زبان و ادب

مزاحیہ کہانی

بلاعنوان:ڈاکٹرراحتؔ مظاہری

آپ نے رمضان کے مہینے میں چچابنّے کے روزہ رکھنے اوربیت الخلامیںجاکران کے پانی پینے کاقصہ تو اپنے گھرکے بزرگوں، دادای، نانی یااپنی بڑی باجی سے ضرور سناہوگا، تواِسی طرح آج ہم بھی آپ کو اپنے بچپن کے روزہ رکھنے اورنانی کے گھرجاکراس کے توڑنے کاقصہ سناتے ہیں۔
ویسے ہماراپہلاروزہ تواللہ کے فضل سےسات، آٹھ سال کی عمرہی میں بڑی دھوم، دھام سےرکھوادیاگیاتھامگریہ بات اس وقت کی ہے جب ہم تقریباَ20سال کے ہوگئےتھے، چونکہ شریعت کے لحاظ سے روزہ انسان پر18 سال کی عمرمیں فرض ہوجاتاہے،اس لئے ہم بھی اٹھارہ سا ل کی عمرہی سےامی ، ابا کی ہدایت پر روزہ رکھنے لگتے تھے، چونکہ پورے ملک میں کورناکاقہر تھا اسکول، کالج، ٹیوشن سینٹر، تعلیمی ادارے اوربازارسبھی بند تھے، دوماہ کا طویل لاک ڈاؤن قہرجان بناہواتھاگھرمیں کوئی کب تک قید رہے ؟
روزانہ رات کوسب کے ساتھ ہم بھی ٹھاٹ سے سحری اورشام کوافطاری کرتے، قریب دن کے 11بجے تک آرام سے گھررہتے، قرآن پاک کی تلاوت کرتےمگرچونکہ خوش نصیبی سے ہمارا ننہیال بھی اسی محلہ میں دوگلیوںکے فاصلہ پرتھا ، پولیس کے دستوںسے چھپتے ، چھپاتے روزانہ 12بجے کے آس پاس نانی کے گھرچلے جاتے،جہاں نانی سے جاکر طبیعت خراب ہونے کابہانہ کرکے کھانا لیتے اورنانی بے تکلف رات کے بچے ہوئے دال، چاوَل، گوشت،روٹی، سبزی، ترکاری ، شیرمال،ڈبل روٹی جوبھی موجود ہوتاخوشی سے ہمارے آگے لاکر رکھدیتیں، یہ ڈرامہ تقریباَ پندرہ، بیس دن یونہی چلتارہا، ایک دن کی بات ہے کہ ہم روزانہ کی طرح دسترخوان پر بن بلائے مہمان کی طرح بڑے بڑے لقموںکا لطف لے رہے تھے ، کہ اتفا ق سے پیچھے سے اباآنکلے ہم کھاناچھوڑ کر چھپنے کے لئے غسل خانے کی طرف بھاگناہی چاہتے تھے کہ بڑی موری کی شر عی میں پاؤں پھنسااورہم دھڑام سے چاروںخانے چِت زمین پر گرپڑے، حالانکہ اباکا چہرہ بے حد سرخ اورطبیعت آگ بگولا تھی۔
مگربھئی تم کوکیابتائیں کہ یہ چاروںخانے چِت گرجاناہمیں کتنافائدہ مندثابت ہو ایہ بات خودسےسمجھنے کی ہے زبان سے بتانے کی ہرگزنہیں۔
بجائے اس کے کہ ہم اباکے ہاتھوں فٹ بال بنتے ،خوداباکوہی کونانی نے آڑے ہاتھوںلیا،اور بولیں: بچوںکے لئے قصائی بنے ہیں،

میرابچہ اچھاآرام سے کھاناکھارہاتھا،ارے! زیادہ سے زیادہ یہی توہواہوگا نا! کہ اس نے رات سحری کھالی ہوگی کیاپتہ پھر اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہو؟اوروہ شرم میں تم لوگوںسے نہ کہہ سکاہو۔خبردار! جواس کو ہاتھ لگایا۔
ابااورنانی کی تکرارپرہم خاموش گونگے کاگُڑ کھائے دل، دل میں ہنستے اورچہرہ سے خود کومظلوم وپشیماںظاہر کرتے رہے۔
بس پھرتواباکواتنی سے بات کہنے پرہی صبرکرناپڑا :نالائق! تونانی کے گھرروزانہ دوپہرکوکیا اسی لئے آتاہے: یہاں روزہ توڑے؟
ہم سے کہتاہے کہ نانی امی نے مجھ سے یہ کہہ رکھاہے کہ دوپہرکوکچھ دیرکے لئے آکربازارسے میراسودا ، سلف لادیاکر۔
ہمیں کیامعلوم کہ تویہ یہاںآکر یہ کام کرتاہے؟
ابھی ابّااورنانی کی تین، پانچ جاری ہی تھی کہ ہم گھرکابہانہ کرکے وہاںسے نکلے اورخوف کی وجہ سےبجائے اپنے گھرپہنچنے کے سیدھے چھوٹےماموںکے یہاںجاچھپے، اورپھرشام کو روزہ افطارکے عین وقت پرہی اپنے گھرمیںداخل ہوئے کہ روزہ افطارکے وقت انسان کادل نرم اورغصہ ٹھنڈاہوجاتاہے۔
وہ دن ہے اورآج کادن ہے تب سے الحمدللہ ہمارے مکمل روزے صحیح، سلامت ہیں۔
ڈاکٹرراحتؔ مظاہری،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close