (۲۰)نمائندوں کاانتخاب کرےگی، تواس وقت یہ لحاظ رکھناضروری ہوگاکہ دس(۱۰) نمائندےکاشتکاروں اورمزدوروں کی انجمن سےمسلمان نمائندےکوطلب کرےاگروہ اپنےنمائندےنہ بھیجیں توجنرل کمیٹی کو اختیار ہےکہ دس (۱۰)کاشتکاروں اورمزدوروں کوازخودمنتخب کرے۔
دفعہ ۴۴:-جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ اپنےباضابطہ جلسوں میں گذشتہ جلسوں کی کاروائی کی تصدیق وتصحیح کرےگی،اوران کواختیارہوگاکہ اپنےمنظورشدہ تجاویزوپروگرام میں ترمیم وتنسیخ کریں۔
دفعہ ۴۵:-مجلس عاملہ کواپنےممبریاعہدہ داروں کےاستعفیٰ کےقبول اورواپس کرنےکا اختیار ہوگا،ونیزیہ کہ جوجگہ مجلس عاملہ میں کسی وجہ سےخالی ہوجائےاس کی جگہ دوسرےممبراور عہدہ دارمنتخب کرے۔
دفعہ ۴۶:- مجلس عاملہ کافرض ہوگاکہ جنرل کمیٹی کےپاس شدہ تجاویزکوکامیاب کرے،ونیزیہ کہ پارٹی کےاغراض ومقاصد اورجنرل کمیٹی کی طےشدہ پالیسی وتجاویز کےماتحت تجاویزاور پروگرام منظورکرکےمناسب کاروائی کرے۔
دفعہ ۴۷:-مجلس عاملہ کوماتحت مجالس کی شکایات ونزاعات سننےاورفیصلہ کرنےکا اختیار ہوگا، ونیزیہ کہ صدردفترکےملازمین کےتقررومعزولی اوران کی شکایات کی سماعت وفیصلہ کاحق ہوگا
دفعہ ۴۸:-اگرکوئی رکن پارٹی کےاصول وضوابط یاطےشدہ تجاویزیاپالیسی کی ایسی خلاف ورزی کرےجس سےپارٹی کےوقارکونقصان پہونچنےکااندیشہ ہوتومجلس عاملہ کویہ حق ہوگاکہ اگر افہام وتفہیم کےبعدبھی وہ ممبراپنی حرکت سےبازنہیں آئےتواس کانام ممبری سےخارج کردے۔
دفعہ ۴۹:- اگرکسی ممبرکومجلس عاملہ یاجنرل کمیٹی کےعہدہ داروں سےیاپارٹی کےممبرسےکوئی شکایت ہواوروہ ان دومجالس یاکسی ایک میں پیش کردےتووہ اس شکایت کی سماعت کرےگی، اوربیان شکایات اوراس کےجواب کےوقت دونوں فریق مجلس میں موجودرہیں گے،لیکن مجلس وقت بحث باہم اورفیصلہ ہرفریق کومجلس سےعلٰحدہ رہنےکی ہدایت کرےگی اوریہی طریقہ ہردومجالس اس وقت اختیارکریں گی جب کسی ممبرکو دوسرے ممبرسےشکایت ہو۔
دفعہ ۵۰:- جب پارٹی مجلس مقننہ میں اپنےنمائندوں کوبھیجناطےکرےاورجوتجویز یا پالیسی جنرل کمیٹی یامجلس عاملہ منظورکرےیاکوئی عہدنامہ تیارکرےیاکوئی پابندی نمائندوں پرعائد کرےتوانہیں اس کی پابندی لازمی ہوگی۔
دفعہ ۵۱:-مجلس عاملہ اورجنرل کمیٹی جب مناسب سمجھےسال میں ایک مرتبہ صوبہ کےکسی ضلع میں ایک کانفرنس کاانعقادکرے،جس میں صوبہ کی جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ کے ممبروں و عہدہ داروں کےعلاوہ حسب ذیل ممبران واشخاص بھی شریک ہوسکتےہیں،اور یہ کانفرنس
پراونشل انڈی پنڈنٹ کانفرنس کےنام سےموسوم ہوگی۔
(الف)اضلاع کےعام ممبران (ب)ہرضلع کمیٹی کےارکان وعہدہ دار۔
(ج)وہ اشخاص جن کومجلس عاملہ یااس کےعہدہ دارخصوصیت سےمدعو کریں۔
(د)عام مسلمان یادیگرقوموں کےافرادبہ حیثیت وزیٹر۔
دفعہ ۵۲:-(الف)جب کبھی انڈی پنڈنٹ کانفرنس حسب دفعہ ۵۱ منعقدہوگی،توکانفرنس کے اجلاس عام میں تمام شرکائےاجلاس کوہرتجویزپربحث کرنےکااختیارہوگا،سوائے ان اشخاص کےجودفعہ ۵۱ ضمن (د)کےماتحت شریک ہوں اوروقت رائےشماری تمام شرکائےاجلاس کو رائےدینےکاحق ہوگاسوائےان لوگوں کےجوحسب دفعہ ۵۱ ضمن "ج” و” د” شریک اجلاس ہوں ۔
(ب)کانفرنس کواختیارہوگاکہ مجلس عاملہ یاجنرل کمیٹی کی تجاویزکومستردیااس میں ترمیم کرے،یاکوئی دوسراپروگرام مرتب کرے،اسی طرح جنرل کمیٹی کوبھی مجلس عاملہ کی تجاویزمیں ترمیم یاردکااختیارہوگا۔
دفعہ ۵۳:-کانفرنس کےانتظامات اوراس کی کاروائی کےلئےمجلس عاملہ جوقواعد بنائےگی اس کی پابندی لازمی ہوگی۔
دفعہ ۵۴:- سالانہ کانفرنس بالعموم سال میں ایک دفعہ اورجنرل کمیٹی کی مجلس بالعموم سال میں دومرتبہ ہوگی،اورمجلس عاملہ کاجلسہ کم سےکم ہرتین ماہ میں ایک مرتبہ لیکن غیرمعمولی حالات میں مجلس عاملہ، جنرل کمیٹی اورکانفرنس کااجلاس اس سےزیادہ بھی ہوسکتاہے۔
دفعہ ۵۵:- اگرجنرل کمیٹی یامجلس عاملہ کاجلسہ معمولی صدروسکریٹری طلب نہ کریں توجنرل کمیٹی کےدس (۱۰)ممبران اورمجلس عاملہ کےپانچ(۵) ممبران کےدستخطوں سےجلسہ طلب ہوسکتاہےمگرشرط یہ ہےکہ پہلےیہ دستخط کرنےوالےممبران صدروسکریٹری کوبذریعہ جلسہ طلب کرنےکی فرمائش کریں ،اوراس فہمائش کےباوجودصدروسکریٹری جلسہ طلب نہ کریں تو مذکورالصدرتعدادمیں ممبران اپنےدستخطوں سےجلسہ طلب کرسکتےہیں۔
اسی طرح غیرمعمولی حالات میں بھی ممبروں کواسی قاعدہ کےمطابق خاص جلسہ طلب کرنےکااختیارہوگا۔
دفعہ ۵۶:-کانفرنس کےصدرکاانتخاب مجلس عاملہ کرے گی اورکانفرنس کی صدارت کےلئے ضروری نہیں کہ اسی صوبہ کاکوئی آدمی ہومگریہ ضرورہےکہ پارٹی کےاغراض ومقاصد سے متفق ہو۔
دفعہ ۵۷:- اضلاع کی ماتحت مجالس کےقواعدوضوابط کی منظوری اوران مجالس کےالحاق کو توڑنےکاحق مجلس عاملہ کوہوگا۔
باب پنجم (عہدہ داروں کےفرائض واختیارات)
دفعہ ۵۸:-جنرل کمیٹی اورمجلس عاملہ کےجلسوں کی صدارت منتخب شدہ صدرکرے گا،اور صدرکی عدم موجودگی میں کوئی نائب صدرکرےگا،بشرطیکہ جلسہ میں ایک بھی نائب صدر موجودہو،اگرچندنائب صدرہوں،توجس نائب صدرکی صدارت پرکثرت رائےہووہی صدر جلسہ قرارپائےگا۔
دفعہ ۵۹:- صدریاقائم مقام صدرکافرض ہوگاکہ جلسہ میں ضبط ونظم کوقائم رکھیں ۔
دفعہ ۶۰:- صدرکواختیارہوگاکہ ایجنڈاکےغورطلب امورمیں سےجس امرکوچاہیں بحث وفیصلہ کےلئےپہلےاختیارکرےیعنی ایجنڈاکی ترتیب لازمی نہیں ہوگی،لیکن یہ ضرورہے کہ ایجنڈاکےاموران امورپرمقدم ہونگےجوصدرکی اجازت سےپیش ہونگے۔
دفعہ ۶۱:-صدروسکریٹری کواختیارہوگاکہ پارٹی کےمقاصد اورپالیسی کےماتحت اعلانات شائع
اورسرکلرجاری کرے۔
دفعہ ۶۲:- صدرکوسکریٹری اورکارکنان دفترکےکاموں کی نگرانی کاحق ہوگا۔
دفعہ ۶۳:-سکریٹری کواختیارہوگاکہ خزانہ سےکوئی رقم اپنےدستخط سےان حدودکےاندر برآمدکرےجومجلس عاملہ نےمعین کردیاہو۔
دفعہ ۶۴:-صدرکواختیارہوگاکہ وہ اپنی غیرموجودگی میں کسی ایک نائب کواپنےکل اختیارات یابعض تفویض کرے،اورجب صدربغیرتفویض اختیارات دوتین ماہ کےلئےصوبہ سےباہر جائےتوباجازت مجلس عاملہ کوئی نائب صدرصدارت کےفرائض واختیارات کواستعمال کرسکتا ہے۔
دفعہ ۶۵:-جنرل سکریٹری کےحسب ذیل فرائض واختیارات ہونگے:
(الف)دفترکی تنظیم وترتیب اوردستورہذاکےاصولوں اورطےشدہ تجاویز و پالیسی کےماتحت ضروری مراسلات جاری کرنا،لیکن کسی اعلان عام یااہم سرکلرکےلئے ضروری ہےکہ اس کی منظوری صدرسےحاصل کرلی جائے۔
(ب)جنرل کمیٹی ،مجلس عاملہ اورکانفرنس کےاجلاسوں کی کاروائیوں کومنضبط کرنا اوران کو رجسٹروں میں محفوظ رکھنااورکارکنان صدردفتروماتحت مجالس کےکاموں ودفتروں کی نگرانی کرناہے۔
(ج)آمدوخرچ کاحساب وکتاب صاف رکھنا۔
(د)پچاس(۵۰) روپیہ تک کےملازم کاتقرریابرطرف کرنا،لیکن اس سےزیادہ کےلئےصدرکی تحریری اجازت ضروری ہوگی،اوربہرصورت ہرتقرری اوربرطرفی کومجلس عاملہ یاجنرل کمیٹی میں پیش کرناہوگا۔
(ہ)شش ماہی میزانیہ اورآخرسال میں کل آمدوخرچ کاگوشوارہ مجلس عاملہ میں پیش کرنا۔
(و)پارٹی کےجملہ رقوم کوخازن کےپاس جمع کرکےدستخط حاصل کرنا۔
(ز)دفتری اوردیگراخراجات کےلئےسوروپیہ کی رقوم جنرل سکریٹری اپنی تحویل میں رکھ سکتاہے۔
(ح)میزانیہ کےعلاوہ غیرمعمولی اخراجات پچاس(۵۰) روپیہ تک بہ اختیارخوداور سو(۱۰۰)روپیہ تک باجازت صدرجنرل سکریٹری کرسکتاہے۔
(ط)اضلاع کی کسی کمیٹی کی تنظیم اوراس کی نگرانی کےلئےیاپارٹی کےمقاصدکے نشرواشاعت کےلئےدورہ کرنا۔
دفعہ ۶۶:- جوائنٹ سکریٹری جنرل سکریٹری کی عدم موجودگی میں اس کےقائم مقام ہوں گے، اوراگرجنرل سکریٹری کسی کوقائم مقامی کےبغیرصوبہ سےباہرایک ماہ یااس سےزائدکے لئے چلاجائےجائےتوصدرجس کوقائم مقام کردےگاوہ جنرل سکریٹری کےاختیارات کواستعمال کرےگا،اورسکریٹری جوکام جس جوائنٹ سکریٹری کےسپردکرےوہ اس کوانجام دےگا۔
دفعہ ۶۷:- خازن کافرض ہوگاکہ پارٹی کی تمام رقوم جواس کی تحویل میں دی جائیں اور برآمد ہوں مفصل حساب ایک مستقل کتاب میں رکھے۔
دفعہ ۶۸:- خازن کافرض ہوگاکہ سکریٹری کےتحریری مطالبہ پرکوئی رقم خزانہ سےواپس کرےاوران تجاویزکوپیش نظررکھےجومالیات کےجمع وبرآمدکےمتعلق مجلس عاملہ منظور کرے۔

باب ششم (مالیات)
دفعہ ۶۹:- پارٹی کےحسب ذیل ذرائع آمدنی ہونگے۔
(الف)ممبران جنرل کمیٹی ومجلس عاملہ کی فیس رکنیت ۔
(ب)ضلع کی کمیٹیوں کی معرفت جورقم وصول ہوں۔
(ج)عطیات جوممبروں اورہمدردوں سےوصول ہوں ۔
(د)سیاسی اقتصادی اصلاحی کتب کی اشاعت سےجورقم وصول ہوں۔
(ہ)اوروہ تمام رقوم جومجلس کی تجاویزکےماتحت پارٹی کےفنڈمیں محسوب ہوسکتی ہے۔
دفعہ ۷۰:-پارٹی فنڈکاتمام روپیہ اس دستورکےقواعداورمجلس عاملہ کی تجاویزکےماتحت خرچ ہوگا۔
دفعہ ۷۱:-پارٹی کےلئےرقم دینےوالوں کوپختہ رسیددینالازم ہوگاجس پرپارٹی کی مہراور جنرل سکریٹری کی دستخط ہوگی۔
