ابتدا میں ہم نے یہ نکتہ بیان کیا کہ مذہب کا بنیادی مقصد لوگوں کی اخلاقی اور روحانی لحاظ سے مدد کرنا ہے۔ ہم نے اس نکتہ کو بھی عیاں کیا کہ اسلام کا مطلب اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنا ہے۔ مذہب اسلام کے یہ معنی بھی ہیں کہ اسلام درحقیققت مغفرت حاصل کرنے اور نجات پانے کا ایک طریقۂ کار ہے۔ نجات سے مراد اخروی زندگی میں مسرت کا حصول ہے۔ ہمیں یہ علم ہے مذہب کے مطالبات بہت وقت طلب ہوتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ ساری کاوش لوگوں کو اس دنیا میں مسرت عطا کرے گی یا ان کے مسائل کو حل کئے بغیر ان کی مسرت کو مؤخر رکھےگی۔ کیا مذہب بالخصوص اسلام میں جو احکام ہیں ان کا مقصد دنیا میں زندگی گزارنے کو ناقابل برداشت بنانا ہے تاکہ اخروی زندگی میں ان کو کامیابی اور مسرت حاصل ہو۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مسرت صرف آخرت کے لئے ہے یا اس دنیا کے لئے بھی؟
مسرت یا کُلفت
دنیا میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں۔ اس مضمون کی خبریں روزانہ آتی رہتی ہیں۔ البتہ اگر سارے مذاہب کا مقصد لوگوں کی موجودہ زندگی کو مشکل بنانا اور آخرت میں مسرت کا صرف وعدہ ہوتا تو مذاہب اس درجہ کامیابی حاصل نہ کرتے اور اتنے طویل عرصہ تک باقی نہ رہتے۔ صرف چند سخت جان لوگ ہی مذہب پر کاربند رہ پاتے لیکن حقیقت اس سے قطعاً مختلف ہے۔ ابتدا ہی میں ہم نے اس نکتہ کو عیاں کیا کہ جدید دنیا اور جدید سائنس کے باوصف دنیا کے پچاسی فیصدی افراد کسی نہ کسی مذہب سے متعلق ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ مذاہب لوگوں کو اور معاشرے کومسرت فراہم کرتے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے وہ زندگی کو تکلیف دہ نہیں بناتے۔ اس کا اطلاق مذہب اسلام پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
اس واسطے نہیں اتارا ہم نے تم پر قرآن کہ تو محنت میں پڑے۔
(سورہ طٰہٰ 2-1 : 20 )۔
مسرت کی تعریف
مسرت کے معنی ہمارے ذہن میں بہت مبہم ہیں جیسا کہ ہم نے باب 12 میں انصاف کے حوالے سے مشاہدہ کیا کہ مسرت سے لطف اندوز ہونے سے قبل ہمارے لئے یہ علم لازم ہے کہ مسرت فی نفسہٖ کیا ہے؟ جیسا کہ سقراط نے کہا ہے کہ کسی بھی شئے کی تعریف سے قبل ہمیں اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہئیے اور تقسیم کا عمل اس وقت تک جاری رکھنا چاہئیے جب تک ہم غیر منقسم جزو تک نہ پہنچ جائیں (افلاطون کی تصنیف Phaedrus، ص 270 ب)۔ یہ عمل آگے اور پیچھے دونوں جانب بیک وقت جاری رہتا ہے (افلاطون، Cratylus ،ص 428 د)۔ بالفاظ دیگر البرٹ آئنسٹائن کے الفاظ میں اگر تم کسی چیز کی وضاحت آسان الفاظ میں نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے کہ تم اس کو ٹھیک طرح سے سمجھتے ہی نہیں ہو۔
