مضامین

سی اے اے: مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟

محمد یاسین جہازی

سی اے اے: مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟
بھارت کی موجودہ بی جے پی سرکار نے 9 دسمبر 2019 کو فرقہ وارانہ خطوط پر شہری حقوق ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے سی اے اے کو لوک سبھا میں اور 11 دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا میں پاس کردیا ۔ اور پھر12 دسمبر 2019 کوصدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے دستخط ثبت کردیے۔ بعد ازاں 10 جنوری 2020 کو نافذ العمل قرار دے دیا، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کے لیے ابھی تک کوئی رول ریگولیشن نہیں بنایا ہے۔
آج 12 دسمبر 2021 کو اس قانون کو پاس ہوئے دو سال کا عرصہ گذر گیا، اس دوران اس ایکٹ کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں ہزاروں شاہین باغ بنے، لیکن حکومت نے کوئی سبق نہیں لیا؛ لیکن مسلمانوں کو سبق لینے کی اب بھی ضرورت ہے۔ اور وہ ضرورت یہ ہے کہ سی اے اے کے خلاف بیدار ہونے میں ہم نے بہت دیر کردی تھی؛ کیوں کہ اس ایکٹ سے ساڑھے چار سال پہلے سرکار نے 7/ ستمبر 2015کو فورنر آڈر ایکٹ1948 کے پیراگراف 3کے بعداسی طرح کی ترمیم کی تھی، جو ترمیم حقوق شہریت میں کی گئی ہے۔ فورنر ایکٹ میں ترمیم بھی سراسر مذہبی تفریق پر مبنی ہے۔ فورنر ایکٹ میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے اقلیتی افراد، یعنی ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور کرسچن اگرمذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں، تو انھیں شہریت دی جائے گی ، چوں کہ مسلمان ان تینوں دیشوں میں اکثریت میں ہیں، اگر وہ آتے ہیں، تو انھیں شہریت نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح ویزا کی مدت سے زیادہ قیام کرنے پر مسلمانوں سے کئی گنازیادہ جرمانہ لیے جانے کا قانون بنایا گیا ہے۔


بالکل یہی ترمیم 9 دسمبر 2019 کو شہری حقوق ایکٹ میں کی گئی۔ یعنی بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی اقلیتیں یعنی ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور کرسچن،اگر مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوتی ہیں، توانھیں شہریت دی جائے گی؛ ان کے علاوہ اگر کوئی مسلمان اسی وجہ سے بھارت آتا ہے، تو اسے شہریت نہیں دی جائے گی۔
معلومات کے لیے عرض کردوں کہ 9 دسمبر 2019 کو جب لوک سبھا میں اس بل کو پاس کیا گیا، تو سب سے پہلے جمعیت علمائے ہند نے 10 / دسمبر2019کو ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے جمعیت علمائے ہند کےریاستی صدور ونظما کو متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ
”ملک کے دستور اور اس کی روایت کے معارض شہریت ترمیمی بل 2019 (CAB) کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاجی مظاہرہ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جمعیت علمائے ہند کی تمام صوبائی/ ضلعی اور مقامی یونٹوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ 13/ دسمبر 2019 بروز جمعہ اپنے اپنے علاقوں میں خاموش اور پر امن احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کریں۔ اس کی رپورٹ دفتر جمعیت علمائے ہند کو بذریعہ ڈاک یا ای میل ارسال کریں۔ نوٹ: اس موقع پر ہاتھ میں پلے کارڈ اور بازو میں کالی پٹی ضرور باندھیں۔“
بعد ازاں،11/ دسمبر 2019کو جب سی اے بی، سی اے اے بن گیا، یعنی قانون بن گیا، تو جمعیت اسی دن پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ 13/ دسمبر2019بروز جمعہ مزید عزم و حوصلہ اور توانائی کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں پر امن احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کریں اور کلکٹریٹ اور دیگر ذرائع سے صدر جمہوریہ ہند کو میمورنڈم ارسال کریں۔“
چنانچہ پلان کے مطابق 13/ دسمبر 2019کو ملک گیر سطح پر احتجاج ہوا اور دفتری و اخباری رپورٹ کے مطابق دوہزار سے زائد شہروں میں ایک ساتھ احتجاج کیا گیا۔ جنتر منتر دہلی میں منعقد احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ”یہ قانون ملک کے دستور کو پامال کرنے والا ہے، ہم اس کو مسلمانوں کے خلاف نہیں؛ ملک کے خلاف سمجھتے ہیں۔“
پھراسی دن یعنی 13/ دسمبر2019 کی شام کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے طلبہ و طالبات نے جامعہ نگر میں اس کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ یہ پرامن احتجاج تھا اور مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ جانا چاہتے تھے، لیکن پولیس اور طلبہ کے درمیان جھڑپ ہوگئی، جس کی شروعات پولیس نے کی اور لائبریری میں پڑھ رہے طلبہ و طالبات پر لاٹھی چارج بھی کردیا۔
اس حیوانیت سوز واقعہ نے پوری دنیا اور بالخصوص پورے ملک میں بیداری کی ایک لہر پیدا کردی اور پورے بھارت میں جگہ جگہ مظاہرے شروع ہوگئے ۔ پھر 15/ دسمبر2019کو شاہین باغ میں میں احتجاج شروع ہوا، جو سی اے اے کے خلاف احتجاج کا علامتی کردار اور تاریخ کا عنوان بن گیا۔
اگر ہم مسلمان 2015 میں ہی جاگ جاتے اور فورنر ایکٹ کے خلاف شاہین باغ بنالیتے، تو سی اے اے تک نوبت نہیں آتی؛ جب سرکار نے دیکھا کہ مسلمان تو گہری نیندمیں ہیں، اس لیے اس نے آگے ہاتھ بڑھایا اور آنے والوں پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ بھگانے کا بھی خواب دیکھنے لگی۔ لیکن قربان جائیے بھارتی مسلمانوں پر؛ انھوں نے بروقت حرکت کی اور شاہینی کردار ادا کرتے ہوئے ملک گیر پیمانے پر سی اے اے کے خلاف احتجاج درج کراکر یہ ثابت کیا کہ
ہم گہری نیند میں تو ہیں، لیکن مردہ نہیں ہیں۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلم قوم کو مردنی سے بچائے اور نیند بھی مکمل کردے، آمین۔
محمد یاسین جہازی
9891737350

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close