باب ہفتم (ضلع کمیٹیوں کےفرائض واختیارات)
دفعہ ۷۲:- ضلع کی مجالس اورکمیٹیوں کواختیارہوگاکہ وہ اس دستورکی روشنی میں اپنےلئے قواعدوضوابط وضع کریں،بایں شرط کہ کوئی قاعدہ وضابطہ دستورہذاکےکسی دفعہ کےخلاف نہ ہو۔
دفعہ ۷۳:-تمام ضلع وارکمیٹیوں اورماتحت مجالس کافرض ہوگاکہ جنرل کمیٹی ،مجلس عاملہ اور کانفرنس کےاجلاس کےجملہ منظورشدہ تجاویزکااحترام کریں ،اورتمام عملی تجاویزکو اپنےحلقہ میں کامیاب کرنےکی پوری سعی بلیغ کریں ۔
دفعہ ۷۴:- تمام ضلع کمیٹیوں کافرض ہوگاکہ عام ممبروں کےنام وپتہ کی فہرست اور ان کے قرطاس رکنیت کوتاانتخاب ثانی محفوظ رکھیں۔
دفعہ ۷۵:-تمام ضلع کےماتحت مجالس کافرض ہوگاکہ اپنی جملہ آمدنی کاایک چوتھائی جنرل کمیٹی کےصدردفترمیں ہرسہ ماہی کےاندرروانہ کریں ۔
دفعہ ۷۶:- ہرضلع کی کمیٹیوں کافرض ہوگاکہ :
(الف)صدردفترکےہرسرکلرکےمطابق عمل کریں۔
(ب)اورجوتجویزوپروگرام صدردفترسےشائع ہواپنےحلقہ کےعام مسلمانوں خاص کرپارٹی کےتمام ممبروں میں اس کومقبول بنانےکی سعی کریں۔
دفعہ ۷۷:- ضلع کی کمیٹیوں کافرض ہوگاکہ اگروہ اپنےلئےکوئی قاعدہ وضابطہ وضع کریں تواس پرعمل درآمدسےپہلےپارٹی کےصدراورمجلس عاملہ سےاس کی منظوری حاصل کریں ۔
دفعہ ۷۸:-ضلع کی کمیٹیاں اپنےجلسوں میں تجاویزوعملی پروگرام منظورکرسکتی ہیں بشرطیکہ وہ پارٹی کےمقاصد وپالیسی اورجنرل کمیٹی ومجلس عاملہ کی تجاویزوپروگرام کےخلاف نہ ہوں اورشرط یہ ہےکہ ان پرعمل کرنےسےپہلےصدردفترکواس کی اطلاع دی جائے۔
دفعہ ۷۹:- ضلع کمیٹیوں کےماتحت تھانہ کمیٹی اورتھانہ کمیٹی کےماتحت مواضعات کی حلقہ کمیٹیاں ہوں گی جن کی تنظیم ونگرانی ضلع کمیٹیوں کےذمہ ہوگی۔
دفعہ ۸۰:- ہرماتحت کمیٹی اپنےعہدہ دار(سکریٹری، صدر،خازن )اپنےممبروں میں سےخود منتخب کرےگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہرہےکہ یہ تمام قواعد وضوابط مفکراسلام حضرت مولاناسجادؒکےذہن رساکی دین ہیں ،ان سے آپ کی دوراندیشی اورسیاسی بصیرت کابخوبی اندازہ ہوتاہے۔
پارٹی کی طرف سےانتخابات میں شرکت کااعلان
اس کانفرنس میں ملی ،قومی اوربین الاقوامی مسائل پرکئی اہم تجاویزبھی منظورکی گئیں ،چونکہ ۱۹۳۶؁ء ہی سے بہارمیں مجلس قانون سازکےعام انتخابات کی تیاریاں ہونےلگی تھیں، اس لئےاس کانفرنس میں یہ تجویزبھی بڑےزوروشورسےپاس ہوئی،کہ ہونےوالے انتخابات میں مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی بھی الیکشن میں حصہ لےگی،تجویزکےالفاظ مندرجہ ذیل ہیں:
"ہرگاہ کہ مجلس مقننہ جوگورنمنٹ آف انڈیاایکٹ ۱۹۳۵؁ء کےماتحت قائم
ہوگی،ان کےذریعہ باشندگان ملک کی عموماًاور مسلمانوں کی خصوصاً اہم
تعمیری خدمت ان کی ضروریات وحاجات کےلحاظ سےناممکن ہے،اوراس
کےساتھ اس امرکابھی اندیشہ ہے،کہ مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی ان مجالس
کےلئےحریت پروراورحق پسندمسلمانوں کوامیدوارکھڑانہ کرےتوایک
طرف ایسےمسلمان جورجعت پسندہیں،ان مجالس میں پہونچ کرنہ صرف
یہ کہ انگریزوں کےہاتھ مضبوط کرنےکےباعث ہونگے،بلکہ ملک کے
غریب طبقہ کو،مسلمانوں کوخصوصاًنقصان ہوگا،اوردوسری طرف عام
مسلمین کو۔۔عظیم صدمہ لاحق ہوگا،اس لئے بہارپراونشل مسلم انڈی
پنڈنٹ پارٹی کایہ اجلاس تجویزکرتاہے،کہ ان دوہری مضرتوں سے
مسلمانوں کو بچانےکےلئےمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی کریڈ اورپالیسی
کےٹکٹ پرلائق امیدوارمجالس مقننہ کےلئےکھڑے کئےجائیں اوریہ
کانفرنس پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کوکامل اختیاردیتی ہےکہ انتخابی منشور
تیارکرکےشائع کرے،اورشرائط امیدوار وغیرہ مرتب کرکے انتخاب کے
لئےہرمناسب وجائزکاروائی کرے” ۔
حضرت مولانامنت اللہ رحمانی صاحبؒ لکھتے ہیں :
"انتخابات میں حصہ لینے سے مولاناکاایک مقصد یہ بھی تھا،کہ رفتہ
رفتہ آئینی طریقہ پرمذکورہ بالامقاصد کی طرف قدم بڑھایاجائے،اور
مرکزی و صوبائی مجالس قانون سازسےایسےقوانین مرتب کرائے
جائیں ،جوصحیح اسلامی اصول پرمرتب کئے گئے ہوں ،اورجن کاتعلق
صرف مسلمانوں سے ہو(تفصیل کےلئے ملاحظہ ہو”پارٹی کامنشور
عام اورپارٹی کانفرنس کاخطبۂ استقبالیہ ")
پارٹی کی مجلس عاملہ کااجلاس
مذکورہ کانفرنس کے چنددنوں کےبعد۱۷/ستمبر۱۹۳۶؁ء (یکم رجب المرجب ۱۳۵۵؁ھ )کوپارٹی کی مجلس عاملہ منعقد ہوئی ،جس نے پارٹی کا(مذکورہ بالا )دستورمنظورکیااور انتخابات کےتعلق سےچنداہم تجاویزبھی منظورکیں ۔ بعدازاں انتخابی منشور اورعہدنامہ برائے امیدواربھی مرتب کئےگئے۔
ملاحظہ ہوکاروائی مجلس عاملہ انڈی پنڈنٹ پارٹی:
"آج بتاریخ ۱۷/ستمبر۱۹۳۶؁ء بوقت ساڑھےگیارہ بجےدن بہارمسلم انڈی
پنڈنٹ پارٹی کےدفترواقع مرادپوربانکی پورپٹنہ مجلس عاملہ کااجلاس مولانا
ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی صدارت میں منعقدہوا،حسب ذیل اراکین عاملہ
شریک تھے:
(۱)مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ(۲)حاجی شرف الدین حسن باڑھ (۳)مسٹرمحمد
محمودبیرسٹر(۴)ڈاکٹرسیدعبدالحفیظ فردوسی (۵)مسٹرمحمدیونس بیرسٹر (۶)
مولوی خلیل احمدوکیل (۷)قاضی احمدحسین (۸)تجمل حسین بیرسٹر(۹)
مولاناسیدمنت اللہ (۱۰) حافظ محمدثانی (۱۱)مولانامحمدیسین (۱۲)مولانامحمد
عثمان غنی (۱۳)مولاناعبدالصمدرحمانی (۱۴)مولوی محمدحفیظ ایڈوکیٹ۔
تجاویز
تجویزنمبر۱:- مجلس عاملہ کا یہ جلسہ حسب ذیل حضرات کی ایک کمیٹی بناتا
ہےاوراس کواختیاردیتاہے،کہ وہ مینی فیسٹوکوان اہم الفاظ کی روشنی میں جن
کومجلس عاملہ نےبحث کرکےضبط کیاہے،پھرسےمرتب کرکےمجلس عاملہ کی
طرف سےشائع کردے۔
ارکان کمیٹی برائے مرتب کردن منشوربرائے انتخابات
(۱)مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ(۲)قاضی احمدحسین (۳)مولوی خلیل احمد
وکیل(۴) مولانا عبدالصمدرحمانی ؒ۔
تجویزنمبر۲:- مجلس عاملہ کایہ جلسہ طےکرتاہے،کہ انتخابی اعلان اردواور
انگریزی اخبارمیں شائع کردیاجائے،اورمستقلاً بھی رسالہ کی شکل میں شائع
کیاجائے۔
تجویزنمبر۳:- مجلس عاملہ کایہ جلسہ عہدنامہ درخواست امیدواران کومنظور
کرتاہے،اورفیس امیدواری اسمبلی کےلئےمبلغ ۲۵روپے ،کانسل کےلئے
مبلغ پچاس(۵۰) روپےاورکانسل آف اسٹیٹ کےلئےایک سو(۱۰۰)
روپےپارٹی فنڈ کےلئےمقرر کرتاہے۔
تجویزنمبر۴:- مجلس عاملہ کایہ جلسہ درخواست امیدواری کی آخری تاریخ
۲۰/اکتوبرمقررکرتاہے،اورطے کرتا ہے کہ تمام درخواستیں جنرل
سیکریٹری مسٹر محمدمحمودبیرسٹرکےنام صدردفتربہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی
مرادپورپٹنہ کےپتہ پر بھیجی جائیں،اورحسب ذیل حضرات کی کمیٹی بناتاہے
،اورانہیں ہدایت کرتاہے،کہ وہ ضلع اورحلقوں کی کمیٹیوں سے مشورہ کرکے
لائق شخص کونامزدکریں۔
(۱)مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ(۲) مولوی خلیل احمدصاحب وکیل (۳)ڈاکٹر
عبدالحفیظ فردوسی (۴)حکیم نوراللہ صاحب (۵)مولوی محمداسمعیل خان
صاحب (۶)مولانا عبدالودودصاحب (۷)مولانامحمدعثمان غنی صاحب ؒ۔
تجویزنمبر۵:-مجلس عاملہ کایہ جلسہ تجویزکرتاہےکہ ڈویزن کانفرنس کے
لئےضلع کمیٹی سے خط وکتابت کی جائے۔
تجویزنمبر۶:-مجلس عاملہ کایہ جلسہ تجویزکرتاہے،کہ چاروں ڈویزن کے
کاموں کی نگرانی اورپارٹی کی پالیسی کومقبول عام بنانےکےلئےچارمقررکا
تقررکیا جائے ، اوراس کابارنمائندوں پرڈالاجائے ۔
بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کاانتخابی منشورعام
اس موقعہ پرپارٹی کاجوانتخابی منشورعام جاری کیاگیاوہ بھی بہت جامع ،وطن سے محبت اوراسلام پسندی کےجذبات پرمبنی تھا،جس میں جہالت،غربت،بےروزگاری اور بدامنی کےخاتمہ،قدیم تمدنی اقداروروایات اوربنیادی حقوق کےتحفظ اورتعلیمی واقتصادی وسائل کے فروغ کوضروری اہداف کادرجہ دیاگیاتھا:
"اس ملک میں اسلامی حکومت کےزوال کےبعدجب ایک ایسی اجنبی
حکومت قائم ہوگئی،جس کی بنیادہندوستان کےفائدہ پرنہیں بلکہ انگلستان
کی بدیشی حکومت کے سیاسی و اقتصادی فوائد پر رکھی گئی اورملک کے
دوسرےباشندوں کی طرح مسلمان بھی محکومانہ زندگی بسرکرنے پرقانع
ہوگئے،تواس کانتیجہ وہی ہواجوقدرتاًہواکرتاہے،کہ نہ دولت رہی نہ علم
و ہنر،وہ ہندوستان جہاں کےکارخانوں میں ولایت کےجہازبنتے تھے،جس
کےکپڑےکی صنعت اس درجہ پرتھی کہ تقریباًتمام دنیاکی منڈیاں ہندوستانی
کپڑوں سےپٹی ہوئی تھیں،جن کی بدولت لاکھوں ہندوستانیوں کی روٹی کا
سوال حل ہوتاتھا،جس کےعطرومسالےاوردیگراشیائے لطیفہ کی مانگ
ساری دنیامیں تھی، انگریزی حکومت کی ناقص حکمت عملی کی بدولت تباہ
ہوگیا، اورہندوستان فلاکت زدوں کی بستی ہوکررہ گیاہے۔
افلاس
