مضامین

شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت اور حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ

ترسیل > محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی 9839171719

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

صوفیائے کرام اور اولیائے عظام علیہم الرّحمہ نے خود بھی قرآن پاک اور سنت نبوی پر عمل کیا اور اپنے حلقۂ عقیدت میں داخل ہونے والوں کو بھی کتاب و سنت کی پیروی کی تاکید فرمائی ۔ ”کشف االمحجوب” حضرت شیخ علی ہجویری معروف بہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ” کی تصنیف ہے۔ جس میں آپ نے طریقت و شریعت کے مباحث پر استدلال کیا ہے۔ کشف المحجوب میں جس طرح حضرت داتا گنج بخش نے قرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف علوم باطنہ کے ماہر تھے بلکہ آپ علوم شر یعت کے بھی غواص تھے اور علم تفسیر و حدیث پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا اور یہ سب کچھ آپ کے مرشد کامل کا فیضان تھا۔ جس کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ خود، فرماتے ہیں کہ میرے مرشد شیخ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی رحمة اللہ علیہ ہیں جو علم تفسیر و حدیث کے عالم تھے۔” وہ مسلک تصوف میں حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کا مذہب رکھتے تھے۔ جب حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ لاہور میں تشریف لائے تو آپ کے قیام کے دوران ہزاروں لوگوں نے آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ لاہور میں قیام کے دوران اپنا تمام وقت تبلیغ اسلام اور تصنیف و تالیف میں صرف فرمایا۔ آپ کے سلسلہ تصوف میں قدم رکھنے سے پہلے تصوف نظری شکل میں موجود تھا۔ پھر جب تصوف نے علم کی دنیامیں قدم رکھا تو رموز طریقت اور اسرار حقیقت پر بھی قلم اٹھایا گیا۔ ابتداء میں تصوف کے بارے میں تذکرہ کرنے والی ساری کتب عربی زبان میں تحریر کی گئی تھیں ۔ پھر آہستہ آہستہ اسے دیگر زبانوں میں منتقل کیا گیا۔ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کی مادری زبان فارسی تھی ۔ اس لیئے آپ نے عوام کے افادہ کے لیے کشف المحجوب کو فارسی زبان میں تصنیف فرمایا۔ جبکہ اس کے علاوہ آپ نے اکثر کتب عربی زبان میں تحریر کیں ۔ جس میں سے اکثر کتابیں معدوم ہو چکی ہیں ۔ کشف المحجوب اپنے موضوع اور مباحث کے اعتبار سے جس قدر بلند پایہ کتاب ہے وہ تعریف و توصیف سے ارفع ہے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے ”اگر کسی کا پیر نہ ہو۔ تو ایسا شخص جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا۔ تو اس کو پیر کامل مل جائے گا ۔

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور حصول علم شریعت

قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت علی ہجویری حصول علم شریعت قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے غزنی کے مختلف مدارس سے اس دور کے مروجہ علوم یعنی عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد علم فقہ‘ علم حدیث وتفسیر‘ علم منطق اور فلسفہ پر عبور حاصل کیا۔ اس طرح آپ کو علم شریعت میں پوری طرح مہارت حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد مختلف شہروں میں علوم ظاہری و باطنی کی سعی کی۔ علمی پختگی حاصل کرنے کے لئے آپ نے جن اساتذہ سے فیض حاصل کیا ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے ۔
شیخ ابوالقاسم‘ عبدالکریم بن ہوازن القشیری، ابوالفضل محمد بن الحسن الختلی، امام ابوالعباس بن محمد اشفانی، شیخ ابوسعید ابوالخیر، خواجہ احمد مظفر بن احمد بن حمدان، ابوالعباس بن محمد قصاب‘ ابو جعفر محمدبن مصباح صدلانی باب فرغانی‘ حضرت ابوعبداللہ بن علی الداغستانی‘ حضرت شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبداللہ گرگانی علیہم الرّحمہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔

کشف المحجوب ایک ایسا علمی شاہکار ہے، جس کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں صحیح اسلامی تصوف نے فروغ پایا۔ اسی وصف خاص کی بدولت آج بھی کشف المحجوب کی قدر و منزلت اتنی ہے جتنی آج سے نو سو برس پہلے تھی ۔

اس کتاب میں تصوف کے طریقے کی تحقیق، اہل تصوف کے مقامات کی حقیقت و کیفیت، ان کے اقوال اور رموزو اشارات کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں صاحب کشف المحجوب جس مسئلہ یا رمز طریقت پر قلم اٹھاتے ہیں اولاً وہ قرآن حکیم اورارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سند لاتے ہیں پھر اس کا استدلال آثار و اخبار سے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کتاب آپ کے بعد کے بزرگان طریقت اور ارباب تصوف کے لیے ہمیشہ مآخذ کا کام دیتی رہی ہے۔
کشف المحجوب نام تحریر کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اے طالبان حق تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اولیاء اللہ اور محبوب بارگاہ ایزدی کے سوا سارا عالم لطیفۂ تحقیق سے محجوب و مستور ہے۔ چونکہ یہ کتاب راہ حق کے بیان، کلمات تحقیق کی شرح اور حجاب بشریت کے کشف میں ہے۔ لامحالہ اس کتاب کے لیے اس کے سوا کوئی نام موزوں نہیں ہو سکتا۔ چونکہ حقیقت کا منکشف ہونا مستور اشیاء کے لیے فنا و ناپید ہونے کا سبب بنتا ہے۔ جس طرح موجود و حاضر کے لیے پردہ حجاب میں ہونا موجب ہلاکت ہے۔ یعنی قرب جس طرح بُعد کی طاقت نہیں رکھتا اس طرح بُعد بھی قرب کی برداشت نہیں رکھتا۔ اسی طرح حقائق اشیاء کے معانی و مطالب اسی پر کھلتے اور منکشف ہوتے ہیں جس کو خاص اسی لیے پیدا کیا گیا ہو۔ ان کے سوائے دوسروں کے لیے یہ ممکن نہیں۔

