اسلامیات

دینی تعلیم سبھوں کے لئے!

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

کسی بھی مذہب اور فکر و عقیدہ کے لئے تعلیم کی حیثیت شہ رگ کی ہے ، اگر کسی قوم کو اس کے دین سے محروم کرنا ہو تو اس کے دینی تصورات سے اس قوم کا علمی رشتہ کاٹ دیجئے ،یہ چیز خود بخود اس قوم کو اپنے مذہب سے بے گانہ بنادے گی ، اس کے لئے پنجہ آزمائی کی ضرورت پڑے گی اور نہ معرکہ آرائی کی ، یہ کسی قوم کو فکری اور مذہبی اعتبار سے قتل کرنے کا ایسا کامیاب اور بے ضرر نسخہ ہے کہ بقول شاعر :
دامن پہ کوئی چھینٹ ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو !

ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ یہی طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، انگریز جب ہندوستان میںآئے ، توانھوں نے بھی یہ ناکام کوشش کی ؛ چنانچہ لارڈ میکالے جب فورٹ ولیم کالج قائم کرنے کے بعد برطانیہ واپس گئے ، تو انھوں نے برطانوی دارالعوام میں اپنے اس منصوبہ کو ان الفاظ میں ظاہر کیا : ’’میں ہندوستان میں ایک ایسے ادارہ کی بنیاد ڈال کر آیا ہوں کہ اس کی وجہ سے ہندوستان میں رہنے والے رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی رہیں گے ؛ لیکن اپنی فکر اور ذہن و دماغ کے اعتبار سے انگریز بن جائیں گے ‘‘ چنانچہ اس ملک کے درد مند علماء نے اس حقیقت کو محسوس کرلیا اور انھوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دینی مدارس اور مکاتب قائم کرکے اس بات کا انتظام فرمایاکہ اس ملک میں بسنے والے مسلمان گو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں ؛ لیکن وہ دل و نگاہ کے اعتبار سے ’’حجازی ‘‘ بنے رہیں اور پیغمبر اسلام محمد رسول اﷲﷺ کا دامن نبوت ان کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے ۔

جب ملک آزاد ہوا تو مسلمانوں نے اس جذبہ کے ساتھ جنگ آزادی میں شرکت کی کہ وہ اس ملک کے مالکوں میں ہوں گے ، اس ملک میں ان کا مذہب ، ان کی تہذیب اور ان کی زبان محفوظ رہے گی ؛ لیکن بدقسمتی سے انگریزوں نے اس ملک میں فرقہ پرستی کا بیج بویا اور اس شجر خبیث کو اتنا تناور کردیا کہ آزادی کے بعد بھی اس کی جڑیں پھیلتی رہیں اور آج تو فرقہ پرست طاقتیں بامِ اقتدار پر پہنچ چکی ہیں ، جہاں مسلمانوں کو اس ملک میں معاشی طورپر پس ماندہ ، سیاسی اعتبار سے مفلوج و بے اثر اور جان و مال کے اعتبار سے غیر محفوط و غیر مامون کرنے کی کوششیں کی گئیں ، وہیں مسلمانوں کی تہذیب پر بھی یلغار کی گئی اور کوشش کی گئی کہ تہذیبی اعتبار سے ان کا ’’ہندو کرن‘‘ کردیا جائے اور اس بات کی بھی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہب اور عقیدہ سے دور کردیا جائے ؛ تاکہ ایک دو نسل کے بعد وہ مذہبی شعور سے پوری طرح محروم ہوجائیں ۔