آج ساراملک افلاس اورغربت کی مصیبت میں مبتلاہے،مسلمانوں کاافلاس
اوران کی تنگ دستی اس حدتک پہونچ گئی ہے،کہ تقریباً نوے فی صدی
مسلمان نان شبینہ کےمحتاج ہیں،تن ڈھانکنےکےلئےپھٹےپرانےکپڑے
بھی میسرنہیں آتےاوربقیہ دس فی صدی اگرچہ اس درجہ محتاج نہیں مگر
روٹی اورکپڑے انہیں بھی اطمینان قلب کےساتھ نہیں ملتے،رات دن
اسی فکرمیں سرگرداں وپریشان رہنےپربھی آبائی عزت و آبروکانباہنا
مشکل ترہوگیاہے،زمینداروں کےچہرےاداس ،کاشتکاروں کے زرد
اوربدن لاغروخشک ہوگئے ہیں،غرض ہندوستان کی معاشی حالت بد
سےبدترہےاورمعیشت کی تمام راہیں بندہیں۔
جہالت
نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی دولت وصنعت ہی غارت ہوگئی،بلکہ جہالت
بھی عام ہوگئی،قدیم علوم ومعارف جس سےانسانوں کےدماغ میں روشنی
پیداہوتی ہے،اخلاق بلندوبرتر ہوتے ہیں،اس کےتمام ذرائع ناپیدہوگئے
ہیں،نہ وہ مدارس رہےنہ مسجدوں اورخانقاہوں میں لوجہ اللہ درس دینے
والے،نہ ہرگاؤں میں قدیم مکاتب کادستوررہا،جہاں غریب وامیر کےبچے
بغیرکسی امتیازکےمفت تعلیم پاتے تھے،اورجن کےذریعہ جہالت عامہ کا
خاتمہ ہوسکتاتھا،انگریزی حکومت نے اپنے استحکام کے لئے انگریزی
زبان کےذریعہ علوم کی تعلیم کا طریقہ جاری کرکے ملک کومزیدتباہی
میں مبتلاکردیاجس کانتیجہ یہ ہوا کہ اکثر مسلمانوں نے باپ داداکی بچی
کھچی جائیدادکوبیچ بیچ کراپنےبچوں کوانگریزی تعلیم دلائی ،لیکن یہ انگریزی
خوانی بھی آخروبال جان ثابت ہوئی،قدیم آداب تہذیب اورسادہ زندگی
رخصت ،روح کی پاکیزگی فناہوچکی تھی ، پیٹ پالنے کاسہاراصرف ایک
انگریزی تعلیم رہ گئی تھی،مگراس کابھی اب یہ حال ہےکہ ہمارےہزاروں
نوجوان بی اےایم اے دربدرخاک چھاننے کے بعدبھی بیکاری اور بے
روزگاری کی مصیبت عظمیٰ میں مبتلا ہیں جس سے نجات پانے کی کوئی
صورت نظرنہیں آتی۔
اسلامی تمدن کی تباہی
انگریزی نظام حکومت اوراس کی پالیسی سےمسلمانوں کی دنیاوی زندگی تو
ہرطرح تباہ وبربادہوہی گئی،لیکن سب سےبڑی مصیبت جونازل ہوئی،وہ
یہ ہےکہ اسلامی تمدن و معاشرت اوراسلامی کلچر(شعار)کےتحفظ وبقاکا
بھی کوئی ذریعہ باقی نہ رہا،انگریزی عدالتوں ہائی کورٹوں کےغیرمسلم ججوں
کی فہم وادراک کےسانچوں میں اسلامی قانون کوڈھال کراینگلو محمڈن لا
بنادیاگیا، جس کواسلامی احکام کی تخریب وتنسیخ ہی سےتعبیرکیاجاسکتا
ہےآج بدقسمتی سےمسلمان اس اینگلومحمڈن لاءکواسلامی قانون سمجھ کر
اس کی اتباع پرمجبورہیں۔
دارالقضاء کاانہدام
مسلمانوں کےباہمی تمدنی ومذہبی معاملات کےانصرام وانفصال کے
لئےاسلامی قانون کےمطابق دارالقضاء کاقیام ایک نہایت ضروری
امرہے،انگریزی حکومت نےاسلامی محکمۂ قضاکوتوڑکردارالقضاء کو
بالکل منہدم کردیا،جس کانتیجہ یہ ہےکہ آج مسلمان خالص مذہبی
حیثیت سےہزاروں مصائب میں مبتلاہیں،دنیاوآخرت تباہ وبربادہے،
دنیاکی ذلیل ترین زندگی بسر کرنے کے ساتھ صرف ایک محکمۂ قضانہ
ہونےسےبےشمارمسلمانوں کوزبردستی جہنم میں بھیجنےکاسامان مہیاکردیا
گیاکیونکہ بہت سےمعاملات ایسےہیں جن کافیصلہ کسی حال میں غیرمسلم
عدالتوں سےجائزنہیں۔
مجالس مقننہ کافساد
ان تمام مصائب دینی ودنیوی کےعلاوہ انگریزی نظام حکومت کاایک فساد
انگیزکارنامہ یہ ہےکہ قانون سازی کے لئے ایسی اسمبلیاں اورکانسلیں
مشترکہ تمام قوموں کے ملک میں قائم کردی گئی ہیں جن میں انسانی زندگی
کےہرشعبہ کےمتعلق قانون بنتے ہیں،اوربنائے جاسکتے ہیں۔
نکاح ہویاطلاق ،حج کاسفر ہویامقامات مقدسہ کاقبرستان ہویاعبادت گاہ
اوقاف ہوں یاوراثت ،کوئی ایک چیز بھی ان مشترکہ مجالس قانون ساز
کےاحاطۂ اختیارسےباہراوراورتمام قوانین کی منظوری محض اکثریت کی
رائے پرموقوف ہے،جس طرح وہ چاہیں قانون بنائیں،مسلمانوں کے
خالص مذہبی احکام تک میں تنسیخ وترمیم ہوسکتی ہے،اوراس قسم کی فساد
انگیز کاروائیوں کےانسدادکاکوئی قابل اعتمادذریعہ نہ حکومت کےدستور
۱۹۱۹؁ء میں موجودہےاورنہ جدیدانڈیاایکٹ ۱۹۳۵؁ء میں ،بلکہ اس آخری
دستورسےمسلمانوں کےلئے مزیدخطرات لاحق ہوگئےہیں۔

مسلمانوں کی ذمہ داری
غلامی پرقناعت
اوراس قسم کےتمام دین ودنیاکی تباہی و بربادی کی ذمہ داری بڑی حدتک
مسلمانوں کےسرپرعائدہوتی ہے،کہ انہوں نےایک طرف اجنبی حکومت
کی غلامی پرقناعت کرلی،جس کےسامنے انگریزوں کامفادسب سے مقدم
ہے،اوراس کےخود ساختہ قوانین کی بلاچوں وچرا اطاعت کرتے رہے،
غریب کاشتکاروں ومزدوروں ،کاریگروں کوحکومت کےنظام اورطریق کار
سے ناواقف اوراصول کشمکش حیات ورموز زندگی سےبےخبررکھا۔
نظام ملت سے غفلت
اوردوسری طرف نظام ملت کی طرف سےغفلت برتی گئی جواسلامی زندگی
کالازمی جزوہے،جس کوتمام مسلمانوں کی قومی ومذہبی زندگی کامرکزہونا
چاہئے ،اورحق یہ ہےکہ مسلمانوں کی اسلامی زندگی اورمذہبی تحفظ کایہی
ایک واحدذریعہ عقلاًونقلاًہے ،مگر ہمارےبہت سےمسلمان لیڈروں نے
بدقسمتی سےشایدیہ سمجھ رکھاہے،کہ مسلمانوں کی دنیااسمبلی وکانسل کی
ممبریوں اورسرکاری نوکریوں سےبن جائےگی،باقی رہامذہب تووہ اللہ
کادین ہےوہی اس کامحافظ ہےاس کی ہمیں فکرکرنےکی کیاحاجت ۔
تمام مصائب کاعلاج
الغرض مسلمانوں کےدین ودنیاکی تباہی کے حقیقتاًدو سبب ہیں،ایک اجنبی
حکومت کی محکومی دوسرےنظام ملت کی طرف سے غفلت اس لئےمسلمانوں
کےتمام طبقات کاشتکارہوں یامزدور،کاریگر ہوں یابےروزگاران کی حالت
سدھرنےکےلئے ضروری ہےکہ اجنبی حکومت کی غلامی سے نجات حاصل
کی جائے،تاکہ ملک کی دولت اسی ملک کےباشندوں پرمناسب طریقہ سے
تقسیم ہواوراس ملک کاروپیہ حتی الامکان باہرجانےنہ پائے۔
اسی کے ساتھ مسلمانوں کی قومی خصوصیات اورمذہبی تحفظ کےلئےاسلامی
نظام ملت کوجس کادوسرانام امارت شرعیہ ہے مضبوط واستوارکیاجائے،تاکہ
ان اقیموالدین ولاتفرقوا فیہ کے فرض سےسبکدوشی حاصل ہو
اوراس کی رہنمائی میں تمام مسلمان مذہبی فرقہ بندیوں اورنسلی وقبائلی ٹولی
بندیوں سے بالاتر ہوکر متحدہ طاقت کےساتھ مذہبی احکام و قوانین کے
احترام کوقائم کرسکیں ،کیونکہ مسلمانوں کی جماعتی زندگی کے قیام کےلئے
شرعی حکم یہ ہےکہ جب کسی ملک میں اسلامی حکومت موجودنہ ہوتومسلمانوں
پرواجب ہےکہ ایک لائق اعتمادشخص کوامیرمنتخب کریں اورتمام مذہبی امور
میں جوخدااوررسول کےحکم کےمطابق ہواس میں اس کی اطاعت کریں ۔
مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی اہمیت
ان ہی دواہم مقاصد کےحصول کےلئےعرصۂ زائد ایک سال سےمسلم
انڈی پنڈنٹ پارٹی صوبہ بہارمیں قائم ہوئی ہے،اوریہی ایک ذریعہ ہے
جس سےکھوئی ہوئی آزادی اورضائع شدہ دولت وعلم اور بربادشدہ نظام
ملت کاحصول ہمت وجرأت کےساتھ ممکن ہے،اوراس کی یہی صورت
ہےکہ مسلمانوں کےتمام طبقات امیرغریب کاشتکارومزدوربغیرکسی مذہبی
اورنسلی تفریق کےمسلم انڈی پنڈنٹ کےجھنڈےکے نیچے جمع ہوجائیں
اس طرح مسلمانوں کی عزت وآبرورہ سکتی ہےنہ کہ کسی انگریزی اصلاحات
اورریفارمرکےذریعہ ۔
گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ کی عدم مقبولیت
بلکہ اس پا رٹی کویقین ہےکہ گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ ۱۹۳۵؁ء غلامی کا
ایک بوجھل طوق ہے،جس سے غریب مسلمان مزیدمصیبتوں میں مبتلا
ہوجائیں گے،اوراس ایکٹ کے ماتحت جوحکومت قائم ہوگی ،اس سے
ہندوستانیوں کوعموماًاورمسلمانوں کوخصوصاًکسی فائدہ کی توقع نہیں ہے،
اوراسی وجہ سےبہارمسلم انڈی پنڈنٹ کانفرنس نےایک مفصل تجویزمیں
اس کی حقیقت کوواضح کرتے ہوئےاس کی عدم قبولیت کااعلان کردیاہے۔
آزاددستورحکومت کی تشکیل
اوریہ فیصلہ کیاہےکہ وہی دستورحکومت قابل قبول ہوسکتاہے،جس کو
ہندوستانی اقوام کےمختلف نمائندےباہمی مفاہمت سےتیارکریں ،جس کی
بنیادکامل جمہوریت پرہواوریہ کہ دستورمیں تمام اقلیتوں کےحقوق کی کافی
ضمانت ہواسی کےساتھ مسلمانوں کےلئے خصوصیت سے دستورمیں یہ
ضمانت ہوکہ اسلامی احکام میں جمہوری حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی
،اور یہ مسلمانوں کےباہمی معاملات کےانفصال وانصرام کےلئےمستقل
نظام احکام اسلام کےمطابق قائم کیاجائےگا،جس کی جمہوری حکومت ذمہ
دارہوگی۔
مجالس مقننہ کی نمائندگی
اس پارٹی کویقین ہےکہ جب تک آزادی حاصل نہیں ہوتی،اورآزاددستور
حکومت تیارنہیں ہوتا،ان تمام مصائب کودورکرناجس میں اہل ملک عموماً
اورمسلمان خصوصاًبرطانوی حکومت کی وجہ سےمبتلاہوگئےہیں ناممکن ہے
،اسی کےساتھ یہ بھی یقین ہےکہ برطانوی حکومت کی قائم کردہ مجلس مقننہ
کےذریعہ آزادی حاصل نہیں ہوسکتی ہے،لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں
کہ انگریزی حکومت رجعت پسندنمائندوں کےذریعہ غلامی کی مدت کوطویل
کرسکتی ہےاورغریب کاشتکاروں اورمزدوروں اور کاریگروں کو زیادہ تباہی
