مضامین

مرکزی مسلم پارلیمنٹری بورڈ

محمد یاسین جہازی 9891737350

مرکزی مسلم پارلیمنٹری بورڈ

محمد یاسین جہازی

9891737350

19/ ستمبر1945کو وائسرائے ہند لارڈ واویل نے اعلان کیا کہ دسمبر 1945سے جنوری 1946کے درمیان مرکزی اور صوبائی لیجس لیٹیو کونسل کے انتخابات ہوں گے۔ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ انتخابات کے بعد ایک ایگزکیٹو کونسل تشکیل دی جائے گی اوراس کے بعد آئین سازی کے لیے اجلاس بلایا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد جمعیت علمائے ہند نے انتخابات کے حوالے سے کل جماعتی متفقہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک مجلس مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا۔

”دہلی۶/ ستمبر۔ حکومت ہند کی جانب دے مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز کے جدید انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ اور ملکی سیاسی مجالس نے اس سلسلے میں کام کرنا شروع کردیا ہے۔

جمعیت علمائے ہند ضروری سمجھتی ہے کہ جلد سے جلد اس سلسلے میں جماعتی فیصلے کا اعلان کردے۔ لہذا مجلس عاملہ (ورکنگ کمیٹی) اور جمعیت مرکزیہ (کونسل آل انڈیا جمعیت علما) کے اجلاس بالترتیب 18-17/ ستمبر اور 18-19/ستمبر 1945کو دہلی میں ہونے قرار پائے ہیں، تاکہ قطعی فیصلہ کیا جاسکے کہ جمعیت علمائے ہند کو اس مسئلے میں ملی اور ملکی مفاد کے پیش نظر کونسی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ جمعیت علمائے ہند نے معاملہ کی اہمیت کا لحاظ کرتے ہوئے آزادی پسند جماعتوں، مثلا آل انڈیا مسلم مجلس، آل انڈیا مجلس احراراسلام، آل انڈیا مومن کانفرنس، کرشک پرجا پارٹی بنگال، انڈی پنڈنٹ پارٹی بہار، خدائی خدمت گار سرحد، انجمن وطن بلوچستان، مسلم نیشنلسٹ پارٹی سندھ وغیرہ اور بعض آزاد خیال مسلم زعمائے ملک کو بھی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ دعوت نامے جاری کردیے گئے ہیں۔ ارکان مجلس عاملہ اور جلسہ مجلس عاملہ کے دیگر مدعوین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ 16/ ستمبر کی صبح نو بجے سے پہلے دہلی تشریف لے آئیں اور ارکان جمعیت مرکزیہ 18/ ستمبر کی صبح کو نو بجے سے پہلے دہلی پہنچیں۔

جمعیت علمائے صوبہ دہلی کی جانب سے مجلس استقبالیہ بن رہی ہے، جو مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام کرے گی۔ (محمد وحید الدین قاسمی، دفتر جمعیت علمائے ہند دہلی)۔“ (مدینہ بجنور، 9/ ستمبر1945۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/757)

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا قیام

چنانچہ 18-17/ ستمبر1945کی نشستوں میں لمبی بحث و گفتگو کے بعد ”کل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ“ قائم کیا گیا۔

”آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ جس میں جمعیت علمائے ہند کے علاوہ کل ہند احرار اسلام،…… اور قوم پرور خیالات کی حامل کئی اور جماعتیں شامل تھیں۔ اجلاس آئندہ انتخابات میں حصہ لینے اور دیگر امور کی انجام دہی اور قیام نظم کے لیے ایک ”کل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ“ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔

پارلیمنٹری بورڈ کی صدارت کے لیے حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کا اسم گرامی بہ اتفاق رائے طے پاگیا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/772)

”اس اجلاس میں شرکت کرنے والے اراکین اور نمائندگان کی کل تعداد دو سو چھ تھی۔ اجلاس نے سب سے پہلے ایک تجویز میں ورکنگ کمیٹی کی کارروائی کو قابل مبارک باد قراردیا کہ اس نے وقت کی نزاکتوں پر نظر کرکے ملک کی متعدد آزادی خواہ جماعتوں اور افراد کی شرکت سے ایک آل انڈیا مسلم پارلیمنٹری بورڈ بنایا ہے، تاکہ متحدہ طور پر سب آزادی خواہ مسلمان مرکزی اور صوبجاتی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/787)

تجویز کا متن درج ذیل ہے:

”مرکزیہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس مجلس عاملہ کی اس کارروائی کو قابل مبارکباد سمجھتا ہے کہ اس نے وقت کی نزاکتوں پر نظر کرکے ملک کی متعدد آزادی خواہ جماعتوں اور افراد کی شرکت سے ایک آل انڈیا مسلم پارلیمنٹری بورڈ بنایا ہے، تاکہ متحدہ طور پر سب آزادی خواہ مسلمان مرکزی اور صوبجاتی انتخاب میں حصہ لے سکیں۔ مرکزی جمعیت علما کا یہ جلسہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔

مولانا بشیر احمد صاحب کی تائید کے بعد بالاتفاق ریزولیوشن پاس ہوا۔“(جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/271)

جمعیت کی اراکین مرکزیہ کی مسلمانوں سے اپیل

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے قیام کے بعد جمعیت کی اراکین مرکزیہ نے آئندہ انتخابات میں حریت پسند مسلمانوں کو ان کا فرض بتلاتے ہوئے ان سے درج ذیل اپیل کی:

”دہلی25/ ستمبر۔ چوں کہ حکومت کے اعلان کے مطابق مرکزی اور صوبائی انتخابات عنقریب ہونے والے ہیں اور چوں کہ اس کی ضرورت ہے کہ مسلمان اس کا فیصلہ کریں کہ آزادی ملک اور پانی موجودہ حالت بہتر بنانے کے لیے، انھیں کسی قسم کے نمائندہ اجتماع جمعیت علمائے ہند کی دعوت پر دہلی میں ہوا، جس میں جمعیت علمائے ہند، آل انڈیا مومن کانفرنس، آل انڈیا مسلم مجلس، کرشک پرجا پارٹی بنگال، خدائی خدمت گار سرحد، انڈی پنڈنٹ پارٹی بہار اور دوسرے آزادی پسند مسلمانوں نے نہایت غورو خوض کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ کیاکہ مسلم لیگ کی موجودہ پالیسی اور اس کا نصب العین نہ صرف ملک کے لیے؛ بلکہ خود مسلمانان ہند کے لیے نہایت غلط، ضرر رساں اور تباہ کن ہے۔ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ ایک متحدہ پلیٹ فارم قائم کرکے ایک مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کی نگرانی میں مسلمانوں کے صوبائی اور مرکزی الیکشن لڑانے کا انتظام کیا جائے اور اپنے اپنے نمائندے اس بورڈ کے لیے منتخب کردیں۔ چنانچہ اس تجویز کے کے مطابق ایک مسلم پارلیمنٹری بورڈ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی کی صدارت میں قائم کیا گیا ہے۔