مسلمانوں پر یہ سب سے بڑا حملہ اور ضربِ کاری ہے اور اس سے معمولی سا تغافل بھی ان کے ملی وجود اور بقا کے لئے زبردست خطرہ ہے — فرقہ پرست طاقتیں اس مقصد کے لئے دوطرفہ حملہ کر رہی ہیں ، ایک طرف سرکاری درس گاہوں کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں جو ایک سیکولر ملک کے بجائے خالص ہندو تصورات پر مبنی ملک کی نمائندگی کرتی ہوں ، ہندو دیویوں اور دیوتاؤں کے حالات ، ہندو فکر و عقیدہ کی وکالت اور ہندو تاریخ کی عظمت اورتفوق کا اظہار ، مسلم حکمرانوں کے مفروضہ ظلم و جور کا بیان ، یہاں تک کہ بعض اوقات خود پیغمبر اسلام ﷺکی حیاتِ طیبہ پر حرف گیری اس ’’ بھگوا نصاب ِتعلیم‘‘کی فکری بنیادیں ہیں، ’’وندے ماترم ‘‘ اور ’’ سرسوتی وندنا ‘‘ اقلیتوں کو مشرکانہ تصورات سے مانوس کرنے کی ناپاک کوشش ہے ۔

دوسری طرف دینی مدارس کے نظام میں دخیل ہونے اور ان اداروں کو بدنام کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ، بہار میں مدتوں پہلے گورنمنٹ نے دینی مدارس کو نصابِ تعلیم میں معمولی ترمیم کی شرط پر اعانت دینے کی پیش کش کی تھی اور اس کے لئے ’’بہار مدارس اگزامنیشن بورڈ ‘‘ کی بنیاد رکھی تھی ، ریاست کے وہ مخلص بزرگ علماء -جو حالات کی نبض پہ انگلی رکھتے تھے- نےمدارس کو اس سرکاری بورڈ میں شریک ہونے سے روکنے کی بڑی کوششیں کیں ؛ لیکن سرکاری اعانتوں کی پیش کش نے اکثر ارباب مدارس کے قدم ڈگمگادیئے اور انھوں نے اس کو ایک ’’نعمت ِ غیر مترقبہ ‘‘ سمجھ کر بے تحاشہ الحاق کرانا شروع کیا ، گورنمنٹ نے بتدریج ان مدارس کے نصاب اور نظام میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ اب ان کو دینی درس گاہ کہنا ایک تہمت سے کم نہیں اور افسوس کہ ان کو ایک معیاری عصری درس گاہ بھی نہیں کہا جاسکتا ، اسی قسم کی کوشش مشرقی اترپردیش میں بھی شروع ہوئی اور کسی قدر تاخیر سے سہی ؛ لیکن اب وہاں بھی اس کااثر محسوس کیا جارہا ہے — جو دینی مدارس حکومت کے زیر اثر نہیں ہیں اور اس کے عمل و دخل سے آزاد ہیں ، ان کو بدنام کرنے اور ان کی تصویر مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ، کبھی اس کو ’’آئی ، ایس ، آئی ‘‘ کا مرکز قرار دیا جاتا ہے ، کبھی ان مدارس کی طرف دہشت گردی کو منسوب کیا جاتا ہے ، کبھی ان کے مالی وسائل کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کئے جاتے ہیں ؛ تاکہ خاص طورپر غیر مسلم بھائیوں کا ذہن ان اداروں کے بارے میں مسموم ہو جائے ۔

