مضامین

سانحہ احمدآباد اور قابلِ غور حل طلب پہلو

تنویر احمد ندوی علیگ خدیجہ الکبریٰ للبنات سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
احمدا آباد گجرات کی عائشہ اور سانحہ خودکشی پر ہر حساس طبیعت قلم برداروں نے لکھا ہے اور جوں جوں اس واقعے سے متعلق نکات و بات سامنے آتی رہیں گی لکھنے والے لکھتے رہیں گے، کیونکہ مرحومہ عائشہ نے جو پیغام پوری دنیا بالخصوص امت مسلمہ کے نام چھوڑا ہے، بلاشبہ دور حاضر میں اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے،ساتھ ہی ساتھ مسلم سماج کے لیے اس حوالے سے ایک سوالیہ نشان قائم ہوجاتا ہے۔
سوالیہ نشان کے پیش نظر ہر فکرمند کو اس سے جواب تلاش کرتے ہویے اس پر لکھنا بھی چاہیے اور بولنا بھی چاہیے اور جگہ جگہ مہم بھی چلنی چاہیے،تاکہ اس طرح کا حادثہ دوبارہ کہیں پیش نہ آئے اور کسی اور عائشہ کی ایسی خبر سننے کو نہ ملے۔
پوری شدّت کے ساتھ یہ واضح کرتا چلوں چلوں کہ جہیز یا رسم جہیز یا اس نام پر ہونے والی کسی بھی قسم کی زیادتیاں ذہنا جسما نسبا الغرض کسی بھی طریقے سے قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔جولوگ اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں،ان کا سماجی بائیکاٹ ضرور ہو۔
بہر کیف عائشہ کی ویڈیو کو دیکھنے اور ان کے والدین کے بیانات سننے کے بعد جو تاثر منجملہ میرے ذہن میں ابھرا وہ یہ کہ یہ نہ صرف ایک جہیز یا لین دین کا معاملہ تھا جس کی وجہ سے عائشہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوئ،بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ معاملہ اس سے بھی بڑا اور نازک تھا۔
ہاں البتہ اس ضمن میں یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے،کہ ممکن ہے کچھ معاملہ جہیز کا بھی ہو،کیونکہ 2018 میں عارف اور اس کے گھر والوں پر اسی بابت ایک مقدمہ درج ہوا تھا۔

اب جو کچھ عائشہ کی کال ریکارڈنگ،سوسائڈ نوٹ اور خودکشی سے قبل والی ویڈیو کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جا رہا ہے،اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ جہیز سی کہیں زیادہ کسی اور خارجی امر External affairs کا لگتا ہے۔
میں نے ان سب کو سامنے رکھ کر اپنی اس تحریر میں جو کچھ بطور تجزیہ وتبصرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے،وہ عائشہ کی کال ریکارڈ، ویڈیو اور سوسائیڈ نوٹ کو سامنے رکھ کر کی ہے۔
راقم ان تمام چیزوں کو پوائنٹ وائز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔امید ہے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور پڑھاجائے گا۔

1-سب سے پہلی بات *”زوجین کے مابین عدم اعتمادکا ماحول”*۔
اب تک کی خبروں سے عارف کو عائشہ پر اعتماد بالکل بھی نہیں تھا۔عائشہ کی لاکھ صفائی کے باوجود وہ اس پر بہتان لگاتا رہا جس کی وجہ سے دن بدن غلط فہمیاں،ناچاقیاں بڑھتی گئیں۔
عارف کے بیان سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ اس نے ایک لمحہ کے لیے بھی گھر گرہستی کی نکات کو نہ سمجھنے کوشش کی نہ اس نے آپسی غلط فہمی کو بہتر طریقے سے حل کرنا چاہا،بلکہ وہ اپنی مردانہ مزاج و تسلط کی وجہ سے مزید اس پر زیادتیاں ہی کرتا رہا،جس کے نتیجہ میں عائشہ کے بقول اسقاطِ حمل ہوا،حالانکہ وہ اس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی.اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ آخر بے اعتمادی کی فضا کیونکر قائم ہوئی۔صحیح وجہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ عائشہ کی وائرل آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق وہ اس سے شادی کرنا نہیں چاہتی تھی،لیکن جبرا والدین نے اس کی شادی کروادی۔اب ایسے کیس میں جو ہوتا ہے،وہی ہوا کہ شادی تو ہوگئی لیکن Negative thoughtذہن و دماغ میں مسلط رہا۔اس کے بعد جہیز کا مطالبہ،پھرعارف کا کسی دوسری لڑکی سے رابطہ میں رہنا اور عائشہ کو نظر انداز کرنا اسی طریقہ سے عارف کا اپنی غلطی چھپانے کے لیے عائشہ پر بے بنیاد الزام لگانا ۔یہی سب چیزیں غالبا عدم اعتماد کی وجہ بنتی جارہی تھی عائشہ کی خود کشی میں اس بےاعتمادی کا کافی رول رہا ہے اس لیے کہ اس نے اپنی آخری ویڈیو میں یہ کہا تھا کہ” مجھے جوسچ دنیا کو دکھانا تھا وہ دکھادیا، اب میں خوش ہوں”۔
اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اس کا آصف سے کوئی غلط رشتہ نہیں ہے بلکہ وہ اس کا اچھا دوست اور بھائی ہے۔