امام العارفین سید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب شریف میں بڑی اعلیٰ و ارفع بات فرمائی ہے ۔ ”تمام مشائخ اس بات پر متفق ہےں کہ جب بندہ مقامات کی قید سے خلاصی حاصل کر لیتا ہے اسے احوال کی کثافتوں سے رہائی نصیب ہو جاتی ہے وہ دنیا کے تغیر و تبدل سے بے نیاز ہو جاتا ہے تمام حالتوں میں پسندیدہ اوصاف کا مالک بن جاتا ہے اس وقت وہ اپنے تمام اوصاف حمیدہ سے جدا ہو جاتا ہے یعنی اپنی کسی بھی صفت کا خیال بھی دل مےں نہیں لاتا، نہ اسے دیکھتا اور نہ اس پر فخر کرتا ہے تاکہ اس کا مقام عقل کی رسائی سے بلند اور حال وہم و گمان کی دسترس سے بلند ہو جائے ۔
اسی پہلو کی مزید وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : جب سالک اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو دنیا و آخرت کے لئے فنا ہو جاتا ہے اور اس وقت وہ انسانی جسم مےں روح ربانی ہوتا ہے اس کی نگاہ میں سونا اور مٹی برابر ہو جاتے ہیں، اس وقت اس کے لئے احکام شریعت کی ادائیگی نہایت سہل اور آسان ہو جاتی ہے، جو دوسروں کے لئے مشکل ہوتی ہے۔
محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم وہی کام کریں اور وہی بات کریں محبوب خدا نے جس کا حکم فرمایا ہو لیکن ہماری محبت کی ابتری کا یہ عالم ہے کہ سنت مطہرہ کی پیروی مےں شرم محسوس کرتے ہیں۔ شعوری اور غیر شعوری طور پر دشمنان مصطفی کے شعار کو اپناتے جا رہے ہیں، اس سلسلے میں بالکل شرم محسوس نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ! جو بات عزت و افتخار کی ہے وہاں شرم محسوس ہوتی ہے اور جو بات ذلت و رسوائی کی ہے وہاں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ اسی لیے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ دربار رسالت میں اس طرح عرض رساں ہیں :
نعشش پیش طبیباں بردہ ام
درحضور مصطفی آوردہ ام
اور اس طرح عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کی درخواست کرتے ہیں :
اے کہ از احسان تو ناکس، کس است
یک دعایت مزد گفتارم بس است ۔ انسان کی بہتری کےلئے مزید فرماتے ہیں، کیونکہ انہیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دلی محبت تھی۔ ہاں دیکھنا ان اللہ کے پیاروں کے پاس بیٹھنا جن کی صحبت میں آتش عشق بھڑکتی ہے، خبردار! ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھنا جن کی صحبت دل کے ہنگامے سرد کر دیا کرتی ہے۔
شریک حلقہ رندان بادہ پیما باش
حذر زبیعت پیرے کہ مرد غوغا نیست
دامن رسالت سے اس وابستگی اور پیوستگی کی وجہ سے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو دابستگان دامن رسالت مآب سے بھی بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ وہ اس جھوٹی محبت کے قائل نہیں جو صرف محبوب کو چاہے اور اس کے چاہنے والوں کو نہ چاہے۔ اسی نسبت کی وجہ سے وہ اہل بیت کی محبت و الفت کو اپنی زندگی سمجھتے ہےں، وہ فرماتے ہےں کہ میں اس خاندان عالی القدر کی محبت سے زندہ ہوں، نہ صرف زندہ ہوں بلکہ عالم مےں مثل گوہر تابندہ ہوں۔
مسلم اول شہ مرداں علی
عشق را سرمایہ ایمان علی
از ولائے دوز مانش زند ام
درجہاں مثل گوہر تابندہ ام
کلیات اقبال، مطبوعہ ایران (اسرار خودی) میں ایک اور مقام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی عظمت و شوکت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
زیر پائیش ایں جاشکوہ خیبر است
دست او آں جا قسیم کوثر است
از خود آگاہی یداللٰہی کند
از یداللٰہی شہنشاہی کند
دراصل حقیقی شہنشاہ وہ ہے جو یداللہ ہے، اور ید اللہ وہ ہے جو خود آگاہ ہے، شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ یہ اوصاف حمیدہ بیان کر کے امت مسلمہ کو نصیحت کرنا چاہتے ہےں اور یہ بتانا چاہتے ہےں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قوت و شوکت کس طرح حاصل کی تھی، وہی خوبی ہم بھی اگر پیدا کر لیں تو ان کے در سے فیض یاب ہوسکتے ہےں وہ کسی کو ناامید نہیں کرتے، سب کے دامن بھرتے ہےں۔ ان کے مولیٰ نے ان کو بہت کچھ دیا ہے۔

شریعت اور حقیقت کشف المحجوب شریف کی روشنی میں

امام العارفین سید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش نے شریعت اور حقیقت اور ان کے باہمی ربط اور فرق و امتیاز کو کیا احسن طریق واضح کیا ہے، فرماتے ہیں : پس حقیقت ایسے معنی کی تعبیر ہوتی ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قیامت تک اس کی حیثیت ایک جیسی رہتی ہے جیسے معرفت خداوندی اور خاص نیت پر مبنی اعمال شریعت سے مراد وہ معنی ہیں جن میں تغیر و تبدل جائز ہے، جسے احکام و اوامر۔ پس شریعت انسانی فعل ہے اور حقیقت اللہ تعالیٰ کی نگہداشت اس کی طرف سے حفظ و عصمت۔ حقیقت کے باوجود بغیر شریعت مطہرہ کا قائم کرنا مشکل ترین ہے اسی طرح حقیقت کا قیام شریعت کی حفاظت کے بغیر ناممکن ترین ہے مثال کے طور پر یہ ہے کہ جسم میں جان موجود ہے تو انسان زندہ ہے۔ جان نکل جائے تو تن مردہ ہے اور جان (روح) ہوا ہے جسم و جان کی اہمیت باہم ملاپ سے ہے اسی طرح شریعت، حقیقت کے بغیر ریا اور حقیقت بغیر شریعت کے منافقت ہے، ارشاد خداوندی ہے : والدین جاھد و افینا لنھدینھم سبانا (سورة عنکبوت: ۹۲)
ترجمہ : جنہوں نے ہماری راہ مےں جدوجہد کی، ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے ۔ مجاہدہ شریعت ہے اور ہدایت اس کی حقیقت۔ شریعت بندہ کے لئے ظاہری احکام کی حفاظت اور حقیقت بندہ کے باطنی احوال کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ شریعت کا تعلق انسانی کسب سے ہے اور حقیقت کا واسطہ لطف خداوندی سے لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی اور دونوں کے درمیان فرق خودبخود واضح ہوگیا ۔
(کشف المحجوب شریف۔چشتی)

