اس عقیدے کے بارے میں 2 آیتیں اور6 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں
تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے کسی کی قسمت میں ایک چیز لکھ دی ہے وہ ہو کر رہے گی۔ اللہ نے ہر آدمی کی تمام باتوں کو پہلے سے لکھ دیا ہے، پھر جو آدمی نیک بخت ہے وہ اپنی خوشی سے، اور اپنی چاہت سے نیک کام کرتا رہتا ہے، اور وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے،، اور بد آدمی اپنی چاہت سے اور اپنے اختیار سے برا کام کرتا رہتا ہے، اور اس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوتا ہے، یہ داخل ہوا اپنے عمل سے، اگر چہ تقدیر میں پہلے سے لکھا تھا۔
آدمی کو اس پر ایمان رکھنا چاہئے، ایمان کے چھ اجزا میں سے ایک جز تقدیر بھی ہے
اس کے لئے آیتیں یہ ہیں
1۔و ما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض و لا فی السماء و لا اصغر من ذالک و لا اکبر الا فی کتاب مبین۔ (آیت ۱۶، سورت یونس ۰۱)
ترجمہ۔ اور تمہارے رب سے کوئی ذرہ برابر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمان میں، نہ اس سے چھوٹی، نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے
2۔و کل شیء فعلوہ فی الزبر و کل صغیر و کبیر مستطر۔ (آیت۲۵۔ ۳۵، سورت القمر۴۵) ترجمہ۔ اور جو جو کام انہوں نے کئے ہیں وہ سب اعمال ناموں میں درج ہیں، اور ہر چھوٹ اور بڑی بات لکھی ہوئی ہے
ان آیتوں میں تقدیر کا تذکرہ ہے، اس لئے تقدیر پر ایمان رکھنا ضروری ہے
1۔ و قال ﷺ اول ما خلق اللہ القلم فقال لہ اکتب فقال القلم ما ذا اکتب یا رب؟ فقال اللہ تعالی اکتب ما ہو کائن الی یوم القیامۃ۔ ( ابو داود شریف، نمبر ۰۰۷۴/ ترمذی شریف، نمبر ۵۵۱۲)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اور اس کو کہا لکھو، قلم نے کہا اے رب میں کیا لکھوں، اللہ نے فرمایا، قیامت تک جتنی باتیں ہونے والی ہیں سب لکھ دو
2۔عن عبد اللہ بن عمر بن العاص قال سمعت عمر بن العاص قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السماوات و الارض بخمسین الف سنۃ قال عرشہ علی الماء۔ ( مسلم شریف،باب حجاج آدم و موسی ؐ، ص ۶۵۱۱، نمبر ۳۵۶۲/ ۸۴۷۶)۔ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ، زمین اور آسمان کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ نے مخلوق کی تقدیر لکھ دی ہے، اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ کا عرش پانی پر تھا
3۔عن جابر بن عبد اللہ قال قال رسول اللہ ﷺ لا یومن عبد حتی یومن بالقدر خیرہ و شرہ حتی یعلم ان ما اصابہ لم یکن لیخطۂ، و ان ما أخطأہ لم یکن لیصیبہ۔ (ترمذی شریف، باب ما جاء ان الیمان بالقدر خیرہ و شرہ، ص ۳۹۴، نمبر ۴۴۱۲)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ، تقدیر میں جو خیر اور شر لکھا ہوا ہے، اس پر جب تک ایمان نہ رکھے، آدمی مومن نہیں بن سکتا، یہ بھی جان لے کہ جو اس کو پہنچنا ہے، وہ کبھی خطا نہیں کر سکتا، اور جو اس کو نہیں پہنچنا ہے، اس میں بھی غلطی نہیں ہو گی، یہ یقین کر لے
ان احادیث اور آیات میں ہے کہ تقدیر حق ہے، اور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
]۱[ تقدیر مبرم۔ ]۲[ اور تقدیرمعلق
تقدیر کی دو قسمیں ہیں۔ تقدیر مبرم، اور تقدیر معلق
تقدیر مبرم۔۔۔کا مطلب یہ ہے کہ یہ تقدیر بدلتی نہیں ہے یہ حتمی ہے ، جیسے زید کی تقدیر میں لکھ دیا کہ وہ پچاس سال کی عمر میں مرے گا ، تو یہ طے ہے کہ وہ پچاس سال کی عمر میں مرے گا۔
دوسری ہے، تقدیر معلق۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے کرنے پر وہ معلق ہے، اور اس کام کے کرنے پر تقدیر بدل سکتی ہے ، مثلا یہ کہے کہ اگر آپ نے ماں کی خدمت کی تو اس سے آپ کی عمر بڑھ جائے گی، تو یہاں خدمت سے عمر بڑھی، یہ تقدیرمعلق ہے۔ لیکن اللہ کے علم میں ہے کہ یہ آدمی ماں کی خدمت کرے گا یا نہیں، اور اس کی عمر بڑھے گی یا نہیں ہے، یہ تقدیر مبرم ہے