2-دوسری بات *”زوجین کا آپسی حقوق سے عدم واقفیت”*
مجھے ھمیشہ یہ سوال پریشان کیے رہتا ہے آخر ہمارے معاشرےمیں اس عنوان کو موضوع بحث کیوں نہیں بنایا جاتا۔.میرا تو ماننا ہے کہ جس طرح سے شادی ضروری ہے اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ زوجین کو انکے آپسی حقوق کا علم بھی ضروری ہے۔
غور کریں تو معلوم ہوگا کہ طلاق واقع ہونے کی بڑے بڑے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے۔ معاشرے کا مزاج یہ ہے کہ شادی تو کردی جاتی ہے لیکن ان کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ شوہر کا کیا مقام ہے یا بیوی کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ان کے ایک دوسرے پرکیا کیا حقوق ہیں اُنکے فرایض کیا ہیں۔
مجھے زوجین سے یہاں پر ایک بات کہنی ہے اولا امت کی بہنوں سے کہتا ہوں کہ آپ کا شادی کے بعد کسی غیر مرد سے تعلق رکھنا ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے۔ چاہے وہ دوستی کے نام پر ہو یا کسی اور نام پر ۔اگر رکھنا ہی ہے تو شرعی دائرے میں جائز حد تک ہی بس! وہ بھی اپنے شوہر کے علم میں لا کر، تاکہ بعد میں کسی طریقہ کی آپس ميں miss understandingنہ ہو ۔ورنہ ہوگا کہ یہ غلط فہمی ایک دوسرے قسم کا رخ اختیار کرلیگی ِمِثال سامنے موجود ہے۔
۔اسی طریقہ سے ملت کے بھائیوں سے بھی عرض ہے کہ شادی کے بعد کسی لڑکی سے تعلق رکھنا دوستی کے نام پر یا کسی اور نام پر یہ کسی بھی پہلو سے مناسب نہیں اگر ناگزیر ہو تو اسے دائره شریعتِ کے اندر جائز حد تک ہی رکھیں وہ بھی اپنے شریک حیات کے علم میں لاکر !اور ہاں خدا کے واسطے اس معاملہ میں اپنی مردانگی کا ثبوت نہ دیا کریں. بس میعار یہ جانیں کہ جس طرح آپ اپنی بیوی کو پارسا دیکھنا چاہتے ہیں اسی طرح سے ،بلکہ اپنی نفسیات کے ہاتھوں اس سے بھی بڑھکر وہ بھی آپ کو پارسا دیکھنا چاہتی ہیں ۔
اسی کے ساتھ ساتھ مسلم تنظیموں، علماء کرام اور رھبران قوم سے گزارش ہے کہ حقوق زوجین کے متعلق بیداری لائیں ۔دونوں کے لیے ایک مختصر کورس شادی سے پہلے یاشادی کے بعد ایک شارٹ ٹرم کورس ضرور رکھیں ائمہ مساجد اس کے لیے آگے آسکتے ہیں،تاکہ زوجین کی آئندہ زندگی محفوظ ہو اور تمام طریقے کے کی گندگی سے پاک ہو۔
3-تیسری بات*”شادی کے بعد زوجین کے والدین کا رول”*
میر ماننا یہ ہے کہ ان کا رول شادی کے بعد کاؤنسلر والا ہونا چاہیے نہ کہ ڈکٹیٹر کا۔
عموما دیکھا یہ گیا ہےکہ شادی کے بعد والدین سوچتے ہیں کہ اب وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے ۔حالانکہ کہ اب ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور انہیں اس مرحلے میں ایک کاؤنسلر کا رول ادا کرنا چاہئے تاکہ بغیر کسی تفریق کے دونوں کی پریشانیوں کو سمجھ سکیں اور اس کو بہتر انداز میں حل کرسکیں اگر معاملہ کی نوعیت سنگین ہوتو قرآنی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے دوسرے کے پاس لے جائیں اور اگر وہاں سے بھی حل نہ ہو اور کوئی راستہ بھی نہ ہوتو خلع کا دروازہ کھلا رکھیں ۔