ان حالات میں دینی تعلیم کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے ، دینی تعلیم حاصل کرنے کے دو درجے ہیں : ایک تو اتنی تعلیم جو ہرشخص کے لئے ضروری ہے ، یہ دین کے بارے میں بنیادی واقفیت ہے ، توحید اور شرک کی حقیقت ، نبوت و وحی کا اسلامی تصور ، انبیاء اور بالخصوص پیغمبر اسلام ﷺ کے ضروری حالات ، پاکی و ناپاکی ، نماز ، روزہ ، حج و زکوٰۃ اور قربانی کے بنیادی احکام ، نکاح و طلاق ، خرید و فروخت ، ملازمت اور نوکری ، کسب ِ معاش کے حلال و حرام طریقے، شریعت کی حرام کی ہوئی چیزوں وغیرہ سے متعلق ضروری مسائل ، صحابہؓ اور صحابیاتؓ کی مبارک زندگیوں سے متعلق بنیادی معلومات ، والدین ، اولاد ، میاں بیوی اور اعزہ و اقرباء سے متعلق حقوق ، شب و روز کئے جانے والے افعال کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ کی سنتیں اور مسنون وماثور اوراد واذکار ، یہ وہ اُمور ہیں جن کے بارے میں جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے ، مرد ہوں یاعورت اور جوان ہوں یا بوڑھے ، اس مقصد کے لئے جگہ جگہ دینی مکاتب اوربالغوں کے لئے دینی تعلیم کے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے ، کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی محلہ اور کوئی مسجد ایسے مکاتب اور مراکز سے خالی نہ ہو ؛ بلکہ بچوں اور بچیوں کے اسکول کے اوقات کے لحاظ سے صباحی اور مسائی دونوں طرح کے مکاتب ہوں اور کوشش کی جائے کہ محلہ کا کوئی بچہ اور دین سے ناواقف کوئی نوجوان ایسا نہ رہے جو اس نظام سے فائدہ نہ اُٹھائے ۔

لیکن دوسری ضرورت ایسی درس گاہوں کی ہے ، جہاں قرآن و حدیث ، کلام و عقیدہ اور سیرت نبوی سے متعلق اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہو اوراسلام کو اصل مآخذ سے سمجھنے اور سمجھانے کی غرض سے عربی زبان و ادب میں بصیرت کا سامان فراہم کیا جاتا ہو ، بحمد اﷲ ہندوستان کے چپہ چپہ میں ایسے مدارس موجود ہیں ، یہ اسلام کی فکری سرحدوں کے محافظ ہیں ، ان ہی درس گاہوں سے نکلنے والے فضلاء نے ہر عہد میں اسلام کے خلاف اُٹھنے والی فکری شورشوں کا مقابلہ کیا ہے ۔

ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسیحی پادریوں اور مبلغوں کا ایک سیلاب سا اُمڈ آیا ، دیہات دیہات یہ مبلغین پہنچتے ، بھولے بھالے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے اور مناظرہ کا چیلنج دیتے ، یہ حضرات علماء ہی ہیں جنھوں نے ان سے پنجہ آزمائی کی اور اسی دور میں ایک ہندوستانی عالم مولانا رحمت اﷲ کیرانویؒ نے عیسائیت کے رد میں ’’اظہار الحق ‘‘ کے نام سے ایک ایسی کتاب تالیف کی کہ اس موضوع پر کسی زبان میں اس کی نظیر نہیں ملتی اورہندوستان سے مصر و ترکی تک مشہور عیسائی مناظر پادری فنڈر کا تعاقب کرکے اس کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کیا ، پھر جب آریہ سماجی تحریک اُٹھی اور اس نے ’’شدھی‘‘ یعنی مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوششیں شروع کیں ، تو یہ علماء ہی تھے جو اس کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فتنہ کا ایسا علمی اور تبلیغی تعاقب کیا کہ ان کی ناپاک کوششیں ذرا بھی بار آور نہ ہو پائیں ۔

