مضامین

شیئر مارکیٹ (Share Market)

محمد یاسین جہازی 9891737350

شیئر مارکیٹ (Share Market)
محمد یاسین جہازی
شیئر مارکیٹ (Share Market)کواسٹاک مارکیٹ (Stock Market) اور ایکویٹی مارکیٹ (Equity Market) بھی کہاجاتا ہے۔ یہ ایک ڈیجیٹل مارکیٹ ہے جس میں کمپنی کے حصوں کو خریدا، بیچا جاتا ہے۔ کمپنی کو اگر نفع(Profit) ہوتا ہے، تو اس میں شریک سبھی افراد کو نفع ملتا ہے اور اگر نقصان (Loss) ہوتا ہے۔ تو اس میں سبھی لوگوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اس میں کمپنی کی تشکیل کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کئی لوگ مل کر پیسہ لگاتے ہیں اور نفع و نقصان میں شریک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر زید کے پاس پندرہ ہزار ہے اور پندرہ ہزار بکر کے پاس ہے اور یہ دونوں مل کر پچاس ہزار کی مالیت کی ایک کمپنی بنانا چاہتے ہیں، تو دونوں مل کر پہلے تیس ہزار روپے اکٹھا کریں گے اور بقیہ بیس ہزار کے لیے عام لوگوں کو یہ آفر دیں گے کہ ہماری کمپنی میں پیسہ لگائیں۔اور بیس ہزار کے لیے مثلا ایک سو روپے کا ایک حصہ مقرر کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ لوگ کمپنی کی طرف سے متعین کردہ حصے کی قیمت کے اعتبار سے حصے خریدتے ہیں اور کمپنی میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔
شئیر مارکیٹ کی تاسیسی تاریخ
شئیر مارکیٹ کا آغاز لیدرلینڈ (Netherlands)کے شہر ایمسٹرڈم (Amsterdam) میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی (Dutch East India Company) کے ذریعہ ہوا۔ پہلے زمانہ میں تاجر پیشہ افراد پانی کے جہازوں کے ذریعہ مختلف ممالک کا سفر کیا کرتے تھے، جس کے لیے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہوتی تھی۔اور اتنے بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لیے کسی ایک شخص یا کمپنی کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے 1611 میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مختلف لوگوں کو اپنی کمپنی میں پیسہ لگانے اور منافع میں شرکت کا آفر دیا۔ چنانچہ مختلف لوگوں نے اس میں پیسہ لگایا۔
اس زمانہ میں چوں کہ ممالک کے نقشے دستیاب نہیں تھے اور نہ ہی سمندری حوادث سے بچنے کے لیے مضبوط ٹکنالوجی تھی، جس کی وجہ سے بہت سے جہاز حادثات کے شکار ہوجاتے تھے اور پیسہ لگانے والوں کا پیسہ ڈوب جاتا تھا۔ اس سے لوگوں نے یہ سبق لیا کہ ایک جہاز میں پیسہ لگانے کے بجائے الگ الگ جہازوں میں پیسہ لگانے لگے اور اس طرح شیئر مارکیٹ وجود میں آیا۔
کچھ لوگ ایک جگہ نہیں رہتے تھے؛ بلکہ اپنا گھر اپنے ساتھ لیے پھرتے تھے؛ ایسے لوگوں کے سامنے یہ پریشانی آئی کہ جس جہاز میں پیسہ لگایا ہے، اس کے لوٹنے کے انتظار میں کافی وقت گزارنا پڑتا تھا۔ اور چوں کہ لوٹنے کا کوئی وقت متعین نہیں ہوتا تھا، کبھی مہینوں اور سالوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا؛ اس لیے پیسہ لگانے والے آپس میں ایک دوسرے کو وہ معاہدہ نامہ ہی کمی و بیشی کے ساتھ بیچنے لگے، جو معاہدہ نامہ کمپنی پیسہ لگانے والوں کو دیتی تھی۔ اس طرح شیئر مارکیٹ میں حصے خریدنے اور بیچنے کا عملی تجربہ ہوا۔ چوں کہ یہ تجربہ بہت مفید ثابت ہوا، اس لیے شیئر مارکیٹ کا دائرہ عمل بڑھتا گیا۔ ابتدائی دور میں خرید و فروخت کے لیے ڈوک(Dock) یعنی بندرگاہ میں جانا پڑتا تھا؛ لیکن عصر حاضر میں انٹرنیٹ اور نت نئے ٹکنالوجی کی سہولیات کی وجہ سے اپنے موبائل سے یہ سب کام کرسکتے ہیں۔
مارکیٹ کی قسمیں
بنیادی طور پر یہ مارکیٹ دو طرح کی ہوتی ہے۔
(1) پرائمری مارکیٹ (Primary Market)
(2) سکنڈری مارکیٹ (Secondary Market)
پرائمری مارکیٹ اسے کہا جاتا ہے، جہاں کمپنیاں اپنے شیئر بیچتی ہیں۔ شیئر کی قیمتوں کا تعین لوگوں کے ڈیمانڈ پرہوتا ہے۔ اس کے لیے آج کل رول بنے ہوئے ہیں۔ عمومی طور پر کمپنیاں 50 فی صد سے کم حصے بیچتی ہیں، تاکہ کمپنی کی ملکیت مالک کے پاس برقرار رہے۔
سکنڈری مارکیٹ اسے کہا جاتا ہے، جہاں لوگ آپس میں یا براہ راست کمپنی کے اپنے شیئر خریدتے اور بیچتے ہیں۔ اگر ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے، تو شیئر کے دام بڑھ جاتے ہیں اور کم ہوتی ہے، دام گھٹ جاتے ہیں۔ یہاں دام گھٹانے بڑھانے میں کمپنی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