عائشہ کی کال ریکارڈنگ کو سنیں وہ عارف کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی وہ اب بس خلع چاہتی تھی لیکن والدین نے اس کی بات کو نہیں سمجھا بلکہ ڈکٹیٹرکا رول ادا کیا۔اس لیے عارف کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کو بھی میں مجرم سمجھتا ہوں ۔کیونکہ وہ عائشہ کی بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے ۔عائشہ کا کہنا تھا مجھے یہاں سے یعنی راجستھان سے لے جاؤ لیکن والدین کا اصرار وہیں رہو اوراسی کے ساتھ رہو ۔ والدین کا یہ رویہ اس کو برداشت نہیں ہوا اور اپنےآپ کو بے قصور سمجھنے لگی اور اپنی غلطی تلاش کرنے لگی کہ آخر میرا قصور کیاہے ۔بالآخر ہمت ہار کر خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئی ۔
میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ اگرخدانخوستہ کبھی ایسا معاملہ آپ کے سامنے آئے تو اس کو سنجیدگی سے لیں اور ہرجان کی قیمت کو اپنی جان کی طرح سمجھیں ۔
چوتھی بات*”جبری شادی”*
شریعت مطہرہ نے ایسی شادی سےمنع فرمایا ۔جس طریقہ سے ایک مرد کو اپنی پسند کی شریک حیات کوانتخاب کرنے کا حق ہے اسی طریقہ سے ایک لڑکی کو بھی حق ہے ۔۔اگر وہ راضی نہیں ہے تو خدا کے واسطے تھوڑا ان کی بھی خوشی کا خیال کرو ۔تاکہ مستقبل بھی بہتر ہو۔
پانچویں بات *”ساس بھی کبھی بہو تھی”*
ساس یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ وہ بھی کبھی بہو کسی کی بیٹی اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ۔ان کو چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو نظرانداز کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھاتے رہیں، بہو کےساتھ بیٹی ہی والا سلوک کریں ۔غلطی ہونے پر سمجھائیں ڈاٹیں لیکن دوہرا رویہ ہرگز نہ اپنائیں ۔
چھٹی بات *”سوسائیڈ کسی بھی معاملہ کا حل نہیں”* ۔
عائشہ تو اس دنیا سے چلی گئیں اس لیے میں امت کی دوسری بہنوں سےالتماس کرتا ہوں، بلکہ دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ خدارا ہرگز یہ بزدلانہ قدم نہ اٹھائیں۔اگر واقعی آپ بہت زیادہ تنگ آچکی ہیں کوئی آپ کا سہارا نہیں ہے تو یاد رکھیں کہ ایسے وقت میں ایک خدا ہی کی ذات ہے جو آپ کا سہارا ہے ۔اس کے آگے اپنی جھولی پھیلادیجیے، گڑگڑائیے۔وہ مشکل کشا ہے، وہ مسبب الاسباب ہے وہ ارحم الراحمین ہے ۔وہ ضرور کرم ورحم کی بارش کرے گا۔ان شاءالله ۔اس کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں ۔مزید آپ چاہیں تو سوشل میڈیا کا بھی سہارا لے سکتی ہیں جس طریقہ سے عائشہ نے اپنی خودکشی کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور اس کی گونج پوری دنیا کے اندر پہونچ گئی ۔کاش وہ اس سے پہلے اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے کوئی آواز بلند کرتیں۔اگر وہ کر تی تو یقنا چہارجانب سے اس کی مدد کے لیے کوئی نہ کوئی ضرور آگے آتا لیکن ایسا نہیں ہوا اس لیے ہرگز آپ ایساقدم نہ اٹھائیں اور حالات کا مقابلہ ڈٹ کر اور بہادر بن کریں ان شاء الله ،من جانب اللہ مدد ہوگی۔
میں نے اسی سوشل میڈیا پر بہت ساری زندگی کو بچتے اور بچاتے دیکھا ہے لوگ ان کی مدد کرتے ہیں اور کھل کر کرتے ہیں ۔اس لیے جذبات میں بہہ کر کوئی قدم نہ اٹھائیں ۔
اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور امت کے لیے ہم سب کو نافع بنائے آمین۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close