پس جمعیت مرکزیہ علمائے ہند تمام مسلمانوں سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ صرف ان امیدواروں کو اپنے ووٹ دیں اور انھیں کو کامیاب بنانے کی پوری جدوجہد کریں، جنھیں مسلم پارلیمنٹری کی تائید و حمایت حاصل ہو۔ ایسے امید واروں کو کامیاب بنانا اس لیے ضروری ہے کہ انھیں نمائندگان کے ذریعہ ہندستان کے مقصد آزادی کے لیے کوشش اور مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور معاشرت وغیرہ کی مکمل حفاظت کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سرکار پرست اور جاہ طلب افراد کی غلط پروپیگنڈہ سے محفوظ رکھیں۔ مسئلہ اتنا نازک اور اہم ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ کر نمائشی نعروں سے متاثر ہوکر اگر انھوں نے کوئی غلط قدم اٹھایا، تو یقینا انھیں اتنا سخت نقصان پہنچے گا، جس کی تلافی ناممکن ہوجائے گی۔

مرکزیہ جمعیت علمائے ہند تمام مسلمانوں سے کامل توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنی ملی غیرت اور فرض شناسی کا پورا ثبوت دیں گے۔“ (روزنامہ شہباز، لاہور، 26/ ستمبر1945)

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا پیغام

”۶/ اکتوبر1945: دہلی آزاد مسلم پارلیمنٹری بورڈکے دفتر نے حسب ذیل احکام جاری کیے ہیں:

ہم آزادی کی خواہ مسلمان اور انگریزی شہنشاہیت اور اس کی سیاسی فوجوں کو شکست دینے اور اپنی زندگی کو بچانے کے لیے آخری جدوجہد میں حصے لے رہے ہیں۔ ہمیں انتخابی محاذ پر بہت سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ اس وقت تمام دنیاوی مصروفیتوں کو چھوڑ دینا چاہیے اور اپنا اولیں فرض یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر حلقہ میں زیادہ سے زیادہ غریب مسلمان – جو ہمارے ہمدرد ہوں – ووٹر بن جائیں۔ ایک منٹ ضائع کیے بغیر ووٹر بنانے کی کوشش شروع کردینی چاہیے۔ ذراسی غفلت تباہ کن ہوگی۔ حکومت نے مسلم لیگ کی آرزو کے مطابق یہ طے کیا تھا کہ صرف امیروں کے ووٹوں سے نیا انتخاب ہو؛ مگر مولانا ابوالکلام آزاد نے اس پالیسی پر ضرب رسید کی اور حکومت کو مجبور کردیا کہ غریبوں کو ووٹر بنایا جائے۔ اس حق سے ضرور فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔“ (مدینہ، بجنور، ۹/ اکتوبر 1945۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/807)

الیکشن کی ہنگامہ آرائیاں

جمعیت علمائے ہند اور آزادی خواہ تنظیموں نے ہندستان کی آزادی اور مسلم لیگ نے مطالبہ پاکستان اور حکومت اسلامی کے قیام کے نعرے کے ساتھ الیکشن میں سرگرم حصہ لیا۔

”وائسرائے کے اس (مرکزی و صوبائی انتخابات کے)اعلان کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہوگئیں اور پورے ملک میں جلسوں اور جلوسوں کا سیلاب آگیا اور فلک شگاف نعروں کی دھوم مچ گئی۔ یہ الیکشن درحقیقت ہندستان میں آزادی کی پہلی منزل ہے، تھی اور یہی الیکشن آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والا تھا۔ یہ الیکشن کسوٹی تھی مسلم لیگ کی واحد نمائندگی اور کانگریس کے اس دعویٰ کی: وہ ہندستان کے ہر فرقہ کی نمائندہ ہے۔ الیکشن فرقہ وارانہ بنیاد پر تھا۔ مسلمانوں کو صرف مسلم امیدواروں کو منتخب کرنا۔ اس طرح براہ راست مقابلہ مسلم لیگ اور جمعیت علمائے ہند اور دوسری قوم پرور جماعتوں کے درمیان ہوگیا۔ اگر مسلم لیگ اس الیکشن کے میدان میں سرخ روہوکر نکلتی ہے، تو کوئی طاقت اس کو پاکستان حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ نے اپنی ساری طاقت اور اپنے سارے حربے اس الیکشن میں استعمال کیے۔“ (تاریخ جمعیت علمائے ہند، جلد اول، ص/155)

مسلم لیگ کے ہتھکنڈے

”مسلم لیگ نے ہر جگہ ”مسلم نیشنل گارڈ“ کے نام سے نوجوانوں کو بارودی رضاکار کی شکل دے دی تھی، جس میں کچی عمر کے نواجوان شامل تھے۔ راقم الحروف کے وطن میں ہر جمعہ کو بعد نماز جمعہ ان کا بارودی جلوس نکلتا تھا۔ پاکستان زندہ باد، سینہ پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے، ہندی ہندو ہندستان،لے کے رہیں گے، پاکستان، کے نعرے اس جوش و جذبے سے لگاتے تھے، جیسے سچ مچ نوجوانوں کا یہ دستہ محاذ جنگ پر ہے۔ یہ جلوس پورے قصبہ میں گشت کرتا تھا۔ اس کے ساتھ پرجوش عوام کی بھیڑ ہوتی تھی۔ مسلمانوں کے بعض فرقے، جو علمائے دیوبند کے سخت دشمن ہیں، ان کی دشمنی اور ضد میں سو فی صدی اور بعض خانقاہوں سے وابستہ مریدین کا ایک زبردست حلقہ مسلم لیگ اور پاکستان کا زبردست حمایتی تھا۔ اور قصبہ کے اکثر مال دار افراد بھی ہمنوا تھے۔ اس طرح کے سارے لوگوں کا مجمع اس جلوس میں شامل ہوتا تھا۔ یہ جلوس ہمارے جیسے لوگوں کے سامنے سے گذرتا تھا، تو وہ ناشائستہ حرکتیں کرتا تھا کہ دل و دماغ دونوں کھول جاتے تھے۔ شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ اور مولانا آزادؒ پر تبرہ بازی ہوتی اور سارا جلوس قہقہے لگاتا تھا۔……