میں مبتلاکیاجاسکتاہے،ان تمام مضرتوں سےاہل ملک اورمسلمانوں کوبچانے
کےلئےاس کےسوااورکوئی صورت نہیں ہےکہ مسلم انڈی پنڈنٹ کے
ٹکٹ پرلائق وقابل اورباہمت مسلمانوں کومجالس مقننہ میں بھیجاجائے۔
نمائندوں کی حکمت عملی
ہمارے نمائندے اپنی حکمت عملی سےنہ صرف یہ کہ مسلمانوں کوان
نقصانات سےبچانے کی سعی کریں گےجوغیرمسلم ومسلم رجعت پسندوں
یاانگریزوں کی پالیسی سے پہونچنے کااندیشہ ہے،بلکہ سعی کریں گےکہ:
۱:- ان متشددانہ قوانین کومنسوخ کرایاجائے،جوشخصی حریت یاپریس کی
آزادی میں حائل ہیں۔
۲:-ان قوانین کومنسوخ کرایاجائے،جن سےمذہب اسلام میں مداخلت
ہوگئی ہے ،اوران مسودات قانون کی مخالفت کی جائے،جن سےاسلامی یا
قومی مفادکونقصان پہونچنےکااندیشہ ہو۔
۳:- اس وقت تک کمیونل ایوارڈ کی مخالفت کی جائے،جب تک کہ باہمی
مفاہمت سے اس کانعم البدل حاصل نہ ہوجائے۔
۴:- رعایاپرسے ٹیکسوں کابار کم ہو۔
۵:- دینی تعلیم سرکاری اثرات سےآزادہوکرجمہورمسلمانوں کےہاتھ
میں آئے،
۶:- نَہروآب پاشی کےمتعلق ایسی اسکیم تیارہو جو کاشتکاروں کے لئے
امکانی آسانی پیداکرے۔
۷:- ہندستانی (اردو)زبان ورسم الخط تمام محکموں میں جاری ہو۔
۸:- بےضرورت عظیم الشان فوج اوربے پناہ فوجی اخراجات کابار
ہندوستان پرسے کم کیاجائے۔
۹:- نظام حکومت میں خاص کربڑےبڑےعہدےداروں پرکم سے
کم خرچ ہو، تاکہ صوبہ کی سرکاری آمدنی کاروپیہ قوم وملک کی ترقی اور
عوام کی فلاح وبہبودپرزیادہ سے زیادہ خرچ ہو، اور اگراس تخفیف کو
حکومت نےمنظورنہیں کیااورپارٹی کےہاتھ میں آئے،تواس پارٹی کا
سرکاری عہدہ داراپنی ذاتی ضروریات کےلئےایک مناسب رقم لےکر
بقیہ رقم اپنی قوم کےتعلیمی اقتصادی مفادپرخرچ کرنےکےلئےپارٹی
کودے دےگا۔
۱۰:- بہارمسلم انڈی پنڈنٹ کانفرنس کےتجویزکردہ پنچ سالہ پروگرام
کوکامیاب کرنے کی سعی کریں گے یعنی :
(الف)جبری تعلیم اورمدارس شبینہ جاری کئےجائیں گے ۔
(ب)نصاب وطریق تعلیم میں انقلاب پیداہواورہندوستانی (اردو)زبان
ذریعۂ تعلیم ہو۔
(ج )نصاب تعلیم سے تمام غلط تاریخی کتابیں خارج ہوں ۔
(د)اعلیٰ تعلیم کےاخراجات میں تخفیف ہو۔
(ہ )ہرضلع میں صنعتی تعلیم کےلئےاسکول جاری ہوں ۔
(و)بہارکےتمام اضلاع خاص کرترہت میں سیلاب کی روک تھام کاکافی
سامان کیاجائے۔
(ز)سودکی مصیبت سے ملک کونجات ہو۔
(ح)کسانوں ،مزدوروں ،زمینداروں اورسرمایہ داروں کی کشمکش مناسب
قوانین کےذریعہ دورہواورقانون لگان میں مفیداورضروری ترمیم ہوں۔
غرض ہمارےنمائندے ایسی تجاویز پیش کرکے منظورکرانے کی کوشش
کریں گےجن پر عمل کرنے سے ملک وقوم کی اقتصادی ،اخلاقی،اورتعلیمی
حالت درست ہوسکتی ہے،اوراس قسم کی مفیدعام کاروائیوں میں گورنرکی
رکاوٹ پیداکرنےسے نہ صرف یہ کہ گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ ۱۹۳۵؁ء
کابدترین اورناقابل قبول ہونا دنیا پر ظاہر ہوجائے گا ،بلکہ اس حکمت
عملی کےسوااس کی تبدیلی کی اور کوئی بہتر تدبیر نہیں ہوسکتی ہے۔
مسلمانوں سے اپیل
مگر ان سب امورکےلئےضرورت ہےکہ تمام مسلمان ان چیزوں کو
خودسمجھیں دوسروں کوسمجھائیں،اورعوام کی نمائندہ جماعت مسلم
انڈی پنڈنٹ پارٹی ہی کےامیدواروں کوووٹ دےکرمجالس قانون
سازمیں بھیجیں اوررجعت پسندوں، حکومت کی جماعتوں یاافرادکے
غلط پروپیگنڈوں سےمتأثرنہ ہوں اورووٹ محض قوم وملت کےمفاد
کےلئےاستعمال کریں،شخصی یاخاندانی تعلقات کےلئےہرگزووٹ
نہ دیں ۔
اس لئے بہارمسلم انڈی پنڈنٹ کی مجلس عاملہ تمام مسلمان ووٹروں
سے اپیل کرتی ہےکہ وہ اس پارٹی کےامیدواروں کووٹ دے کر
مجالس قانون سازمیں اپنانمائندہ بنائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عہدنامہ برائے امیدوار
پارٹی کی طرف سےایک عہدنامہ بھی تیارکیاگیاجس میں ہرامیدوارسے یہ عہدلیاگیا تھاکہ وہ پارٹی کی پالیسی ،ڈسپلن ،اوراغراض ومقاصدکاپابندرہےگا،عہدنامہ کےالفاظ یہ تھے:
"(۱)میں مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےدستوراساسی کےاغراض ومقاصد
سےکامل اتفاق کرتاہوئےبہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کانفرنس کی تجاویز
کوتسلیم کرتا ہوں۔
۲:-اگرمجھ کواس پارٹی کی طرف سےلیجسلیٹویابہاراسمبلی یاکونسل آف
اسٹیٹ میں منتخب کیاگیا،تومیں پارٹی کی پالیسی کی اتباع کروں گا،اورپارٹی
ڈسپلن کوبرابرقائم رکھوں گا۔
(۳)اگرپارٹی نےمجھ کوامیدواری کےلئےنامزدنہیں کیاتومیں پارٹی کے
نامزدکردہ امیدوارکامقابلہ نہیں کروں گا۔
(۴)مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی مجلس عاملہ کی شرائط امیدواری کوتسلیم
کرتا ہوں اوراپنےکواس کااہل سمجھتے ہوئےمبلغ ۔۔۔۔۔فیس امیدواری
جنرل سکریٹری بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےپاس روانہ کرتاہوں ،جو
پارٹی فنڈ میں داخل ہوگا،اورمیں۔۔۔ مسلم حلقہ ۔ ۔۔۔ڈویزن /ضلع
سےامیدوارہوں ،مجھ کواورمیرےاحباب کواس حلقہ سے مسلم انڈی
پنڈنٹ کےٹکٹ پرکامیابی کی پوری توقع ہےدستخط امیدوار،پتہ /تاریخ ”
دستخط صدرابوالمحاسن محمدسجادؒ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹی میگزین” الہلال "کااجراء
پارٹی کےقیام کےساتھ ہی ایک نمائندہ رسالہ کی ضرورت بھی محسوس کی جانےلگی جوپارٹی کےسیاسی نظریات اورخدمات کی ترجمانی کرے،اس مقصدسے”الہلال "جاری کیاگیا، اوراس کاصدردفترپٹنہ رکھاگیا،بحیثیت مدیررسالہ "مولانازکریافاطمی ندوی "مقررکئےگئے ، مجلس ادارت میں مولانامسعودعالم ندوی ؒ اورمولاناعبدالاحدفاطمی وغیرہ اصحاب قلم شامل تھے، یہ رسالہ حضرت مولاناؒکی زندگی میں نکلتارہا،لیکن مولانامسعود عالم ندوی ؒ کےبیان سےاندازہ ہوتا ہے،کہ حضرت مولاناؒ کی وفات کےبعداس رسالہ کی اشاعت ملتوی ہوگئی ۔
اب تک اس رسالہ کےکسی شمارہ کی زیارت کاشرف مجھے حاصل نہیں ہوسکا ہے
لیکن بعض ذرائع سے معلوم ہواکہ غالباًاس کےکچھ نسخےطبیہ کالج گیاکی لائبریری میں موجود
ہیں ۔
غالباًالہلال کےبندہوجانےکےبعدحضرت مولاناؒ کےبعض محبین نے”الہلال بک ایجنسی”کےنام سےایک دارالاشاعت کی بنیادڈالی تھی،جس کی ایک بڑی غرض حضرت مولاناؒ کےاحوال وآثاراورعلوم ومعارف کی توسیع واشاعت تھی ،لیکن زمانۂ مابعد میں اس ایجنسی کی کسی کارگذاری کاپتہ نہ چل سکا،سچ کہاکہنےوالےنے:
یہ حالت ہوگئی ہے ایک ساقی کے نہ ہونے سے
کہ خم کےخم بھرےہیں مےسےاورمیخانہ خالی ہے
(مولانامحمدعلی جوہرؔ)
امیدواروں کاانتخاب
"پارٹی کےقیام کےبعدمشکل مرحلہ امیدواروں کےانتخاب کاتھا،مولانامنت اللہ رحمانی ؒ کابیان ہےکہ:
"مولاناکوسب سے زیادہ دشواری اسی میں پیش آئی،مولاناعلیہ الرحمۃ
کوضرورت تھی ایسےامیدواروں کی جن کےدلوں میں ملک کوانگریزوں
کی غلامی سےآزادکرانے کاجذبہ،مسلمانوں کاسچادرد،اورمذہبی عقائدو
احکام پرپورااعتمادہو، ساتھ ہی ساتھ اتناسرمایہ بھی ہوکہ انتخاب کے
تمام اخراجات کوبرداشت کرسکیں ،ظاہرہے کہ یہ معیار کتنادشوارتھا
،ان مجبوریوں کےساتھ پارٹی کےامیدواروں کاانتخاب عمل میں آیا۔
میں اکثرمولاناؒسے کہاکرتاتھاکہ آپ نےایک گاڑی میں مختلف نسل
کے گھوڑے لگادئیے ہیں،اب وہ گاڑی چلےگی کیوں کر؟مولانامجھے
سمجھاتے اورفرماتے "اچھا،ان امیدواروں کوعلٰحدہ کرکےان لوگوں
کےنام بتاؤ جومناسب بھی ہوں اورانتخابات میں مقابلہ بھی کرسکیں
،۔۔۔میرے پاس اس کاکیاجواب ہوسکتاتھا،ظاہرہے،لیکن دنیانے
دیکھاکہ مولانانے اپنےغوروتدبر،بے پناہ قوت عمل اورزبردست
شخصیت سے پارٹی کاشیرازہ بکھرنےنہ دیا،اوران سے وہ کام کرائے
جودوسرے کسی صوبہ میں نہ ہوسکے”
دیگرمسلم پارٹیوں سےمفاہمت اوراتحادکی کوششیں
حضرت مولانامنت اللہ رحمانی صاحبؒ رقمطرازہیں کہ:
"انتخابات شروع ہوئے تو مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کامقابلہ مولوی شفیع
داؤدی کی بہار احرارپارٹی ،مسٹرسیدعبدالعزیزصاحب کی بہاریونائیٹیڈ
پارٹی،کانگریس پارٹی ،مسلم لیگ اورآزاد امیدواروں سے ہوا ”
یہ سیاسی پارٹیاں پہلےسےموجودتھیں،جوپہلےسےاپنی اپنی سطح پرملک وملت کی خدمات انجام دےرہی تھیں،ان کی افادیت سےانکارنہیں ہےلیکن اس وقت کے حالات کے مطابق دوبنیادی چیزیں ان کےاہداف اورمقاصد میں شامل نہیں تھیں:
٭ملک کی کامل آزادی کاتصور
٭علماء کی دینی قیادت کوتسلیم کرنا۔
