اسلامیات

مرزا صاحب نے ان پانچ آیتوں سے مسیح موعود کا استدلال کیا ہے لیکن ان آیتوں میں مسیح ابن مریم لکھا ہوا ہے، اور مرزا ابن مریم نہیں ہے

مولانا ثمیر الدین قاسمی چئیرمین ہلال کمیٹی لندن

ان پانچوں آیتوں میں یہ نہیں ہے کہ وہ دجال کے وقت آئیں گے، بلکہ ان آیتوں میں ہے کہ وہ جب پہلے تشریف لائے تھے، اس وقت ان کو مسیح کہا گیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی پانچوں آیتوں میں مسیح کے ساتھ ابن مریم، کا لفظ لگا ہوا ہے، اور مرزا، مریم کا بیٹا نہیں ہے، اس لئے وہ مسیح موعود بھی نہیں ہے، ان آیتوں سے استدلال کرنا کہ میں مسیح موعود ہوں صحیح نہیں
یہ آیتیں یہ ہیں
3۔ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ المسیح عیسی ابن مریم وجیھا فی الدنیا و الآخرۃ۔ (سورت ال عمران ۳، آیت ۵۴)
4۔و قولھم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ۔ (سورت النساء ۴، آیت ۷۵۱)
5۔لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم (سورت المائدۃ۵، آیت ۷۱)
۔لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم۔ (سورت المائدۃ۵، آیت ۲۷)
6۔ما المسیح ابن مریم الا رسول۔ (سورت المائدۃ۵، آیت ۵۷)
ان پانچ آیتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کو، المسیح، کہا ہے، لیکن ان پانچوں جگہ پر کہا ہے کہ وہ ابن مریم، تھے، یعنی وہ مسیح جو حضرت مریم علیہ السلام کا بیٹا تھے، اور مرزا صاحب مریم ؑ کے بیٹے نہیں ہیں اس لئے اپنے آپ کو مسیح موعودکہنا صحیح نہیں ہے

اس حدیث میں مسیح کے آنے کا ذکر ہے،
لیکن وہ مسیح ابن مریم ہیں مرزا نہیں ہے
13۔عن النواس بن سمعان قال ذکر رسول اللہ الدجال ذات غدات۔۔۔فبینما ھوا کذالک اذ بعث اللہ المسیح ابن مریم ۔ علیہ السلام۔ فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق۔۔۔فیطلبہ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہ (مسلم شریف، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، ص ۱۷۲۱، نمبر ۷۳۹۲/ ۳۷۳۷ / مسند احمد، باب حدیث النواس بن سمعان الکلابی، جلد ۹۲، ص ۳۷۱، نمبر ۹۲۶۷۱)
ترجمہ : حضرت نواس بن سمعان ؓ کہتے ہیں کہ ایک صبح کو حضور ؐ نے دجال کا ذکر کیا۔۔۔دجال اسی طرح شعبدہ بازی کر رہا ہو گا، کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نیچے اتریں گے، وہ دمشق کی مشرقی جانب جو سفیدمنارہ ہے اس پر اتریں گے۔۔۔ دجال کو تلاش کریں گے تو باب لد کے پاس پاس پائیں گے۔ اور اس کو قتل کر دیں گے
اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ مسیح کواللہ بھیجیں گے، لیکن اس میں اور دو باتوں کا بھی ساتھ ہی ساتھ ذکر ہے کہ وہ مسیح، حضرت مریم کے بیٹے ہوں گے، مرزا صاحب مریم کے بیٹے نہیں ہیں، اور دوسری اس بات کا ذکر ہے کہ وہ دمشق میں مشرقی جانب جو منارہ بیضاء ہو گا، اس پر اتریں گے، مرزا صاحب، منار ہ بیضاء پر بھی نہیں اترے ہیں
، اور تیسری بات یہ ہے کہ وہ دجال کو قتل کریں گے، اور مرزا صاحب نے دجال جو کانا ہو گا اس کو قتل نہیں کیا ہے، اس لئے حدیث میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالی مسیح کو بھیجیں گے، اس سے استدلال کر لینا کہ میں بھی مسیح موعودہوں، اور مجھکو ہی بھیجا گیا ہے، کیسے درست ہو سکتا ہے