اولیائے کرام و عظام علیہم الرّحمہ چونکہ ہدایت ربانی اور شریعت مطہرہ پر پورے اخلاص سے عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ اس لیئے وہ شریعت مطہرہ اور حقیقت خداوندی ہر دو کا حسین ترین امتزاج بن جاتے ہےں اور ان کی مثال ایک ایسے مہکتے ہوئے پھول کی ہوتی ہے کہ ان کی صحبت مےں بیٹھنے والا اپنے روح و قلب مےں ایک سکون، اطمینان اور خوشگوار پن محسوس کرتا ہے ۔

ایک انگریز، مفکر نے کیا ہی خوب کہا ہے

(یعنی عظیم لوگوں کی زندگی ہمیں یاد دلاتی اور دعوت فکر و عمل دیتی ہے کہ ہم بھی اپنی زندگی کی تعمیر کر کے شاہراہ ترقی پر گامزن ہو سکتے ہیں ۔ عظیم لوگوں کی زندگی زمانے کی شاہراہ پر اپنے نقوش قدم چھوڑ جاتی ہیں تاکہ سالکین راہ، ان پر چل کر اپنی منزل مقصود کو پا لیں) اور یہ ایک امر مسلمہ ہے کہ حضور قبلہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی پاکیزہ زندگی مےں ان کے مرشد کامل حضرت ابوالفضل الختلی کی حیات مبارکہ کا عکس پوری تابانیوں کے ساتھ جھلکتا ہے۔
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اسی لیے کیا خوب فرماتے ہیں :
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
کسی مغربی مفکر و دانشور نے سادگی کی عظمت و تعریف بیان کرتے ہوئے ایک جگہ اس نے سادگی کی صفت سے خود متصف ہونے کی شدید آرزو کا اظہار کیا ہے۔ کسی نے اس بارے میں کیا بے مثال کہا ہے : میں سادہ ہوں تو کیا ہے، سادگی ہی عین فطرت ہے ، ہزاروں رنگ مٹتے ہیں اک سادہ حقیقت پر بناوٹ کفر ہے اور سادگی نور خدا وندی نماز عشق بھاری ہے دکھاوے کی عبادت پر حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نصیحت آموز قول فرماتے ہیں : یعنی ہمارا ٹھکانا فانی ہے، ہمارے احوال عارضی ہےں ہمارے سانس گنے ہوئے ہیں اور ہماری سستی نمایاں ہے ۔
اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے سید ہجویر حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فانی گھر کی تعمیر جہالت ہے عارضی احوال پر اعتماد بےوقوفی ہے گنتی کے سانوں پر دل لگانا غفلت ہے اور کاہلی و سستی کو دین سمجھنا خیانت ہے کیونکہ جو چیز عاریة لی گئی ہے وہ واپس جائے گی جو چیز فانی ہے وہ نہ رہے گی، جو شے گنتی مےں آتی ہے وہ ضرور ختم ہوگی اور کاہلی و سستی کا کوئی علاج نہیں، گویا ہمیں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے متنبہ فرمایا کہ دنیا اور اسباب دنیا اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے ۔ (کشف المحجوب شریف ترجمہ سید محمد فاروق القادری ص:۱۸۱۔چشتی)
امام شریعت و طریقت ، دانائے حقیقت و معرفت ، سرتاج الاولیاءو اصفیا حضرت السید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ کی گداگدی فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرصہ 25 سال سے کر رہا ہے ۔ یہ سرکار داتا رحمۃ اللہ علیہ کے کرم کی انتہا ہے کہ مجھ جیسے سیاہ کار کو اپنی آغوش رحمت میں پناہ دے رکھی ہے ۔ رب کائنات سے دست بادعا ہوں کہ سید ہجویر کے صدقہ میں راقم کو نسبت حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ پر زندگی اور موت عطا فرمائے ۔ (آمین بحرمة سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
