مضامین

عارف باللہ حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری

مفتی محمد سفیان القاسمی

ضلع گڈا جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے پیر طریقت، مرشد ملت، عارف باللہ حضرت مولانا محمد عرفان صاحب عارف مظاہری( اَطالَ اللہُ عُمْرَہٗ وَاَدامَ فُیُوْضَہٗ)ان ممتاز علماء کرام و مشائخین عظام میں سے ہیں، جو شہرت و ناموری سے دور رہ کر اپنے اسلاف علماء کرام و اکابر اولیاء اللہ کے مشن کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو جن علمی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور جن باطنی کمالات سے سرفراز فرمایا ہے ان کا استعمال انھوں نے دین و ملت کی عظیم خدمات انجام دینے کے لئے کیا. چنانچہ آپ نے تدریسی فرائض انجام دیئے ، جہالت زدہ علاقوں میں علم کی شمع روشن کرنے کے لئے محنتیں کیں، مختلف مدارس کے انتظامی امور کو سنبھالا، قوم و ملت کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے کی جانے والی قومی و ملی سرگرمیوں میں حصہ لیا، جہالت و ضلالت اور رسوم و بدعات کے خاتمہ کے لئے انتھک کوششیں کیں، دعوتی و تبلیغی ذمہ داریاں ادا کیں، بندگان خدا کو خدا سے جوڑنے اور ان کی اصلاح و تزکیہ کا فریضہ انجام دینے کے لئے مسلسل جدوجہد کی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے.

چنانچہ اگر آپ کی ہمہ جہت خدمات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ زمانی اعتبار سے تقریباً پچاس سال کے عرصہ کو محیط ہیں اور مکانی اعتبار سے جھارکھنڈ، بہار، کرناٹک اور نیپال کے مختلف علاقوں پر مشتمل ہیں. اور اگر احسانی خدمات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کا دائرہ اور بھی وسیع ہے. کیونکہ آپ کے حلقہء ارادت میں شامل افراد ہندوستان کے اکثر صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں،جن میں مذکورہ بالا خطوں کے علاوہ اتر پردیش، اترا کھنڈ، مہاراشٹر، آندھراپردیش، تلنگانہ، تمل ناڈ، کیرالہ اور بنگال وغیرہ کے مختلف علاقے شامل ہیں، بلکہ بہت سے مریدین بیرون ممالک میں بھی ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ آپ کے حلقہء ارادت سے وابستہ حضرات زیادہ تر اہل علم ہیں، اس طرح آپ کے علمی و احسانی فیوض و برکات سے ایک دنیا سیراب ہو رہی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے، ان سب کے باوجود حضرت والا نہ تو اس کے اظہار کو پسند فرماتے ہیں اور نہ اس کو اپنی ذاتی صلاحیت یا ذاتی عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، بلکہ حضرت کے بقول اللہ تعالیٰ نے ان سے جو بھی کام لیا یا لے رہے ہیں وہ ان کے استاد گرامی حضرت مولانا محمد منیر الدین قاسمی نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ کے دست شفقت اور اکابر اولیاء اللہ بالخصوص فدائے ملت حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی اور مولانا محمد احمد صاحب پرتابگڈھی رحمھما اللہ کی خصوصی عنایات و توجہات کا نتیجہ ہے اور یہ محض توفیق خداوندی اور فضل خداوندی کا ثمرہ ہے. ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

حضرت والا درس نظامی میں شامل تمام علوم و فنون، تفسیر، حدیث، فقہ اور منطق وغیرہ میں اچھی مہارت رکھتے ہیں، عربی اور فارسی پر ان کو کافی عبور حاصل ہے ، اردو تو ان کی مادری زبان ہے، خطابت کا انداز شعلہ بیان خطیبوں کی طرح خطیبانہ نہیں بلکہ مشائخ کے مزاج و اصول کے مطابق ناصحانہ و ہمدردانہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی شاعرانہ ذوق بھی رکھتے ہیں اور اپنا تخلص،، عارف،، رقم کرتے ہیں چنانچہ اشعار بھی تخلیق کرتے ہیں اور ترنم کے ساتھ گنگناتے بھی ہیں، بطور خاص عشق الہی سے متعلق جب اشعار گنگناتے ہیں تو سوز و گداز کی وجہ سے بسا اوقات وجد طاری ہونے لگتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرار شریعت کے ساتھ اسرار طریقت سے بھی بخوبی واقف ہیں اور واقف ہی نہیں بلکہ احسانی قافلہ کے امیر و راہبر بھی ہیں اور وہ لوگوں کی مدح و ذم کی پروا کئے بغیر جس طرح احسانی سلسلہ کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اکابر اولیاء کرام و مشائخین عظام کے مشن کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں اس سے بندگان خدا کو کافی فائدہ پہنچ رہا ہے، دعا ہے کہ یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے اور حضرت والا کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رہے. آمین