حضرت عیسی ؑ دجال کو قتل کریں گے
حضرت ابن مریم ؑ کی صفت میں سے ایک یہ صفت بھی ہے کہ وہ باب لد کے پاس دجال کو قتل کریں گے، لیکن مرزا صاحب نے دجال کو قتل نہیں کیا ہے، اس لئے وہ مسیح موعود نہیں ہو سکتا
اس کے لئے حدیث یہ ہے
14۔عن ابی امامۃ الباہلی قال خطبنا رسول اللہ ﷺ فکان اکثر خطبتہ حدیثا حدثناہ عن الدجال۔۔۔فبینما ھم کذالک اذ بعث اللہ عیسی ابن مریم۔۔۔فینطلق حتی یدرکہ عند باب لد، فیقتلہ، ۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال و خروج عیسی ابن مریم، ص ۱۹۵، نمبر۵۷۰۴) ترجمہ: حضرت ابو امامۃ باہلی ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کم لوگوں کو خطبہ دیتے تھے، اور زیادہ ترخطبہ دجال کے بارے میں ہوتا تھا۔۔۔۔لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام اتریں گے۔۔۔آپ چلیں گے اور دجال کو باب لد کے پاس جا کر پالیں گے، اور اس کو قتل کر دیں گے
اس حدیث میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دجال کو قتل کریں، یہ ضروری ہے، اور مرزا صاحب نے تو کسی دجال کو قتل نہیں کیا ہے، تو وہ مسیح موعود کیسے بن گئے
حضرت امام مہدی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں بیعت لیں گے
مرزا نے کب مکہ مکرمہ میں بیعت لی
مرزا صاحب کے تیسری دلیل کا جواب۔
۔حضرت مہدی مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر خلافت کی بیعت لیں گے، مرزا صاحب نے مکہ مکرمہ میں کب بیعت لی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ وہ خلافت کی بیعت لیں گے، مرزا صاحب تو نبوت کا دعوی کر رہے ہیں، اس لئے مرزا صاحب مہدی معہود کیسے ہو گئے
اس کے لئے حدیث یہ ہے
15۔عن ام سلمۃ ؓ زوج النبی ﷺ عن النبی ﷺ قال یکون اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجل من اہل المدینۃ ھاربا الی مکۃ فیأتیہ ناس من اہل مکۃ فیخرجونہ و ھوکارہ فیبایعونہ بین الرکن و المقام و یبعث الیہ بعث من الشام۔۔۔فیقسم المال و یعمل فی الناس بسنۃ نبیھم ﷺ۔ (ابو داود شریف، کتاب الملاحم، باب اول کتاب المھدی، ص ۲۰۶، نمبر ۶۸۲۴/ مسند احمد، باب حدیث ام سلمہ زوج النبی ﷺ، جلد ۴۴، ص ۶۸۲، نمبر ۹۸۶۶۲)
ترجمہ : حضور ﷺ کی بیوی حضرت ام سلمہ ؓ حضور ﷺ سے نقل کرتیں ہیں، کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ ایک خلیفہ کی وفات کے وقت اختلاف ہو گا، ایک آدمی مدینہ طیبہ سے بھاگ کر مکہ مکرمہ جائے گا، اہل مکہ ان کے پاس آئیں گے اور اس کو نکالیں گے، حالانکہ وہ یہ نہیں چاہے گا، پھر رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ ان سے بیعت کریں، ان کے پاس شام سے ایک قافلہ آئے گا۔۔۔وہ مال تقسیم کریں گے، اور حضور ؐ کی سنت پر عمل کریں گے
اس حدیث میں دو باتیں خاص ہیں ایک بات تو یہ ہے کہ حضرت مہدی ؑ رکن یمانی، اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگوں سے خلافت کی بیعت لیں گے۔ مرزا صاحب نے رکن یمانی، اور مقام ابراہیم کے درمیان کب لوگوں سے بیعت لی، دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مہدی ؑ خلیفہ ہوں گے، نبی نہیں ہوں گے، مرزا صاحب نے تو نبی ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اس لئے مرزا صاحب مہدی معہود کا دعوی کرنا سرا سر غلط ہے