مختلف کمپنیوں کو جس جگہ منیج کیا جاتا ہے، اس کو اسٹاک ایکسچینج (Stock Exchange)کہتے ہیں۔دنیا کے اکثر ممالک کے پاس اپنے اپنے اسٹاک ایکس چینج ہیں۔ بھارت میں دو بڑے اسٹاک ایکس چینج ہیں: (۱) بمبئی اسٹاک ایکس چینج(BSE)۔جس میں تقریبا پانچ ہزار سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ (۲) نیشنل اسٹاک ایکس چینج(NSE)۔ اس میں ابھی تقریبا 1600 کمپنیاں لسٹیڈ ہیں۔
سینسیکس اور نفٹی
اسٹاک ایکس چینج میں ہزاروں کمپنیاں لسٹیڈ ہیں، جن کے شیئر کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ ان کا مجموعی اندازہ لگانے کے لیے سینسیکس (SENSEX) اور نفٹی ففٹی (Nifty 50) بنایا گیا ہے۔
سینسیکس
SENSEX کا فل فارم Stock Exchange Sensitive Index ہوتاہے۔ یہ اصطلاح BSE میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں بھارت کی 30 بڑی کمپنیوں کے روزانہ کے شئیروں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اوسط ڈیٹا پیش کرکے مارکیٹ کے گھٹنے بڑھنے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کی شروعات 1986 میں کیا گیا تھا، اس وقت سے لے کر تا دم تحریر (10اگست 2021) سینسیکس 54,595.54 تک پہنچ چکا ہے۔ چوں کہ اس میں صرف 30 ہی بڑی کمپنیوں کے ڈیٹا ہوتے ہیں، اس لیے اسے مارکیٹ کا مکمل اندازہ کہنا صحیح نہیں ہے، تاہم اس سے بازار کے رخ کا اندازہ لگ جاتا ہے۔
نفٹی
نفٹی ففٹی (Nifty 50) کا فل فارم (National stock exchange FIFTY) ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح NSE میں استعمال کیا جاتا ہے، جس میں 23 الگ الگ سیکٹر وں کی کمپنیوں کے شیئروں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اوسط ڈیٹا پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی شروعات غالبا 1996 میں ہوئی تھی، اس وقت سے لے کردم تحریر (10اگست 2021) 16,310.10 تک پہنچ گیا ہے۔سردست مارکیٹ میں نفٹی 100، نفٹی 200، نفٹی 500، نفٹی مڈکیپ 50، نفٹی بینک، نفٹی فنائنس سروس موجود ہے۔
پبلک لسٹنگ کمپنی(P.L.C)
جب کسی کمپنی کو پہلی بار اسٹاک ایکس چینج میں لسٹ کرایا جاتا ہے، تو اسے پبلک لسٹنگ کمپنی Publick Listing Company کا نام دیا جاتا ہے۔کمپنی کو لسٹ کرانے کے کچھ قوانین بنے ہوئے ہیں، جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ان قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک بورڈ بنا ہوا ہے، جس کو سیبی (SEBI) یعنی Securities and Exchange Board of India کہاجاتا ہے۔ سیبی لسٹ کرانے والی کمپنیوں کی مالیات اور دیگر شرائط کی جانچ کرتی ہے تاکہ کوئی شخص اسکیم (scam)یعنی دھوکہ نہ کرسکے۔
آئی پی او (IPO)
جب عام لوگوں کو کمپنی میں شراکت کا موقع دیا جاتا ہے، تو اسے (IPO) یعنی انشیل پبلک آوفرنگ(Initial public offering) کہا جاتا ہے۔
پہلے آئی پی او میں اپلائی کرنے کے لیے بینک جانا پڑتا تھا، لیکن ڈیجیٹل سسٹم آنے کی وجہ سے اپنے ڈیمیٹ اکاونٹ کے آئی پی او آپشن میں جاکر بآسانی آئی پی او میں اپلائی کرسکتے ہیں۔ جتنے روپے کا آئی پی او ہوگا، اتنے روپے اکاونٹ میں بلاک ہوجائے گا۔ آئی پی او ملنے پر اتنے پیسے اکاونٹ سے کٹ جائیں گے اور نہ ملنے کی صورت میں دو چار دن بعد از خود اکاونٹ میں واپس آجائیں گے۔
شیئر اکاونٹ
کمپنی کے شیئر خریدنے کے لیے دو اکاؤنٹ کی ضرورت ہوتی ہے:
(1) بینک اکاؤنٹ(Bank Account)۔
(2) ڈیمیٹ اکاؤنٹ(Demat Account)۔
شیئر مارکیٹ میں براہ راست خریدو فروخت کے لیے پہلے اسٹاک ایکس چینج کی بلڈنگ میں جانا پڑتا تھا، لیکن آج کل ایسے ادارے یا بینک موجود ہیں، جو آپ کو آن لائن یہ سہولیات فراہم کرتے ہیں، انھیں بروکر(Broker) کہا جاتا ہے۔ یہ ادارے اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے کچھ فیس لیتے ہیں، اسے بروکریج فیس (Brokerage Fee)کہا جاتا ہے۔ آئی آئی سی، ایچ ڈی ایف سی، ایس بی آئی وغیرہ بینکوں میں اور شیر خان، انجل بروکرنگ، زیرودھا وغیرہ مشہور بروکر کمپنیاں ہیں۔ آپ اپنے کسی بھی بینک اکاؤنٹ کے ذریعہ آن لائن خود سے بروکر کمپنیوں میں اپنا اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں۔
بُل (Bull) اور بیئر(Bear)
