مضامین

دے تالی، بجا تھالی سے

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور

کورونا جانے والا نہیں؟ عذابِ الٰہی ہے،ظلم سے باز آﺅ
کوروناcovid19 نے اس وقت ساری دنیا کو حیران وپریشان کر رکھا ہے بڑے بڑے فرعونوں کا پتہ کلیجہ پانی کیا ہواہے، جو مہینہ کے زیادہ دنوں ملک سے باہر گھوما کرتے تھے وہ بھی اپنے ملک میں قید ہوکر رہ گئے ہیں، بڑی بڑی حکومتیں لرزہ براندام( وہ جس کو جسم کانپ رہا ہو، نہایت خائف،تھر تھر کانپنے والا) ہیں،حفاظتی تدابیر سب فیل ہورہی ہیں دن بدن مرض بڑھ رہا ہے موتیں ہو رہی ہیں۔
اللہ رحیم وکریم ہے اپنی ساری مخلوق پر رحم وکرم کی بارش فر ما تا ہے، اس کی مخلوق پر اگر ظلم ہو،فساد پھیلایا جائے ،فساد کراکر معصوموں ،بے گناہوں کو قتل کیا جائے،زندہ جلا یاجائے ،مسجدوں اور اس کے کلام قرآن مجید کو(شہید) جلا یا جائے تو اسی کوظلم کہا جاتاہے اسی کو فساد فی ا لارض کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بر پا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔آگاہ ہو جاﺅ! یہی لوگ ( حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں ( اس کا ) احساس تک نہیں۔( القر آن،سورہ بقرہ: 2آ یت 11,12) قرآن کریم نے فسادیوں کی پہچان بتائی ہے کہ وہ اپنے ہی روش پر قائم رہیں گے مگر انہیں اس بات کا شعور نہیں،کیونکہ ان میں وہ حس باقی نہیں رہی جس سے یہ اپنی اس خرابی کو پہچان سکیں۔ کلامِ الٰہی کا معجزہ دیکھیں ہزاروں سال پہلے ہی بتا دیا کہ فسادی ،ظالم بے حس ہوتے ہیں،آپ خو ددیکھ رہے ہیں 100 دنوں سے زیادہ خواتین وحضرات احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن حکومت سے لیکر کورٹ تک بے حسی دیکھا رہے ہیں،ا”للہ خیر فر مائے“۔(اب جبراً اس کو ہٹادیا گیا ہے)،اللہ ظالموں کی پکڑ فرمائے، زمین میں بسنے والی مخلوق کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو اللہ رب العزت نے ہمیشہ بہت درد ناک عذاب میں مبتلا کیا ہے۔قرآن مجید میں متعدد آیتیں اور واقعات موجود ہیں،ظالم ظلم کرتے کرتے ظلم کو عادت بنالیتا ہے،تو اللہ کی پکڑ آ تی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ تر جمہ: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے (قومِ) عاد کے ساتھ کیسا (سلوک) کیا؟، (جو اہلِ )اِرم تھے ( اور) بڑے بڑے ستونوں ( کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے۔(القرآن سورہ،الفجر،89: آیت:6,7) ان کو ستونوں والا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے قد وقامت اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھے،اسی لیے آگے فر مایا گیا ہے کہ ان جیسے لوگ کہیں اور پیدا نہیں کئے گئے۔ ان کے پاس حضرت ہود علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا جن کا تفصیلی ذکر سورہ اعراف(،7: آیت65 )اور سورہ ہود،11:آیت50 موجود ہے۔ جو بڑے بڑے پتھر تراش کر رکھے ہوئے تھے اور فر عون کو سبھوں نے شہروں کے شہر اپنے سروں پے اُٹھا رکھا تھا(یعنی ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا،)آخر تیرے رب نے اِن سب پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ ربِ کریم نے اس آیت کریمہ میں فر مایا ہے کہ ان اقوام کو اپنے عقدی نظام،بحران، اخلاقی فساد اور اجتماعی شرارت کا انجام بھگتنا پڑا۔