قرآن میں مسرت کی سادہ اور آسان تعریف ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ ضروری ہے کہ مسرت کیا نہیں ہے۔ اس ضمن میں تین تصورات کی وضاحت ضروری ہے۔ لطف اندوز ہونا، قناعت اور خوشی۔ قرآن میں سعادت اور اس سے متعلقہ تین جذبات یعنی لطف اندوز ہونا، فرحت حاصل کرنا اور راضی برضا ہونا کے مابین ابہام پایا جاتا ہے۔ قرآن کے بغائر مطالعہ سے یہ واضح ہے کہ ان تینوں اصطلاحات کے متعین، غیر مبدل معنی ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک مخصوص سیاق اور سباق ہے۔ ان تینوں کے درمیان فرق کی تفہیم اس اہم سوال کے جواب کے لئے لازمی ہے کہ مسرت کیا ہے؟ اس ضمن میں جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ بڑی حد تک حیران کن ہے۔
لطف اندوز ہونا
قرآن میں لطف اندوز ہونے کا ذکر حواس خمسہ کے حوالے سے ہے۔ یہ صفت انسانوں اور جانوروں میں مشترک ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
مقرر اللہ داخل کریگا ان کو جو یقین لائے اور کیے بھلے کام باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں اور جو لوگ منکر ہیں برت رہے ہیں اور کھاتے ہیں جیسے کہ کھائیں چوپائے اور آگ ہے گھر ان کا۔(سورہ محمد 12 : 47)۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس نوع کا لطف مختصر ہوتا ہے کیونکہ انسان کا جسم اور یہ دنیاوی زندگی خود ہی مختصر ہے۔ اللہ اہل ایمان سے دریافت کرتا ہے:
اے ایمان والو! تم کو کیا ہوا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ کُوچ کرو اللہ کی راہ میں تو گرے جاتے ہو زمین پر، کیا خوش ہوگئے دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر، سو کچھ نہیں نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلہ میں مگر تھوڑا۔
(سورہ التوبہ 38 : 9)۔
غرضیکہ لطف مسرت کا باعث نہیں ہوتا۔ لطف محض ایک احساس ہے جو دیر تک باقی نہیں رہتا اپنی نظم ‘Tam O’Shanter’ میں اسکاٹش شاعر رابرٹ برنس (1791) نے لکھا ہے:
مزہ پھولوں کی مانند ہے۔ پھول کو ہاتھ میں لیتے ہی اس کا حسن جاتا رہتا ہے۔مزہ سمندر میں گرنے والی برف کی مانند ہے۔ ایک لمحے کے لئے وہ سفید نظر آتی ہے اور پھر ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مذہبی قوانین مثلاً روزہ لطف اٹھانے پر قدغن عائد کرتے ہیں یا تکلیف کی حالت میں صبر کی تلقین کرتے ہیں۔
خوشی
عیسائی دینیات میں خوشی ایک روحانی معاملہ ہے (حوالہ کے لئے دیکھئے Corinthians 13:4–6 and 2 Corinthians 6:4–10) اور یہ خوشی آخرت میں بھی حاصل ہوگی (دیکھئے Luke 15:7–24 and Matthew 25:23)۔ قرآن میں خوشی کی تعریف مختلف ہے۔ قرآنی لفظ فرح مسرت سے مختلف ہے۔ درحقیقت قرآن میں خوشی کی دو اقسام ہیں ایک مثبت اور دوسرے منفی۔ منفی خوشی کا تعلق دنیاوی خوشی سے ہے۔ اللہ فرماتا ہے :
اللہ کشادہ کرتا ہے روزی جس کو چاہے اور تنگ کرتا ہے، اور فریفتہ ہیں دنیا کی زندگی پر اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں آخرت کے آگے مگر متاع حقیر۔ (سورہ الرعد 26 : 13 )۔
اس کے برخلاف مثبت خوشی وہ ہے جو خدا کی کسی عنایت پر آدمی کو حاصل ہوتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے :
کہہ اللہ کے فضل سے اور اس کی مہربانی سے سو اسی پر ان کو خوش ہونا چاہئیے، یہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو جمع کرتے ہیں۔(سورہ یونس 58 : 10 )۔