شیئر مارکیٹ کی یہ دو خاص اصطلاحیں ہیں۔بُل بیل کو کہاجاتا ہے۔ جب مارکیٹ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے، تو اسے بُل مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مارکیٹ Bullish ہے۔ اور جب مارکیٹ نیچے گرتا ہے،تو اسے بیئر مانا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس وقت مارکیٹ Bearish ہے۔ شیئر بازار میں تقریبا گیارہ جانوروں کے نام پر انویسٹر کے نام رکھے گئے ہیں؛ لیکن بالعموم یہ اصطلاحات نادر الاستعمال ہیں۔
خریدو فروخت کی شکلیں
بنیادی طور پر شیئر مارکیٹ میں خریداری کی درج ذیل شکلیں ہیں:
(1) انٹرا ڈے ٹریڈینگ(Intraday Trading)
(2) سوینگ ٹریڈنگ (Swing Trading)
(3) شورٹ ٹرم ٹریڈنگ (Short term Trading)
(4) لونگ ٹرم ٹریڈنگ (Long term Trading)
(5) فیوچر اینڈ آپشن(Futures and Options)
(6) کال آپشن(Call Option)
(7) پُٹ آپشن(Put Option)
انٹرا ڈے ٹریڈینگ(Intraday Trading)
انٹرا ڈے ٹریڈنگ کا مطلب یہ ہے کہ جس دن خریدا جائے، اسی دن بیچ دیا جائے۔ اس ٹریڈنگ میں بروکر یہ سہولیت بھی دیتا ہے کہ آپ کم پیسے میں بھی زیادہ مالیت کے شیئر خرید سکتے ہیں۔ جسے مارجن منی (Margin Money) کہاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے اکاونٹ میں دس ہزار ہے، تو آپ ایک لاکھ تک کی مالیت کے شیئر خرید سکتے ہیں۔ لیکن اس میں بروکر یہ کرتا ہے کہ آپ اگر مارجن منی پر خریدے شیئر کو اسی دن بیچ دیتے ہیں، تو ٹھیک ہے؛ نہیں تو بروکرڈیلی بیسیس پر چارج لگاتا رہے گا۔
سوینگ ٹریڈنگ (Swing Trading)
یہ انٹرا ڈے ٹریڈنگ کی ہی طرح ہے؛ البتہ اس میں شیئر خریدنے کے بعد ایک دن کے بجائے ایک ہفتہ یا کئی ہفتوں کا وقت رہتا ہے۔ جس دن شیئر خریدا ہے، اسی دن بیچنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ کئی ہفتوں کے بعد بھی بیچ سکتے ہیں۔
شورٹ ٹرم ٹریڈنگ (Short term Trading)
مہینہ، دو مہینے جیسی مختصر مدت کے لیے خرید و فروخت کرنے کو شورٹ ٹرم ٹرینڈنگ کہا جاتا ہے۔
لونگ ٹرم ٹریڈنگ (Long term Trading)
اس ٹریڈنگ میں ایک سال سے پانچ سال تک کی مدت کے لیے خرید و فروخت کیا جاتا ہے۔
(۱) ایکویٹی (Equity)
ایکویٹی کا مطلب ہوتا ہے، کسی کمپنی میں ملکیت(Ownership) خریدنا۔ اس کو اس مثال سمجھتے ہیں کہ دو آدمی نے ایک ایک ہزار لگاکر دو ہزار کی ایک کمپنی بنائی۔ اور کمپنی کے حصے کو ایک ایک سو روپے میں تقسیم کرکے بیس شیئر میں تقسیم کردیا۔ ابھی دونوں کے پاس دس دس شیئر ہیں۔ پھر اس کمپنی کوترقی کے لیے مزید ایک ہزار روپے کی ضرورت پڑی، تو اس پیسے کو حاصل کرنے کے لیے دونوں شراکت داروں نے اپنے پانچ پانچ شیئر کو بیچنے کے لیے آئی پی او(IPO) نکالا، یعنی عام لوگوں کو دعوت دی کہ وہ اس کمپنی کے شیئر کو خریدیں اور ایک شیئر کا دام دو سو روپے رکھا، تاکہ کمپنی کو ایک ہزار روپے مل جائے۔ چنانچہ لوگوں نے کمپنی کے شیئر خریدنا شروع کردیے۔ جولوگ جتنا زیادہ شیئر خریدیں گے، وہ کمپنی کا اتنی ہی فی صد کا حصہ دار اور مالک ہوگا۔ اسی کو ایکویٹی مارکیٹ کہاجاتا ہے۔
(۲) ڈیری ویٹیو(Derivative)
ڈیری ویٹیو کا مطلب ہے کہ جس کی اپنی کوئی قدرو قیمت نہ ہو؛ بلکہ کسی اور چیز کی وجہ سے اس کی قدرو قیمت ہو۔ اس کو اس مثال سے سمجھتے ہیں کہ فرض کیجیے کہ ایک شخص 10جنوری کو ہونے والے کرکیٹ میچ کا ٹکٹ خریدنے گیا، لیکن ٹکٹ ختم ہوگیا جس کی وجہ سے اسے نہیں مل پایا۔ اس کا ایک دوست ٹکٹ کاونٹر میں کام کرتا تھا، اس نے ایک لیٹر لکھ کر دیا اور کہا کہ ابھی ٹکٹ کا جو ریٹ مثلا سو روپے ہے، وہ دے دو۔ ٹکٹ چھپ کر آنے کے بعد ٹکٹ کا ریٹ چاہے کتنا بھی بڑھ جائے، آپ اس لیٹر کو دکھا دیں گے، تو آپ کو سو ہی روپے میں ٹکٹ دیا جائے گا۔
تو فی الحقیقت اس لیٹر کی کوئی قیمت نہیں ہے، لیکن چوں کہ وہ لیٹر ٹکٹ کے معاملہ سے جڑا ہوا ہے، لہذا اس کی قیمت بھی ٹکٹ کے برابر ہوگئی، یعنی اس لیٹر کی قدرو قیمت ٹکٹ کی وجہ سے بنی ہے۔اس میں اصل مال تو ٹکٹ ہے، جس کو (Underlying Asset) اسی کو ڈیری ویٹیو کہا جاتا ہے۔ اور لیٹر ڈیری ویٹیو ہے۔
اب یہاں ایک اور پہلو سے غور کیجیے کہ اگر دس تاریخ کو اس نے لیٹر دکھا کر ٹکٹ نہیں خریدے، تو 11 تاریخ کو اس لیٹر کی کوئی ویلیو نہیں رہے گی۔ اور وہ کاغذ کا صرف ایک ٹکڑا رہ جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیری ویٹیو میں جو معاہدہ کیا جاتاہے، وہ وقت کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ وقت گذرجانے کے بعد اس کی ویلیو زیرو ہوجاتی ہے۔ اس کو ایکسپائیری ڈیٹ (Expiry Date) کہا جاتا ہے۔ شیئر مارکیٹ کی اصطلاح میں اس کو فیوچر اینڈ آپشن(Futures and Options) کہا جاتا ہے۔ اور اس کی بنیادی طور پر چار شکلیں ہوتی ہیں:
(۱) فارورڈ کانٹریکٹ(Forward contract)
(۲) فیوچر کانٹریکٹ (Future contract)
(۳) آپشن (Option)
(۴) سویپس (swaps)
(۳)کرنسی(Currency)
پرانے زمانے میں آپسی لین دین کے لیے ایک سامان کے بدلے کوئی دوسرا سامان ہی دے دیا جاتا تھا، جس سے بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بعد میں لوگوں نے آسانی کے لیے کرنسی بنائی۔ آج دنیا میں سبھی ملکوں کے پاس اپنی اپنی کرنسی موجود ہے، ایک ملک کی کرنسی کو دوسرے ملک کی کرنسی کے بدلے خریدنے بیچنے کو کرنسی مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ کرنسی کی خریداری فیوچر آپشن میں ہوتی ہے، یعنی صرف مارجن منی دے کر کرنسی خریدی جاتی ہے۔
کرنسی فیوچر میں میں ایک دو کرنسی خریدنے بیچنے کے بجائے لوٹ سائز میں خریدنا بیچنا ہوتا ہے۔اس میں ایک ایک سال تک کے لیے خرید کر رکھا جاسکتا ہے۔ اس کا دوسرا نام فوریکس مارکیٹ(Forex) بھی ہے۔
قانونی اعتبار سے بھارت میں صرف چارہی کرنسی خریدنے بیچنے کی اجازت ہے: یو ایس ڈالر، یورو، جاپانی یان اور برٹش پاونڈ۔ یہ مارکیٹ صبح نو بجے کھلتی ہے اور شام پانچ بجے تک چلتی ہے۔ چوں کہ اس میں ڈیری ویٹیو کی بنیاد پر ٹرانزیکشن ہوتا ہے، اس لیے کافی رسکی ہوتا ہے۔
(۴) کمو ڈیٹی(Commodity)
قدرتی چیزوں کو کموڈیٹی کہا جاتا ہے۔ بھارت میں کموڈیٹی میں دو چیزیں آتی ہیں:
(۱) کھیت کی پیداوار(Agri- Commodity)۔
(۲) غیر کھیتی پیداوار(Non-Agri Commodity)۔
پہلی قسم میں کھیت سے پیدا ہونے والی چیزیں جیسے آلو، گہیوں، چاول وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری قسم میں
۱۔ (Base Metal) بیس میٹل۔ اس میں المونیم،تانبا۔
۲۔ (Precious Metal) پریشیش میٹل۔ اس میں سونا اور چاندی آتا ہے۔
۳۔ (Energy) انرجی۔ اس میں کچا تیل اور گیس آتا ہے۔
اس میں بھی فیوچر میں خریداری کی جاتی ہے، جس میں صرف مارجن منی دے کر ان چیزوں کو خریدا بیچا جاسکتا ہے۔اور ایکسپائری مدت بھی ہوتی ہے۔
(۵) میچول فنڈ(Matual Fund)
اس میں رقم کسی ایک کمپنی کو دے دیا جاتا ہے۔ کمپنی ان پیسوں سے تجارت کرتی ہے اورکمائی کے اعتبار سے آپ کو فکس نفع دیتی ہے۔ کمپنی الگ الگ بزنس کے اعتبار سے منافع کماتی ہے اور اسی حساب سے انویسٹ کرنے والوں کو نفع دیتی ہے۔ منافع اور وقت کے اعتبار سے نفع ریٹ بدلتا رہتا ہے۔ اس لیے میچول فنڈ کی درجنوں شکلیں ہوتی ہیں، جو کمپنی مختلف آفر کی شکل میں پیش کرتی ہے۔
فیوچر اینڈ آپشن(Futures and Options)
اس کو شورٹ میں (F & O) کہاجاتا ہے۔ اس میں (Derivative)یعنی اشتقاق کی بنیاد پر کام ہوتا ہے۔ ڈرائیویٹیو اس کو کہا جاتا ہے، جس کی اپنی کوئی قیمت نہ ہوتی؛ بلکہ کسی دوسری وجہ سے اس کی قدرو قیمت ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں اس کی قیمت دوسری وجہ سے مشتق ہے۔اس کو اس مثال سے سمجھتے ہیں کہ سو روپے کا نقلی نوٹ بھی ایک کاغذ ہے اور اصلی نوٹ بھی ایک کاغذ ہے۔ اورکاغذ ہونے کی وجہ سے اس کاغذ کی کوئی قیمت نہیں ہے؛ لیکن چوں کہ سرکار نے سو والے اصلی نوٹ کی ضمانت دے رکھی ہے؛ اس لیے سرکار کی اس ضمانت کی وجہ سے اصلی نوٹ والے کاغذ کی قیمت سو روپے ہے۔ تو سو روپے کے نوٹ کی قیمت سرکار کی ضمانت سے (Derivative) یعنی مشتق ہے۔
ڈرائیویٹیو کی بنیادی طور پر چار قسمیں ہوتی ہیں:
(۱) فارورڈ کانٹریکٹ(Forward contract)
(۲) فیوچر کانٹریکٹ (Future contract)
(۳) آپشن (Option)
(۴) سویپس (swaps)
(۱) فارورڈ کانٹریکٹ(Forward contract)
فارورڈ کانٹریکٹ اس صورت کو کہا جاتا ہے جب کہ مال ابھی تیار نہ ہوا ہو اور پیشگی اس کو بیچ دیا جائے۔ اس کو اس مثال سے سمجھتے ہیں کہ ابھی مارکیٹ میں آلو دس روپے کلو فروخت ہورہا ہے؛ لیکن کسان کی فصل ابھی تیار نہیں ہوئی ہے۔ اسے تیار ہونے میں ابھی ایک مہینہ لگے گا، تو ایک کسان اپنے آلو کی کھڑی فصل کوتیار ہونے سے ایک مہینہ پہلے ڈائریکٹ کمپنی کو یہ سوچ کر بیچتا ہے کہ کہیں فصل تیار ہوتے وقت آلو کیپیداوار زیادہ ہونے کی وجہ سے قیمت کم نہ ہوجائے۔ اور کمپنی والا اس نیت سے خریدتا ہے کہ کہیں آلو تیار ہوتے وقت مہنگا نہ ہوجائے۔ چنانچہ کسان اور کمپنی دونوں اپنے اپنے فائدے کے مطابق مثال کے طور پر پانچ روپے کلو معاملہ طے کرلیتا ہے۔ اب فصل تیار ہونے کے بعد کمپنی کو آلو دیتے وقت خواہ آلو کی قیمت تین روپے کلو ہو یا پندرہ روپے کلو ہو، طے شدہ معاملہ کے مطابق پانچ روپے میں بیچنااور خریدنا ضروری ہے۔ اس صورت فارورڈ کانٹریکٹ کہا جاتا ہے۔