جب کہ یہ دونوں چیزیں دین کےتحفظ ،ملک کےمستقبل اورمسلمانوں کےتشخص کےلئےبےحداہمیت رکھتی تھیں ،حضرت مولانامحمدسجادؒنےتمام مسلم سیاسی پارٹیوں کوان مقاصدکےلئےآمادہ کرنےکی ہرممکن کوشش کی ،لیکن جب آپ کوان پارٹیوں کی طرف سے مخلصانہ اقدامات کی کمی کااحساس ہواتوخودامارت شرعی کےزیرنگرانی انہی مذکورہ مقاصد کی تکمیل کےلئے”بہارمسلم انڈی پنڈنڈنٹ پارٹی "قائم کی ،اس لئےیہ محض سیاسی جماعتوں میں ایک جماعت کااضافہ نہیں تھابلکہ ملک کی آزادی اوردین کےتحفظ کےلئےایک فکری انقلاب کاآغازتھا،تاکہ دوسری پارٹیاں بھی اپنےبنیادی منشورمیں ان چیزوں کوشامل کریں ،اسی لئے پارٹی کی تاسیس کےبعدبھی مولاناؒ کاموقف یہ رہاکہ اگرکوئی سیاسی پارٹی ان اغراض واہداف کو تسلیم کرلےتووہ اس کےساتھ اتحادبلکہ تحلیل تک کےلئےراضی ہوجائیں گے،جیساکہ مسٹر سیدعبدالعزیز(سابق وزیرتعلیم حکومت بہار) کےساتھ مولاناؒکی مراسلت سے ظاہرہوتا ہے،جن سےبعض سیاسی اختلافات کےباوجودمولاناکےذاتی تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے،
مسٹرسیدعبدالعزیز صاحب نے جولائی ۱۹۳۵؁ میں یونائیٹیڈپارٹی قائم کی تھی ،حضرت مولانا سجادؒنےاس کےایک سال کےبعد اگست ۱۹۳۶؁ء میں بہارمسلم انڈی پنڈنڈنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی،مسٹرسید عبدالعزیزکوجب اس کی خبرہوئی توانہوں نےمولاناؒ کوخط لکھااورملاقاتیں بھی کیں،جن کا مقصد دونوں پارٹیوں کومتحدہ پارٹی میں تبدیل کرناتھا،اس موضوع کےدو خطوط (دونوں قائدین کاایک ایک خط)”دوسیاسی دستاویز "کےنام سےمولاناعثمان غنی ناظم امارت شرعیہ کی فرمائش پرحضرت مولاناؒکی حیات ہی میں(۸/ستمبر۱۹۳۶؁ءکو) شائع ہوئے تھے، جناب عبدالعزیزصاحب نے۲/اگست ۱۹۳۶؁ء (۱۳/جمادی الاولیٰ ۱۳۵۵؁ھ)کویہ خط (۵صفحات)تحریرکیاتھا،اورحضرت مولاناؒ کاتفصیلی جواب چھیاسٹھ(۶۶)صفحات پرمشتمل ہے ،اوروقفہ وقفہ سےتقریباًدس (۱۰)دن(۳تا۱۳/جمادی الاخریٰ ۱۳۵۵؁ھ مطابق ۲۲/اگست تایکم ستمبر ۱۹۳۶؁ء)اس جواب کوتیارکرنےمیں صرف ہوئے ۔
اس تفصیلی خط کےمطالعہ سےحضرت مولاناؒکی وسعت قلبی اورسیاسی دوراندیشی کا
اندازہ ہوتاہے،مولاناؒنےنہ صرف یہ کہ جناب عبدالعزیزصاحب کی پیش کش کاپرتپاک خیر مقدم کیا،بلکہ اس ضمن میں اپنی گذشتہ کوششوں کابھی ذکرفرمایا،مولاناؒنےاس مکتوب میں تاریخ بہ تاریخ اتحادکی اپنی نو(۹)کوششوں کاتذکرہ کیاہے، مولاناؒ کامکتوب اس پیراگراف پر ختم ہوتاہے:
"آپ یقین فرمائیےکہ ہم لوگوں کےسامنےصرف ملک وملت کامفاداور
مذہب کی حفاظت ہے، اوراس کےلئےجن اصولوں کی پابندی ہمارے
خیال میں ضروری ہے ، جب ان میں دونوں پارٹیاں متحد ہوتی ہیں ،اسی
کےساتھ پارٹی کی تشکیل بھی اس طرح پرہوتی ہے،جس سےنمایاں طور
پرہوکہ جمہوری اصول پرصرف عام مسلمانوں کی یہ پارٹی ہے،توکوئی وجہ
نہیں ہےکہ کسی سنجیدہ آدمی کو اتحاد کی اسکیم پر یااس پارٹی پرجواس
اسکیم کےماتحت بنےکوئی اعتراض ہو ،۲۱ /اگست کو جناب کاخط ملنے
کے بعد۲۲/اگست ۱۹۳۶؁ء سےجواب لکھ رہا ہوں مگر مسلسل وقت
اس کام میں صرف کرنےسےمعذوررہا اس لئے آج کی تاریخ اس
سے فراغت ہوئی ”
اس سے پتہ چلتاہےکہ حضرت مولاناؒکی سیاسی جماعت کسی تحزب وگروہ بندی پرمبنی نہیں تھی اورنہ پارٹیوں میں یہ ایک پارٹی کااضافہ تھا،بلکہ اس کی بنیادبلنددینی ،ملی اورقومی اقدار ومقاصدپرتھی ۔
چنانچہ حضرت مولاناؒنےانتخابات کےاعلان کےبعدبھی ان کوششوں کااعادہ فرمایا ،
اوردیگر مسلم پارٹیوں سےسلسلہ جنبانی کی،تاکہ ووٹ منتشر اورضائع ہونےسےمحفوظ رہے، لیکن اس میں آپ کو کامیابی نہ مل سکی،اوربالآخر آپ کی پارٹی نےتنہا الیکشن لڑنےکافیصلہ کیا۔
انتخابی مہم کی کمان
حضرت مولاناسجادؒنے خودانتخابی مہم کابیڑہ اٹھایا،آپ کےعلاوہ پارٹی کی طرف سے مولانااحمدسعیددہلوی ؒ ناظم جمعیۃ علماء ہند،مولانا عبدالصمد رحمانی ؒ ،مولاناعثمان غنی صاحب ؒناظم امارت شرعیہ ،اورمولانامنت اللہ رحمانی ؒوغیرہ نے پورےصوبےکاطوفانی دورہ کیا،تقریریں کیں اور لوگوں کومطمئن کیاکہ عوام کی اصل نمائندہ جماعت مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی ہے، اس لئے عوام اس پارٹی کےامیدواروں کوکامیاب بنائیں،اوررجعت پسندوں،سرکاری جماعتوں اور افرادکےغلط پروپیگنڈوں سےمتأثرنہ ہوں،ووٹ کااستعمال قومی مفادات میں کریں،شخصی یا عارضی مفادات کےلئےاپناووٹ ضائع نہ کریں۔
پارٹی کی حمایت میں حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ کی اپیل
ملک کی بعض مذہبی جماعتوں نےبھی مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی حمایت میں اپنے بیانات جاری کئے،بالخصوص جمعیۃ علماء ہندنےعملی اورقولی ہرلحاظ سےپوری شرکت کی،جمعیۃ علماء ہندکےناظم عمومی حضرت مولانااحمدسعیددہلوی ؒ توکاروان انتخاب میں خودعملاًشریک رہے ،اسی طرح جمعیۃ علماء ہندکےاہم رکن حضرت شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی ؒ نےبھی ایک زور دار اپیل اپنی طرف سے جاری فرمائی ،جس کےالفاظ درج ذیل ہیں:
"صوبہ بہار میں اسمبلی اورکونسل کاانتخاب عنقریب ۲۲/جنوری کو
ہوگا،اس لئےتمام مسلمانان صوبہ بہارسےاپنی بصیرت اورتجربہ کی بناپر
محض ملک وملت اورمذہب کےمفاد کےلئےہرفردسےاپیل کرتاہوں
کہ وہ صرف مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےنمائندوں کےلئےاپنی تمام
جدوجہداورامدادعمل میں لائیں،یہی وہ پارٹی ہےجوکہ صفات مذکورہ بالا
کےساتھ متصف ہے۔۔۔اس جماعت نےامارت شرعیہ صوبہ بہار کی
(جس کی اطاعت مسلمانان صوبہ بہارپرواجب ہے)رہنمائی قبول کی ہے
،بنابریں کسی مسلمان ووٹرکااس پارٹی کے نمائندوں کوووٹ نہ دینااور
دوسری جماعتوں کےنمائندوں کی یاشخصی طورپرکھڑے ہونےوالوں کی
امدادکرناملک اورمذہب سے بےوفائی اورغداری ہےبلکہ ملک اور مذہب
سےصریح دشمنی ہوگی” ننگ اسلاف
حسین احمدغفرلہ
انتخابی نتائج اورمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی شاندارکارکردگی
انتخابی مہم کےدوران گوکہ حضرت مولاناسجادؒکوسخت دشواریوں اورآزمائشوں کا سامناکرناپڑا، اورمخالفین نےآپ کےخلاف ہرقسم کےسیاسی ہتھکنڈےاستعمال کئے،لیکن آپ کےصدق وخلوص اوراثرورسوخ اورامارت وجمعیۃ کےدیگرقائدین کی شبانہ روزجدوجہد کےنتیجےمیں پارٹی نےتوقع سے زیادہ کامیابیاں حاصل کیں،الیکشن کانتیجہ سامنےآیاتو ماہرین سیاست بھی انگشت بدنداں رہ گئے،مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی نےتقریباًاسی فی صد(٪ ۸۰) کامیابی حاصل کی تھی ،اورمسلم ارکان میں سب سےزیادہ "مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی”کے ارکان کوکامیابی ملی،جب کہ غیرمسلم ارکان میں سب سے زیادہ کانگریس کےارکان کامیاب ہوئے ،مسلمانوں کےلئےچالیس (۴۰)سیٹیں مخصوص تھیں،ان میں سےایک سیٹ پرجو عورت کےلئےمخصوص تھی آزادامیدوارکی حیثیت سےلیڈی انیس امام نےجیت درج کی ، اورمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےتیئیس (۲۳) امیدواروں میں سےبیس(۲۰)امیدوار کامیاب ہوئے۔
یونائیٹیڈپارٹی کےمایوس کن نتائج
٭مسٹرعبدالعزیزصاحب کی یونائٹیڈپارٹی تینتیس(۳۳)میں سے صرف پانچ (۵) جگہوں پرکامیاب ہوئی ،اٹھائیس (۲۸) سیٹوں پرناکام ہوئی ،اورسات (۷)امیدواروں کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں ،جب کہ مسٹر عبدالعزیزصاحب اس وقت بہارحکومت میں وزیر تعلیم تھے جس کی بناپریونائیٹیڈ پارٹی کوحکومت کی تائیداورامدادبھی حاصل رہی،خودوزیر موصوف نےاپنےنمائندوں کی کامیابی کےلئےدورےکئےاوروہ سب کچھ کیاجوممکن تھا۔۔ شاید الیکشن میں اسی پسپائی کانتیجہ تھاکہ وہ پارٹی لیڈرہونےکےباوجوداسمبلی سے مستعفی ہوگئے، بعدمیں وہ سیاست سےہی کنارہ کش ہوگئے ۔
احرارپارٹی کاحشر
٭بیرسٹرشفیع داؤدی صاحب کی احرارپارٹی نےاپنی سرگرمی ترہت ڈویزن تک ہی محدودرکھی تھی،اورکوئی دس بارہ امیدوارکھڑے کئےتھے،ان کاترہت میں بڑا اثرتھا، لیکن بمشکل صرف تین (۳)سیٹوں پرکامیابی مل سکی،خودپارٹی لیڈربیرسٹرشفیع داؤدی بھی الیکشن ہار گئےاوراپنی سیٹ بھی نہ بچاسکے،بعدمیں وہ سیاست ہی سےکنارہ کش ہوگئےاورمظفرپور جاکر وکالت کرنےلگے ۔
بہارمیں مسلم لیگ انتخاب سےباہر
٭مسلم لیگ نےبہاراورصوبہ سرحدمیں ایک بھی امیدوارکھڑانہیں کیاتھا،اس لئےکہ وہ اس پوزیشن ہی میں نہیں تھی کہ اپناکوئی امیدواران جگہوں پرکھڑاکرسکے،۱۹۲۰؁ء کےبعدتحریک خلافت اورعدم تعاون کےریلےمیں مسلم لیگ بہہ گئی تھی اوربہارمیں اس کا وجودختم ہوگیاتھا،صرف برائےنام ایک تنظیم باقی رہ گئی تھی،۱۹۳۶؁ء میں بہارصوبائی مسلم لیگ کےصدرسیدابوالعاص صاحب اورسکریٹری محمودشیرایڈوکیٹ تھے ،پھر سکریٹری سیدمعین اللہ ایڈوکیٹ کوبنادیا گیا،مگر۱۹۳۶؁ء تک بہارکےکسی ضلع میں مسلم لیگ کی کوئی شاخ موجودنہیں تھی،صرف پٹنہ میں چندعہدہ دارموجودتھے،اوربس،اس لئےان دنوں بہارمیں مسلم لیگ کی امیدواری کا سوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا،البتہ ملکی سطح پرچارسو پچاسی(۴۸۵) سیٹوں میں سےایک سوآٹھ (۱۰۸) سیٹوں پرمسلم لیگ نےجیت حاصل کی ۔
کانگریس کی صورت حال
