مضامین

حضرات اساتذہ اور معلمین سے خطاب

مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی

حضرات اساتذہ اور معلمین سے
خطاب
بچوں کے جلسوں کی ضرورت اور اس کے عظیم الشان فائدے
الحمد للّٰہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ (امابعد)

خَلَقَ الْاِنْسَانَ، عَلَّمَہٗ الْبَیَانَ (سورہ الرحمٰن، آیت:۳،۴،پ:۷۲)
بزرگان محترم!
بیان: یعنی صاف اور واضح طور پر اپنے دل کی بات زبان سے بتادینا، اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو خاص طور پر انسان کو عطا ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن کی دوسری آیت میں اپنے اس انعام کا ذکر فرماکر ہمیں توجہ دلائی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس مخصوص انعام کی قدر کریں۔ اس کو زیادہ سے زیادہ عمدہ اور بہتر بنائیں اور جہاں تک ممکن ہو، اس کو ترقی دیں۔
بہت سے لکھے پڑھے اپنے دل کی بات بلا جھجک صفائی سے نہیں بیان کرسکتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس انعام کی وہ قدر نہیں کی، جو کرنی چاہیے تھی۔
آج کے بچے کل کو جوان ہوں گے اور مستقبل کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ انھیں کی قابلیت کے سانچے میں ملت کا مستقبل ڈھالا جائے گا۔ آج ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سانچہ کو زیادہ سے زیادہ موزوں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ترقی پذیر بنائیں۔
اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی قدر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے بچوں کی علمی قابلیت میں اضافہ ہو، اِسی مناسبت سے قوت گویائی اور اظہار مافی الضمیر کی قوت میں بھی ترقی ہوتی رہے۔ اور جب وہ عالم و فاضل ہوں، تو علم و فضل کے مطابق وہ مقرر، خطیب اور واعظ بھی ہوں، تاکہ تبلیغی اور اصلاحی فرائض خوبی سے انجام دے سکیں۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے کلام اللہ شریف کا معجزہ عطا فرمایا گیا، کہ اس کی ایک چھوٹی سی چھوٹی سورت کی نظیر اور مثال بھی آج تک کوئی نہیں پیش کرسکا، نہ قیامت تک پیش کرسکے گا، ایسے ہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قوتِ گویائی اور بیان و خطابت کی بھی معجزانہ شان عطا ہوئی تھی۔ آپؐ کے ارشادات فصاحت و بلاغت کی جان ہیں۔ آپؐ کے خطبوں اور آپؐ کی تقریروں کے جو ٹکڑے ہم تک پہنچے ہیں، وہ موتیوں کی لڑیاں ہیں۔ سننے اور ادا کرنے میں نہایت شیریں اور دلوں پر ان کا یہ اثر کہ پتھر کے دل بھی موم ہوجاتے ہیں۔
پس تعلیم و تربیت کے اس ابتدائی دور میں کہ بچوں کے ننھے منے دلوں کی سرزمین میں اعلیٰ قابلیت اور بہترین صلاحیت کے بیج بونے کا یہی وقت ہے؛ ہر ایک معلم، اتالیق، ہر ایک استاد اور ہر ایک سرپرست کا فرض ہے کہ لکھنے پڑھنے کی تعلیم اور مشق کے ساتھ ”بیان“ اور گویائی کی طاقت بھی ان میں پیدا کردے۔
تحریر و تقریر کی تعلیم میں فرق اور جلسوں کا سلسلہ
بچہ کو ذرا دھمکاکر، یا مارپیٹ کر آپ سبق یاد کراسکتے ہیں، لکھنا سکھاسکتے ہیں؛ مگر قوتِ گویائی اس طرح نہیں پیدا کرسکتے؛ کیوں کہ قوت گویائی اور خطابت کے لیے ضروری ہے کہ طبیعت آسودہ ہو، اس پر کوئی بار نہ ہو اور دماغ کھلا ہوا ہو۔