چونکہ حضرت والا باطنی کمالات کے ساتھ متنوع صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک ہیں اور ان کی خدمات کے میدان بھی کئی ایک ہیں اس وجہ سے آپ کی شخصیت کے بارے میں لوگوں کے اقوال و تبصرے بھی الگ الگ ملتے ہیں، عام طور پر لوگ آپ کو ایک اچھا عالم دین سمجھتے ہیں، بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ آپ زبردست علمی صلاحیتوں کے مالک ہیں، جو لوگ آپ کے بیانات کو سنتے ہیں، ان کا تبصرہ ہوتا ہے کہ آپ ایک شیریں بیان مقرر ہیں، جو لوگ آپ کی تخلیق کردہ نظمیں اور اشعار سنتے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ شاعر بھی ہیں، جن لوگوں کو دعا و تعویذ سے فائدہ ہو جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ آپ ایک اچھے عامل ہیں. بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ اعلی درجے کے ولی اور صاحب کرامت بزرگ ہیں( غالباً وہ منجانب اللہ پیش آنے والے کچھ خرق عادات واقعات کی وجہ سے کہتے ہیں ) تاہم ایسی باتیں کہنے والے محض عوام نہیں بلکہ کچھ خواص اور راہ سلوک میں اعلیٰ مقام رکھنے والے بھی اسی قسم کے تاثرات بیان کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ تو حضرت کو قطب، ابدال اور غوث کے درجے کے ولی بھی قرار دیتے ہیں، بہرحال جو جس میدان کے آدمی ہوتے ہیں وہ اپنی صلاحیت اور ذوق کے مطابق آپ کو جس زاویہ سے دیکھتے ہیں وہ اسی قسم کا تصور قائم کرتے ہیں، اور ان کو لگتا ہے کہ آپ اسی خوبی و کمال سے متصف ہیں،

*پیدائش و خاندانی احوال:* آپ کا آبائی وطن ضلع گڈا میں واقع اہل علم کی معروف بستی جہازقطعہ ہے ، آپ کے والد جناب معین الدین صاحب مرحوم ہیں جو فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ سے بیعت و ارشاد کا تعلق رکھتے تھے،اور صوم و صلوۃ کے ساتھ اوراد و وظائف کے کافی پابند تھے، آپ کے والد چار بھائی تھے، منجھلے بھائی مولانا قاری قطب الدین صاحب تھے جو مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ میں طویل عرصہ تک مدرس رہے، وہ علاقے میں زہد و تقویٰ کی ایک مثال تھے، اسی گھرانے میں آپ کی پیدائش آزادی سے پانچ سال بعد 11/ مئی 1951 کو جمعہ کے روز ہوئی.

*تعلیم:* آپ نے ابتدائی تعلیم اور درس نظامی کے متوسطات یعنی شرح جامی تک کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہازقطعہ میں حاصل کی، جہاں آپ نے اپنے مشفق اساتذہ ء کرام اور مدرسہ کے بانی مولانا محمد منیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے خوب خوب استفادہ کیا، 1967 میں آپ نے ایک سال جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ سہارنپور میں اپنی علمی تشنگی بجھائی، جہاں آپ نے ہدایہ اولین اور دیگر کتابیں پڑھیں، بعد ازاں آپ نے اعلی تعلیم کے لئے مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا، یہاں تین سال تک قیام رہا اور 1970 ء میں آپ نے دورہء حدیث کی تکمیل کی. یہاں آپ نے جن کبار علماء و اہل اللہ سے کسب فیض کیا ان میں مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رح مولانا محمد اسعد اللہ صاحب رح مولانا محمد یونس صاحب رح مفتی مظفر حسین صاحب رح مولانا محمد عاقل صاحب رح اور مولانا محمد وقار صاحب رح وغیرہ وغیرہ کے اسماء گرامی شامل ہیں، آپ کے رفقاء درس میں مولانا محمد زبیر صاحب رح( مرکز نظام الدین )اور مولانا محمد شاہد صاحب ناظم اعلی مظاہر علوم سہارنپور وغیرہ ہیں

*تدریسی و تعلیمی خدمات:* 1970 ء میں مظاہر علوم سے سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ اسلامیہ کھٹنئی گڈا سے آپ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا، یہاں آپ نے درس نظامی کی مختلف کتابوں کے ساتھ مشکوٰۃ شریف اور جلالین شریف کا درس دیا، یہ سلسلہ تین سال تک چلا، کچھ انقطاع کے بعد پھر دوبارہ مدرس کی حیثیت سے آپ کی بحالی عمل میں آئی.