علما ومشائخ کا ادب و احترام تو دور کی بات تھی، ان کے ساتھ انسانیت و شرافت کا بھی سلوک کرنا مسلم لیگ والوں کے لیے حرام تھا۔ عوام میں غنڈہ گردی کی ایک لہر چل پڑی تھی۔ سماج میں باوقار لوگ کس طرح انسانیت کی سطح سے بھی نیچے اتر آئے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا اس کے سوا کیا کہا جائے کہ پاکستان کے سحر نے ان کو مسحور کردیا تھا اور وہ دیوانوں کی طرح ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے تھے۔ غنڈوں اور بازاری لوگوں کی طرح حرکتیں کرتے تھے۔ سید پور میں مولانا حسین مدنیؒ کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ علی گڑھ میں مولانا آزادؒ پر حملہ کیا گیا۔ کلکتہ میں مولانا رعبد الرزاق ملیح آبادی پر اور مولانا محمد نصیر صاحب پر فیض آباد میں چھرے سے حملہ کرکے زخمی کیا گیا۔ بھاگلپور میں مولانا مدنیؒ پر کار میں پیچھے سے حملہ کیا گیا۔ گیا میں مولانا محمد قاسم شاہ جہاں پوری اور مولانا محمد اسماعیل سنبھلی کی ایک مسجد میں گھیر کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ استصواب رائے کا یہ الیکشن اسی ماحول میں ہورہا تھا۔

اسی الیکشن کے زمانہ میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ملتان سے واپس ہورہے تھے۔ لاہور سے پنجاب میل میں سوار ہوئے۔ لاہور اسٹیشن کے لیگی عناصر نے ریلوے کے ٹیلیفون سے آگے والے اسٹیشنوں کو فون کردیا کہ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمان اس ٹرین سے جارہے ہیں، ان کے خلاف شان دار مظاہرہ ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امرتسر، جالندھر، لدھیانہ وغیرہ پنجاب کے جن جن اسٹیشنوں پر پنجاب میل رکنے والا تھا؛ ہرجگہ آبرو باختہ لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہواگیا اور ڈبے کو گھیر کر نہایت گندے اور فحش نعرے لگائے۔ مغلظات گالیاں دیں۔ ہندووں کا دلال، زر خرید غلام، عوام کے چندہ کا حرام خور مردہ باد اور سب کی تان ٹوٹتی تھی”پاکستان زندہ باد“، ”لے کے رہیں گے پاکستان“پر، اور جب نعروں سے تسلی نہیں ہوئی، تو ریلوے لائن سے پتھروں کے ٹکڑے لے کر ڈبے پر برسانان شروع کردیا۔ صرف ۲ نفر عمر رسیدہ مقدس مظلوم ایک، سیکڑوں اور ہزاروں کی بے قابو بھیڑ دوسری طرف اور ہر حرکت پر آمادہ۔ اللہ محافظ تھا۔ ان دونوں بزرگوں کو کوئی خاص چوٹ نہیں آئی؛ البتہ مجاہد ملت کے ایک ہاتھ پر چوٹ آئی۔ کھڑکیوں کے شیشے چور ہوگئے۔ پھر لکڑی اور جالیوں والی کھڑکیاں چڑھادی گئیں، تو وہ بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ گئیں۔

مولانا آزادؒ شملہ سے کلکتہ جارہے تھے، اسی ٹرین سے لیگی لیڈروں کی ایک ٹیم بھی سفر کررہی تھی۔ روانگی کے وقت یونی ور سیٹی میں ٹیلیفون کردیا گیا کہ طلبہ اسٹیشن پر آجائیں۔ مولانا آزاد اسی ٹرین سے چل رہے ہیں۔ یونی ورسیٹی میں خبر پھیل گئی۔ طلبا کا ایک جم غفیر ٹرین پہنچنے سے پہلے ہی اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ جوہر تعلیم سے آراستہ مسلمان گھرانوں کے چشم و چراغ، مہذب خاندانوں کی اولاد نے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اپنی شرافت و تہذیب کا وہ مظاہرہ کیا کہ شرافت و انسانیت نے اس طرف سے نگاہیں پھیرلیں؛ کیوں کہ ان کی پتلونیں کھلی ہوئی تھیں۔ اور جب ٹرین چلنے لگی تو زنجیر کھینچ کر ٹرین کو روک دیا گیا۔ اس طرح ایک گھنٹہ مسلسل اور بار بار ٹرین کو روک کر مولانا آزاد کے ڈبے کے سامنے ننگا ناچ ہوتا رہا۔ غلاظت سے بھرے ہوئے جملے، گالیاں، فحش نعرے اس رقص بے محاباکے لیے تال سر کا کام دے رہے تھے۔“ (تاریخ جمعیت علمائے ہند، جلد اول، ص/1958-60)

شیخ الاسلام کو قتل کرنے کی کوششیں

جمعیت علمائے ہند اور مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے صدر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کو متعدد بار قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ چنانچہ 29/ ستمبر1945کو سید پور بنگال میں ایک بے ہنگم بھیڑ نے آپ پر حملہ کردیا۔

سید پور بنگال میں قتل کی کوشش

”29/ ستمبر۔ دوسرے روز ناشتہ کے بعد علمی مجلس رہی۔ عصر کے بعد نماز عصر ڈومر میں تقریر فرمائی۔ بعد مغرب سید پور روانہ ہوئے۔ وہاں لیگی غنڈوں کے ایک جم غفیر نے حضرت اور ان کے رفقا کو گھیر لیا اور راستہ روک دیا۔بمشکل تمام پلیٹ فارم سے باہر نکلے۔ لیگی بلوائی حضرت کو کسی صورت سے آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے۔ سیاہ جھنڈیاں لیے ہوئے مردہ باد کے نعرے لگارہے تھے۔ اکثر غنڈے شراب کے نشے میں مست تھے۔ایک لیگی نے حضرت مدنی مدظلہ کے سر سے ٹوپی اتارلی۔ لیگیوں نے رفقائے سفر کو پوری سرگرمی سے گھونسوں اور مکوں سے زود کوب کیا۔ گاڑی بان کو زخمی کردیا۔ پولیس کو خبر دی گئی، لیکن منزل مقصود یعنی اس گاوں تک پہنچانے کی ذمہ داری نہ لے سکی۔ اس لیے آگے بڑھنا لیگیوں نے ناممکن کردیا تھا۔شب بھر اسٹیشن ہی پر واپس ہوکر قیام فرمایا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/798)

کٹیہار بہار میں حملہ

”30/ ستمبر1945: صبح کو واپس کٹیہار تشریف لائے۔ یہاں کا واقعہ اپنی نوعیت میں سب سے زیادہ شرمناک اور افسوس ناک ہے۔ لیگیوں نے (جن میں شہر کے غنڈوں کے علاوہ اسکو کے طلبہ زیادہ تھے) ایک گھڑے میں کیچڑ گھولا اور ایک ہار بوسیدہ جوتوں کا، ایک شہد کا چھتہ نالی کی غلاظت میں ڈبوکر لائے۔ سیاہ جھنڈیاں دکھا کر مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔

حضرت بھاگلپور جانے والی گاڑی میں سکنڈ کلاس کے ڈبہ میں تشریف فرما تھے۔ ڈبے کے پاس آکر نہایت فحش اور گندی گالیاں اور نعرہ لگالگا کر شور مچارہے تھے۔ ان کی تعداد بہت کافی تھی۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/798)