(۲) فیوچر کانٹریکٹ (Future contract)
فیوچر کانٹریکٹ کا مطلب یہ ہے کہ براہ راست کوئی چیز خریدنے کے بجائے، اس چیز کے ویلیو کی کوئی چیز خریدی جائے۔ اس کو اس مثال سے سمجھتے ہیں کہ ایک زمین کی قیمت مثلا ایک لاکھ روپے ہے، اور جس کے پاس ربڑ کا یہ ٹوکن ہوگا، اس کو یہ زمین مفت میں دے دی جائے گی۔ تو اس ربڑ کے ٹوکن کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہے، چوں کہ اس کو ایک لاکھ کی زمین سے جوڑ دیا گیا ہے، لہذا اس ٹوکن کی قیمت بھی ڈرائیو ہوکر ایک لاکھ ہوگئی۔ اب زمین کو بیچنے خریدنے کے بجائے اس ٹوکن کو ہی خریدتے بیچتے ہیں، یہی فیوچر کانٹریکٹ کہلاتا ہے۔
فیوچر کانٹریکٹ، فارورڈ کانٹریکٹ کی ہی طرح ہے؛ البتہ دونوں میں درج ذیل فرق پایا جاتا ہے:
(۱) فارورڈ کانٹریکٹ میں بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان کوئی ثالث (Moderator) نہیں ہوتا، اس لیے کوئی بھی فریق معاملہ چھوڑ کر بھاگ سکتا ہے۔ جب کہ فیوچر کانٹریکٹ میں اسٹاک ایکس چینج(بروکر) ثالث ہوتا ہے، جو فریق کو معاملہ چھوڑ کر بھاگنے نہیں دیتا اور کوئی اگر بھاگ جائے گا، تو اس کے لیے اسٹاک ایکس چینج ذمہ دار ہوگا۔
(۲) فارورڈ میں خریدنے اور بیچنے والے کو از خود تلاش کرنا پڑتا ہے، جب کہ فیوچر میں خریدنے اور بیچنے والے کو اسٹاک ایکس چینج ڈھونڈھ کر لاتا ہے۔
(۳) فارورڈ میں طے کردہ کانٹریکٹ (Order) کو کینسل کرنا دشوار ہوتا ہے۔ اس میں اسی وقت لین دین کو ختم کرسکتے ہیں، جب کہ بیچنے اور خریدنے والا دونوں اس معاملہ پر راضی ہو، جب کہ فیوچر میں بیچنے یا خریدنے والا کوئی بھی ایک فریق کسی بھی وقت کانٹریکٹ کو ختم کرسکتا ہے۔
(۴) فارورڈ میں طے کردہ کانٹریکٹ میں رد و بدل(Modification) نہیں کرسکتے، جو طے ہوگیا ہے، اسی پر خرید و فروخت کرنا ضروری ہے، جب کہ فیوچر میں کانٹریکٹ کی قیمت میں کسی بھی وقت رد وبدل کیا جاسکتا ہے۔
(۵) فارورڈ میں چوں کہ کوئی ثالث نہیں ہوتا، تو اس کے لیے کوئی قیمت بھی دینی نہیں پڑتی۔ اور فیوچر میں چوں کہ اسٹاک ایکس چینج یعنی بروکر ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے، جو خریدنے یا بیچنے والے کو کانٹریکٹ چھوڑ کر بھاگنے سے روکتا ہے، لہذا اس کے لیے بروکر چارج لگاتا ہے، جسے مارجن منی کہاجاتا ہے۔
فیوچر کی خریداری مدت
عمومی طور پر فیوچر میں خریدو فروخت کے لیے تین ایکس پائری (Expiry Date) مدت ہوتی ہے:
(۱) رواں مہینہ: جس مہینہ میں خریداری کی ہے، اس کی آخری جمعرات کو شیئر کی مدت ختم ہوجائے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس مدت تک نہیں بیچا تو بروکر از خود بیچ دے گا، خواہ نفع ہو یا نقصان۔
(۲) اگلا مہینہ: اس میں رواں اور اگلا مہینہ کی مدت بھی شامل ہوتی ہے۔
(۳) تین مہینہ: اس میں شیئر بیچنے کے لیے تین ماہ کی مدت ہوتی ہے۔
فیوچر میں شیئر کے بجائے لوٹ(Lot) خریدا جاتا ہے۔ اور ایک لوٹ میں سیکڑوں شیئر ہوتے ہیں۔ فیوچر میں خریداری کرنے کے لیے شیئر کا مکمل روپے نہیں دینا پڑتا؛ بلکہ صرف مارجن منی (Margin Mony) دینا پڑتا ہے، جو الگ الگ کمپنیوں میں الگ الگ فی صد میں ہوتا ہے، جو بالعموم بیس فی صد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس کو اس مثال سے سمجھتے ہیں کہ ایرٹیل کمپنی کا ایک شیئر دس ہزار روپے کا ہے۔ اور ایک لوٹ (جس میں مثلادس شیئر ہوتے ہیں) بھی دس ہزار کا ہے۔ اگربراہ راست شیئر خریدیں گے، تو دس ہزار میں ایک ہی شیئر ملے گا، جب کہ اسی دس ہزار میں ایک لوٹ کی شکل میں دس شیئر مل جائیں گے۔اس لوٹ کو آپ اصل چیز کے بجائے ٹوکن سمجھ سکتے ہیں۔