جو بچہ استاد کی گرم نگاہ یا اُس کی قمچی سے لرزرہا ہے، وہ رَٹے ہوئے الفاظ تو آدھے تہائی ادا کرسکتا ہے؛ مگر تقریر قطعاً نہیں کرسکتا۔
اس لیے قوتِ گویائی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ کوئی ایسا سلسلہ قائم کیا جائے، جس میں بچے اپنے شوق سے حصہ لیں اور شروع سے آخر تک اُن کی دل چسپی باقی رہے۔ کلاس اور سبق کی جماعت عام طور پر بچوں کے لیے دل چسپی کی چیز نہیں ہوتی؛ البتہ جلسہ میں بچے اپنے شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ سیرت وغیرہ کے جلسوں میں پہلے پہل بچے ہی ہوتے ہیں۔
پس قوت گویائی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مکتبوں اور مدرسوں میں بچوں کے جلسوں کا سلسلہ قائم کیا جائے۔ مثلاً ہفتہ میں کوئی ایک دن مقرر کرلیا جائے، جس کا ایک دو گھنٹہ اس تفریحی اور دل چسپ تقریب میں صرف کیا جائے۔
جن مکتبوں یا مدرسوں میں جمعہ کی تعطیل ہوتی ہے، وہاں مناسب ہے کہ جمعرات کا دن اس تقریب کے لیے مخصوص کرلیا جائے۔
جلسہ کی جگہ کو سجا کر یا کسی اور مناسب انداز سے ایسی صورت مہیا کی جائے، کہ یہاں کی حاضری بچوں کے دماغ پر بار نہ ہو۔ وہ ہنسی خوشی اس پروگرام میں شریک ہوں۔
فائدہ
قوت گویائی کی اصلاح اور ترقی کے ساتھ ساتھ تقریر کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ مضمون بچہ کے ذہن نشین ہوجاتا ہے، جس پر تقریر کرنی ہوتی ہے۔ پس اگر دینی مضامین، جو دینی تعلیم کے رسالوں میں پڑھائے جارہے ہیں، اُنھیں پر تقریر کرائی جائے، تو بچے تقریر کے شوق میں آسانی سے اس مضمون کو یاد کرلیں گے۔ استاد بڑی حد تک اُس دماغی کوفت سے نجات پاجائیں گے، جو بچوں کو یاد کرانے میں برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اور ان سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ دینی اور اخلاقی مضامین بچوں کے ذہنوں میں رَچ جائیں گے۔ زبان پر چڑھی ہوئی بات کچھ دنوں میں فراموش ہوجاتی ہے؛ لیکن ذہنوں میں رَچی ہوئی بات پتھر کی لکیر ہوتی ہے، جو کبھی نہیں مٹتی۔ اور وہ اصل منشا کہ دینی اور اضافی رنگ ایسا پختہ ہوجائے کہ طوفانِ حواث کی کوئی بھی لہر اس کو نہ مٹاسکے۔ اس طرح بچوں کی دل چسپی کے ساتھ آسانی سے پورا ہوگا۔
پس بچوں کے جلسوں کے لیے سب سے اوّل تو وہ مضامین منتخب کیے جائیں، جو اُن کو پڑھائے جارہے ہیں، یا گزشتہ سال پڑھائے جاچکے ہیں۔
ایسے مضامین کی فہرست اس مضمون کے آخر میں پیش کی جارہی ہے۔
یہ مضامین دینی تعلیم کے رسالوں میں ہیں۔ استاد صاحبان کو صرف اتنی محنت کرنی پڑے گی کہ تقریر شروع کرنے اور ختم کرنے کا انداز بچوں کو سکھادیں۔
دوسرے نمبر پر وہ مضامین ہیں، جو درسی مضامین کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ ایسے بارہ مضامین ان اوراق میں جمع کردیے گئے ہیں، جو آپ کے سامنے ہیں۔
یہ قطعاً ضروری نہیں کہ بچوں کی تقریریں انھیں مضامین میں منحصر اور محدود رہیں۔ استاد صاحبان دوسری کتابوں یا رسالوں سے بھی مضامین منتخب کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ بہت ضروری ہے؛ بلکہ اس تمام سلسلے کی اصل روح یہی ہے کہ:
(۱) ادائیگی کا انداز وہ ہو، جو کسی سوچی سمجھی بات کا ہوتا ہے۔
(۲) اگر مقالہ پڑھاجائے، تو وہ بھی تقریر کے انداز میں، یعنی ہر ایک فقرہ علاحدہ ہو۔ اور اس کا اُتار چڑھاؤ ایسا ہی ہو، جیسا کسی سوچی سمجھی بات کو سمجھانے کے وقت ہونا چاہیے۔
(۳) اس لیے ہرگز الفاظ کے پابند نہ ہوں، نہ ان کو رٹنے کی کوشش کریں۔ کوشش یہ کریں کہ وہ مضمون اپنے الفاظ اور اپنے انداز میں ادا کردیں۔
(۴) کام یابی کا مدا یہی قرار دیا جائے کہ ادائیگی کا انداز مقررانہ ہو۔ مفہوم وہی ہو، الفاظ اپنے ہوں۔ اور سب سے زیادہ نمبروں کا مستحق وہ بچہ مانا جائے، جو اپنے الفاظ میں تقریر کے طرز پر مفہوم کو خوب صورتی کے ساتھ صحیح صحیح ادا کردے۔
(۵) اس درجہ پر پہنچنے کے لیے کچھ عرصہ مشق کرنی ہوگی، لہٰذا ابتدا میں بچوں کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنا مضمون کتاب میں دیکھ کر پڑھیں؛ مگر سبق سنانے کی طرح نہیں؛ بلکہ تقریر کے انداز پر۔
اب آپ فہرست ملاحظہ فرمائیے:
پہلی جماعت کے بچے
جودینی تعلیم کا رسالہ نمبر(۱) پڑھ رہے ہوں، اُن سے اس رسالہ کی کوئی نظم پڑھوائی جائے۔ اگر زبانی یاد نہ ہو، تو دیکھ کر پڑھیں۔ اگر کوئی اور نظم یاد ہو، تو وہ پڑھوائی جائے۔ کسی سے کوئی صورت پڑھوائی جائے۔ اس طرح مجمع میں پڑھنے یا سنانے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔
دوسری جماعت
اس جماعت کے بچوں سے کوئی سورت یا کوئی نظم پڑھوائی جائے۔ اگر حفظ یاد نہ ہو، تو دینی تعلیم کا رسالہ نمبر (۱) کی نظم دیکھ کر اچھی آواز سے پڑھیں، اس طرح شعر پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
تقریر کے طور پر کوئی کہانی کہلوائی جائے۔ جو بچے دینی تعلیم کا رسالہ نمبر (۳) کی اخلاقی کہانیاں پڑھ رہے ہوں، یا پڑھ چکے ہوں، وہ اپنی تقریر میں یہ کہانیاں بیان کریں۔
مکالمہ(۱) ساجد اور ماجد کی گفتگو، جو دینی تعلیم کے رسالہ نمبر (۲) میں ہے۔(۱) اس طرح اداکرائی جائے کہ ایک بچہ وہ سوالات کرے، جو مثلاً ساجد نے کیے ہیں۔ دوسرا بچہ وہ جواب دے، جو ماجد نے جوابات دیے ہیں۔
(۲) اس گفتگو کے انداز پر استاد صاحبان کچھ اور مکالمے بھی تیار کرلیں اور بچوں سے عمل کرائیں، تو بہت ہی مفید ہو۔
(۳) اس جماعت میں مکالمہ کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ایک بچہ کھڑا ہوکر وہ سوال کرے، جو ہر سبق کے آخر میں مشق کے لیے دیے گئے ہیں۔ اور دوسرا بچہ کھڑا ہوکر کتاب کے مضمون کے مطابق اس کا جواب دے۔
تیسری جماعت
اس جماعت کے بچوں سے:
(۱) شروع سال میں
(الف)رسالہ نمبر (۳) کی اخلاقی کہانیاں زبانی کہلوائی جائیں۔
(ب) رسالہ نمبر (۳) میں عقائد کے باب میں جو مکالمے ہیں، وہ بے تکلف بات چیت کے انداز میں ادا کرائے جائیں۔ جھجک کے بغیر، بلاتکلف گفتگو شائستہ اور صاف ہونی چاہیے۔
(ج) سبقوں کے آخر کے سوالات بھی مکالمہ کے لیے استعمال کیے جائیں۔
(۲)سال کے دوسرے حصہ میں