اولیاءکاملین و اکملین کا فیض ان کی حیات طیبہ اور بعد ازوصال یکساں جاری و ساری رہتا ہے، ولی اللہ جب اس دارفانی سے داربقا کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو ان کا فیض کئی گنا بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی حین حیات میں خداوند قدوس کو یاد کرتے ہیں اور بعداز وصال صد ملال خداوند قدوس مخلوق خدا کی زبان سے ان کو یاد کرتا ہے اور ان کا مزار پر انوار انوار و تجلیات کا مرکز بن جاتا ہے ۔
قولہ تعالیٰ فاذکرونی اذکرکم یعنی تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
خوا ہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم
خاکے شوم وزیر پائے تو زیم
مقصود من بندہ زکونین توئی
بہر تو یرم وزبرائے تو زیم
ترجمہ : میری سنای ہے کہ اے دوست تیرے قدموں مےں رہوں، سراپا خاک ہو جاﺅں اور تیرے قدموں تلے روندا جاﺅں کیونکہ میرا مطلوب دوجہاں مےں تیرے سوا کچھ نہیں۔ تیرے لئے زندہ ہوں اور تیرے ہی لیے مرتا ہوں کیونکہ ۔
پیر کامل صورت ظل الٰہ
یعنی دیدہ پیر دیدہ کبریا
چونکہ ذات پیر را کر دی قبول
ہم خدا در ذاتش آمد ہم رسول
گرجدا بینی زحق تو خواجہ را
گم کنی ہم متن وہم دیباچہ را
ترجمہ: اگر آپ اطاعت پیر مےں درجہ کمال پیدا کرے تو اسی مےں تمہیں قرب خداوند تعالیٰ اور عشق رسول مقبول حاصل ہوگا۔ اگر تم اطاعت شیخ کو شرک سمجھتے رہے تو کتاب توحید کے مطلب و معنی سے کورے رہ جاﺅ گے ۔
بزرگوں نے فرمایا ہے :
پیر رہ کبریت احمر آمد است
سینہ او بحر اخضر آمد است
یعنی شیخ طریقت کبریت احمر سرخ گندھک یا کیمیا ہے جو اس کے ساتھ لگا سونا ہوگیا۔ پیر کا سینہ وہ چشمہ آب حیات ہے جہاں مردہ قلوب کو زندگی (جاودانی) ملتی ہے ۔

حضرت سیدنا ابوسعید ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت سیدنا داتا علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے رفیق تھے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سیدنا داتا علی ہجویری کی بارگا ہ میں ان اُمورسے متعلق استفسار فرمایا :

(1) طریقِ تصوف کی حقیقت

(2) مقامات ِ صوفیہ کی کیفیت

(3) صوفیہ کے عقائد کی وضاحت

(4) صوفیہ کے رُموز و اِشارات

(5) دلوں میں محبتِ الٰہی کے ظہور کی کیفیت

(6) محبتِ الٰہی کی معرفت میں رکاوٹ بننے والے عقلی اور نفسانی حجابات

(7) ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقے

چنانچہ حضرت سیدنا داتا علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان تمام باتوں کا تفصیلی جواب دینے کے لیے” کشف المحجوب “ کے نام سے عظیم الشان کتا ب تصنیف فرمائی ۔ (سید ہجویر،ص۱۶۶)