تقریباً پچاس سال کے عرصے میں مدرسہ اسلامیہ کھٹنئی کے علاوہ جن مدارس میں آپ نے تدریسی و تنظیمی فرائض انجام دیئے ان میں مدرسہ اسلامیہ گھٹیرا، بانکا، مدرسہ انیس الحسنی بلوا باڑی بھاگلپور، مدرسہ فیض الغرباء منائن کرہریا، گڈا، مدرسہ تجوید القرآن چینگئے، گڈا، مدرسہ تجوید القرآن پکوڑیا، پاکوڑ، مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہازقطعہ گڈا، مدرسہ اسلامیہ دھرپ گنج، بھاگلپور، مدرسہ خادم الاسلام برتلہ، دمکا، مدرسہ و یتیم خانہ ویر گنج، نیپال، ملت اکیڈمی، اگروا، موتیہاری، مشرقی چمپارن اور مدرسہ سعیدیہ کاول بیر سندرہ، بنگلور وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں، ان کے علاوہ اور بھی کئی مدارس ہیں جہاں آپ نے خدمات انجام دیں، ان میں سے بعض مدرسوں میں آپ نے صرف تدریسی فرائض انجام دیئے جبکہ بعض مدرسوں میں آپ نے تدریس کے فرائض کے ساتھ صدر مدرس اور مہتمم کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں. جیسے 1989 کے قریب آپ مدرسہ رحمانیہ جہازقطعہ کے کافی عرصہ تک مہتمم رہے. اسی طرح مدرسہ خادم الاسلام برتلہ، دمکا میں 2005 ء کے قریب آپ صدر مدرس کے عہدے پر فائز رہے، وغیرہ

اس طرح مختلف مدارس سے آپ کے ہزاروں شاگرد تیار ہوئے جن میں سے کچھ تو صرف اپنے دین و دنیا کو سنوار رہے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو مختلف سطحوں پر دین و ملت اور ملک و وطن کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں

*دینی و ملی سر گرمیاں :* تدریس کے آغاز کے ساتھ ہی آپ جمعیت علماء ہند سے وابستہ ہو گئے اور اسکی مقامی شاخ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ، جس کے طویل عرصہ تک الحاج ماسٹر شمس الضحی صاحب صدر رہے، اس کے تحت قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے کی جانے والی سرگرمیوں میں آپ پیش پیش رہے، چنانچہ مختلف مواقع پر آپ کو کئی ذمہ داریاں دی گئیں اور آپ نے ان کو بحسن و خوبی انجام دیا، ملی کاموں سے دلچسپی کی وجہ سے 1984 ء میں جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ کا آپ کو ناظم اعلی بنایا گیا اور اس سے پیشتر بھی آپ کو کئی مرتبہ نائب ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا، اس پلیٹ فارم سے آپ نے رسوم و بدعات کے خاتمہ، اصلاح معاشرہ، دینی بیداری اور تعلیمی بیداری کے لئے نمایاں کام کئے ( اس کی کچھ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، تاریخ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ )

تبلیغی جماعت سے وابستگی زمانہء طالب علمی سے آج تک برقرار ہے اور اس کے تحت کی جانے والی محنتوں میں وقتاً فوقتاً آپ کی شرکت ہوتی رہی، اس کے علاوہ جہاں بھی اور جن مدارس میں بھی آپ رہے وہاں کی بستی اور قرب و جوار کی بستیوں میں اپنے بیانات سے دعوت و تبلیغ، دینی و شرعی رہنمائی اور اصلاح کا کام کرتے رہے.

*بیعت و خلافت اور اصلاح و تزکیہ :* 1970 ء میں مظاہر علوم سے فراغت کے بعد آپ نے فدائے ملت حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی علیہ الرحمہ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا، اُن دنوں حضرت فدائے ملت رح لچھمی پور ڈیم( بانکا ) کے قریب واقع بستی کینوا ٹانڑ تشریف لاءے ہوئے تھے، آپ نے وہاں پہنچ کر ان کے ہاتھ پر بیعت کی، جس کے بعد سنت و شریعت پر عمل اور ذکر و اذکار و اوراد و وظائف کا اہتمام بڑھ گیا حتی کہ کچھ عرصہ کے بعد سخت مجاہدہ و ریاضت کی وجہ سے وہ احوال بھی پیش آئے جو بعض سالکین و عارفین کو پیش آتے ہیں یعنی محویت، فنائیت اور جذب کی کیفیت وغیرہ جس کی وجہ سے حقیقت حال سے بعض نا واقف لوگ پاگل یا مخبوط الحواس سمجھتے، حضرت فدائے ملت سے برابر استفادہ کے علاوہ کئی اکابر علماء، اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے فیوض و برکات حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا، چنانچہ حضرت حکیم نسیم الدین صاحب گیاوی مد ظلہ سے تعلق کے بعد ان کی معیت میں مولانا محمد احمد صاحب پر تابگڈھی علیہ الرحمہ کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل ہوا، وہ عمر کے آخری مرحلے میں تھے انھوں نے دعائیں دیں، اور احوال سے واقفیت کے بعد اپنے خلیفہ حضرت حکیم نسیم الدین صاحب سے کہا کہ مولانا عرفان کو آپ خلافت دے دیں ، اسی طرح مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نور اللہ مرقدہ سے بھی استفادہ کا سلسلہ برابر جاری رہا.