اب یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگاکہ ہم شیئر کو ہی کیوں نہ خریدیں، ہم ٹوکن (لوٹ) کیوں خریدیں؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شیئر خریدنے کی شکل میں دس ہزار میں ایک ہی شیئر ملے گا، جب لوٹ خریدنے کی شکل میں اتنے ہی روپے (دس ہزار) میں دس شیئر مل جائیں گے۔ اور اس کا براہ راست اثر نفع اور نقصان پر پڑے گا۔ نفع کی مثال کو اس طرح سمجھیں کہ اگر دس ہزار کا ایک شیئر خریدا اور اس کی قیمت دو ہزار بڑھ کر بارہ ہزار ہوگئی، تو یہاں نفع صرف دو ہزار کا ہوگا۔ اور دس ہزار میں دس شیئر کا ایک لوٹ خریدا، اور اس کی قیمت دو ہزار بڑھ کر بارہ ہزار ہوگئی، تو ہر شیئر میں دو ہزار کے نفع کے اعتبار سے دس شیئر کا نفع بیس ہزار ہوگا، تو لوٹ خریدنے کی شکل میں دو ہزار کے بجائے بیس ہزار کا نفع ہوگا۔
اسی طرح نقصان کی مثال سمجھیں کہ اگر دس ہزار کا ایک شیئر خریدا اور اس کی قیمت دو ہزار گھٹ کر آٹھ ہزار ہوگئی، تو یہاں نقصان صرف دو ہزار کا ہوگا۔ اور دس ہزار میں دس شیئر کا ایک لوٹ خریدا، اور اس کی قیمت دو ہزار گھٹ کر آٹھ ہزار ہوگئی، تو ہر شیئر میں دو ہزار کے نقصان کے اعتبار سے دس شیئر کا نقصان بیس ہزار ہوگا، تو لوٹ خریدنے کی شکل میں دو ہزار کے بجائے بیس ہزار کا نقصان ہوگا۔اور چوں کہ آپ نے دس ہی ہزار دیے ہیں اور نقصان بیس ہزار کا ہورہا ہے، تو اس شکل میں بروکر (Moderator)ثالثی کرتے ہوئے آپ سے مزید دس ہزار جمع کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گا اور جمع نہ کرنے کی شکل میں کوئی پینالٹی لگا سکتا ہے، یا آپ کے دوسرے شیئر کو سیز کرسکتا وغیرہ کرسکتا ہے۔
(۳) آپشن (Option)
آپشن کا مطلب ہے کہ آپ کو اختیار ہے، چاہے یہ کام کریں یا نہ کریں۔ ٹریڈنگ میں اس کو اس مثال سے سمجھتے ہیں کہ ایک ٹی وی کمپنی(مثلا جہازی میڈیا) کا شیئر اس وقت سو روپے چل رہا ہے، اور اس نے اگلے مہینے ہونے والے آئی پی ایل کو اپنی ٹی وی(جہازی میڈیا) پر دکھانے کے لیے بڈ لگا رکھا ہے۔اگر یہ بڈ مل گیا، تو اس کے سو روپے کا شیئر بڑھ کر دو سو روپے ہوجائے گا۔ لیکن دو اور کمپنیوں نے بھی بڈ لگا رکھا ہے، جس سے یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر جہازی میڈیا کو بڈ نہیں ملا، تو اس کے سو روپے کا شیئر گھٹ کر پچاس روپے ہوجائے گا۔ اب یہاں خریدنے والا کوئی رسک لینا نہیں چاہتا، تو جہازی میڈیا یہ آپشن دیتا ہے کہ آپ ابھی ہمیں صرف بیس روپے دے دیں، بڈ ملنے کے بعد خواہ شیئر کا دام بڑھ کر دو سو روپے ہوجائے، یا گھٹ کر پچاس روپے ہوجائے، میں آپ کو یہ شیئر جو ریٹ ابھی چل رہاہے، یعنی سو روپے میں ہی آپ کو دوں گا۔
اب آپ نے بیس روپے دے کر شیئر کی بکنگ کرلی۔ یہ بیس روپے جو آپ نے دیا ہے، اسے پریمیم منی(Premium Money) کہا جاتا ہے۔ اب مان لیجیے کہ اگلے مہینے جہازی میڈیا کا شیئر سو روپے سے بڑھ کر دو سو روپے ہوگیا، تو یہاں آپ کو اسی روپے کا فائدہ ہوا؛ کیوں کہ بیس روپے آپ نے پہلے ہی دے دیا تھا، اورسو روپے شیئر کی قیمت طے کی گئی تھی، تو ایک سو بیس روپے گویا شیئر کی قیمت ہوگئی اور بقیہ اسی روپے آپ کا فائدہ ہوا۔
اب مان لو کہ جہازی میڈیا کا شیئر جو سو روپے چل رہا تھا، اگلے مہینے سو روپے سے گھٹ کر پچاس روپے ہوگیا، تو یہاں آپ کو صرف بکنگ اماونٹ بیس روپے کا ہی نقصان ہوگا؛ کیوں کہ جوسو روپے کا شیئر، بکنگ اماونٹ بیس روپے میں خریدنے کی قیمت طے کی گئی تھی،(جس کی موجودہ قیمت پچاس روپے ہوگئی ہے) اسے سو روپے میں خریدنے کے لیے جائیں گے ہی نہیں۔ کیوں کہ ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا کہ جو چیز ابھی پچاس روپے میں مل رہی ہے، اسے کوئی سو روپے دے کر خریدے گا۔اس لیے بکنگ اماونٹ یعنی صرف دیا ہوا پریمیم ہی کا نقصان ہوگا۔
آپشن کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
(۱) کال آپشن (Call Option)
(۲) پٹ آپشن (Put Option)
کال آپشن(Call Option)