قرآن مجید میں فساد فی الارض کا ذکر جا بجا آ یا ہے اہل علم نے سیا ق وسباق کے اعتبار سے فساد فی الا رض یعنی ظلم و جبر کے معانی و مفاہیم بیان کئے ہیں ہر طرح کا ظلم،خرافات وا وہام،قتل وغارتگری،فتنہ پروری، شر انگیزی،کمزوروں پر اپنی حا کمیت کا اعلان اور من مانے طریقے سے اپنی باتیں منوانا وغیرہ۔قرآن کریم نے جہاں فسادفی الارض کی تفصیل بتائی ہے،وہیں اس کا علاج اور حل بھی بتایا ہے قوم و ملت کو مفسدین ظالمین سے کیسے پاک کیا جائے۔ جن قوموں نےظ ظلم کا بازار گرم کیا قومِ عاد، قومِ ثمود،قومِ لوط، قومِ بنی اسرائیل وغیرہ تو رب تبار ک وتعالیٰ نے عذاب کے ذریعہ ان کو نیست و نابود کردیا،طرح طرح کے عذاب سے ان کی خبر لی،قرآن مجید میں معذب قوموں کا ذکر موجود ہے اور ان کا بھی موجود ہے جنھوں نے توبہ کی اللہ کے رسول پر ایمان لائے۔ تر جمہ: اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ایمان لے آئیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ ایمان نہ لائیں گے۔اور آپ کا رب فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔( القر آن ، سورہ،یونس:10آیت40)
*وباسے بچنے کی حفاظتی تدابیر ایمان کے منافی نہیں ہے*:
وائرس سے بچیں اور بچائیں،بھیڑ بھاڑ میں نہ جائیں اپنے وقت کو گھروں میں گزاریں، کروناcovid 19 سے گھبرا نا نہیں، کرونا سے لڑنا ہے۔۔۔ احتیاط احتیاط احتیاطی تدابیر سے باز نہ آئیں۔ سوشل میڈیا،اخبارت و ٹی وی وغیرہ میں بہت سی احتیاطی تدابیر بتائی جا رہی ہیں، متعدی وبا سے بچنے کے لیے ان تدابیر کو اختیار کر نا چاہیے، حفا ظتی تدابیر کا اختیار کر نا تَوکُّل اور تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔ سچ اور حقیقت یہی ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، لیکن اسباب کو مُو ثَّر بِا لذَّات ما ننے کے بجائے خدوا ند مُسبَّبُ الا سباب پر ایمان رکھا جائے، کیونکہ اسباب میں تاثیر اللہ رب العزت نے پیدا فر مائی ہے اور اسی کے حکم سے یہ موثر ہوتی ہے، تقدیر پر ایمان کا تقا ضا بھی یہی ہے،آپ ﷺ نے فر مایاہے:” بیمار کو تندرست سے الگ رکھا جائے“( مسلم) اس میںisolation unit,تنہائی کی ہدایت موجود ہے۔ وباﺅں سے بچنے کی واضح ہدایتیں اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں ،(panic)گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہوں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ۔ کابیان ہے کہ رسول اللہ۔ ﷺ۔ نے بیان فر مایا: عن قریب بلائیں ظاہر ہوں گی، ان میں بیٹھنے والا کھڑے رہنے والے سے بہتر ہو گا،اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا،اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو ان بلاﺅں کو دیکھے گا وہ بلائیں خود اُسے دیکھ لیں گی۔(یعنی اُسے اپنے لپیٹ میں لے لیں گی) اور جس شخص کو اُن سے پناہ مل جائے وہ پناہ حاصل کرلے۔ یاد رہے جن قوموں پر عذاب کا فیصلہ ہوا اِن پر عذاب آکے رہا مگر یاد کریں! ایک قومِ یونس تھی جنھوں نے عذاب کے آثار دیکھ کر خوب توبہ استغفار کی اللہ نے اُن سے عذاب ٹال دیا،آئیں ہم سب ملکر اپنے رب سے خوب خوب توبہ استغفار کریں یا اللہ! ہمیں معاف کردے ہمیں ہمارے پیاروں کو اس وبا ئی مرض سے بچالے ،آ مین۔
*رجوع اِ لَی اللہ بہت ضروری*:
اللہ کی طرف توبہ واستغفار کرنے پر رجوع اِلَی اللہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے،لھذا مومن کے لیے جب ”رجوع الَی اللہ“ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کا اپنے پچھلے گناہوں سے معافی مانگنا کہ ایک مسلمان اپنے حقوق اللہ اور حقوق العباد جو اس پر عائد ہوتے ہیں اُن کو جلد از جلد ادا کرے، حقوق العباد جن کے ہیں اس پر ان سے ملکر معافی طلب کرے اور خوش دلی سے اس کا حق اداکرے اوراللہ کی بار گاہ میں سچے دل سے توبہ کرے،اے رب العالمین مجھ سے بہت سارے گناہ سرزد ہوئے ہیں میں اپنے گناہوں کی معافی تیری رحمت کے واسطے سے چاہتا ہوں۔