دلیل؛ تقدیرمعلق کی دلیل یہ حدیث ہے
4۔ عن سلمان قال قال رسول اللہ ﷺ: لا یرد القضاء الا الدعاء، و لا یزید العمر الا البر۔ (ترمذی شریف، باب ما جاء لا یرد القدر الا الدعاء، ص ۲۹۴، نمبر ۹۳۱۲)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ دعا ہی اللہ کے فیصلے کو بدلتی ہے، اور نیکی ہی عمر کو زیادہ کرتی ہے
اس حدیث میں ہے کہ دعا کی وجہ سے اللہ کا فیصلہ بدل سکتا ہے، یا نیکی کرنے کی وجہ سے عمر زیادہ ہو سکتی ہے، یہ بات تقدیر معلق میں ہو تی ہے،البتہ وہ ایسا کرے گا یا نہیں کرے گا یہ بات اللہ کے علم میں حتمی طور پر موجود ہے، جس کو تقدیر مبرم، کہتے ہیں
جو جیسا ہوتا ہے ویسا ہی کام کرنے کی توفیق ہو جاتی ہے
حضور ؐ نے فرمایا کہ تقدیر حق ہے، لیکن جو آدمی نیک ہوتا ہے اس کو نیکی کے کام کرنے کی توفیق ہوتی رہتی ہے، اور وہ اپنے نیک کام کی وجہ سے جنت میں جائے گا، اور جو بد ہے اس کو برا کام کرنے کی توفیق ہوتی رہتی ہے، پھر وہ برے کام کی وجہ سے جہنم میں جائے گا
اس کے لئے حدیث یہ ہے
5۔ عن علی ؓ قال کنا فی جنازۃ فی بقیع الغرقد…..قال ما منکم من احد، ما من نفس منفوشۃ الا کتب مکانہا من الجنۃ و النار و الا کتب شقیۃ او سعید ہ فقال رجل یا رسول اللہ أفلا نتوکل علی کتابنا و ندع العمل؟ فمن کان منا من اہل السعادۃ فسیصیر الی عمل اہل السعادۃ، و اما من کان منا من اہل الشقاوۃ فسیصیر الی عمل اہل الشقاوۃ،
قال اما اھل السعادۃ فییسرون لعمل السعادۃ،واما اہل الشقاوۃ فییسرون لعمل الشقاوۃ، ثم قرأ (فاما من اعطی و اتقی و صدق بالحسنی ] آیت ۵۔۶، سورت اللیل ۲۹)(بخاری شریف، کتاب الجنائز، باب موعظۃ المحدث عند القبر و قعود اصحابہ حولہ، ص ۸۱۲، نمبر ۲۶۳۱)
ترجمہ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ہم جنت البقیع میں ایک جنازے میں تھے۔۔۔حضور ؐ نے فرمایا کہ، ہم میں سے جتنے بھی نفس ہیں اس کی جگہ جنت یا جہنم میں لکھی ہوئی ہے، اور ہر ایک کا نیک اور بد لکھا ہوا ہے، ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ، ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسہ نہ کر لیں؟ اور عمل نہ چھوڑ دیں، تاکہ جو ہم میں سے نیک لوگ ہوں وہ خود نیک عمل کی طرف چلے جائیں، اور ہم میں سے جو بد لوگ ہوں وہ خود ہی بد عمل کی طرف چلے جائیں، تو آپ نے فرمایا نیک آدمی کے لئے نیک کام آسان ہو جاتا ہے، اور برے آدمی کے لئے برا کام آسان ہو جاتا ہے، پھر حضور ؐ نے یہ آیت پڑھی،(فاما من اعطی و اتقی و صدق بالحسنی ] آیت ۵۔۶، سورت اللیل ۲۹)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی تقدیر میں نیکی لکھی ہے وہ نیک عمل ہی کرتا رہے گا، او جس کی تقدیر میں برا لکھا ہے وہ برا کام ہی کرتا ر ہتا ہے
تقدیر کے بارے میں زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے
تقدیر کا سمجھنا مشکل ہے اس لئے اس بارے میں زیادہ بحث کرنے سے منع کیا ہے، حدیث یہ ہے
6۔عن ابی ہریرۃ قال خرج علینا رسول الہ ﷺ و نحن نتنازع فی القدر فغضب حتی احمر وجھہ حتی کانما فقیء فی وجنتیہ الرمان، فقال: أبھذا أمرتم ام بہذا أرسلت الیکم؟ انما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا فی ھذا الامر، عزمت علیکم عزمت علیکم الا تنازعوا فیہ۔ (ترمذی شریف، باب ما جاء فی التشدید فی القدر، ص ۰۹۴، نمبر ۳۳۱۲) ترجمہ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم تقدیر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ ہمارے سامنے حضور ؐ تشریف لائے، تو حضورؐ اتنے غصے ہو ئے کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، ایسا لگتا تھا کہ آپ کے چہرے پر انار پھاڑ دیا گیاہو، اور کہنے لگے کہ کیا تم لوگوں کو اس کا حکم دیا گیا ہے، کیا اس کے لئے میں مبعوث ہوا ہوں، تم سے پہلے جو لوگ اس بارے میں جھگڑے تو وہ ہلاک ہوگئے، تم کو بار بار زور دیکرکہتا ہوں کہ تقدیر کے بارے میں ہر گز نہ جھگڑا کرو۔