جب شیئر کا دام آگے بڑھتا ہے، تو اس وقت کال آپشن میں خریداری کی جاتی ہے۔ اور جب شیئر کے دام گھٹتے ہیں، تو نقصان سے بچنے کے لیے کال آپشن کو بیچا جاتا ہے۔اس میں مارکیٹ جب بڑھتا ہے، تو فائدہ ہوتا ہے اور مارکیٹ گرتا ہے، تو نقصان ہوتا ہے۔ اس میں ایک یا دو شیئر خریدنے کے بجائے لوٹ(Lot) خریدا بیچا جاتا ہے۔ نفٹی کے ایک لوٹ میں 75 شیئر ہوتے ہیں۔ اس کی خریداری کی ایک مدت ہوتی ہے۔ جو ہر مہینے کی آخری جمعرات کو ایکسپائر (ختم) ہوجاتی ہے۔اس کا شورٹ فارم (CE)لکھا آتا ہے۔کال آپشن کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ مان لیجیے کہ نفٹی کی قیمت اگر 10,000 ہے۔ اور اگست کے مہینے کے شروع میں کال کی خریداری کرتے ہیں۔ جس کے ایک لوٹ کی حالیہ قیمت 200 ہے۔ اور نفٹی میں کم از کم 75شیئر کا ایک لوٹ خریدنا ضروری ہوتا ہے۔ تو حالیہ قیمت (200) کو لوٹ (75) شیئر سے ضرب دیں گے، جس کا حاصل 15,000 آئے گا۔ تو 15,000دے کر ہم ایک لوٹ یعنی 75 شیئر خرید لیں گے۔ یہ 15,000 مارجن منی(Margin Money) کہلاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نقصان ہوگا، تو اسی پیسے میں نقصان ہوگا۔ چوں کہ کال میں شیئر کے دام بڑھنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ تو مان لیجیے کہ اگست کی ایکسپائری کا دن یا اس سے پہلے نفٹی کی قیمت 10,000 سے بڑھ کر10,500 ہوجاتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شیئر پر500 کا فائدہ ہوا۔ چوں کہ ایک لوٹ یعنی 75 شیئر خریدے گئے ہیں، تو 75 کو 500 سے ضرب دیں گے، جس کا حاصل 37,500 ہوگا، اس میں چوں کہ 15,000 روپے ہمارا پیسہ لگا ہوا ہے، تو اس کو 37,500 سے مائنس کریں گے، جس کا حاصل 22,500 ہوگا۔ تویہ 22,500 ہمارا نفع ہوگا۔
اسی طرح مان لیجیے کہ نفٹی 500 کے بجائے صرف 200 روپے بڑھتی ہے، تواس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شیئر پر200 کا فائدہ ہوا۔ چوں کہ ایک لوٹ یعنی 75 شیئر خریدے گئے ہیں، تو 75 کو 200 سے ضرب دیں گے، جس کا حاصل 15,000 ہوگا، اس میں چوں کہ 15,000 روپے ہمارا پیسہ لگا ہوا ہے، تو اس کو 15,000سے مائنس کریں گے، جس کا حاصل 0000ہوگا۔ تو اس صورت میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
پُٹ آپشن(Put Option)
یہ کال آپشن کے برعکس ہوتا ہے۔ جب شیئر کا دام گرتا ہے، تو پُٹ آپشن(Put Option) میں خریداری کی جاتی ہے۔ اور جب شئیر کا دام بڑھتا ہے، تو پُٹ آپشن(Put Option) کو بیچ دیا جاتا ہے۔ اس میں مارکیٹ گرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور بڑھنے سے نقصان ہوتا ہے۔ اس میں ایک یا دو شیئر خریدنے کے بجائے لوٹ(Lot) خریدا بیچا جاتا ہے۔ اس کی خریداری کی ایک مدت ہوتی ہے۔ جو ہر مہینے کی آخری جمعرات کو ایکسپائر (ختم) ہوجاتی ہے۔ اس کا شورٹ فارم (PE)لکھا آتا ہے۔ پٹ کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ مان لیجیے کہ نفٹی کی قیمت اگر 10,000 ہے۔ اور اگست کے مہینے کے شروع میں پُٹ کی خریداری کرتے ہیں۔ جس کے ایک لوٹ کی حالیہ قیمت 200 ہے۔ اور نفٹی میں کم از کم 75شیئر کا ایک لوٹ خریدنا ضروری ہوتا ہے۔ تو حالیہ قیمت (200) کو ایک لوٹ (75) شیئر سے ضرب دیں گے، جس کا حاصل 15000 آئے گا۔ تو پندرہ ہزار دے کر ہم ایک لوٹ یعنی 75 شیئر خرید لیں گے۔ یہ 15,000 مارجن منی(Margin Money) کہلاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نقصان ہوگا، تو اسی پیسے میں نقصان ہوگا۔ چوں کہ پٹ میں شئر کے دام بڑھنے سے نقصان ہوتا ہے۔ تو مان لیجیے کہ اگست کی ایکسپائری کا دن یا اس سے پہلے نفٹی کی قیمت 10,000 سے بڑھ کر11,000ہوجاتی ہے، تو آپ کا 15,000 کادیا ہوا پریمیم کا مکمل پیسہ ڈوب جائے گا۔
اورچوں کہ پٹ میں شئر کے گھٹنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ تو مان لیجیے کہ اگست کی ایکسپائری کا دن یا اس سے پہلے نفٹی کی قیمت 10,000سے گھٹ کر 9,500 رہ جاتی ہے، یعنی نفٹی 500 پوائنٹ نیچے آتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ہر شیئر میں 500روپے کا فائدہ ہوا۔ چوں کہ آپ نے 75 شیئر خریدا ہے، تو 75 کو 500 میں ضرب دیں گے تو حاصل 37,500 روپے آئے گا، تو 37500 روپے ہمیں فائدہ ہوگا۔ چوں کہ 15,000 ہم نے پریمیم دے رکھا ہے تو اس کو 37,500 میں گھٹا دیں گے، جس کا حاصل 22,500 آئے گا۔ تویہ 22,500 ہمارا نفع ہوگا۔
اب مان لیجیے کہ نفٹی 500 گرنے کے بجائے صرف 200 پوائنٹ گرتی ہے اور ایکس پائری کے دن 9,800 باقی رہتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شیئر میں 200 روپے کا فائدہ ہوا۔ تو 75 کو 200 میں ضرب دیں گے، جس کا حاصل 15,000 ہزار آئے گا۔ چوں کہ ہم نے پٹ خریدنے کے لیے 15,000 ہزار کا پریمیم دے رکھا ہے، تو یہاں کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح مان لیجیے کہ نفٹی صرف 100 پوائنٹ نیچے گرتی ہے اور ایکس پائری کے دن 9,900 باقی رہتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شیئر میں صرف 100 روپے کا فائدہ ہوا۔ تو 75کو 100 میں ضرب دیں گے، جس کا حاصل 7,500 آئے گا۔ چوں کہ ہم نے پٹ خریدنے کے لیے 15,000 ہزار کا پریمیم دے رکھا ہے، لہذا 15,000 میں 7,500 کو گھٹا ئیں گے، جس کا حاصل مائنس 7,500 آئے گا، تو یہاں ہم کو 7,500 کا نقصان ہوگا۔