خوشی کی ان دونوں اقسام کا تعلق کسی چیز کے ملنے پر ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ نہیں ہے کہ آدمی کو کیا ملا بلکہ اس بارے میں ردّ عمل کیا ہے۔ جب آدمی کو کچھ ملتا ہے مثال کے طور پر کپڑا، کھانا، گھر،کار یا کوئی بھی مادّی فائدہ اگر وہ اس میں صرف اس اعتبار سے خوش ہوتا ہے اس کے دنیاوی مال میں اضافہ ہوا تو یہ خوشی کی منفی قسم ہے البتہ اگر کوئی اس شخص کو عطائے خداوندی سمجھ کر قبول کرے تو اسے مثبت خوشی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مسرت کے مانند خوشی مستقل نہیں ہے ۔ عطیہ کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے یا جب اس کا انوکھا پن زائل ہوجاتا ہے۔ یہ خوشی حقیقی خوشی نہیں ہے۔ اپنی نظم Elegy Written in a Country Churchyard میں انگریزی شاعر طامس گرے (م 1771ء) رقمطراز ہیں:
فوجی تمغوں کے بارے میں اور شان و شوکت کے بارے میں ڈینگیں مارنا اور تمام حسن اور تمام دولت کے بارے میں خوشی کا اظہار ایسا ہی ہے جیسا کہ معینہ وقت کا انتظار۔ خوشی کا انجام قبر پر منتج ہوتا ہے۔
قناعت
قناعت اس طمانیت کا احساس ہے جو کسی شئے کو قبول کرنے پر ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کو رضا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ البتہ قرآن میں خوشی کی طرح قناعت کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں جن میں ایک مثبت ہے اور دوسری منفی۔ منفی قناعت کا تعلق اس دنیا سے ہے:
البتہ جو لوگ امید نہیں رکھتے ہمارے ملنے کی اور خوش ہوئے دنیا کی زندگی پر اور اسی پر مطمئن ہوگئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔(سورہ یونس 7 : 10 )۔
جہاں تک مثبت قناعت کا تعلق ہے یہ عطائے خداوندی کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔
اور کیا اچھا ہوتااگر وہ راضی ہوجاتے اُسی پر جو دیا ان کو اللہ نے اور اس کے رسول نے، اور کہتے کافی ہے ہم کو اللہ وہ دے گا ہم کو اپنے فضل سے اور اس کا رسول، ہم کو تو اللہ ہی چاہئیے۔(سورہ التوبہ 59 : 9)۔
قناعت کی ان دونوں اقسام کا تعلق صورتحال پر ہے۔ خوشی کی طرح ان دونوں کے درمیان فرق یہ نہیں ہے کہ آدمی کے پاس کیا ہے بلکہ اس کا تعلق ادراک سے ہے اور خارجی اسباب سے۔ اگر خارجی اسباب مستقل اور دلفریب ہوں جو کہ صرف جنت میں ممکن ہے تو قناعت کا مطلب خوف، تکلیف اور محرومی سے مکمل آزادی ہے۔ خوش قسمت لوگوں کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
بدلہ ان کا ان کے رب کے یہاں باغ میں ہمیشہ رہنے کو نیچے بہتی ہیں ان کے نہریں سدا رہیں ان میں ہمیشہ اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، یہ ملتا ہے اس کو جو ڈرا اپنے رب سے۔(سورہ البیّنہ 8 : 98)۔
بہر کیف قناعت و مسرت میں فرق ہے۔ قناعت ایک منفی کیفیت ہے۔
مختصراً مسرت ایک جذبہ کا احساس ہے۔ خوشی آدمی کو کچھ پانے پر ملتی ہے اور قناعت کسی چیز کے کھونے پر لیکن ان میں کوئی بھی حقیقی معنی میں مسرت نہیں ہے۔ سوال پھر یہی ہے کہ مسرت کیا ہے؟