بھاگلپور بہار میں حملہ

”یکم اکتوبر1945: دن کو ناتھ نگر میں، پھر چمپا نگر میں عظیم الشان جلسے ہوئے۔ …… سہ پہر کو جلسہ گاہ جاتے وقت لیگیوں نے شور برپا کیا، جو بیان سے باہر ہے۔ یہاں حضرت کو غنڈوں نے گھیر لیا۔ یہاں بھی شہر کے غنڈوں کے علاوہ مسلم ہائی اسکول کے طلبا کے ایک جم غفیر نے حضرت کے رفقا کو گھیر لیا۔ اور جلسہ گاہ جانے سے روکنے لگا۔ تیس چالیس لڑکے سیاہ جھنڈیاں لیے ہوئے تھے۔ غدار قوم مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، مکے گھونسے چلانے لگے۔ خدا کے فضل سے حضرت کو ضرب نہیں آئی۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/799)

لیگیوں کی شرم ناک حرکتوں پر مولانا مدنیؒ کا جواب

”شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی مد ظلہ نے حسب ذیل بیان شائع کیا ہے:

”جو بدعنوانیاں میرے ساتھ سید پور، کٹیہار، بھاگلپور میں اور حضرت مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالوفا، مولانا محمد قاسم شاہ جہاں پوری اور مولانا عبد الرزاق صاحب ملیح آبادی کے ساتھ علی گڑھ، گیا اور کلکتہ میں مسلم لیگیوں نے جو خلاف انسانیت اور اسلامیت سوز بد عنوانیاں کی ہیں، یا دہلی اور کان پور میں آزادی پسند مسلم جماعتوں کے ساتھ عمل میں لائی جارہی ہیں، وہ یقینا ملت اسلامیہ کے لیے شرم ناک ہیں؛ مگر میں تمام مسلمانوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ صبرو استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور ان بدنام کنندگان ملت اسلامیہ کے جواب میں کسی بد تہذیبی کو عمل میں نہ لائیں۔

حقیقی جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے امن و سکون کے ساتھ مہذب طور پر پوری جدوجہد کی جائے، تاکہ مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے نامزد امیدوار کامیاب ہوں۔ اگر آپ ایسا کرنے میں فائز المرام ہوگئے، تو لیگ اور اس کی مجرمانہ شوخیاں خود بخود مرجائیں گی اور ہندستان آزادی کے کنارے پر پہنچ جائے گا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/962)

مرکزی اسمبلی الیکشن کا نتیجہ

آوائل جنوری 1946میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کانتیجہ سامنے آیا۔اس انتخاب میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے مخصوص سبھی تیسوں نشستیں جیت لیں اور بہت سی جگہوں پہ مسلم نیشنلسٹوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں – غیر مسلم حلقہ ہائے انتخاب میں کانگریس کی کامیابی بھی اسی طرح حیرت انگیز تھی-مسلم لیگ نے کل مسلم نشستوں میں سے 86.6 فی صد اور کانگریس نے کل عام نشستوں میں 91.3 فی صد حاصل کیں -مرکزی قانون ساز مجلس کے حتمی اعداد و شمار حسب ذیل تھے:کانگرس: 57۔مسلم لیگ: 30۔آزاد:5۔اکالی سکھ:2۔ یورپی: 8۔ میزان:102۔اس جیت کی خوشی میں مسلم لیگ نے ۱۱/ جنوری کو یوم فتح منانے کا اعلان کیا۔

”بمبئی۔ 30/ دسمبر۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ مرکزی اسمبلی کے نتائج سے سبق لے کر ہمارے مخالفین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی بے سود کوششوں سے باز آجائیں۔ آپ نے دعویٰ کیا کہ یہ نتائج پاکستان اور مسلم لیگ کی واحد نمائندگی کے حق میں مسلمانوں کے واضح فیصلے ہیں۔

اس غیر معمولی اور عدیم النظیر کامیابی پر خوشیاں منانے کے لیے قائد اعظم نے ہدایت فرمائی کہ ہم 11/ جنوری (1947)بروز جمعہ پہلے مقابلہ میں اپنی شان دار فتح کا دن منائیں۔“ (روزنامہ منشور دہلی،یکم جنوری 1947)

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات

مرکزی اسمبلیوں کے بعد فروری 1946سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات شروع ہوئے، جس میں سبھی پارٹیوں نے اپنی اپنی جیت درج کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ حتیٰ کہ نفرت و عداوت، مار دھاڑ اور غنڈہ گردی سے بھی کام لیا گیا۔

مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب کی عداوت

”مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ لاہور میں مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مولانا حسین احمد صاحب مدنی کی محبت میں مجھے جنت بھی ملے، تو میں جنت میں نہ جاوں گا۔“ (شہباز لاہور، 17/ فروری1946)

مسلم لیگ کے الیکشنی فتوے

مسلم لیگ نے الیکشن میں جیت حاصل کرنے کے لیے جہاں غنڈہ گردی اور ماردھاڑ سے کام لیا، وہیں مسلمانوں کے مختلف مسالک کے علمائے کرام اور صوفیائے عظام سے حمایت حاصل کرنے کے لیے فتوے بھی حاصل کیے:

”حضرت دیوان سید آل رسول علی خاں مدظلہ آستانہ علیہ اجمیر شریف کا ارشاد ہے …… مسلم لیگ نے حصول پاکستان کے لیے انتخابات لڑنے کا اعلان کردیا ہے، اس لیے ہر مسلمان دل و جان کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ ہوجائے۔

حضرت پیر لاڈلے حسین شاہ مد ظلہ سجادہ نشین گلبرگہ شریف دکن نے فرمایا …… کہ صرف مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی جماعت ہے۔

مولانا حافظ خوانہ غلام سدید الدین مدظلہ سجاد نشین تونسہ شریف نے ایک خاص اعلان میں فرمایا …… مریدان باصفا اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ مسلم لیگ کا ساتھ دیں۔

حضرت سجادہ نشین صاحب مدظلہ دربارپاک پٹن شریف کا ارشاد ہے کہ ……مسلمانوں کے ووٹ کے حق دار صرف مسلم لیگی نمائندے ہیں۔

مولانا الحاج سید شاہ غلام محی الدین چشتی نظامی مد ظلہ سجادہ نشین گولڑہ شریف نے فرمایا ……مسلمانو! اس معرکہ حق و باطل میں مسلم لیگ کا ساتھ دو۔

مولانا حافظ شاہ محمد قمر الدین چشتی نظامی مدظلہ سجادہ نشین سیال شریف کا ارشاد ہے …… ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جنگ پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دے۔

زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری مدظلہ نے فرمایا …… محمد علی جناح ہمارا بہترین وکیل ہے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔

حضرت مولانا سید فضل شاہ مد ظلہ امری حزب اللہ جلال پور شریف کا ارشاد ہے …… مسلمانو! وحدت امت کو قائم رکھو اور مسلم لیگ کا ساتھ دو۔ (شعبہ نشرواشاعت پنجاب مسلم لیگ)۔“ روزنامہ منشور،۶/ جنوری 1946)

دربار امام ربانی مجدد الف ثانی سرہند شریف کا پیغام مسلمانان بنگالہ کے نام: تمام مسلمان ذاتیات کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی خدمت کریں۔…… دعا گو خلیفہ سید مقبول احمد سجادہ نشین دربار عالیہ مجددیہ سرہند شریف۔“ (روزنامہ منشور دہلی، 20/ مارچ1946)

صدر مسلم لیگ یوپی کا بیان

صوبائی الیکشن کے وقت صدر مسلم لیگ محمد اسماعیل خاں نے مسلمانان یوپی کے نام درج ذیل پیغام دیا

”یہ انتخابات پاکستان کی بنیادکا ستون اول ہے۔ ان کے نتائج مسلمان قوم پرور اور صاحب حکومت و اختیار زندگی کی تعمیر کا باعث ہوں گے۔ مسلم لیگ وزارتوں یا موجودہ صوبائی اختیارات کے حصول کے لیے جدوجہد نہیں کر رہی ہے؛ بلکہ وہ پاکستان حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کے لیے الگ مجلس آئین ساز منواکر رہے گی۔ اور دنیا پر یہ ثابت کردے گی کہ مسلمان اپنی آزادی کی تشکیل و تعمیر خود ہی اپنی منشا کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ مسلمانان یوپی اپنے فرض کو بخوبی ادا کریں گے۔ اور اس شر انگیز مداخلت کو -جو مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے کانگریس کر رہی ہے، بالکل ناکام کردیں گے اور اپنا ایک ایک ووٹ صرف مسلم لیگو کے امیدواروں کو دے کر یہ ثابت کردیں گے کہ وہ کسی ایسے آئین کو ہرگز منظور نہیں کرسکتے، جو پاکستان کی بنیاد نہ نی بنایا گیاہو، خدا تمھارا مدد گار ہے۔ محمد اسماعیل خاں صدر مسلم لیگ۔“ (روزنامہ منشور دہلی،6/ مارچ 1946)

جمعیت علما کے امیدوار کے گھر کو جلا دیا گیا

مسلم لیگ نے فتووں کے علاوہ مار دھاڑ اور غنڈہ گردی سے بھی کام لیا۔

”کلکتہ، 25/ مارچ سید پور کانگریس کمیٹی کے سکریٹری نے ذیل کا تار صدر کانگریس مولانا ابوالکلام صاحب آزادؒ کے نام بھیجا ہے:

22/ تاریخ کی شب کو لیگی شورش پسندوں نے مولوی ریاض الدین احمد کے مکان کو آگ لگادی۔ آپ جمعیت علما کے ٹکٹ پر نیلفادی مسلم دیہی حلقہ سے انتخاب لڑرہے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ مولوی صاحب کا ایک لاکھ کا نقصان ہوگیا۔

نو اشخاص بری طرح زخمی ہوگئے ہیں۔ مولوی صاحب کا مکان مدرسہ ملٹری کیمپ کے متصل واقع ہے۔“ (روزنامہ اجمل ممبئی، 26/ مارچ 1946)

مسلم لیگ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے میں کامیاب رہی اور جمعیت علمائے ہند اور قوم پرور مسلمانوں کو جتنی سیٹیں ملنی چاہیے، وہ نہ مل سکیں؛ حتیٰ کہ مسلم اکثریتی حلقے میں بھی جمعیت علمائے ہند کے امیدوار ہار گئے۔ چنانچہ جمعیت کے ٹکٹ سے انتخاب لڑنے والے ڈاکٹر مرتضی علی سلہٹ آسام میں ہار گئے اور آپ کے بالمقابل مسلم لیگ کے امید واردیوان عبد الرب چودھری جیت گئے۔(روزنامہ منشوردہلی، 28/ جنوری 1946) اور مسٹر مقبول احمد نواکھالی سنٹرل مسلم حلقے سے ہار گئے، ان کو 3555ہی ووٹ مل سکے۔(روزنامہ اجمل ممبئی، 29 مارچ 1946)

اسمبلی الیکشن کے نتائج

انتخابات کے فورا بعد صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے نتائج سامنے آگئے۔

”دستور ساز اسمبلی میں برطانی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے لیے 389نشستیں رکھی گئی تھیں،ان میں سے 207نشستوں پرکانگریس کے امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور 73نشستوں پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا ہے۔“(روزنامہ انجام دہلی، 27/ جولائی 1946)

اس الیکشن میں مسلمانوں کے لیے 78نشستیں مخصوص تھیں، جن میں سے 73نشستوں پر مسلم لیگ نے جیت درج کراکر دوسری بڑی پارٹی کا درجہ حاصل کرلیا، یعنی اس نے مرکزی اسمبلی کے تمام مسلم حلقوں کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے زیادہ تر مسلم حلقوں پر قبضہ کر لیا۔اور اسی انتخاب نے پاکستان کا راستہ کھول دیا۔

الیکشن کے بعد صدر جمعیت کا بیان

”اب جب کہ تمام صوبوں کے انتخابات ختم ہوچکے ہیں اور ان کے نتائج کا اعلان بھی بڑی حد تک کیا جاچکا ہے، میں جمعیت علمائے ہند کی جانب سے ان تمام رائے دہندگان کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں، جنھوں نے جمعیت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کے حق میں رائے دی اور ان اہم اسلامی مقاصد کو تقویت پہنچانے کے لیے پوری جدوجہد کی، جن کے لیے جمعیت نے اس مرتبہ انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ انتہائی بے سروسامانی اور عدم تیاری کے باوجود کم از کم وقت میں ہمیں امید ہے کہ کہیں زیادہ کامیانی حاصل ہوئی۔ جس نے مستقبل کے متعلق ہماری توقعات کو نہایت روشن بنادیا۔ اور اپنے جدید تجربات کے بعد ہم قوی امید رکھتے ہیں کہ جوں جوں حق رائے دہندگی کو وسعت ہوتی جائے گی اور عامۃ المسلمین اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے میں آزاد ہوتے جائیں گے، توں توں جمعیت علما اور دوسری آزاد خیال جماعتوں کی مکمل کامیابی کے امکانات پڑھتے چلے جائیں گے۔