دینی تعلیم کے رسالہ نمبر (۶) سے مدد لی جائے۔ ان عنوانوں سے متعلق مضامین جو رسالہ نمبر (۶) میں ہیں، وہ پہلے مقالہ کے طور پر، کتاب میں دیکھ کر پڑھوائے جائیں۔ اور چند ہفتوں کے بعد تقریر کے طور سے زبانی بیان کرائے جائیں۔اور مندرجہ ذیل عنوانات پر تقریریں یا مقالات ہونے چاہییں:
عنوانات
حق کا مطلب اور حق داروں کے مرتبے۔حقوق اللہ اور حقوق عباد۔ خدمتِ خلق۔ شکر و احسان مندی۔ شکر کا غلط اور صحیح طریقہ
دینی تعلیم کا رسالہ نمبر(۶) میں مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت جو واقعات ہیں، اُن کو کہانی کی طرح اپنی مادری زبان اور اپنے مخصوص انداز میں بیان کرائے جائیں:
بڑوں کی بڑی باتیں (آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی) (۱)
مسلمانوں کا قول وعدہ اور قسم۔ دشمنوں کو دوست بناؤ۔
اگر بچے میں صلاحیت ہو، توتقریری کی کسی کتاب کا کوئی مضمون ان کو یاد کرایا جاوے، ورنہ مقالہ کے طور پر پڑھوایا جائے۔
چوتھی جماعت
چوتھی جماعت کے بچوں سے
(۱) شروع سال میں
انھیں عنوانات پر مقالے، مکالمے اور تقریریں ہوں گی، جو تیسری جماعت کی دوسری شش ماہی کے لیے اوپر ذکر کیے گئے ہیں۔
(۲) اس جماعت کی دوسری شش ماہی میں
اس رسالہ یعنی ’طریقہئ تقریر‘ کی تقریریں اور مقالات وغیرہ پروگرام میں رکھے جائیں اور دینی تعلیم کے رسالہ نمبر (۷) اور رسالہ نمبر (۹) کے مندرجہ ذیل عنوانات بھی پروگرام میں شامل کرلیے جائیں۔
٭ رسالت نبوت اور وحی رسالہ نمبر (۷)
٭ محبت رسالہ نمبر (۹)
٭ محبت کا تقاضا اور محبت کی جانچ ” ”
٭ خدمت خلق، نرم دلی، ہمدردی اور خیرخواہی ” ”
٭ اتفاق ” ”
٭ دینی تعلیم کے رسالہ نمبر (۷) کے مندرجہ ذیل عنوانات مکالمہ کے پروگرام
میں شامل کیے جائیں:
٭ شاگرد اور استاد کا مکالمہ جس میں ایمان مجمل و مفصل کی تشریح ہے۔
٭ فرشتے
٭ ختم نبوت اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم
پانچویں جماعت
اس جماعت کے بچوں کی تقریروں، مقالات اور مکالموں کا وہی پروگرام ہوگا، جو چوتھی جماعت کے بچوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ رسالہ نمبر (۰۱) اور (۲۱) کے مضامین کا اور اضافہ کرلیا جائے گا۔
بچوں کے جلسے

بچوں کے جلسے باقاعدہ ہونے چاہئیں۔ ہر ایک جلسے کا پہلے اعلان ہونا چاہیے۔ جلسے کے اعلان کے ساتھ پروگرام کا اعلان بھی کردیا جائے۔
اعلان جلسہ اور پروگرام کا نمونہ پیش کیا جارہا ہے۔ آپ اس کو بہتر بنانے کی کوشش فرمائیے۔
یہ مکرر عرض کیا جارہا ہے کہ اندازایسا ہو کہ بچے گرانی محسوس نہ کریں۔ اور اپنے شوق اور خوشی سے اس پروگرام کو کام یاب بنائیں۔
اس پروگرام میں ”مقالات“ تو دیکھ کر پڑھے جائیں گے۔ باقی تقریر، نظم اور مکالمے کے متعلق بھی بچوں کو کتاب دیکھنے کی عام اجازت ہونی چاہیے۔
یہ بھی عرض ہے کہ یہ صرف ایک نمونہ ہے جو ان اوراق میں پیش کیا جارہا ہے، اس کو بہتر، دل چسپ اور مفید بنانے کے، جو بھی مشورہ دیا جائے گا، اُس کی پوری قدر اور عزت کی جائے گی اور کوئی خاص دشواری نہ ہوئی، تو اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔
نیاز مند:محمد میاں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close