مسرت
عربی میں مسرت کے لئے لفظ سعادہ قرآن میں صرف دو جگہ استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک مستقل کیفیت کا نام ہے۔ سعادت اس دنیا میں انسان کا مقدر نہیں ہے۔ قرآن میں ان دونوں مقامات پر یہ جنت کے حوالے سے اس کا استعمال ہوا ہے:
جس دن وہ آئیگا بات نہ کرسکے گا کوئی جاندار مگر اس کے حکم سے، سو ان میں بعضے بدبخت ہیں اور بعضے نیک بخت، سو جو لوگ بد بخت ہیں وہ تو آگ میں ہیں ان کو وہاں چیخنا ہے اور دھاڑنا۔ ہمیشہ رہیں اس میں جب تک رہےآسمان اور زمین مگر جو چاہے تیرا رب، بیشک تیرا رب کرڈالتا ہے جو چاہے۔ اور جو لوگ نیک بخت ہیں سو جنت میں ہیں، ہمیشہ رہیں گے اُس میں جب تک رہے آسمان اور زمین مگر جو چاہے تیرا رب، بخشش ہے بے انتہا۔(سورہ ھود 105-108 : 11)۔
دو سوالات ہنوز جواب طلب ہیں : مسرت کیا ہے؟ اور کیا اس دنیا میں ہمیں مسرت حاصل ہوسکتی ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب مذکورہ بالا قرآنی اقتباس میں موجود ہے۔ اس نکتہ کو پیش نظر رکھنا چاہئیے کہ مسرت غیر منقطع عطیہ ہے۔ عطا کا لفظ قرآن میں اپنے مشتقات کے ساتھ 14جگہ استعمال ہوا ہے اور کہیں بھی غیر منقطع دینے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ مسرت دینے سے حاصل ہوتی ہے لیکن یہ دینا کس کی جانب سے ہے، سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ یہاں مذکور عطائے خداوندی ہے لیکن انسانوں پر بھی اس کا اطلاق ممکن ہے۔ باب ۵ میں ہم نے اس نکتہ پر گفتگو کی کہ جنت میں ہر شخص کو اس کے کسب کے مطابق جزا دی جائے گی اور ان پر مطلق ظلم نہ ہوگا:
اور ڈرتے ہو اس دن سے کہ جس دن لوٹائے جاؤگے اللہ کی طرف پھر پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
(سورہ البقرہ 281 : 2)۔
خدا کے عطایا اور انسان کے عطایا میں فرق ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
اور خوشخبری دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کئےکہ ان کے واسطے باغ ہیں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، جب لے گا ان کو وہاں کا کوئی پھل کھانے کو تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ملا تھا ہم کو اس سے پہلے اور دیے جائیں گے پھل ان کو ایک صورت کے، اور ان کے لئے وہاں عورتیں ہوں گی پاکیزہ اور وہ وہیں ہمیشہ رہیں گے۔(سورہ البقرہ 25 : 2)۔
لوگوں کو جنت میں جو کچھ عطا ہوگا وہ دنیاوی ساز و سامان کے مشابہ ہوگا۔ چونکہ انسان کا اصل سرمایہ اس کے نیک اعمال ہیں۔ اس لئے دنیا میں جو کچھ دیا ہوگا آخرت میں اسی کا بدلہ ملے گا۔ غرضیکہ دینا مسرت کا باعث ہے جو شخص کسی کو کچھ دیتا ہے وہ مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے محض احساس سے مسرت حاصل نہیں ہوتی اسی طرح کوئی چیز پانے سے بھی مسرت نہیں حاصل ہوتی۔ کسی چیز کا مالک بننے سے بھی مسرت میسر نہیں ہوتی بلکہ کسی کو کچھ دینے سے حقیقی مسرت ملتی ہے۔ عیسیؑ کا بھی قول ہے: ‘‘لینے سے زیادہ دینا بابرکت ہے’’ (ایکٹس 35 : 20)۔ غرضیکہ دوسروں کو کچھ دینا عین مسرت ہے۔
