زبان و ادب

رنگین اسلوب

محمد یاسین جہازی 9891737350

اس کا مطلب یہ ہے کہ جملوں کی ترکیب میں ایسے حروف اور کلمات کا انتخاب کیا جائے؛ جن کو پڑھتے وقت نہ تو قاری کی زبان لڑکھڑائے اور نہ ہی اس کے ذہن ودماغ کو جھٹکا لگے۔بہ الفاظ دیگر اس میں لفظی روانی بھی پائی جاتی ہو اور معنوی روانی بھی موجود ہو۔
رنگین اسلوب میں (۱)نامانوس الفاظ(۲)قواعد زبان اور اصول بیان کے خلاف تراکیب استعمال نہیں کی جاتیں، اور الفاظ ومعانی کی روانی کو ختم کرنے والی چیزوں مثلاً: (۳)یکساں آواز والے حروف کے اکٹھا ہونے،(۴)توالی اضافات،(۵)تتابع حروف عطف،(۶)تعقید لفظی اور(۷) معنوی سے بھی یہ اسلوب پاک ہوتا ہے۔(۸)اسی طرح مضمون کے بیچ بیچ میں طویل طویل تشریحی اقوال اور معترضہ جملے بھی نہیں لائے جاتے۔ نیز اس میں (۹)تصنع اور (۰۱)رنگ آمیزی سے بھی اجتناب کیا جاتا ہے، جیسے:
”ہلکی شفقی روشنی ہے، کرہئ زمین تاریک ہے، فضا میں صرف ایک سیارہ جھلملا رہا ہے۔ ایک لڑکی جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور ہاتھ میں بربط، سارے کرہئ ارض پر چھائی ہوئی ہے، بربط کے تمام تار ٹوٹ چکے ہیں؛ مگر ایک، جس میں وہ برابر لرزش پیدا کر رہی ہے“۔ (نیاز فتح پوری)
نظم کی مثال: ؎
بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی لا حاصل میں ہے
(غالب)
وہ دل سے یوں گذرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
(جگرمرادآبادی)
ذیل میں اس اسلوب میں پائے جانے والی خامیوں کی نمبر کی ترتیب سے مثالیں دی جارہی ہیں، تاکہ صحیح وغلط دونوں پہلو اجاگر ہوجائیں۔
(۱)نامانوس الاستعمال کی مثال:
”ابن الوقت تو اس مزاج کا آدمی نہ تھا کہ بات کو اٹکا رکھے؛ مگر موقعہ ہی بونگا آپڑا تھا“۔
(مولانا نذیر احمد)
اس میں لفظ ’بونگا‘ نا مانوس الاستعمال لفظ ہے۔
(۲)قواعد زبان کے خلاف استعمال کی مثال:
”میں نے عزم مصمم کرلیا ہے کہ ہم روزانہ پابندی سے مطالعہ کیا کریں گے“۔
اس میں متکلم واحد کی جگہ متکلم جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جو اصول بیان کے خلاف ہے۔
(۳)یکساں آواز والے حروف کے اکٹھا ہونے کی مثال:
”مگر درد سر روز زور پکڑ تا جاتا تھا“۔ (مولوی نذیر احمد)
ہم نے تو پر فشانی نہ جانی کہ ایک بار
پرواز کی چمن سے سو صیاد کی طرف
(میرتقی میرؔ)
ان جملوں میں ’روز زور‘ اور ’سے سو‘ یکساں آواز والے حروف یکجا ہوگئے ہیں۔
(۴)توالی اضافات کی مثال:
”میں آپ کے نانا کے بیٹے کے پوتے کے ماموں کے ساتھ چمنستان کی سیر کو نکلا تھا“۔
اس میں پے بہ پے متعدد اضافتیں جمع ہوگئیں ہیں۔
(۵) تتابع حروف عطف کی مثال:
”سب نے مل کر منتوں اور نیازوں اور چلوں اور عملوں اور دعاؤں کی بھر مار کر دی“۔
(نظیر آبادی)