اسی طرح جب انگریزوں کی شہ پر پنجاب کے ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ کی ختم نبوت پر حملہ کیا اور جھوٹی نبوت کا ڈھونگ رچایا ، تو یہی علماء تھے جنھوں نے اُمت کو اس عظیم فتنہ سے بچانے کی سعی کی اور پورے برصغیر میں اپنی مجاہدانہ کوششوں سے مسلمانوں کے دین وایمان کی حفاظت فرمائی ، اسی طرح انکار ِ حدیث کا فتنہ اُٹھا ، مستشرقین نے اسلام کے بارے میں تشکیک کی مہم چلائی ؛ تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل کے قلوب میں ان کے مذہب کے تئیں شکوک وشبہات کے کانٹے چبھو دیئے جائیں ، ان ہی مدارس کے فضلاء نے ان سازشوں کے مقابلہ کے لئے لوح و قلم کی امانت سنبھالی اور وقت کے اُسلوب میں ان کا رد فرمایا ، پھر جب ماضی قریب میں شریعت اسلامی کو فکری اور عقلی حملوں کا نشانہ بنایا گیا اورمسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی کوشش کی گئی ، تو پورے ملک میں ان مدارس کے تعلیم یافتہ اور پرداختہ فضلاء نے ایک تحریک کی شکل میں ’’ مسلم پرسنل لاء ‘‘ کے تحفظ کا بیڑہ اُٹھایا اورمسلمانوں میں اس مسئلہ پر شعور پیدا کیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں اسلام کی حفاظت و صیانت میںدینی مدارس کا اتنا نمایاں اور اہم کردار ہے کہ کسی حقیقت پسند کے لئے اس سے انکار ممکن نہیں ؛ اسی لئے اُمت میں ایک ایسے طبقہ کا وجود ضروری ہے ، جو اسلام کا تحقیقی اور کتاب و سنت کا تفصیلی علم رکھتا ہو ، اپنے عہد کے فکری اورفقہی مسائل کو حل کرنے کا اہل ہو ، نیز اسلام کے خلاف اُٹھنے والے علمی وفکری فتنوں کا مقابلہ کرسکتا ہو اور ہر دور میں اس دور کی زبان اور طریقۂ استدلال کی رعایت کے ساتھ اسلام کی ترجمانی کی صلاحیت رکھتا ہو ، ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر خاندان میں ایسا ایک عالم موجود ہو ؛ لیکن جب مدینہ میں ۸۰ ؍اشخاص نے اسلام قبول کیا تو آپ ﷺ نے ان کی تربیت کے لئے حضرت معصب بن عمیرؓ کو بھیجا ، اس سے معلوم ہواکہ کم سے کم ہر اَسّی مسلمان پر ایک عالم ہونا چاہئے، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ علماء کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ، بیس کروڑ کی مسلمان آبادی میں اگر ایک فیصد بھی عالم ہو ، تو ان کی تعداد بیس لاکھ ہونی چاہئے ؛ لیکن پورے ملک میں علماء کی تعداد شاید دو لاکھ بھی نہ ہو ، گویا مسلم آبادی میں ان کا تناسب ایک فی ہزار بھی نہیں !

علامہ اقبال ؒ ان لوگوں میں تھے ، جن کو مشرق دیدہ اور مغرب رسیدہ کہا جاسکتا ہے، حکیم احمد شجاع نے اپنی کتاب ’’خون بہا ‘‘ ( ۱؍ ۴۳۹ ) میں اقبال ؒ سے اپنی ایک دلچسپ گفتگو نقل کی ہے ، جو ان لوگوں کے لئے یقیناً چشم کشا ہے ، جو اِن دینی مدارس کے نظام کو فرسودہ اور(Out of date) تصور کرتے ہیں ، حکیم صاحب کا بیان ہے کہ لاہور میں آکر میں نے پاک پٹن شریف کے مسلمانوں کی نفسیاتی کیفیت اور اپنے ان احساسات کی رُوداد ڈاکٹر محمد اقبال کو سنائی ، وہ پہلے تو حسب ِ عادت میری بات غور سے سنتے رہے ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انھیں میرے احساسات سے ہمدردی ہے ، پھر آنکھیں بند کرکے سوچنے لگے ، جب میں اپنی کہانی سناچکا تو فرمایا : ’’جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی ، میں بھی وہی کچھ سوچتا تھا جو تم چاہتے ہو ، انقلاب ایک ایسا انقلاب ہو جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذیب و متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے ‘‘ پھر علامہ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا : ’’ان مکتبوں اور مدرسوں کو اسی حالت میں رہنے دو ، غریب مسلمان کے بچوں کو انھیں مدرسوں میں پڑھنے دو ‘‘ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ اب جو کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ، اگر ہندوستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے ، تو بالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈر اور الحمراء اورباب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرؤوں اور اسلامی تہذیب کے اثر کا کوئی نقش نہیں ملتا ، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔
= = =

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close