مسرت کے حصول کا ایک اور طریقہ ہے وہ ہے خدا کی معرفت حاصل کرنا، اس سے محبت کرنا اور اس کا قرب تلاش کرنا۔ ہر طرح کی مسرت کا مآخذ صرف اللہ ہے۔ لوگ اپنی انا اور مادیت کے باعث اللہ کی معرفت، محبت اور قربت سے محروم رہتے ہیں اللہ فرماتا ہے:
نکلو ہلکے اور بوجھل، اور لڑو اپنے مال سے اور جان سے اللہ کی راہ میں، یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم کو سمجھ ہے۔(سورہ التوبہ 41 : 9)۔
غرضیکہ انا اور مادیت سے جد و جہد اور اس سے آزاد ہونے کی شکل ہی میں انسان کو مسرت حاصل ہوسکتی ہے۔ انسان کا نفس کبھی مسرت نہیں پاسکتا، اسی طرح مادیت کی کوئی حد نہیں ہے اور یہ انسان کو مسرت سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔ انا اور مادیت پر قابو پانے اور دینے کی صورت میں انسان کو مسرت ملتی ہے۔ اللہ نے نفس مطمئنہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جو اپنی انا اور مادیت پر قابو پانے میں کامیاب ہوتا ہے:
پھر چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پھر شامل ہو میرے بندوں میں اور داخل ہو میری بہشت میں۔
(سورہ الفجر 27-30 : 89)۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم اس دنیا میں واقعتاً خوش رہ سکتے ہیں یا مسرت صرف جنت ہی میں میسر ہوگی؟ ابھی ہم نے یہ گفتگو کی کہ مسرت دینے سے حاصل ہوتی ہے، جب تک ہم جس شکل میں بھی دیتے رہیں گے ہم خوش اور خرّم رہیں گے۔ معمولی چیزیں دینے سے بھی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ نبی اکرمؐ کا قول ہے : ‘‘خیرات کے کسی عمل کو کم مت سمجھو، اپنے بھائی سے مسکراکے ملنا بھی کارِ خیر ہے’’ (مسلم)۔ صبر اور برداشت کے ذریعہ بھی بہت کچھ دیا جاسکتا ہے۔ نبی اکرمؐ کا قول ہے : ‘‘وہ شخص بامسرت ہے جو فتنہ سے دور رہے اور جب اس کی آزمائش ہو تو اس کو برداشت کرے’’ (ابوداؤد)۔
بالفاظ دیگر مسرت کا تعلق دینے سے ہے اور دینے کا یہ عمل ایجابی بھی ہوسکتا ہے اور منفی بھی۔ اس کے لئے مال دولت اور اقتدار کی ضرورت نہیں، تنہائی اور عدم وسائل کی صورت میں بھی دینے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کا ثبوت معذور، بیمار اور ضعیف لوگ ہیں، اپنی بصارت سے محروم ہونے پر انگریزی شاعر جان ملٹن نے انہی جذبات کا اظہار کیا۔ اپنی نظم When I consider how my life is spent میں ملٹن رقمطراز ہیں:
جب میں یہ غور کرتا ہوں کہ میری بصارت کیسے چلی گئی اور اس تنگ و تاریک دنیا میں میری زندگی کیسے بسر ہوگی اور موت میرا خاتمہ کب کرے گی کیونکہ میں بے مصرف ہوں لیکن میری روح اپنے خالق کی خدمت پر اور زیادہ آمادہ ہے اور یہ اس لئے ہے تاکہ مراجعت کے وقت وہ مجھ سے سوال نہ کرے۔ جو بھی شکایت ہے صبر اس پر قابو پاتا ہے اور مجھے آگاہ کرتا ہے کہ اللہ کو انسان کے فعل کی یا صلاحیتوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں جو اس کی پابندیاں برداشت کرتے ہیں وہی خدا کے بہترین بندے ہیں۔ خدا کی سلطنت انتہائی پرشوکت ہے۔ ہزاروں اس کے اشارے پر رواں دواں رہتے ہیں اور بر و بحر میں بغیر آرام کئے اس کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں وہ جو کہ اس کے حکم کے منتظر رہتے ہیں وہ بھی اس کی خدمت میں منہمک رہتے ہیں۔
