مضامین

فیشن پرستی دور حاضر کا ایک سنگین فتنہ!

مفتی فہیم الدین رحمانی

____===____
ہمارا دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں زندگی کے سب اصول بتائے گئے ہیں ، لیکن آج کے دور میں بےحیائی اور عریانیت عام ہورہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ عورتوں کا بے پردہ ہونا ہے، جب عورت ہرکسی پر حسن کے جلوے بکھیرے گی تو بےحیائی ہی جنم لےگی ،
شرم و حیا اسلام کا زیور ہے ، اسلام دین فطرت ہے جو ہمیشہ انسانیت کی بھلائی اور عظمت و تعظیم کا درس دیتا ہے ،اعلی اخلاق و کردار کی تکمیل کے لئے حیا کو ایمان کا حصہ بھی قرار دیا گیا ہے ،
فیشن دور حاضر کا وہ سجا دھجا نام ہے جس کی آڑ میں ہرطرح کی بےہودگی ،
کمینگی ،بےحیائی، فحاشی ، عریانیت ، دہریت ، اور مادیت کو فروغ دیا جارہا ہے فیشن پرستی کے اس طوفان بلاخیز میں نوجوان نسل اپنے تابناک ماضی کو فراموش کر کے حسن پرستی ، غیروں کی نقالی اور اپنی زندہ و تابندہ دینی روایات و تہذیب کی دھجیاں اڑاتی نظر آ رہی ہے ،اس کے اندر مذہب سے بے گانگی اور شریعت کی پابندی سے اعلانیہ بغاوت ٹپکتی ہے ، ان کا دل و دماغ مغربیت کے بہاؤ میں بہہ چکا ہے ، ان کی زبان بھلے کا محاسن اسلام ہو لیکن ان کا جسم مکمل طور پر مغربیت کی زد میں ہے ، فیشن کے ایسے کپڑے جن سے مکمل ستر نہیں ہوتا ،جن میں چمک اور مردوں کے لئے جاذبیت ہوتی ہے ان کا انتخاب کیا جاتا ہے اس لئے کہ یورپ کی بے حیا عورتوں نے ان ہی کپڑوں کو پسند کیا ہے اور ان کے یہاں اسی کو حسن اور ترقی کا معیار قرار دیا گیا ہے ، فلموں میں کام کرنے والی عورتوں کا عریاں لباس بھی مسلمانوں کے لئے آئیڈیل ہے ، مسلم خواتین اپنی بچیوں کے لئے بھی وہی لباس پسند کرتی ہیں ، جن ستر نہیں ہوتا۔ بچپن سے جب بچیوں کا مزاج اس طرح بنایا جائے گا تو کیا وہ بعد میں نیک اور باحیا بن سکتی ہیں ۔
آج بنت حوا فیشن کے نام پر کپڑوں کی ایسی تراش و خراش کرتی ہیں کہ شرم و حیا سر پیٹ کر رہ جائے ، جو لباس خالق کون ومکاں نے ستر چھپانے کا ذریعہ بنایا تھا ۔اسے آج آرائش و زیبائش اور نظارۂ حسن کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے ،
یا اسفاء ‘ آج کی فیشن دنیا میں اہل یورپ کے لباس کو اپنے لئے آئیڈیل اور نمونہ بنالیا گیا ہے ، کیا بچہ اور کیا بوڑھا ، کیا امیر اور کیا غریب ، ہر ایک کا اراز اس قدر لمبا ہوتا ہے کہ چلتے ہوئے زمین پر کپڑے گھسٹ رہے ہوتے ہیں، جس پر اتنی سخت وعید بیان کی گئی مسلمانوں نے اسے اپنا شعار بنالیا ہے ، اور وہ اس کو اپنی عزت و افتخار اور سر خروئی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، حالانکہ یہ ہماری احساس کمتری اور مرعوبیت کی بات ہے کہ دین و شریعت کی پسند اور اس کی حد بندیوں کو چھوڑ کر غیروں کا لباس اور ان کی تہذیب و تمدن کو ہم نے اختیار کر لیا اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں=

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close