٭کانگریس کوسات (۷)مسلم سیٹوں میں سےصرف پانچ (۵)پرکامیابی ملی،جبکہ ملکی سطح پرعام سیٹوں (۸۰۸)کےعلاوہ چارسوبیاسی(۴۸۲)مسلم سیٹوں پرکانگریس نے اپنے امیدوارکھڑے کئےتھےجن میں صرف چھبیس(۲۶)سیٹوں پراس کوکامیابی ملی ،یوں بہارمیں کل اٹھانوے(۹۸)سیٹیں اس کوملی تھیں ،عام حلقوں ۷۸میں سے ۷۳اور ہریجنوں کی ۱۵نشستوں میں ۱۴نشستیں اس کےقبضےمیں آئی تھیں ۔
جداگانہ انتخابات
واضح رہےکہ اس دورمیں مخلوط انتخاب نہیں ہوتاتھا،بلکہ مسلمانوں اورہندؤں کی جداگانہ ووٹنگ ہوتی تھی، مسلمان مسلم امیدوارکواورہندوہندوامیدوارکوہی ووٹ دےسکتے تھے۔
کانگریس کےبعض مسلم امیدواروں کی حمایت
حضرت مولانامنت اللہ رحمانی ؒ تحریرفرماتے ہیں کہ:
"کانگریس نے مسلم امیدواروں کےانتخاب سےپہلےمولاناسے
مصالحت کی گفتگوکی،اورتجویزیہ پیش کی کہ انڈی پینڈنٹ پارٹی
چودہ (۱۴)حلقوں میں اپنے امیدوارکھڑے نہ کرے،اوروہاں
کانگریسی امیدوار کی مددکرے،مولانااس تجویزپرراضی نہ ہوئے،
آپ نےچندامیدواروں کے نام گنائے اورکہاکہ ہم ان کی مدد
صرف اس شرط پرکرسکتے ہیں ،کہ وہ اس بات کا عہدکریں ،کہ
مجالس قانون سازمیں تمام مذہبی معاملات میں امارت شرعیہ کے
احکام کی پابندی کریں گے چنانچہ انہی شرائط کے ساتھ سیدشاہ محمد
عمیر صاحب (گیا)سعیدالحق صاحب (دربھنگہ)اورڈاکٹرسیدمحمود
صاحب سابق وزیرتعلیم کی حمایت کی گئی ،بلکہ ڈاکٹرصاحب کےلئے
دو دو حلقےخالی کردئیےگئے ،مولوی سعیدالحق ابتداءًانڈی پنڈنٹ
پارٹی کےامیدوارتھے،لیکن بعدمیں معلوم ہواکہ انہوں نےکانگریس
کےعہدنامہ پربھی دستخط کردیاہےمولاناؒنےخودسعیدصاحب کوبلاکر
تصدیق کی،تصدیق کے بعدآپ نے اس عہدنامہ کوجس پرامیدوار
موصوف کےدستخط تھےچاک کردیا ،اورامارت شرعیہ کے عہدنامہ
پردستخط کرانےکےبعدان کی تائیدکی۔
کانگریس کےایسے امیدواروں سےجنہوں نےامارت کےعہدنامہ پر
دستخط نہ کئے پارٹی کا مقابلہ بھی ہوا،جہاں بجزایک کےتمام امیدوار
کامیاب رہے ۔
٭ چھ(۶)سیٹوں پرآزاد امیدوارکامیاب ہوئے۔

انڈی پنڈنٹ پارٹی کانگریس کےبعددوسری بڑی پارٹی
اس طرح مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کانگریس کےبعدبہاراسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کرابھری ،مسلم ارکان سب سےزیادہ اسی پارٹی سے جیت کرآئے،جن میں دس (۱۰) حفاظ اورعلماء تھے،بعض ممبران نےتوریکارڈ کامیابی حاصل کی اورمخالفین کی ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں۔
حضرت مولانامنت اللہ رحمانی صاحبؒ بھاگلپورسے کھڑے تھے،ان کےمقابلے میں مسٹر عبدالعزیزسابق وزیرحکومت بہارکی یونائٹیڈ پارٹی کےرکن رکین مولوی علاء الدین وکیل کھڑےہوئےتھے،وکیل صاحب کوصرف دوسواکیانوے(۲۹۱)ووٹ مل سکے،جب کہ مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےامیدوارمولانامنت اللہ رحمانی نےپانچ ہزارپانچ سو اٹھاسی (۵۵۸۸ ) ووٹ حاصل کئے،وکیل صاحب کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی۔
ظاہرہےکہ یہ سب حضرت مولاناسجادؒکی عظیم شخصیت اوران کےصدق وخلوص کی برکات تھیں۔
مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی کامیابی کی ایک وجہ بتاتے ہوئےڈاکٹردتہ(Dulta ) اپنی کتاب فریڈم موومنٹ ان بہارمیں لکھتے ہیں:
"بہارمیں مسلم لیگ تونہیں تھی مگرمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کاسیاسی پروگرام
اورالیکشن مینی فیسٹوکانگریس سےبہت ملتاجلتاتھا،بلکہ اس کےالیکشن مینی فیسٹو
میں زرعی اصلاحات اورمہاجنی لوٹ پرروک لگانےکےمتعلق مسلم لیگ اور
کانگریس دونوں سےزیادہ ترقی پسندانہ مطالبات تھے”
ایک دلچسپ قصہ
اس موقعہ پرایک دلچسپ قصہ پیش آیاجس کوجناب شاہ محمدعثمانی صاحبؒ نےنقل کیاہے:
"مولانا ؒنے انتخابات کےموقع پرحکومت برطانیہ کےخلاف ہر جگہ سخت
تقریریں کیں اور حکومت کو مذہب دشمن قرار دیا ۔ جب ان کی پارٹی
کامیاب ہوئی تو مسٹر عزیز نے مقدمہ دائر کر دیا کہ مذہبی جذبات کو بھڑکا
کر کامیابی حاصل کی ہے ، مسٹر عزیز کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا لیکن
وہ جانتے تھے کہ مولانا ؒعدالت میں اس سے انکار نہیں کریں گے ۔اس
لئے مسٹر یونس وغیرہ نے بہت مشکل سے مولانا ؒ کو اس پر راضی کیا کہ
وہ عدالت میں حاضر نہ ہوں، چنانچہ جب تک عدالت میں مقدمہ کی
کاروائی جاری رہی ،مولاناؒ پٹنہ سے باہر رہے ، یہاں تک کہ ثبوت نہ ملنے
کی وجہ سے مسٹر عزیز کا مقدمہ خارج ہو گیا ، ورنہ مولانا ؒ اگر عدالت میں
حاضر ہوتے تو سچ بولتے ، اگرچہ مخالف کے پاس ثبوت نہ تھا ۔
انتخاب میں پارٹی کےیااس کی حمایت سے کامیاب ہونےوالےممبران کی فہرست درج ذیل ہے:
مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےکامیاب امیدوار
نمبرشمار نام حلقہ فاضل ووٹ کی تعداد بکس کارنگ
۱ مسٹرمحمدیونس مغربی پٹنہ ۵۸۳ لال
۲ حاجی شرف الدین حسن مشرقی پٹنہ ۵۶۰ لال
۳ چودھری شرافت حسین شاہ آباد ۸۴۶ لال
۴ مولوی عبدالجلیل وکیل ترہت ڈویزن ۱۴۹۹ سبز
۵ مولوی عبدالمجیدوکیل جنوبی چمپارن ۱۸۰ لال
۶ حافظ محمدثانی بتیاچمپارن ۲۶۸۷ زرد
۷ مولوی محمدیعقوب مظفرپور ۷۴۶ سبز
۸ مولوی بدرالحسن وکیل مظفرپورحاجی پور ۴۷ پیلا
۹ مسٹرتجمل حسین بیرسٹر مظفرپور،سیتامڑھی ۳۰۰ کالا
۱۰ نواب عبدالوہاب خان بھاگلپورڈویزن ۲۷۱ لال
۱۱ مولوی رفیع الدین رضوی وکیل جنوبی مونگیر ۲۹۴۶ لال
۱۲ چودھری نظیرالحسن شمالی مونگیر ۱۶۳۸ لال
۱۳ مسٹرمحمدمحمودبیرسٹر جنوبی بھاگلپور ۵۵۰ سبز
۱۴ مولاناسیدمنت اللہ رحمانیؒ شمالی بھاگلپور ۲۸۰۰ اجلا
۱۵ شیخ محمدحسین پلاموں ۱۴۰۰ لال
۱۶ قاضی سیدمحمدالیاس مانبھوم ۱۱۰۰ اجلا
اپرچیمبر
۱۷ مسٹرنقی امام بیرسٹر گیاچھوٹاناگپور
۱۸ مولوی سیدمحمدحفیظ وکیل بہاراسمبلی
۱۹ مولوی ابوالاحد سیدمحمدنور بہاراسمبلی
درج ذیل چارحضرات انتخاب کےبعدپارٹی کےممبرہوئے:
۲۰ مولوی ضیاء الرحمن پورنیہ ارریہ
۲۱ مولوی اسلام الدین وکیل شمالی مشرقی کشن گنج
۲۲ مولوی شفیق الحق وکیل جنوبی مغربی پورنیہ صدر
۲۳ مولوی طاہروکیل جنوبی مشرقی پورنیہ صدر
امارت شرعیہ نےدرج ذیل چارحضرات کی حمایت کی
۲۴ مسٹرسیدنجم الحسن مشرقی گیا
۲۵ ڈاکٹرسیدمحمودبیرسٹر سارن
۲۶ مولوی سعیدالحق وکیل دربھنگہ
۲۷ ڈاکٹرسیدمحمودبیرسٹر شمالی چمپارن
انتخابات کےبعدپارٹی کےکامیاب ممبران کااجلاس
حضرت مولانامحمدسجادؒ کی تقریردلپذیر
انتخابات کےنتائج آنے کےبعدحضرت مولاناسجادؒنےپارٹی کے کامیاب ممبران کاایک اجلاس طلب فرمایا،اس اجلاس میں حضرت مولانامنت اللہ رحمانیؒ بھی شریک تھے،وہ بیان فرماتےہیں کہ:
"اس جلسہ میں مولاناؒنےجوتقریرکی وہ ان کےمخصوص تدبروفراست کی
حامل تھی،آپ نےاپنےنظریہ کےمطابق ہندوستان کی آنےوالی حکومت
کےاصول بتائے اورممبروں کوان کاطریق کارسمجھایا۔
مولاناؒنے اس وقت اپنےتمام ممبروں کودومشورےدئیے،ایک اندرونی
اور دوسرا بیرونی ،اندرونی مشورہ یہ تھاکہ ہرممبرکسی ایک خاص شعبہ کا
ذمہ دارہو،وہ اس شعبہ کی تمام معلومات حاصل کرے ،اوراس پرپوری
طرح تیارہو۔
بیرونی کام یہ تھا کہ کوئی ممبراپنےحلقۂ انتخاب سے غافل نہ ہو،وہ اپنے
حلقہ میں یاخودکام کرےیااس کےاخراجات برداشت کرےافسوس ہے
کہ پارٹی کےممبران مولاناؒکے ان مفید مشوروں پرکاربندنہ ہوسکےورنہ
آج اسمبلی کےاندرپارٹی کامقام بہت بلندہوتا۔
مشترکہ حکومت کےقیام کی تجویزمنظور-کانگریس کاردعمل
اسی جلسہ میں مولاناکی مرتب کی ہوئی ایک تجویزبھی منظورہوئی تھی
جس میں اپنےمقاصد کوبرقراررکھتے ہوئےکانگریس کےساتھ اشتراک
عمل کااعلان کیاگیاتھا ،مولانا مشترکہ وزارت کے قیام کےحامی تھے
،لیکن کانگریس نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ، غالباً اس وقت
کانگریس کانظریہ اکثریت والے صوبوں میں خالص اپنی پارٹی کی
گورنمنٹ قائم کرنا تھا، اس لئے اتحادی حکومت سازی کےوہ خلاف
رہی،چنانچہ کانگریس صدرپنڈت جواہرلال نہرو،اوراس کےسینئر لیڈر
مولاناابوالکلام آزادنےاس کی مخالفت میں بیانات شائع کئے ۔
کانگریس کےاہم لیڈرڈاکٹرراجندرپرساد (جوآل انڈیاکانگریس کمیٹی کی طرف سے بہار،اڑیسہ اورآسام کےانچارج تھے )نے ۱۱/فروری کوبیان دیاکہ:
"کانگریس اسمبلیوں میں کسی دوسری پارٹی یاگروپ کےساتھ تعاون نہیں
کرے گی” ۔
مولاناعثمان غنی صاحب نےدرست لکھاہے:
"کانگریس کی غیرمتوقع کامیابی نےبعض بڑےکانگریسیوں کادماغی
توازن بگاڑدیااورانہوں نےاپنےبیانات میں کہناشروع کردیاکہ ہم
وزارت بنانے میں کسی دوسری پارٹی سے اشتراک نہیں کرسکتے
،حالانکہ وہی لوگ انتخاب سےقبل اپنی اور بعض دوسری پارٹیوں
کےاشتراک سےوزارت بنانےکااظہارکرتے تھے”
نظری وعملی سیاست کافرق-حضرت ابوالمحاسنؒ کی سیاسی پیش قیاسی