باب3 میں ہم نے یہ بیان کیا کہ دینے کے ذریعہ آدمی خوش رہ سکتا ہے۔ کیا محبت خوشی کا وسیلہ ہے؟ اس کا جواب ہاں اور نہیں دونوں میں ہے۔ محبت آدمی کو رنج و تکلیف میں بھی مبتلا کرسکتی ہے جیسا کہ عاشقوں کو تجربہ ہوتا ہے بالخصوص جب کہ محبوبہ غیر موجود یا موہوم ہو۔ لہٰذا محبت انسان کو خوش نہیں کرتی بلکہ دنیاوی محبت میں اپنے آپ کی قربانی دینا یہ انسان کو خوشی فراہم کرتا ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر قرآن نے اس دنیا میں خوشی کا ذکر نہیں کیا ہے۔
اگر کوئی شخص اللہ سے محبت کرتا ہے تو اس کے لئے آخرت میں مسرت ہے۔ اس کے لئے عربی میں اصطلاح رضوان کی ہے۔کیونکہ اس میں اپنے محبوب سے رفاقت ہمیشہ رہے گی، یہ مسرت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ اس صورت میں انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے محبوب کے سپرد کردیتا ہے اور اس لئے یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوتا۔ اسی طرح اس محبت میں محبوب نہ تو غیر موجود ہے اور نہ موہوم۔ یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ نبی اکرمؐ کا قول ہے:
‘‘اللہ اہل جنت سے کہے گا اے اہل جنت! وہ جواب دیں گے، ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ تمام تر خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ پھر اللہ کہےگا کیا تم خوش اور مطمئن ہوگئے۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم کیوں نہ خوش اور مطمئن ہوں گے اے ہمارے رب کیونکہ تو نے ہم کو وہ سب دیا ہے جو کسی اور مخلوق کو نہیں عطا کیا۔ پھر اللہ کہے گا کیا میں تم کو اس سے کچھ بہتر نہ دوں۔ وہ کہیں گے اے رب اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔ وہ جواب دے گا میں تم کو اپنے رضوان میں ڈھانپ لونگا اور اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا’’ (بخاری اور مسلم)۔
اس سب کا علم کیوں ضروری ہے؟
ٹامس جیفرسن نے 4 جولائی 1776 کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی آزادی کا اعلانیہ تیار کیا۔ اس کی عبارت یہ ہے:
ہم حق کو تسلیم کرتے ہیں بالخصوص اس حق کو کہ سب انسان برابر ہیں اور ان کے خالق نے ان کو ایسے حقوق ادا کئے ہیں جو ان سے جدا نہیں کئے جاسکتے۔ یہ حقوق ہیں زندگی کے، آزادی کے اور مسرت کی طلب کے۔
ہمیشہ ہی سے انسان جن میں مسلمان بھی شامل ہیں ان کی یہ فطری خواہش رہی ہے کہ وہ مسرت حاصل کریں۔ بہت سے لوگ اپنی ساری زندگی مسرت کی تلاش میں بسر کردیتے ہیں لیکن بہت سے لوگ مسرت کو غلط مقام پر تلاش کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، یہ علم ضروری ہے کہ مسرت کیا ہے قبل اس کے کہ ہم مسرت کی تلاش کریں اس ضمن میں جو تعریف کی جائے گی وہ ایک نقشے کی مانند ہے جس سے راہبری ہوتی ہے ورنہ ساری زندگی غلط تلاش میں ضائع ہوجائے گی اور انسان کو کبھی مسرت نہیں ملے گی۔ درحقیقت چند افراد ہی مسرت کی وضاحت کرسکتے ہیں حالانکہ سبھی اس کے بارے میں سوچتے بھی ہیں اور گفتگو بھی کرتے ہیں۔ افلاطون کے ایک مکالمے میں جو کہ گارجیس میں درج ہے، سقراط کا کردار کہتا ہے:
میری دانست میں وہ آدمی یا عورت قابل تعریف ہے جو خوش ہے لیکن جو ناانصاف اور خبیث ہوتا ہے اس کی کیفیت ہمیشہ تکلیف دہ ہوتی ہے (ص 470 ای)۔۔۔مسرت سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی بدی سے نجات پاجائے یہ بدی سے دور رہنے کا نام ہے (ص 478 سی)۔۔۔ سب سے زیادہ پُر مسرت شخص وہ ہے جس کے نفس میں مطلق بدی نہ ہو اور اس کے بعد وہ شخص ہے جو بدی سے نجات پاجاتا ہے (ص 478 ڈی سے ای تک)۔ ایک پُر مسرت شخص جو بھی کرتا ہے بخوبی کرتا ہے اور اس کو برکت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف ایک مفلس شخص جو غلط کام کرتا ہے ہمیشہ کُلفت میں رہتا ہے۔ جو بھی مسرت کا طالب ہو اس کو ضبط نفس کی مشق کرنا چاہئے۔ نظم و ضبط کی کمی سے احتراز کرنا چاہئیے (ص 507 اے سے ڈی تک)۔
غرضیکہ مسرت کا تصور دینے سے وابستہ ہے لیکن اس سے بھی مسرت کی مکمل تعریف سامنے نہیں آتی۔ یہ علم البتہ ضروری ہے کہ محض جذبات، مادی ساز و سامان اور خودغرضانہ اعمال مسرت پر منتج نہیں ہوتے مسرت ایک سادہ سی شئے ہے البتہ اس کو پانا آسان نہیں ہے۔ دوسروں کو کچھ نہ کچھ دینے ہی میں مسرت پنہاں ہے اور یہاں بھی دینے سے مراد صرف پیسہ اور مادی سامان نہیں بلکہ اپنا وقت صلاحیتیں، علم اور توجہ میں دوسروں کو شریک کرنا اور اپنی انا پر قابو پانا مسرت کا باعث ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی حد تک اس مقصد کو حاصل کرسکتا ہے۔ ایلن ہوپر (م 1848ء) نے اپنی نظم بیوٹی اور ڈیوٹی میں لکھا ہے:
میں محو خواب تھا اور مجھے لگا کہ زندگی بڑی حسین ہے اور جب میں بیدار ہوا تو مجھ پر یہ القا ہوا کہ زندگی فرض سے وابستہ ہے۔ کیا وہ خواب غلط تھا؟ اے میرے محزون دل عزم و حوصلہ کے ساتھ محنت کرتا رہ اور ایک دن تیرا یہ خواب صادق ہوگا اور تو حق سے ہمکنار ہوگا۔
مائیں، مریضوں کی نگرانی کرنے والے، سماجی کارکن اور اساتذہ اس نکتہ سے بخوبی واقف ہیں وہ خوش لوگوں کی صف میں اس لئے شامل ہیں کہ وہ دوسروں کو کچھ دیتے ہیں۔ عاشقوں کو بھی اس کا ادراک ہوتا ہے۔ عشق ان کو مسرت سے ہمکنار کرتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی دلچسپی کے مشاغل میں مصروف ہوں ان کو بھی یہی تجربہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیشہ میں اپنی بہترین صلاحیت لگا دیتے ہیں۔ غرضیکہ جو بھی شخص بغیر کسی خود غرضی کے اپنے آپ کو یا اپنے وقت کو دوسروں کو دیتا ہے وہ خوشی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ یہ تجربہ ان کو اور مسرت سے دو چار کرتا ہے۔ غرضیکہ مسرت محبت کی طرح دینے کا نام ہے لینے کا نام نہیں۔ اچھے لوگوں کے تذکرہ میں قرآن یہ نشاندہی کرتا ہے:
اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو۔ ہم جو تم کو کھلاتے ہیں سو خالص اللہ کی خوشی چاہنے کو نہ تم سے ہم چاہیں بدلہ اور نہ چاہیں شکر گزاری۔ (سورہ الانسان 8-9 : 76)۔