انسان معصوم عن الخطا نہیں کوئی بھی گناہوں سے پاک نہیں ہے،رحیم وکریم رب نے توبہ کا راستہ بتایا یہ اس کا اِحسان عظیم ہے۔رسول کریم ﷺ نے نے فر مایا:” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمھیں ختم کرکے ایسی قوم کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے اور پھر اللہ سے اپنے گنا ہوں کی بخشش مانگیں گے“ ۔(مسلم شریف:2749) ایک اور حدیث میں ہے کہ:” اولاد آدم کا ہر فرد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار تو بہ کرنے والے ہیں“۔(تر مذی:2499) اللہ تعالیٰ نے اس امت کے ہر طبقے پر توبہ کو واجب قرار دیا ہے چاہے ان کا تعلق نیکیوں کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں سے ہو، یا در میانی درجے کے مومنوں سے ہو یا حرام کاموں میں ملوث افراد سے ان کا تعلق ہو۔اللہ تعالیٰ کا فر مان !ہے ترجمہ : اے مومنوں! تم سب اللہ کی جانب رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاجاﺅ۔(القرآن سورہ،النور:24آیت31,) ایک مقام پر اور فر مایا:اے ایمان والو! اللہ کے سامنے صدق دل سے سچی توبہ کرو۔(القرآن،سورہ،التحریم:66آیت18) خود آقا ﷺ کا معمول تھا آپ فر ماتے ہیں: اے لوگو! تم اللہ سے توبہ مانگو اور استغفار کیا کرو؛ کیونکہ میں ایک دن میں100سوبار توبہ کرتا ہوں؟۔(مسلم:حدیث 2702)
کورونا کا فتنہ بلا شبہ وبا بھی ہے اور عذابِ الٰہی بھی : فتنہ کی کئی قسمیں ہیں جھگڑا،فساد، بلوہ،بغاوت،سرکشی وغیرہ وغیرہ،آدمی کے اندر کا فتنہ یہ ہے کہ آدمی کے احوال بگڑ جائیں اس کا دل سخت ہو جائے اور اس کو عبادت میں حلاوت(مٹھاس، شرینی، کیف ،لطف،آرام) اور مناجات میں لذت محسوس نہ ہو۔ وہ فتنہ جو سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے اور وہ نظامِ مملکت کا بگاڑ ہے یہ دونوں فتنے موجودہ دور کے بہت بڑے فتنے ہیں فتنوں کے بارے میں قرآن مجید میں28 جگہوں پر مختلف زاویوں سے بیان آیا ہے،اور فتنوں پر سخت عذابِ الٰہی کی سخت وعید آئی ہے فتنہ عذاب کے معنیٰ میں، اللہ تعالیٰ نے اپنے کلا م قرآن مجید فر مایاہے، برے کاموں کی پاداش میں اگر اللہ نے کسی کو عذاب میں مبتلا کیا تو اللہ نے اس کو بھی فتنہ کا نام دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔تر جمہ: اس عذاب سے بچو جب وہ عذاب آئے گا تو صرف ظالموں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا،بلکہ جو نیکوں کار ہیں وہ بھی ان ظالموں کے بیچ میں انھیں بھی ان ظالموں کی آگ لگے گی یا ان پر بھی اس کی آنچ آئے گی۔( القرآن، سورہ انفال:9 آیت22 )اسی لیے حدیث طیبہ میں آ قا ﷺ نے فر مایا: کہ بَری ہیں ہر اُس شخص سے جو کافروں کے بیچ میں سکونت پذیر ہوتا ہے، کیوں کہ وہ جو وہاں غلط کام ہوں گے اس کا اثر آہستہ آہستہ اس کے دل پر بھی ضرور پڑے گا۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فتنہ کو دفن کر نے کے لیے یا لوگوں کو ڈرانے کے لیے عذاب بھیجتا ہے، گویا یہ بھی ایک آز مائش ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت محمدیہ پر جو عذاب بھیجتا ہے،اُنھیں ہلاک کر نے کے لیے نہیں، بلکہ انھیں تنبیہ کر نے کے لیے۔ پیارے رسولِ کریم ﷺ نے دعا فر مائی تھی کی امت محمدیہ کو دوسری قو موں کی طرح ہلاک نہ فر مانا! اللہ رب العزت نے وعدہ فر مایا کہ میں تمھاری امت کو عام عذاب میں ہلاک نہیں کروں گا،لیکن تنبیہ کے لیے ان کو عذاب میں،آز مائش میں مبتلا کروں گا، *لَعَلَّھُم یَرجِعُون* ، تاکہ وہ اللہ کی طرف لوٹیں۔ فتنہ کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ آفتوں،بلاﺅں،وباﺅں کی آزمائش سے گزار نا،علامہ راغب اصفہانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ” المفردات“ میں لکھتے ہیں فتنہ کا مادہ فَتَّن سے ہے اس کے لغوی معنیٰ ہیں سونے کو آگ میں تپاکر کھرا کھوٹا معلوم کرنا پھر فتنہ کے معنیٰ آز مائش کے ہوگئے اور آز مائش میں چونکہ تکلیف دی جاتی ہے اس سے ایذا رسانی اور اس کی مختلف شکلوں اور آز مائشوں میں جوکھرا کھوٹا ثابت ہو اس کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے ان سب کے لیے قرآن واحادیث میں فتنہ اس کے مشتقات استعما ل کئے گئے ہیں، پس فسادات،فتنہ کے معنیٰ میں آز مائش طلاقِ ثلاثہ،کشمیر میں ظلم وستم،NPR,NRC,CAA, آفاتِ ناگہانی دہلی فساد،طرح طرح کے دکھ دینا وغیرہ جب سے یہ ظالم حکومت آئی ہے مسلمانوں کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے۔وطنِ عزیز میں حکومت سے لیکر مسلم دشمن اندھی قوم مسلمانوں پر روز بروز موب لنچینگ سے لیکر نت نئے طرح سے پریشان کئے ہیں اور اب تو پوری قوم ہیLOCKDOWN لاک ڈاﺅن میں پھنس کر کراہ رہی ے۔اللہ خیر فر مائے آمین۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت کریں اللہ ورسول کی اطاعت نہ کر نا عذابِ الٰہی کا موجب ہوتا ہے بلکہ بے عمل لوگوں کو قرآن کریم میں گونگے بہرے تک کہا گیا ہے۔تر جمہ: بیشک اللہ کے نزدیک جانداروں میں سے بد تر وہی بہرے،گونگے ہیں جو( نہ حق سنتے ہیں،نہ حق کہتے ہیں اور حق کو حق سمجھتے بھی نہیں ہیں۔)آج عذابِ الٰہی آنے کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ حق کو قبول نہیں نہیں کررہے ہیں ،حق بولنے سے بھی گریز کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر حق کو سمجھ بھی نہیں رہے تو کورونا جیسے عذاب سے دوچار نہیں ہونگے تو کیا ہوگا تو کیا نعمت الٰہی من وسلویٰ اترے گا؟
*لاک ڈاﺅن:lockdownکو کامیاب کریں:*
کوروناوائرس بلاشبہ بَلا بھی ہے،عذاب بھی اور آز مائش بھی۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس قدر زیادہ باہر گھو مے گا اسی قدر اسے آزمائش میں پڑنے کا امکان زیادہ ہوگا اور جو جس قدر لاتعلق رہے گا وہ اسی قدر محفوظ رہے گا،سونے والا سب سے زیادہ لا تعلق ہوجاتا ہے لہذا وہ سب سے زیادہ محفوظ رہے گا۔ آج دنیا نے” کروناcovid 19 “ سے بچنے کے لیے سب سے بہترین نسخہ” سماجی دوری“ کو تجویز کیا ہے جو رحمتِ عالم۔ ﷺ۔ کی ہدایت پر عمل ہے۔ لہذا مسلمان سر کار دوعالم ﷺ۔ کی ہدایت کے مطابق اپنے گھروں میں رہیں اور توبہ استغفار ،دعا قرآنِ کریم کی تلاوت میں مشغول رہیں، پلیز، پلیز jio,jioکو آرام دیں ۔ *لَاحَو لَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ* اور *حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ* زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ اللہ ہم سب کو رجوع الیٰ اللہ،توبہ کی توفیق عطا فرما ئے تا کہ عذابِ الٰہی کورو نا سے نجات ملے اور سب طرح کی وباﺅں سے اللہ کی طرف سے امن وامان عطا ہو آمین ثم آمین۔09386379632,hhmhashim786@gmail.com
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020,

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close