اس میں لگا تا ر چار حروف عطف لائے گئے ہیں۔
(۶)تعقید معنوی کی مثال: ؎
فلک پر جامع مسجد ہے زمیں پر عکس پڑتا ہے
نمازی کافروں کا خون شہیدوں پر ٹپکتا ہے
اس شعر میں ’تعقید معنوی‘ پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ ’جامع مسجد‘سے مراد آفتاب ہے، جو انتہائی بعید استعارہ ہے۔ اسی طرح ’نمازی کافر‘ کسان کو کہا گیاہے، یہ بھی ایک نامانوس تشبیہ ہے۔’خون‘ سے پسینہ اور’شہید‘سے کٹی ہوئی کھیتی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، جس کی طرف ذہن جلدی منتقل نہیں ہوتا۔ ان عیوب کی وجہ سے کلام کی معنوی روانی ختم ہوگئی ہے۔
(۷)تعقید لفظی کی مثال:
ذبح وہ کرتا توہے پر چاہیے اے مرغ دل
دم پھڑک جائے تڑپنا دیکھ کر صیاد کا
اس شعر کے دوسرے مصرعے کامطلب یہ ہے کہ مرغ کا دل تڑپنا دیکھ کر صیاد کا دم پھڑک جائے، لیکن الفاظ کی نشست میں الٹ پھیر ہونے کی وجہ سے’تعقید لفظی‘پیدا ہوگئی ہے؛ کیوں کہ فوری طور پر ذہن اس معنی کی طرف منتقل نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اے مرغ دل! صیاد کا تڑپنا دیکھ کر تیرا دم پھڑک جائے۔
(۸)طویل تشریحی اقوال کی مثال:
”فلاسفہئ جدید اجزائے لایتجزیٰ (مادہ کو تقسیم کرتے چلے جائیے، وہ منقسم ہوتا چلا جائے گا۔ آخر میں ایک ایسی حد پر یہ تقسیم پہنچ جائے گی کہ مادہ کے ذرات انقسام قبول نہ کریں گے، مادہ کے ایسے ذرات کا نام اجزائے لایتجزیٰ ہے) کا اثبات کرتے ہیں“۔
(۹)تصنع کی مثال:
”خلوت کے چمن میں حکم ہوا کہ مشورت کی بلبلیں آئیں کہ ہنگامہ کے لیے کیا صلاح ہے؟ بعض کا زمزمہ ہوا کہ برسات میں ملک مقبوضہ کا بند وبست ہو، جاڑے کی آمد میں ہنگامہ پر خوں ریزی سے گلزار کا خاکہ ڈالا جائے۔ بعض نے نغمہ سرائی کی کہ غنیم کو دم نہ لینے دو، اڑجائیں اور چھری کٹاری ہوجائے کہ یہی بہار ہے۔ فتح کے گلیچیں اور سلطنت کے باغبان نے کہا کہ ہاں یہی ہانک سچ ہے“۔
(مولانا محمد حسین آزادؔ)
اس مضمون میں تصنع سے کام لیا گیا ہے۔
(۰۱)رنگ آمیزی کی مثال:
”سینے قبلہئ عالم! یہاں سے برس دن کی راہ شمال میں ایک ملک ہے، عجائب زرنگار، ایسا خطر ہے کہ مرقع خیال مانی وبہزادنہ کھینچا ہوگا، اور پھر دہقان فلک نے مزرعہئ عالم میں نہ دیکھا ہوگا۔ شہر خوب، آبادی مرغوب، رنڈی، مرد حسین طرحدار، مکان بلور کے؛ بلکہ نور کے، جواہر نگار؛ عقل باریک، بنیان مشاہدہ سے دنگ ہو، خلقت اس کثرت سے بستی ہے کہ اس بستی میں وہم وفکر کو عرصہئ تنگ ہو، خورشید سحر اس کے دروازے سے ضیا پاتا ہے، بدر کامل اس شہر میں غیرت سے کا ہیدہ ہو؛ ہلال نظر آتا ہے“۔
(از طوطاکہانی)
اس میں حد سے زیادہ رنگینی پیدا کردی گئی ہے، جس سے بھدا پن پیدا ہوگیا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close