جمعیت علماء هند

جمعیت علمائے ہند سیاست سے الگ کیوں‌ہوئی

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے خطبہ صدارت سے اقتباس

اس نے گذشتہ سال کے اجلاس مرکزیہ میں اعلان کیا کہ جمعیت کا دائرہ عمل آئندہ صرف مذہبی، تمدنی اور تعلیمی حقوق و فرائض کے دائرہ میں محدود رہے گا۔ اور جہاں تک ہندستان کے سیاسی حالات کا تعلّق ہے، مسلمانوں کو غیر فرقہ وارانہ اور مشترک طریقہ عمل کی دعوت دی جائے گی۔ جمعیت علمائے ہند نے یہ فیصلہ کسی مرعوبیت یا خوف و ہراس کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ آزادی اور ترقی ملک کے اسی نصب العین کی بنا پر یہ فیصلہ کیا، جس کی بنا پر وہ 15/اگست سے پہلے سالہا سال جنگِ آزادی میں پیش پیش رہی تھی۔
اس وقت وطن کو اجنبی طاقت کے تسلّط سے نکالنا وقت کا سب سے اہم کام تھا، اور آزادی کے بعد فرقہ واریت کو ختم کرکے متحدہ قومیت کے تصور کو پختہ کرنا اور مشترک ملک اور مشترک مفادات کے لیے سیاست کو کسی مشترک پلیٹ فارم کے حوالہ کردینا، وطن عزیز کی سب سے بڑی خدمت اور ملک کی سب سے بڑی خیر خواہی ہے۔
لہٰذا جمعیت علمائے ہند کا یہ مشورہ کہ جہاں تک ہندستان کے سیاسی حالات کا تعلّق ہے، مسلمانوں کو غیر فرقہ وارانہ اور مشترک طریقہئ عمل کی دعوت دی جائے، نہ صرف انڈین یونین میں رہنے والے ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں کی سب سے بڑی خدمت ہے، بلکہ وطنِ عزیز کی بھی سب سے بڑی خدمت اور اس کی تعمیر جدید کے لیے سب سے زیادہ مضبوط بنیاد ہے۔
بہت آسان تھا کہ جمعیت علمائے ہند سیاست کا بھی دعویٰ کرتی رہتی، اور جداگانہ سیاست کے عادی کروڑوں مسلمانوں کو اپنے گرد جمع کرلیتی۔ مگر یہ مسلمانوں کے حق میں خیر خواہی نہ ہوتی۔ اس کے حقیقی معنی یہ ہوتے کہ زہر کے پیالے کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی جارہی ہے، اور دودھ کی نمائش کرکے سم قاتل ان کے حلق کے نیچے اُتارا جارہا ہے۔ ملک کی ایک خیر خواہ جماعت ہرگز ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ کیا مشترک انتخاب کی موجودگی میں کسی اقلیت کے لیے یہ مفید ہوسکتا ہے کہ وہ سیاسی پلیٹ فارم جداگانہ بنائے؟
سیاست کا ابجد خواں بھی اس تصور کو لغو اور ابلہ فریب قرار دے گا۔ اقلیت کے لیے ترقی کا راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی قابلیت اور اپنے کیرکٹر کو بروئے کار لائے اور سیاست کے میدان میں دوسرے فرقوں کے ساتھ مشترک جدوجہد کرکے اپنے کردار اور اپنی استعداد اور قابلیت سے برتری حاصل کرے۔ یہ نسخہ کیمیائے حیات ہے۔ اسی کے ذریعہ اقلیت زندہ رہ سکتی ہے۔ اور اگر وہ اخلاق اور کیرکٹر کے صحیح اصول کو مستعدی کے ساتھ سنبھالے رہے، تو اکثریت کے سرکا تاج اور پیشانی کا نور بن سکتی ہے۔
”کم من فءۃ قلیلۃ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اللّٰہ“
( حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ ، خطبہ صدارت سولھواں اجلاس عام، منعقدہ 16-17 اپریل 1949

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close