تحصیلِ علم ضروری کیوں ؟

علم کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ تحریر فرماتے ہیں : تصوف کی جڑ قوی اور شاخ میوہ دار ہے مگر اس جڑ کو علم کے چشمے سے پانی ملنا چاہیے اس لیے کہ سب بزرگا نِ تصوف اہل علم ہی ہوئے ہیں ۔ (کشف المحجوب،باب اثبات العلم ،ص۱۱۔چشتی)

حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں : خدا وند عزوجل نے ہمیں اس زمانے میں پیدا فرمایا ہے کہ جس میں لوگوں نے نفسانی خواھشات کا نام شریعت ، طلب جاہ ، حب دنیا اور تکبر کا نام عزت و علم ، مخلوق کے سامنے ریاکاری کا نام خوف خدا ، کینہ کو دل میں پوشیدہ رکھنے کا نام برد باری ، فضول جھگڑے کو مناظرہ ، آپس میں جنگ و جدال کا نام بزرگی ، منافقت کا نام زہد ، جھوٹھی آرزو کا نام ارادت، طبعی ہذیان کا نام معرفت ، دلی حرکتوں اور وسوسہ کا نام محبت الہی ، الحاد کا نام فکر ، انکار حق کا نام بزرگی ، بے دینی کا نام فنا ، پیغمبر کی شریعت کے طرق کا نام طریقت ، اور زمانہ والوں کی آفت کا نام مجاہدہ رکھ لیا ہے.یہاں تک کہ معنی اور مطالب کے جاننے والے ان سے بلکل الگ ہو گئے ہیں .

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات

حضرت اداتاعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ تصوُّف کے اعلیٰ مرتبے پر فائز عشقِ حقیقی سے سرشار فنافی اللہ بُزرگ تھے لہٰذا آپ کی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی ،مسلمانوں کی خیرخواہی اور عقائد و اعمال کی اصلاح سےمتعلق مہکتے پھول نظر آتے ہیں آئیے۔ ان میں سے چند اقوال ملاحظہ کیجئے۔

1. کرامت ولی کی صداقت کی علامت ہوتی ہے اور اس کا ظہورجھوٹے انسان سے نہیں ہوسکتا۔

2. ایمان ومعرفت کی انتہا عشق ومحبت ہے اور محبت کی علامت بندگی (عبادت)ہے۔

3. کھانے کے آداب میں سےہےکہ تنہا نہ کھائے اور جو لوگ مل کرکھائیں وہ ایک دوسرے پر ایثار کریں۔

4. مسلسل عبادت سے مقامِ کشف ومشاہدہ ملتا ہے ۔

5. غافل امراء ،کاہل (سُست)فقیر اور جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیز کرنا عبادت ہے ۔

6. سارے ملک کا بگاڑ ان تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے ۔حکمران جب بے علم ہوں،علماء جب بے عمل ہوں اور فقیرجب بے توکل ہوں۔

7. رضاکی دوقسمیں ہیں : (1) خداکا بندے سے راضی ہونا ۔ (2)بندے کا خدا سے راضی ہونا ۔

8. دنیاسرائے فساق وفجار (گنہگاروں کا مقام)ہے اور صوفی کا سرمایہ زندگی محبتِ الٰہی ہے ۔(کشف المحجوب مترجم ، صفحہ ۱۰۴۔چشتی)

9. بھوک کو بڑا شرف حاصل ہے اورتمام امتوں اور مذہبوں میں پسندیدہ ہےاس لیئےکہ بھوکے کا دل ذکی (ذہین)ہوتاہے ، طبیعت مہذب ہوتی ہےاور تندرستی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص کھانے کے ساتھ ساتھ پانی پینے میں بھی کمی کردے تو وہ ریاضت میں اپنے آپ کو بہت زیادہ آراستہ کر لیتا ہے (کشف المحجوب مترجم، ص۵۱۹)۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Hashimazmi78692@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close