بالآخر آپ کی صلاح و فلاح اور قلب کی پاکیزگی کو دیکھتے ہوئے کئی اولیاء کرام و مشائخین عظام نے آپ کو اپنی خلافت سے نوازا. ان میں سر فہرست ولیء کامل حضرت مولانا عبد اللہ فاضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ حضرت مولانا عبد الخالق حسینی رح کے خلیفۂ مجاز تھے، حضرت مولانا عبد اللہ فاضل رح نے سن 1987 ء میں آپ کو حکم دیا کہ آپ بیعت کا سلسلہ شروع کیجئے لہذا آپ نے ان کے حکم کے مطابق بیعت کا سلسلہ شروع کیا. اور بستی آلودہا( دمکا ) کے مولانا بشیر الدین صاحب آپ کے پہلے مرید ہوئے، اسی طرح حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتابگڈھی رح کے خلیفۂ مجاز حضرت حکیم نسیم الدین صاحب گیاوی مد ظلہ العالی، حضرت مولانا عبد المجید صاحب رح رینگاؤں، بانکا مقیم ماڑ گرام، بنگال، اور حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب رح ان تینوں حضرات نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا

چنانچہ اولیاء کرام و مشائخین عظام کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کیا. اس طرح مختلف علاقوں کے لوگ آپ کے حلقہء ارادت میں شامل ہوتے رہے، اور اس وقت بحمد اللہ ہندوستان کے اکثر صوبوں میں آپ کے مریدین پھیلے ہوئے ہیں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی کئی ملکوں میں آپ کے مریدین قیام پذیر ہیں اور وہ خدمت خلق کے ساتھ سنت و شریعت کو پھیلانے کا کام کر رہے ہیں. آپ کے کئی خلفاء ہیں جن میں ایک ملکی ہنوارہ گڈا کے مولانا محمد مبارک صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں، انھوں نے حضرت کی تربیت میں رہ کر کافی مجاہدات کئے اور حضرت کی قلبی توجہات کے باعث سلوک کے اعلی منازل طے کئے بالآخر آپ نے ان کو خلافت سے نوازا جس کے بعد انھوں نے حیدرآباد میں ایک خانقاہ قائم کی. ان سے بندگان خدا کی خاصی تعداد کو فائدہ ہو رہا تھا لیکن سن 2019 ء میں وہ اللہ کو پیارے ہوگئے. اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے آمین، حضرت کے اور بھی کئی خلفاء ہیں مگر یہاں تذکرہ کا موقع نہیں. بہرحال حضرت والا، اکابر اولیاء کرام و مشائخین عظام کی خصوصی توجہات و عنایات اور اللہ رب العزت کے فضل سے بے شمار لوگوں کی اصلاح و تزکیہ اور رشد و ہدایت کا ذریعہ بنے اور آپ کے چشمہء فیض سے سیرابی حاصل کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے فالحمد للہ علی ذالک.

*نکاح و اولاد:* آپ کا نکاح مظاہر علوم سے فراغت سے پہلے ہی علاقہ کی بزرگ ہستی گوپی چک کے حاجی رہبر علی مرحوم کی صاحبزادی سے ہوا، حاجی صاحب گڈا ضلع میں اس وقت پرسہ تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں میں سے تھے اور وہ علاقے میں قومی و ملی سرگرمیوں میں پیش پیش رہا کرتے تھے، حضرت کی پانچ اولادیں ہیں، جن میں تین لڑکے مولانا محمد فرقان قاسمی، مفتی محمد سفیان قاسمی اور محمد احمد ہیں اور دو لڑکیاں ہیں،

یہ تھا اس عظیم شخصیت کا مختصر سا تعارف اور چند اہم اجمالی واقعات کی ایک جھلک، جس کی دینی، تعلیمی، ملی اور اصلاحی خدمات نصف صدی کو محیط ہیں،اللہ تعالیٰ ان کو اجر جزیل عطا فرمائے آمین.( آئندہ اگر توفیق ملی تو ان کی حیات و خدمات پر مفصل کتاب تحریر کی جائے گی، ان شاء اللہ ) الغرض اس طرح کی جو بھی عظیم شخصیات ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی قدر دانی کی توفیق مرحمت فرمائے، ان کے فیوض و برکات سے ہمیں استفادہ کی توفیق عنایت فرمائے اور ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے، آمین یا رب العالمین
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close