16۔عن ام سلمۃ قالت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول المھدی من عترتی من ولد فاطمۃ۔ (ابو داود شریف، کتاب الفتن، باب اول کتاب المھدی، ص ۱۰۶، نمبر ۴۸۲۴)
ترجمہ : حضور ؐ نے فرمایا کہ مہدی میرے خاندان میں سے ہوں گے، اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے
اس حدیث میں ہے کہ حضرت مہدی ؑ حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد میں سے ہوں گے۔ اور مرزا صاحب فاطمہ کی اولاد میں نہیں ہے، اس لئے یہ دعوی کرنا کہ میں مہدی معہود ہوں یہ صحیح نہیں ہے
قاعدہ یہ ہے کہ اگر آپ کو حدیث سے استدلال کرنا ہو تو پوری حدیث سے استدلال کرنا ہو گا، صرف اس کے ایک جز سے استدلال کرکے اپنا مطلب ثابت کرنا صحیح نہیں ہے، یہاں حدیث میں ہے کہ حضرت مہدی حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد میں سے ہوں گے، اورمرزا صاحب فاطمہ کی اولاد میں نہیں ہیں، اس لئے صرف مہدی کے لفظ سے یہ اسدلال کرنا کہ میں ہی مہدی ہوں صحیح نہیں ہے
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کی صلاحیت بیان کی ہے
حضور ﷺ نے بعض مرتبہ کسی آدمی کی صلاحیت بیان کی ہے، کہ اس میں اتنی صلاحیت ہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابراہیم بن رسو ل اللہ کی صلاحیت بیان کی کہ ان دونوں میں اتنی صلاحیت اللہ نے پیدا کی ہے کہ وہ نبی بن جائے، لیکن دونوں حضرات کے بارے میں یہ بھی فرما دیا کہ میرے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے، اس لئے یہ لوگ اب نبی نہیں بن سکتے
لیکن مرزا صاحب نے اس صلاحیت والی حدیث سے یہ استدلال کر لیا کہ یہ لوگ نبی بن سکتے تھے اس لئے میں بھی ظلی نبی، اور طفیلی نبی ہوں، یہ کتنا غلط استدلال ہے، کہ آدھی حدیث کو لے لی اور جہاں ان کا نقصان تھا اس حصے کو چھوڑ دیا
احادیث یہ ہیں
17۔عن عقبۃ بن عامر قال قال رسول اللہ ﷺ لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب۔ (ترمذی شریف، کتاب المناقب، باب قولہ ﷺ لو کان نبی لکان عمر، ص ۸۳۸، نمبر ۶۸۶۳)
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو،حضرت عمر ؓ نبی ہوتے،۔ لیکن نبوت کا دروازہ اب بند ہے اس لئے حضرت عمر نبی نہیں بن سکتے ہیں۔
اس حدیث میں صاف لکھا ہے کہ میرے بعد نبی ہوتے تو عمرؓ ہوتے، یعنی حضرت عمر ؓ میں اللہ نے نبی بننے کی صلاحیت رکھی ہے، لیکن نبوت کا دروزہ بند ہے، اس لئے یہ نبی نہیں بن سکتے
حضور ﷺ کے بعد نبوت نہیں تھی اسی لئے اللہ نے
حضرت ابراہیم ؓ کو وفات دے دی
اس حدیث میں بھی حضرت ابراہیم ؓ کی صلاحیت بیان کی ہے، کہ ان کے اندر اللہ نے اتنی صلاحیت رکھی تھی کہ وہ نبی بن جاتے، لیکن میرے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے، اس لئے اللہ پاک نے ان کو وفات دے دی
18۔عن ابن عباس قال لما مات ابراہیم ابن رسول اللہ ﷺ صلی رسول اللہ ﷺ و قال ان لہ مرضعا فی الجنۃ، و لو عاش لکان صدیقا نبیا۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہ ﷺ و ذکر وفاتہ، ص ۶۱۲، نمبر ۱۱۵۱)
ترجمہ: حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان پر نماز جنازہ پڑھی، اور یہ بھی فرمایا کہ جنت میں ان کے لئے دودھ پلانے والی دائی ہو گی، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق، اور نبی بن سکتے تھے (ان میں اتنی صلاحیت تھی)، لیکن چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہے، اس لئے اللہ نے انکو پہلے ہی موت دے دی۔
اس دوسری حدیث میں پوری وضاحت ہے کہ نبوت کا دروازہ بند ہے، اس لئے اللہ نے حضرت ابراہیم ؓ کو وفات دے دی
19۔قلت لعبد اللہ بن ابی اوفی، رأیت ابراہیم ابن رسول اللہ ﷺ؟قال مات و ھو صغیر، و لو قضی ان یکون بعد محمد ﷺ نبی لعاش ابنہ، و لکن لا نبی بعدہ۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہ ﷺ و ذکر وفاتہ، ص ۵۱۲، نمبر ۰۱۵۱)
ترجمہ: میں نے حضرت عبد اللہ ابن ابی اوفی سے پوچھا کہ، کیا آپ نے حضور ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کو دیکھا تھا، تو فرمایا، کہ بچپنے میں ان کا انتقال ہو گیا تھا، اگر اللہ کے یہاں یہ فیصلہ ہوتا کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی بنے تو آپ کے بعد حضرت ابراہیم ؓ زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اس لئے اللہ نے حضرت ابراہیم کو وفات دے دی
اس حدیث میں راوی نے با ضابطہ نفی کی ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہیں، اسی لئے حضرت ابراہیم ؓ زندہ بھی نہیں رہے۔
اوپر والی حدیث میں یہی بات فرمائی ہے کہ حضرت ابراہیم ؓ میں نبوت کی صلاحیت تو تھی، لیکن چونکہ حضور ؐ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے، اس لئے اللہ نے بچپنے ہی میں ان کو وفات دے دی، اس لئے مرزا صاحب کا اس حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ ظلی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہے، صحیح نہیں ہے، کیونکہ خود اسی حدیث کے دوسرے ٹکڑے میں موجود ہے کہ حضور ؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close