میں جس وقت ان مسلمانوں کے جوش و خروش اور ایثار و قربانی کا اندازہ لگاتا ہوں، جنھوں نے زبردست اشتعال اور بے پناہ تشدد کے باوجود نہایت خاموشی اور استقلال کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا، تو میرے دل میں ان مسلمانوں کی عزت وعظمت بہت بڑھ جاتی ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو عمدا گمراہ نہ کیا جائے اور غلط پروپیگنڈا کے ذریعہ انھیں صحیح مقصد سے ہٹانے کی کوشش نہ کی جائے، تو آزادی کے لیے ان کی تڑپ اور جذبہ عمل کا مقابلہ اور کوئی قوم نہیں کرسکتی۔ حکومت نے انتخابات کا اعلان اچانک کیا تھا۔ اور اس جماعت کے اشارے سے کیا تھا، جو سالہا سال سے مسلمانوں کو ایک خاص طریقہ پر تحریک آزادی کے خلاف ابھارتی رہی ہے۔ مگر جوں ہی مسلم پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل ہوئی، ہمارے سارے کارکن اور ہماری مقامی جماعتیں فورا اس طرف متوجہ ہوگئیں اور کام شروع کردیا۔ میں اس مستعدی اور ہمت کے لیے جمعیت علما کی ماتحت مجالس اور دیگر آزد خیال جماعتوں اور کارکنوں کا خاص طور پر شکر گذار ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ اپنے تجربوں کے بعد آئندہ کام کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھیں گے۔ میرے دل میں عام مسلمانوں کے خلاف کوئی جذبہ نفرت نہیں، جنھیں جان بوجھ کر مخصوص اغراض کے استعمال کیا گیا اور جن سے اسلامی روایات اور اسلامی اخلاق کے بالکل خالف ایسی حرکات سرزد کرائی گئیں، جو کسی مذہب میں جائز نہیں ہیں۔

آزاد خیال امیدواروں پر قاتلانہ حملے اور ان کے املاک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے آتش زدگی کی وارداتیں ایسے سیاہ کارنامے ہیں، جو ہندستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھے جائیں گے۔ جو افراد یا جماعتیں ان افعال کی ذمہ دار ہیں، انھیں شرم آنی چاہیے کہ اس سب کچھ کے باوجود جمعیت سے وابستگی رکھنے والوں نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں ان حضرات کا جنھیں اس قسم کے حادثات میں کوئی نقصان پہنچا، جمعیت کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حق تعالیٰ انھیں اجر عظیم عطا فرمائے۔

بہت سے حلقوں میں مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کا کامیاب ہوجانا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ واحد نمائندگی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں، وہ باطل ثابت ہوچکے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ان کارکنوں اور رائے دہندگان کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جنھوں نے دن رات ایک کرکے اس مہم کو کامیاب بنایا۔

میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتا کہ انتخابی مہم کو حکومت اور رجعت پسند جماعتوں کی باہمی سازش کے ذریعہ ہر قسم کے غلط اور مکروہ پیروپیگنڈہ کے باوجود جمعیت الانصار کے پرجوش ارکان اور عربی و انگریزی داں آزادی پسند طلبہ نے جس جرات و ہمت سے اس مہم کو سرکیا ہے، وہ لائق صد ہزار تبریک و تحسین ہے۔

میں ان شہدا کے ورثائے کرام کی خدمت میں اپنی اور تمام آزادی خواہ جماعتوں کی جانب سے پوری ہمدردی اور دل سوزی کا اظہار کرتے ہوئے مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔

آخر میں ہندستان کے آزادی طلب مسلمانوں کو اس موقع پر یہ انتباہ کرتا ہوں کہ انھیں انتخابات کے خاتمہ پر یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے سامنے اب اور کوئی مہم نہیں ہے۔ اصل مہم اب آرہی ہے۔ ہمیں ہندستان کی آزادی کے لیے ہر وقت براہ راست جدوجہد کے لیے آمادہ رہنا چاہیے اور آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے لیے باعزت مقام کے حصول میں جمعیت علمائے ہند کے نقطہ نظر کوکامیاب بنانا چاہیے۔“ (روزنامہ شہباز لاہور، ۲/ اپریل 1946)

لیگیوں کی حرکت پر مولانا ابوالکلام آزادؒ کا بیان

الیکشن جیتنے کے لیے مسلم لیگیوں کے سیاہ کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا آزادؒ نے ایک بیان دیا۔

”دہلی، ۴/ اپریل۔ آج مولانا آزاد صدر کانگریس نے ایک طویل بیان دیتے ہوئے کہا کہ بنگال کے انتخابات ایک مذاق تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتخابات پر صحیح معنوں میں انتخابات نہ تھے؛ بلکہ انھوں نے جہاد کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ان انتخابات میں لوگوں کو مذہب کے نام پر برانگیختہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔ انتخابات عموما سیاسی پروگرام کی بنا پر لڑے جاتے ہیں؛ لیکن بنگال میں مسلم لیگیوں نے ان پڑھ پیروں اور مذہبی پیشواوں کا سہارا لیا۔ ان کا اثر رو رسوخ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے باپ داد بھی پیر اور مذہبی پیشوا تھے۔ وہ انجان اور ان پڑھ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنا کام نکالتے تھے ان پیروں اور مذہبی پیشواوں نے فتوے پر فتویٰ دیا اور یہ اعلان کای اگر مسلم لیگ کے امیدواروں کو وو ٹ نہ دیے گئے تو ہندستان میں اسلام ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ مسلم لیگ کے مخالفین کو کافر تک کہا گیا۔

مسلم لیگیوں نے ماردھاڑ بھی کی، جس کی ثانی ملنی مشکل ہے۔ حکومت امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔…… مولانا آزاد نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ مسلم لیگیوں نے انتخابات میں غنڈوں سے کام لیا۔ انھوں نے غیر لیگیوں کو زود کوب کیا اور انھیں لوٹا۔ …… اگر انتخابات آزادانہ فجا میں ہوتے، تو بہت سی ایسی نشستیں جو اس وقت مسلم لیگیوں کے قبضہ میں ہیں، غیر لیگی مسلمانوں کے قبضہ میں ہوتیں۔

مولانا آزاد نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر جبروتشدد ہوا۔ غیر لیگی پارٹیوں کے ایجنٹوں کو اپنا کام جاری رکھنے سے روکا گیا۔ غیر لیگی امدی وارں اور ان کے حامیوں کے مکانوں کو نذر آتش کردیاگیا۔ غیر لیگیوں کی جان و مال محفوظ نہ تھی۔ دوسری پارٹیوں نے اپنے حامیوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی؛ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ کے غنڈوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ جہاں غیر لیگی مسلمانوں نے مقابلہ کیا، وہاں غیر لیگی مسلمانوں نے مقابلہ کیا،وہاں غیر لیگی امیدوار بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ کی بدعنوانیوں کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:

۱۔ پیروں اور مذہبی پیشواوں کو یہ فتویٰ دینے پر مجبور کیا گیا کہ اگر کسی نے غیر لیگی امیدوار کو ووٹ دیا، تو موت کے بعد اس پر عذاب الٰہی نازل ہوگا۔