کال اور پٹ دونوں بڑے رسکی ہوتے ہیں۔ اس میں نفع محدود اور نقصان لامحدود ہوتا ہے، اس لیے اس میں نئے لوگوں کو ٹریڈنگ کرنے سے بچنا چاہیے۔
(۴) سویپس (swaps)
سویپ کا مطلب ہے ادلا بدلی کرنا۔اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ دو بڑی کمپنی اپنے اپنے قرض کی ادائیگی کی ادلا بدلی کرلیتی ہے۔ مثال کے طور پر کمپنی الف کا قرض کمپنی ب ادا کرے گی اور کمپنی ب کا قرض کمپنی الف ادا کرے گی۔
اب سوال کریں گے کہ اس میں فائدہ کیا ہوگا اور اس میں تجارت کس طرح ہوگی، تو اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ قرض کا انٹریسٹ دو طرح کا ہوتا ہے: (۱) فیکس۔ (۲) فلوٹنگ
فیکس(Fixed interest) میں ہر سال قرض کا جتنا فی صدانٹریسٹ ادا کرنا ہوتاہے، اسے متعین کردیا جاتا ہے۔ اور فلوٹنگ(Floting) میں انٹریسٹ ریٹ متعین نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ مائبور(Mibor) پر منحصر ہوتا ہے۔مائبور اس انٹریسٹ فی صد کو کہا جاتا ہے،جو ایک بینک دوسرے بینک کو دیتا ہے۔ یہ انٹریسٹ ریٹ پرائم کسٹمر کو دیے قرض کے اوریج انٹریسٹ ریٹ سے نکالا جاتا ہے۔ اور چوں کہ پرائم کسٹمر کے قرض گھٹے بڑھتے رہتے ہیں، اس لیے اس کا ریٹ بھی فلوٹ یعنی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ کمپنی الف نے پانچ سال کے لیے ایک لاکھ قرض لیا ہے اور اس کا انٹریسٹ سالانہ دس فی صد یعنی دس ہزار روپے ادا کرنا ہے۔ اور کمپنی ب نے بھی پانچ سال کے لیے ایک لاکھ قرض لیا ہے، ادائیگی کے لیے کوئی فی صد مقرر نہیں کیا ہے۔ اب کمپنی الف کو لگتا ہے کہ مائبور کی شرح انٹریسٹ گھٹ جائے گی، تو ہم کو سالانہ دس فی صد کے بجائے گھٹنے کے بقدر مثلا پانچ ہی پرسینٹ ادا کرنا پڑے گا۔ اور کمپنی ب کو لگتا ہے کہ مائبورکی شرح انٹریسٹ بڑھ جائے گی، تو ہم کو مثلا دس ہزار سالانہ کے بجائے پندرہ ہزار ادا کرنا پڑے گا۔ اس لیے دونوں کمپنی مل کر قرض کی ادائیگی کی ادلا بدلی کرلیتی ہے۔ اسی کو سویپ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کے بیچ میں معاملہ بینک کراتا ہے، اس لیے بینک کو (Speculator) یعنی سٹے باز کہا جاتا ہے،جو دونوں کمپنیوں سے معاملہ کرنے کے لیے فی صد وصول کرتا ہے۔
سویپ کی مشہور چھ شکلیں ہیں:
۱۔ انٹریسٹ سویپ(Interest Swap): درج بالا شکل کوکہاجاتا ہے۔
۲۔ کرنسی سویپ: (Currency Swap) دو ملک آپس میں اپنی کرنسی کا تبادلہ کرتے ہیں۔
۳۔ کمو ڈیٹی سویپ: (Commodity Swap) اس میں سونا چاندی، کچا تیل وغیرہ کو متعین ریٹ اور متعین وقت کے لیے بطور تبادلہ استعمال کرتے ہیں۔
۴۔ ٹوٹل ریٹرن سویپ: (Total Return Swap) کسی کمپنی میں لگائے سرمایہ کو کسی بڑے نفع کی امید میں نکال لینے کو کہا جاتا ہے۔
۵۔ کریڈیٹ ڈیفالٹ سویپ (Credit Default Swap) کوئی کمپنی ڈوبنے کے قریب ہو، تو وہ کسی کو یہ کہے کہ میرا لون چکا دو، اس کے بدلے میں ہم کوئی دوسری چیز دے دیں گے۔
۶۔ (Debt Equity Swap)اس میں کمپنی کا مالک شیئر ہولڈر اور شئیر ہولڈر کمپنی کا مالک بن جاتا ہے۔ اس تبادلے کو ڈیبٹ ایکویٹی سویپ کہا جاتا ہے۔
یہ تجارت عام آدمی نہیں کرسکتا؛ بلکہ بڑی بڑی کمپنیاں یا ملک کرتا ہے۔
ایف آئی آئی اور ڈی آئی آئی(FII & DII)
ایف آئی آئی کا فل فارم ہوتا ہے (Foreign Institutional Investor) کا مطلب ہوتا ہے کہ غیر ملکی انویسٹر۔ اور ڈی آئی آئی کا فل فارم ہوتا ہے (Definition of Domestic Institutional) ملکی انویسٹر۔ شیئر مارکیٹ میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان خرید و فروخت کا مقابلہ چلتا رہتا ہے۔جب غیر ملکی سرمایہ کار خریداری زیادہ کرتے ہیں، تو عموما مارکیٹ اوپر جاتا ہے اور جب وہ فروخت زیادہ کرتے ہیں، تو عموما مارکیٹ نیچے جاتا ہے۔ ماہر تاجر بننے کے لیے ایف آئی آئی اور ڈی آئی آئی پر گہری نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

Related Articles

2 Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close