مضامین

عارف باللہ حضرت مولانامنیرالدین صاحب جہازقطعہ ؒ

مولانا ثمیر الدین قاسمی مانسچٹر انگلینڈ

ولادت 1919ء وفات 1976ء فاضل دیوبند

1967ء کی کدی صبح کو تبلیغی جماعت کے ساتھ یہ کفش بردار جہاز قطعہ پہنچا،مدرسہ رحمانیہ جہازقطعہ کے احاطے میں قدم رکھاتوایک فرشتہ صفت بزرگ سے ملاقات ومصافحہ ہو ا،میانہ قد،گدازبدن،نورانی چہرہ،متبسم پیشانی،درازکرتا اور لنگی میں ملبوس عارف باللہ حضرت مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ تھے، آپ 1919ء مطابق 1337ھ میں پہلی مرتبہ دنیاء رنگ وبو سے روشناس ہوئے،ابتدامیں مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ میں مولانا خلیل الرحمن صاحب شری چک کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا،پھر علمی تشنگی بجھانے کے لئے 1357ھ میں منبع علم وعرفاں دارالعلوم دیوبند کا قصد فرمایا اور 1362ھ تک اسکے ماء زلال سے سیراب ہوتے رہے، فراغت کے بعد بھی دولت کدہ تشریف نہیں لائے، بلکہ اس کی اشاعت کے لئے مدرسہ گلزار حسینہ اجراڑہ ضلع میرٹھ یوپی میں صدرمدرس منتخب ہوئے اور وہیں نمایا ں خدمات انجام دیتے رہے،مکمل آٹھ سال کی غربت ومسافرت کے بعد گھر تشریف لائے تو علاقائی ابتری کو دیکھ کردل ابلنے لگا، لوگوں کو دیکھا کہ وہ علم سے کورے اور تہذیب اسلامی سے نابلد ہیں، ان کی اصلاح اور راہ راست پرلانے کے لئے کسی مرد کامل سے بھی میدان خالی ہے اس لئے آپ نور علم کی ضیا پاشیوں کے لئے کمر بستہ ہو گئے اور مدرسہ رحمانیہ جہازقطعہ کی بنیاد ڈالی،خودہی منتظم اور خودہی مدرس تھے۔
خود کو زہ خود کو زہ گر و خود گل کوزہ
آپ کے درسی لگاؤ اور انہماک کی اتنی شہرت ہوئی کہ مدرسہ منارہ نوربن گیا،جس سے سینکڑوں پروانوں نے روشنی حاصل کی،مولانا خلیل صاحب کیتھ پورہ، موناغلام رسول اسنا ہاں،مولانا ابراہیم انجنا اور مولانا عرفان صاحب جہاز قطعہ اور کاتب عبدالجبار جیسے صاحب علم وفن نے استفادہ کیا اور علاقے میں آفتاب ومہتاب بن کرچمکے۔
آپ کے دور نارسا میں علاقے میں تصنیفی کام کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ دیہاتی علماء کی دستریں سے بالاتر چیز سمجھی جاتی تھی، لیکن آ پ علاقے میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے تصنیفی کام کا آغاز کیا اور لوگوں کو باور کرایا کہ محنت ولگن سے ثریاپر بھی کمندیں ڈالی جا سکتی ہیں،آپ نے مسلمانوں کی اصلاح حال اور سنتوں کی ترویج کے لئے ”رہنمائے مسلم“ اور ”زجاج المصابیح“ تصنیف فرمایا،یہ دونوں کتابیں زیورطباعت سے آراستہ نہ ہو سکیں،البتہ آپ کے لائق ترین بھتیجا قاری مولانا وکاتب عبدالجبار صاحب اسکو طباعت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں،رہنمائے مسلم اردو میں 120/ صفحے کی کتاب ہے،اس میں پیدائش سے لیکر موت تک کے کسی موقع کے لئے کونسا طریقہئ کا ر سنت نبویؐ سے ہم آہنگ ہے اور اس وقت کے لئے کون سی دعاء دہن مبارک سے منقول ہے،اسکی پوری تفصیل ذکرکی گئی ہے اور اسکے ماخذکے لئے درجنوں کتابوں کا حوالہ درج ہے،دیہی علاقہ جہاں موقر کتابیں نایاب یا کامیاب ہیں،معلوم نہیں مصنف نے کس جانکاری سے اسکو مہیا کیا ہوگا،دوسری کتاب زجاجۃ المسابیح عربی زبان میں نورالایضاح کی طرزکی فقہ کی کتاب ہے،اس میں انہوں نے کافی مسائل جمع کیا ہے،انداز بیاں دلنشیں اور شگفتہ ہے زبانی ذہن نشیں کرنے کے لئے بہت مفید کتاب ہے۔
آپ خاموش طبع اورعزلت پسند واقع ہوئے تھے،رزم وبزم،شوروہنگامہ سے آپ کی طبعی دوری تھی،آپ دل کی دنیا کو آبقد ومعمور رکھنا چاہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ راہ سلوک میں بہت سے مدکامل کے لئے مشعل راہ ورشک نگاہ بنے ہو ئے تھے،آپ سالک بے مثال حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ کے دامن سے وابستہ تھے۔
عمر کے آخیر عشر ے میں فالج کا شدید حملہ ہوا،جس سے جانبرنہ ہو سکے اور آخر اس مخلص خادم نے1976ء میں جان جان آفریں کو سپرد کیا اور ہزاروں سوگواروں کو داغ مفارقت دیکر سفر آخرت کے لئے روانہ ہو گئے۔
پلٹ کے کہتی ہے آنکھوں کی پتلیاں دم مرگ
چلو یہاں سے کہ دنیا کا اعتبار نہیں

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close