۲۔ مسٹر جلال الدین ڈپٹی اسپیکر بنگال اسمبلی نے ایک سب ڈویژن افسر پر الزام لگایا کہ انھوں نے ایک ہجوم کو ان کی کار پر حملہ کرنے کی انگیخت کی۔

۳۔ مسٹر فضل الحق، سرعبد الحلیم غزنوی اور مسٹر محی الدین خاں پر مسلم لیگ کے حمایتوں کے حملوں کی اطلاعات اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ ۵/ دسمبر کو سید جلال الدین پر حملہ ہوا، ان کی کار کو شدید نقصان پہنچا۔ 27/ دسمبر کو ان پر دوبارہ حملہ ہوا۔ یہ دوسرا حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ سید بدر الدجیٰ کو لیگ کے حامیوں نے ایک پولنگ اسٹیشن پر نہ جانے دیا۔ ۵/ مارچ کو ڈاکٹر ثناء اللہ پر حملہ کیا گیا۔ ان کی کار پاش پاش کردی گئی۔ مسٹر حبیب الرحمان چودھری کو اغوا کرلیا گیا۔ اور انھیں بند رکھا گیا۔ آخر پولیس نے موقع پر پہنچ کر انھیں آزاد کرایا۔ ایک اور غیر لیگی امیدوار مسٹر قاسم علی کو ان کے مکان پر بند رکھا گیا۔ مسٹر برات علی کو اغوا کرلیا گیا۔ انھیں مجبور ہوکر انتخاب سے اپنا نام واپس لینا پڑا۔ مسٹر محی الدین انصاری کو ان کے مکان میں قید رکھا گیا۔مولانا اسلام آبادی کا مکان جلادیا گیا۔ لیگیوں نے تشدد کی داستان اس قدر طویل ہے کہ اس مختصر سے بیان میں ان کا ذکر کرنا مشکل ہے۔“ (روزنامہ شہباز ۶/ اپریل1946)

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا اجلاس

الیکشن کے ان حالات سے فرقہ ورانہ فضا مکدر ہوتی جارہی تھی، چنانچہ اس کی گتھی سلجھانے اور وزارتی مشن میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مشتمل فارمولا پیش کرنے کے لیے مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا ایک اجلاس کیا گیا۔

”نئی دہلی، ۳/ اپریل۔ مرکزی مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا اجلاس کل سے مولانا حسین احمد مدنی کی زیر صدارت ہورہا ہے۔ فرقہ وارانہ سمجھوتہ کے لیے اس فارمولا پر غور کر رہا ہے، جسے جمعیت علما کے لیڈروں نے پیش کیا ہے،تاکہ اسے وزارتی وفد کے سامنے پیش کیا جاسکے۔

آج کے جلسہ میں اس کے ممبران کے علاوہ مسٹر جی۔ ایم۔ سید، شیخ عبدالمجید اور سید عبداللہ بریلوی نے بھی شرکت کی۔ پارلیمنٹری بورڈ کے جو ممبران آج کے جلسہ میں شریک تھے، ان میں ممتاز اشخاص مولانا حفظ الرحمان، مولانا احمد سعید، مولانا محمد میاں اور مولانا داؤد غزنوی تھے۔

جلسے نے ایک تجویز منظور کی، جس میں بنگال میں حامیان مسلم لیگ کی غنڈہ گردی کی مذمت کی، جس کی وجہ سے جمعیت علما کے تین لیڈروں کے گھر جلا ڈالے گئے تھے۔ تجویزیں مقامی پولیس کے جانب دارانہ رویہ کی بھی مذمت کی گئی، جس کی وجہ سے ان لیڈروں کی حفاظت نہ ہوسکی۔ یہ لیڈران چٹاگاوں کے مولوی ریاض الدین، نظیر آباد کے مولوی اسلام الدین اور مولانا منیر الزماں ہیں۔ اول الذکر کی ایک لاکھ روپے کی جائداد جلا ڈالی گئی اور نظیر آباد میں ایک لائبریری اور مدرسہ میں آگ لگادی گئی۔

پارلیمنٹری بورڈ نے مولانا حسین احمد مدنی، مسٹر ظہیر الدین انصاری اور ڈاکٹر شوکت اللہ انصاری پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقرر کی ہے، جو بورڈ کے پروگرام کے ماتحت صوبہ جاتی اسمبلیوں میں اس کے ممبران کی ہدایت کرے گی۔“ (روزنامہ اجمل بمبئی،۴/ اپریل 1946)

صدر جمعیت کی ہدایات

اس اجلاس کے بعد صدر جمعیت نے وابستگان جمعیت کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا:

”شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نے جمعیت علمائے ہند سے تعلق رکھنے والے جملہ حضرات کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات صادر فرمائی ہیں۔ ہر ایک ہمدرد جمعیت علما کا فرض منصبی ہے کہ بسرو چشم ان ہدایات کو تسلیم کرلے اور جان و دل سے ان پر عمل کرے۔

جمعیت علمائے ہند کے تمام اراکین، ممبران، عہدیداران اور تمام ہمدردان جمعیت علما سے میری پرزور استدعا ہے کہ وہ جمعیت علما کی مکمل تنطیم، اس کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے اور اس کے رضاکارانہ نظام یعنی انصار اللہ کو مستحکم کرنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کریں۔ اور جس جفاکشی، ایثار اور خلوص کے ساتھ انھوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہے، اسی تندہی، ایثار اور خلوص کے ساتھ جمعیت علما کی مکمل تنظیم اور اس کی مالی مدد اور اس کے مقاصد کی اشاعت اور اس کے نصب العین کی تبلیغ میں حصہ لیں۔

دوران الیکشن مخالفین جمعیت علما کی جانب سے جس جبرو تشدد کا مظاہرہ کیا گیا اور ان جمعیت علما کے غریب اور کمزور ہمدردوں پر جو زیادتیاں انتخابات کے بعد کی جارہی ہیں، ان کے انسداد کی صورت بھی صرف یہی ہے کہ جمعیت علما کے نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور اس مبارک مسعود و مقصود کے لیے مندرجہ ذیل چند نقائص کی طرف توجہ دلاتا ہوں، جو ہر بہی خواہ جمعیت علما، بہی خواہ ملت، بہی خواہ نفوس اسلام پر عائد ہوتے ہیں اور استدعا کرتا ہوں کہ ان فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنی سعی اور جدوجہد کو وقف کردیا جائے۔

فرائض:

(۱) جمعیت علما کے ابتدائی ممبر زیادہ سے زیادہ بنائے جائیں اور ہر مسلم آبادی میں اس کی شاخیں قائم کردی جائیں۔