لیکن حضرت مولاناؒ کاشروع سےخیال تھاجس پروہ ہمیشہ قائم رہےکہ مختلف سیاسی جماعتوں کواپنے مقاصدکےپیش نظرمشترکہ اہداف پراتفاق کرناچاہئے،اس طرح زیادہ بہتر، بامعنیٰ اورمستحکم حکومت وجودمیں آسکتی ہے، مولانا منت اللہ رحمانی صاحبؒ تحریرفرماتے ہیں کہ :
"ایک مرتبہ مولاناؒنےاپنایہ خیال ایک مشہوررہنماکےسامنےپیش کیا
، مولاناؒنےفرمایا”نظری اورعملی سیاست کےفرق کوکبھی فراموش نہ
کرناچاہئے، مختلف ملکوں کی پارلیمنٹری تاریخ کودیکھئے،مختلف الخیال
جماعتیں ایک متحدہ اسکیم بناکرمشترکہ وزارتیں مرتب کرتی ہیں ،اور
کامیابی کےساتھ چلاتی ہیں،ہاں !ایسےمسائل بھی پیش آجاتے ہیں جن
پراتفاق نہیں ہوتا ، تو پھر وزارتیں ٹوٹ جاتی ہیں ،اوران کی جگہ نئی
بنتی ہیں ، "- مولانا نےیہ بھی فرمایاکہ "آج توکانگریس گریزکرتی ہے
،لیکن اگر کانگریس کو موقعہ ملاتووہ اقلیت والےصوبوں میں مشترکہ
وزارتیں ضرورمرتب کرے گی”چنانچہ ہم نے مولاناؒہی کی زندگی ہی
میں اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ سرحداورآسام میں مولاناؒ کاخیال حرف
بحرف صحیح ثابت ہوا، خودیہاں کی صوبائی کانگریس کمیٹی کی مجلس عاملہ
کے ذمہ داراراکین نے۱۹۳۹؁ء میں مولاناؒکےسامنے انڈی پنڈنٹ پارٹی
کی شرکت سے وزارت مرتب کرنے کی تجویزپیش کی،جسےمولاناؒنے
بعض وجوہ کی بناپرقبول نہ فرمایا- یہی ہے”عملی ونظری سیاسیات کافرق
کانگریس کاحکومت سازی سےانکار-پارٹی کےلئےلمحۂ فکریہ
بہرحال ایک نومولودپارٹی نےجیسی شاندارکامیابی حاصل کی وہ حضرت مولاناسجادؒ اورامارت شرعیہ پرمسلمانوں کےپختہ اعتمادکامظہرتھی،پارٹی نئی تھی لیکن مولاناسجادؒاورامارت شرعیہ کی خدمات جلیلہ سے ایک دنیا واقف تھی،امارت شرعیہ کی حمایت اورحضرت مولانا سجادؒکی رہبری نےپارٹی کوپہلے قدم پرہی نقطۂ ارتقاءتک پہونچادیاتھا،مجلس قانون سازمیں کانگریس کےبعدمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کودوسرامقام حاصل ہوا،اصولی طورپربڑی پارٹی ہونےکےناطے کانگریس کوحکومت بنانی چاہئےتھی،اس لئے کہ ۱۹۳۷؁ء کےصوبائی اسمبلی انتخاب میں بہاراسمبلی کی کل ایک سوباون(۱۵۲)سیٹوں میں سےکانگریس کو کل اٹھانوے (۹۸)سیٹیں ملی تھیں،کانگریس کےپارٹی لیڈربابوسری کرشن سنہا تھے،گورنرنےان کو وزارت سازی کی دعوت دی ،لیکن انہوں نےمرکزی کانگریس کمیٹی کی ہدایت پر گورنرسے اپنےخصوصی اختیارات کواستعمال نہ کرنےکی یقین دہانی کامطالبہ کیااورگورنرکےانکارپر وزارت کی تشکیل سےمعذرت کردی ۔۔۔کانگریس کے انکارکےبعد قدرتی طورپر یہ حق مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کوحاصل ہوتاتھا ،اس کی تھوڑی تفصیل حضرت مولانا سیدمنت اللہ رحمانی ؒکی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
حضرت مولاناسجادؒکےنزدیک کانگریس کاانکاردرست نہیں تھا
"صورت حال یہ تھی کہ کانگریس نے۱۹۳۷؁ء سے پہلےاپنےجلسوں
میں اور ورکنگ کمیٹی نےاپنی تجویزوں میں صاف اعلان کردیاتھا،کہ
دستورجدیدناقص اورقابل استردادہے،لیکن کانگریس نےچھ(۶)
صوبوں میں اکثریت حاصل کرتے ہی یہ اعلان کیاکہ اگرگورنراپنے
اختیارات خصوصی کواستعمال نہ کرنےکایقین دلادیں،تو کانگریس
وزارت مرتب کرنے کے لئےتیار ہے۔
مولاناؒ کاخیال تھاکہ کانگریس کی یہ شرط صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کے
معنیٰ تویہ ہوئے کہ اگر گورنر کانگریس کی شرط تسلیم کرلیتے ہیں تویہ
قانون قابل عمل ہوجاتاہے،حالانکہ کانگریس کے نقطۂ نگاہ سےیہ
قانون قطعی ناقابل عمل تھااس قانون سے کانگریس کاجوسب سےبڑا
اصولی اختلاف تھاوہ گورنرکی مداخلت یاعدم مداخلت کانہ تھا،وہ یہ تھا
کہ قانون بنانے کا حق ہندوستان کےبسنے والوں کوحاصل تھا،نہ کہ
برطانوی پارلیامنٹ کو،اس لئےکہ بہرحال وہ قانون قابل استردادہی
تھا۔
مولاناؒکے خیال میں ایسی انقلابی جماعتوں کےلئےجوکانسلوں میں قانون
مسترد کرنے کی غرض سےپہونچی ہوں دوہی عملی صورتیں ہیں،ایک
صورت تویہ ہےکہ اس قانون کےخلاف غیرآئینی جدوجہدشروع کردی
جائے،اوردوسرےیہ کہ وزارت مرتب کرکے عوام کوزیادہ سے زیادہ
فائدہ پہونچانےکی کوشش کی جائے،اور اس طرح اس قانون کےمسترد
کرنےکاسامان فراہم کیاجائے، چنانچہ انہی خیالات کی بناپر مسلم انڈی
پنڈنٹ پارٹی نےوزارت قبول کی،لیکن وزارت قبول کرتے وقت ہی پارٹی
نےایک تجویزکےذریعہ یہ بات صاف کردی،کہ اصولی طورپر اس صوبے
میں وزارت کانگریس کو مرتب کرنی چاہئے تھی،چونکہ کانگریس اورگورنر
کی جنگ ہے اور فی الحال کانگریس کوئی جدوجہدبھی نہیں کرتی ہے،اس لئے
یہ پارٹی اس صوبےمیں وزارت بناکراورعوام کی خدمت کرکےقانون کے
آئینی طورپرمستردکرانے کے موادفراہم کرے گی،ساتھ ہی ساتھ پارٹی
کی دلی خواہش ہےکہ کانگریس اورگورنرکےدرمیان سمجھوتہ ہوجائے ۔
حکومت سازی پرتبادلۂ خیال کےلئےپارٹی کااجلاس طلب
کانگریس کےانکارکےبعدگورنرنےمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کوحکومت بنانےکی دعوت دی،دعوت ملنےکےبعداس موضوع پرتبادلۂ خیال اورغوروفکرکےلئےایک نشست خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں ہوئی،۳/مارچ ۱۹۳۷؁ء (۲۰/ذی الحجہ ۱۳۵۵؁ھ)کوحضرت امیرشریعت ثانی مولاناشاہ محی الدین صاحب پھلواروی ؒنےپارٹی کےجملہ نومنتخب ممبران اورمجلس عاملہ کےارکان کوخانقاہ مجیبیہ میں مدعو فرمایا،تمام حضرات نو(۹)بجےصبح حاضر ہوئے ،دس (۱۰)بجےدن میں حضرت امیرشریعت ؒکےسامنےحضرت نائب شریعت اورپارٹی صدر حضرت مولانامحمدسجاد صاحبؒ نےتمام ارکان منتخب اورمجلس عاملہ کےممبران کاتعارف کرایا ،اس کےبعدحضرت امیرشریعتؒ نے ارکان کوکاموں سے متعلق ایک مختصرسی ہدایت فرمائی ،اس کےبعدتمام حضرات نےکھانا تناول کیا،اور بانکی پورپٹنہ لوٹ گئے۔
پھردو(۲)بجےدن میں حاجی شرف الدین حسن صاحب کی کوٹھی پرمجلس عاملہ کا اجلاس ہوا،اس کےبعدچار(۴)بجےبعدنمازعصر مجلس عاملہ اورمنتخب ارکان کی مشترکہ نشست ہوئی،کچھ کاروائیوں کےبعدنشست چائے اورنماز مغرب کےلئے ملتوی ہوگئی،بعد نمازمغرب پھرجلسہ شروع ہوا،اور بحث وتمحیص کےبعدپارٹی لیڈر وغیرہ کاانتخاب ہوا ،حسب ذیل حضرات منتخب ہوئے:
پارٹی لیڈر:مسٹرحاجی محمدیونس صاحب بیرسٹر
ڈپٹی لیڈر:مولوی رفیع الدین صاحب رضوی ایڈوکیٹ
چیف وہپ :قاضی سیدمحمد الیاس صاحب
وہپ :مولوی سیدمحمدطاہرصاحب ایڈوکیٹ
انتخاب کےبعدصدرپارٹی حضرت مولاناسجادصاحب ؒنےایک مختصرتقریرفرمائی، اورجلسہ تقریباًنو(۹) بجےشب میں ختم ہوا ۔
حکومت سازی کےمسئلہ پرممبران میں اختلاف رائے
غالباًان نشستوں میں حکومت سازی کا مسئلہ طے نہیں ہوسکا،اس لئےمزید غورو فکر
کےلئےمجلس ملتوی کردی گئی ،اس کےبعداس موضوع پرآخری بحث وگفتگوکےلئے۳۱/ مارچ ۱۹۳۷؁ء کوپارٹی کی مجلس عاملہ اورمجلس مقننہ کااجلاس مسٹرمحمدمحمودصاحب کی کوٹھی پر بلایاگیا ،یہ اجلاس بھی حضرت مولاناسجادؒکی سربراہی میں منعقدہوا،پارٹی کےاندر اس مسئلے میں اختلاف رائے پایاجاتاتھا:
٭بعض حضرات کاخیال تھاکہ بڑی پارٹی ( کانگریس )سےالگ ہوکر کوئی چھوٹی پارٹی پائیدار وزارت قائم نہیں کرسکتی،اس لئےکہ اسمبلی میں کانگریس پارٹی کی اکثریت ہے، اورگورنردستور کےمطابق زیادہ سےزیادہ چھ(۶) ماہ میں اسمبلی کااجلاس بلانےپرمجبورہے، اس لئےچھ (۶)ماہ کےبعدیہ وزارت ٹوٹ جائےگی، کیونکہ اس کو اکثریت کا اعتمادحاصل نہ ہوسکےگااور کانگریس بےاعتمادی کی تجویزبآسانی منظور کرالےگی”
٭کچھ لوگوں کےاختلاف کی وجہ یہ بھی تھی کہ جب ایک حریت پسندپارٹی (کانگریس)نےحکومت بنانے سے انکار کردیاہے تودوسری حریت پسند پارٹی (مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی) کےلئےبھی وزارت قبول کرنامناسب نہیں ہوگا،ان دونوں پارٹیوں کوآزادیٔ کامل کے مطالبہ کی بناپر ہم مسلک تصورکیاجاتاتھا،اوردونوں کےقائدین کےدرمیان کوئی بڑا اختلاف موجودنہیں تھا ،اس لئے حکومت سازی سے کانگریس کےانکارکےبعدانڈی پنڈنٹ پارٹی کااس کوقبول کرنامناسب نہیں ہے۔
٭لیکن دوسری جانب ممبران کی ایک بڑی تعدادوزارت قبول کرنے کی حامی تھی اوریہ رجحان ان میں خود کانگریس کےردعمل سے پیداہواتھا،الیکشن میں غیرمتوقع کامیابی ملنے کےبعد کانگریسی رہنماؤں نےمسلمانوں سے بےنیازی کا جورویہ اختیارکرلیاتھا اسے دیکھ کر مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کےرہنمامایوس ہوگئےتھے،اور بہارمیں مخلوط حکومت بننے کی کوئی امیدباقی نہ رہ گئی تھی۔
حضرت مولاناسجادؒ کی ذاتی رائے
دوسری طرف کانگریس اورگورنرکےاختلاف سے ریاست میں جوتعطل کی صورت حال پیداہوگئی تھی اس کی بناپرحضرت مولاناسجادؒ اورانڈی پنڈنٹ پارٹی کےدیگربڑے رہنماؤں کویہ خدشہ پیداہوگیاتھا،کہ کہیں ملک کی آزادی کی منزل دورنہ چلی جائے،اورقوم لا حاصل تگ ودوسےمایوس ہوکربیٹھ نہ جائے،حضرت مولاناسجادؒ نےاپنےایک بیان میں ان خدشات کاخوداظہارفرمایاہے:
"قابل غورامریہ ہےکہ اس تعطل کےمظاہرےسےبحالت موجودہ ملک
کی آزادی کی طرف کوئی قدم آگے بڑھے گا؟اس سے عوام الناس کوکوئی
فائدہ پہونچے گا؟ غربت وافلاس سے ملک کےباشندوں کونجات ملے گی ؟
یااس میں کوئی تخفیف ہوگی؟
میں سمجھتاہوں کہ یہ رائے ایسی نہیں تھی جن پرتوجہ نہیں کی جاتی ،اسی
طرح بعض بعض ممبروں نےیہ بھی خیال ظاہرکیا،کہ اگرکانگریس نے
مجالس مقننہ کوتوڑکرباربارالیکشن لڑانےکاکھیل کھیلنا شروع کیا،توممکن
ہےکہ ہندو اکثریت کے نقطۂ نگاہ سے کوئی نقصان دہ امرنہ ہو،مگر
مسلمانوں کی قومی حالت کےاعتبار سے یہ کھیل ان کے لئے ناقابل
برداشت ہے، مسلمانوں کی اقتصادی حالت ایسی نہیں ہےکہ سال میں
ایک دوباریہ کھیل کھیلاکریں ،اگرکانگریس نےیہ روش اختیارکی ،تواس
کانتیجہ یہی ہوگا،کہ کوئی مسلمان اپنی طاقت پرالیکشن میں کھڑانہیں ہوگا
،اسمبلی کے دلدادے مجبور ہوکر دوسروں کے سہارے الیکشن میں
کھڑےہونگےاوراس طرح ان کی جماعتی حیثیت فناہوجائےگی ۔
مجلس عاملہ کےایک اہم رکن قاضی احمدحسین صاحبؒ کابھی یہی خیال تھاان کاکہنا تھاکہ:
"کانگریس کویہ تجربہ کرناچاہئےکہ عوام کی مرضی اورعوام کےمفادمیں اس کی وزارت کام کرسکےگی یانہیں۔اگرایساممکن نہیں ہوااورگورنروں نےوزارت کےکاموں میں مداخلت کی تواس کےلئےراہ کھلی ہوئی ہے،وہ اس وقت وزارتوں سےاستعفیٰ دے سکتی ہے، لیکن جبکہ کانگریس نےاس خطرہ کی بناپرکہ گورنرمداخلت کریں گے،وزارت قبول کرنےسے انکارکردیاہے،توکانگریس کی حامی جماعتوں کووزارت قبول کرکےیہ تجربہ کرناچاہئے،کہ گورنر وزیروں کےکاموں میں مداخلت سےپرہیزکرتےہیں یانہیں ، کانگریس کوسوچنے کاوقت اور موقعہ دیناچاہئے،اوربرطانیہ نوازحلقوں کواس کاموقعہ نہیں دیناچاہئے،کہ وہ حکومت کی کرسیوں پرقبضہ کرلیں ،قاضی صاحب کوامیدتھی کہ کانگریس اورگورنر کےدرمیان جورسہ کشی ہےوہ ختم ہوجائےگی،اورکانگریس وزارتوں کی ذمہ داریاں اٹھالےگی،اوراسےاٹھالینا چاہئے”
مجلس عاملہ میں آزادانہ بحث ومباحثہ کےبعدرائےشماری
بہرحال مجلس عاملہ میں اس موضوع پرکھل کرگفتگو ہوئی ،اجلاس کی پوری کاروائی شاہ محمدعثمانی صاحب ؒ کی کتاب "حسن حیات "سےپیش ہے:
"۳۱/مارچ ۱۹۳۷؁ء کومجلس عاملہ انڈی پنڈنٹ پارٹی کی ملتوی شدہ میٹنگ کی
دوسری نشست مسٹرمحمد محمودصاحب کی کوٹھی میں ہوئی ،حضرات ذیل
شریک تھے:
۱-حضرت مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ(صدر)
۲-حافظ محمدثانی
۳-حاجی اخترحسین خان
۴-مولاناسیدمنت اللہ
۵-مسٹرمحمدمحمود
۶-مسٹرتجمل حسین
۷-حاجی شرف الدین حسن
۸-مولوی سیدمحمدحفیظ ایڈووکیٹ
۹-قاضی احمدحسین
۱۰-مولانامحمدیسین
۱۱-مولاناعبدالودود
۱۲-مولوی خلیل احمدوکیل
۱۳-مولوی جعفرامام
سب سےپہلےمسٹرمحمدیونس نےاپنی تقریرمیں بتایاکہ ہندوممبران اسمبلی
کی کافی تعدادان کی حمایت کرےگی ،اس پرخلیل احمدصاحب نےکہاکہ
ہندو ہرگزساتھ نہیں دیں گے،یہ مسٹریونس صاحب کاصرف ایک خیال
ہے،اس کےبعدبحث شروع ہوئی،آخر میں قاضی احمدحسین صاحب نے
حسب ذیل تجویزپیش کی:
"کانگریس کے انکاروزارت اورملک وملت کےمفاداوراس پارٹی کےکریڈ
اورپروگرام وغیرہ کوپیش نظررکھ کراورتمام احوال پرغورکرکےمجلس
عاملہ اس نتیجہ پرپہونچی ہےکہ:
(الف)کانگریس کےلیڈراورگورنرکاباہم متفق نہ ہوناغالباًغلط فہمی پرمبنی
ہے۔جس سے خطرہ پیداہوگیاہے،کہ عوام کےمنتخب شدہ نمائندگان اگر
آفس قبول کرنےسےانکارکردیں تویقیناًبحالت موجودہ گورنرکواس کا
موقعہ دیتےہیں،کہ وہ شخصی حکمراں ہونے کی حیثیت خوداختیارکرلیں ،
جس سےملک وعوام کوکوئی فائدہ نہیں پہونچ سکتابلکہ اندیشہ ہےکہ نقصان
پہونچے،اس کےساتھ وہ مقصدبھی کلیۃً مفقودہوجاتاہے،جس کےلئے
کانگریس آفس قبول کرنےکو تیارتھی۔
(ب)اوریہ طےکرتی ہےکہ آفس قبول کیاجائےتاکہ قوم پرورانہ پروگرام
کوحتی الوسع کامیاب بنانےکی کوشش کی جائےاوراسمبلی کےذریعہ غریب
کسانوں،مزدوروں ،دیسی کاریگروں اورتاجروں کوجوکچھ نفع پہونچاناممکن
ہواس کی راہ پیداکی جائے۔
مجلس عاملہ کوامید ہےکہ کانسٹی ٹیوشن کےاندرقوم پرورانہ پروگرام کے
لئےجوکچھ کام ہوسکتاہے،عام حالات میں گورنراپنےخصوصی اختیارات
کواستعمال کرکے رکاوٹ پیدانہ کریں گےاورایسی صورت میں تجربہ کے
بعدامیدکی جاسکتی ہےکہ وہ غلط فہمی دورہوجائےگی،جوکانگریس اور
گورنرکےمابین پیداہوگئی ہے،اوروہ وقت ملک کےلئےنہایت خوش
آئندہوگا”۔
اس کےبعدجلسہ دوسرے روزکےلئےملتوی ہونےوالاتھاکہ مسٹریونس
جوصدر جلسہ سے اجازت لےکرگورنرسےملنےگئےتھے،واپس آئے،اور
انہوں نےبتایاکہ گورنرنےکہاہے کہ نواب عبدالوہاب صاحب اورگور
سہائےلال کووزارت میں ضروررکھاجائے،ورنہ وہ کسی دوسرے صاحب
کےذمہ وزارت بنانےکاکام کردیں گے، اس چیز سے قاضی احمدحسین
صاحب اوربعض دوسرےممبران مجلس عاملہ میں گورنرکےخلاف ناراضی
پیداہوئی، دوسری طرف یہ واقعہ بھی ہوگیاکہ پٹنہ کےکچھ نوجوانوں نے
انگریزی حکومت کے خلاف کوئی جلوس نکالاتھاغالباًیوم جلیانوالہ باغ کے
سلسلہ میں تھا،ان کوگرفتارکرلیاگیا،اورانڈی پنڈنٹ پارٹی کی سفارش کے
باوجودان کورہانہیں کیاگیا،اس طرح یہ بات صاف ہوگئی کہ گورنروزارت
کوآزادانہ کام نہیں کرنے دیں گے ،اس طرح کانگریس کااندیشہ صحیح
ثابت ہوااورکانگریس کےذمہ داروں کویہ تجربہ کرنےدینےکی بات ختم
ہوگئی کہ کانگریس وزارتوں کےکاموں میں گورنرحائل نہیں ہونگے اس
لئے جب ۴/اپریل ۱۹۳۷؁ء کوپارٹی کی مجلس عاملہ اورنمائندگان اسمبلی و
کانسل کامشترکہ جلسہ ۹بجےدن کوپارٹی کےدفترمیں منعقدہوا،توقاضی
احمدحسین صاحب نےوزارت قبول کرنےکی مخالفت کی ،اس جلسہ میں
ارکان عاملہ کےعلاوہ حسب ذیل حضرات نےشرکت کی تھی۔
۱-مسٹرسیدنقی امام صاحب
۲-چودھری شرافت حسین صاحب
۳-مولوی اسلام الدین صاحب
۴-مولوی محمدطاہرصاحب
۵-مولوی عبدالجلیل صاحب
۶-مولوی ابوالاحدمحمدنورصاحب
۷-مولوی عبدالمجیدصاحب
۸-مولوی محمدیعقوب صاحب
۹-مولوی رفیع الدین رضوی صاحب ڈپٹی لیڈر انڈی پنڈنٹ پارٹی
۱۰-چودھری نظیرالحسن صاحب
۱۱-مولوی شفیق الحق صاحب
اس موقعہ پرمسٹرمحمدمحمودصاحب نےوہ تجویزپیش کی جوقاضی احمدحسین
نےمرتب کی تھی اورمجلس عاملہ میں پیش کی تھی،اورمندرجہ بالااسباب
کی بناپرجس کےوہ مخالف ہوچکےتھے،مولاناعثمان غنی صاحب نے اس
تجویزکی تائیدکی،لیکن رفیع الدین رضوی اورقاضی احمدحسین صاحب کی
تقریریں سننے کےبعدمولاناعثمان غنی صاحب غیرجانبدار ہوگئے۔
رفیع الدین رضوی نےتجویزکےخلاف ایک طویل تقریرکی انہوں نےکہا
کہ” عہدہ قبول کرناغیردانشمندانہ ہوگا،قاضی احمدحسین نےکہاکہ:
"مجلس عاملہ میں میں نےرائے دی تھی کہ عہدہ قبول کرناچاہئےمگراس چند
روزکے تجربہ نےہمیں بتایاکہ ہماری کابینہ قطعاً بے بس ہوگی،یکم اپریل
۱۹۳۷؁ء کوگرفتاریاں ہوئیں مگر آج تک ان کورہانہیں کیاگیا،دوسرے
گورنرکواس پربھی اصرارہے کہ ان کا کوئی آدمی بھی کابینہ میں رہےگا،
وہ دھمکی دیتےہیں کہ اگرمسٹر یونس نےان کےآدمی کوقبول نہیں کیاتو
وزارت کی تشکیل کی ذمہ داری دوسرے لوگوں کےسپردکریں گےاس
لئےمیں اب اس نتیجہ پرپہونچاہوں کہ عہدہ قبول نہ کیاجائےجس کی ابتدا
یہ ہےاس کی انتہانہ پوچھ ”
اس کےبعداورلوگوں نےبھی تقریریں کیں ۔
آخرمیں صدرپارٹی حضرت مولاناسجادؒکےایماءپررائے شماری کی گئی توایک
ووٹ کی اکثریت سے وزارت قبول کرنےکا فیصلہ کیاگیا،تجویزکی حمایت
میں حسب ذیل حضرات نے ووٹ دئیے:
۱-مسٹرمحمدمحمودبیرسٹرجنرل سکریٹری
۲-چودھری شرافت حسین
۳-ابوالاحدمحمدنور
۴-مولوی اسلام الدین
۵-مولوی عبدالجلیل
۶-چودھری نظیرالحسن
۷-مولوی شفیق الحق صاحب
۸-مولوی طاہر
۹-نواب تجمل حسین
۱۰-مسٹرمحمدیونس
۱۱-مولوی جعفرامام صاحب
۱۲-مولوی قدیرالحسن صاحب
جب کہ مندرجہ ذیل حضرات نےوزارت قبول کرنےکی مخالفت کی:
۱-حافظ محمدثانی
۲-قاضی احمدحسین
۳-سیدنقی امام صاحب
۴-خلیل احمدصاحب
۵-بدرالحسن صاحب وکیل
۶-مولوی اسمعیل خان صاحب
۷-مولوی شرف الدین صاحب باڑھ
۸-مولوی رفیع الدین رضوی ڈپٹی لیڈرانڈی پنڈنٹ پارٹی
۹-مولوی محمدیعقوب صاحب
۱۰-سیدمحمدحفیظ صاحب وکیل
۱۱-مولوی عبدالمجیدصاحب
مولاناعثمان غنی صاحب اورمولانا یسین صاحب غیرجانبداررہے،مولانا
منت اللہ صاحب جلسہ میں موجودنہیں تھے،اس طرح یہ بات واضح ہوگئی
کہ امارت شرعیہ کے کسی کارکن نے اس موقعہ پر کھل کروزارت قبول
کرنےکی حمایت نہیں کی،پھربھی چونکہ حاضرین کی ایک ووٹ کی اکثریت
سےوزارت قبول کرنےکی اجازت دےدی گئی تھی اس لئے امارت کے
کارکنوں نےوزارت کوکامیاب بنانےمیں پوری مددکی ۔
البتہ خودحضرت مولاناسجادصاحب ؒکی ذاتی رائے وزارت قبول کرنےکےحق میں پہلےسےہی تھی

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close