(۲) ہر ابتدائی ممبر سے ۲/ فیس ممبری کے ساتھ تنظیم جمعیت علما کے لیے کم ازکم مزید ۲/ کی درخواست کی جائے۔ (یہ زائد رقم مرکز جمعیت علمائے ہند کے لیے مخصوص ہوگی)

(۳) جگہ جگہ سے فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں آرہی ہیں۔ اور خطرہ ہے کہ یہ سلسلہ متعدی ہوگا۔ جمعیت علما کے ہر ایک ہمدرد کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے زیر اثر حلقہ کی فضا درست رہے۔

کوئی اشتعال انگیز صورت اس کے حلقہ میں پیدا نہ ہو اور امن وامان قائم رکھنے کے لیے کسی بھی ممکن سعی اور قربانی سے دریغ نہ کرے۔

(۴) خلق خدا کی خدمت جمعیت علما کے ہر ایک ممبر اور ہر ایک رضاکار کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے۔ تبلیغ دین اور اشاعت علم سب سے افضل اور ابتدائی مذہبی تعلیم کی طرف خصوصیت سے توجہ کی جائے۔ تعلیم بالغان کے لیے محلہ وار شبینہ مکاتب قائم کیے جائیں اور ان میں اردو اور دینیات کی تعلیم دی جائے۔ نماز اور جماعت کا پابند بنایا جائے۔

(۵) انتخابات کے سلسلے میں جن پر مظالم کیے گئے اور جن کے نقصانات ہوئے، جمعیت علما کا فرض ہے کہ ان کی امداد میں پورا حصہ لے۔“ (روزنامہ اجمل ممبئی، 23/ اپریل 1946)

الیکشن میں جمعیت کا ووٹ فی صد

مرکزی اسمبلی الیکشن اور صوبائی اسمبلی الیکشن میں آزاد مسلم پارلیمنٹری بورڈ اور جمعیت علمائے ہند نے کتنے امیدوار کھڑے کیے تھے، اس کی لسٹ مجھے نہیں مل سکی، تاہم جمعیت علمائے ہند کو کتنا ووٹ ملا، اس حوالے سے سید الملتؒ لکھتے ہیں کہ

”اس قسم کی غنڈہ گردی اور منظم سازشوں نے الیکشن کی کامیابی کو قطعا ناممکن بنادیا تھا؛ مگر تاہم

(الف) صوبائی اسمبلیوں میں مجموعی حیثیت سے 16/ فی صدی نشستیں قوم پروروں نے حاصل کرلیں۔

(ب) ووٹوں کے اعداد و شمار نے ظاہر کیا کہ تقریبا چالیس فی صدی ووٹ جمعیت علما کے حق میں پڑے۔

(ج) ہندستان کی سیاست میں جمعیت علمائے ہند نے ایک آئینی حیثیت حاصل کرلی۔

(د) دہریت اور لادینی کے اس طوفانی دور میں مذہبی طبقہ بھی ہندستانی سیاست کا ایسا اہم عنصر بن گیا، جس کو کسی وقت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

(ھ) وہ علما جن کے اقتدار کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا، خود اعلان کرنے والوں کو ان کے دامن میں پناہ لینی پڑی اور لیگ کے جن زعما نے 1937کے الیکشن کی کامیابی کو اپنے مینو فسٹو کو کمال گردانا تھا، ان کو اس مرتبہ کامیابی کے بعد علمائے کرام کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔“ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، ص/211)

الیکشن کے بعد

الیکشن کے بعد کیبنٹ مشن ہندستان آیا اورکانگریس، مسلم لیگ اور جمعیت علمائے ہند کے لیڈروں سے ملاقات کی۔ جمعیت علمائے ہند نے کیبنٹ مشن کے سامنے درج ذیل مطالبات رکھے:

”مولانا حسین احمد صاحب مدنی اور دوسرے قوم پرور مسلم زعمائے نے وزارتی مشن سے جو ملاقات کی تھی، اس کی تفصیلات شائع نہیں ہوئی ہیں۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ مولانا حسین احمد صاحب نے وفد کے سامنے جمعیت علما کی جانب سے حسب ذیل مطالبات پیش کیے تھے:

(۱) تمام سیاسی طاقت ہندستان کے ہاتھوں میں منتقل کردی جائے اور ہندستان کو مکمل آزادی دے دی جائے۔

(۲) ہمیں موقع دیا جائے کہ باہر کی مداخلت ختم ہونے کے بعد ہندستانی عناصر آزادی کے ساتھ اپنے معاملوں کو آپ حل کرسکیں۔

(۳) ہندستان میں مکمل آزاد اور فاقی حکومت ہونی چاہیے۔ وفاق کے اجزا صوبے اپنی جگہ مکمل آزاد اور خود مختار ہوں، تاکہ مرکز وفاقی ریاستوں کی آزادی میں مداخلت نہ کرسکے اور مسلمان اپنے صوبوں میں اپنی قسمت کے خود مالک ہوں۔ ہر نیا اختیار صوبہ کو حاصل ہو۔ مرکز صوبوں کی مرضی کے ماتحت ہو۔ صوبے اپنی مرضی سے اور اپنی بھلائی کے لیے ہو، اختیار اس کو سپرد کردیں، وہ صرف اس پر قائم رہے۔

(۴) وفاق میں شرکت اور وفاق سے علاحدگی کا حق صوبوں کو حاصل ہونا چاہیے۔ اس طرح مرکزی کی بالادستی کا شبہ دور ہوجائے گا۔ جب ایک صوبہ اپنی حکومت کے ہر معاملہ میں آزاد ہوگا، اور اسے یہ حق ہوگا کہ چاہے تو مرکز سے وابستہ رہے اور چاہے تو وابستگی کے بعد علاحدہ ہوکر آزاد ہوجائے؛ تو یہ الزام باطل ہوجائے گا کہ متحدہ ہندستان کا مقصد مسلم صوبوں کی غلامی ہے۔

(۵) مولانا نے مطالبہ کیا کہ وعدے کے مطابق مرکز میں فورا قومی حکومت قائم کی جائے اور ہندو مسلم وزرا کی تعداد برابر ہو۔

(۶) مولانا نے فرمایا کہ انتخابات رائے دہندگی کے محدود و معیار کے ماتحت ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے ہندستان کے معاملہ کا فیصلہ نمائندہ اسمبلی کے ذریعہ کیا جائے، جس کے ماتحت تمام ملک کے بالغ رائے دہندے اپنا ووٹ استعمال کریں۔

آخر میں مولانا مدنی نے فرمایا: جمعیت علمائے ہند اس ملک کی منظم تاریخٰ جماعت ہے، اس کے لاکھوں ممبر ہیں اور تمام ہندستان میں اس کی شاخیں موجود ہیں۔“ (روزنامہ اجمل، بمبئی، 29/ اپریل 1946)

کافی جدوجہد کے بعد انٹیرم گورنمنٹ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close