مضامین

مولانا معز الدین احمدؒ یادیں ان کی، ان کی باتیں

محمد یاسین جہازی

مولانا معز الدین احمدؒ
یادیں ان کی، ان کی باتیں
محمد یاسین جہازی
فضل و کمال یا بزرگیت کو وراثت میں پالینے والے افراد؛ اگر اپنی وراثت سنبھالنے میں کامیاب رہیں، تو اسے بھی ایک کمال کی بات کہی جاسکتی ہے؛ لیکن اس روایت کو خود ایجاد کرکے فضل و کمال کے بلند مرتبے پر پہنچنا، فضل و کمال کا اصل مظاہرہ ہوتا ہے۔ ایسی شخصیات تاریخ میں صرف شخصیات کے حوالے سے ہی متعارف نہیں ہوتیں؛ بلکہ زمانہ ان کے کارنامے کا تذکرہ کرنے میں جہاں فخر محسوس کرتاہے، وہیں، ان کے گراں بار احسانات کے تلے اپنی گردنیں خم کرنا خود کے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے۔ مولانا معز الدین احمد صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کا تعلق وراثت کے بجائے روایت کے ایجاد والے طبقہ سے تھا۔ ان کی زندگی کے عظیم کارنامے اس حقیقت کے کھلے گواہ ہیں۔
راقم نے 2006(دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی) میں، اپنی کتاب ”رہ نمائے اردو ادب“ پر تقریظ اور اشاعت کے تعلق سے دہلی کا سفر کیا، تو مولانا عبد الحمید نعمانی صاحب اورجناب فاروق ارگلی صاحب نے تنقیدی مطالعہ کے لیے قبول کرتے ہوئے مفید اصلاحات کیں۔ اسی سفر میں مولانا نعمانی صاحب کے توسط سے مولانا معز الدین احمد صاحب قاسمی سے ملاقات ہوئی۔ مولانا سے ناچیز کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ مولانا کی خدمت میں مبیضہ کا ایک عکس پیش کیا، تو انھوں نے سرسری نظر ڈالی۔ اسی دوران نعمانی صاحب نے کہا کہ میں نے اسے پڑھی، تو اچھی لگی۔ ناچیز نے عرض کیا کہ کیا یہاں کا کوئی پبلشر اسے قابل اشاعت سمجھے گا؟۔ اس پر نعمانی صاحب نے مولانا معز الدین احمد صاحبؒ سے کہا کہ اسے فرید بکڈپو چھاپ سکتا ہے۔کتاب کو کچھ دیر دیکھنے کے بعد مولانامرحوم نے فرید بکڈپو سے بات کی۔ اور پھر مجھے کہا کہ کل بکڈپو میں جاکر ملاقات کرلینا۔ چنانچہ میں اگلے دوپہر فرید بکڈپو پہنچا، تو اس کے مالک نے مسودہ قبول کرتے ہوئے اشاعت کا وعدہ کیا۔
یہ پہلی ملاقات گرچہ مولانا سے بہت مختصررہی؛ لیکن اس نے میری زندگی میں گہرے نقوش چھوڑے۔ مولانا کا کمرہ، (جو ایک کتب خانہ سے کم نہیں تھا)، ذوق مطالعہ اور علمی گفتگو کو دیکھ،سن کر میں بہت متاثر ہوا اور مولانا سے عقیدت سی ہوگئی۔
اگست 2009میں جمعیت علمائے ہند سے عملی وابستگی کے بعد مولانا مرحوم کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ شروعاتی دور میں گرچہ بہت کم تعلق رہا؛لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تعلق گہرا ہوتا گیا اور گذشتہ چار پانچ سالوں کے درمیان تو گویا استاذ اور شاگرد جیسا رشتہ قائم ہوچکا تھا۔ اس رشتہ کے آغاز کا واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ ایک دن مولاناؒ جمعیت کی تاسیسی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے درگاہ سید حسن رسول نما پر بانیان جمعیت کے حلف رازداری کا تذکرہ کر رہے تھے، گرچہ جمعیت کا ملازم تھا؛ لیکن تاریخ جمعیت سے اس طرح کی واقفیت نہیں تھی؛ مولانا کی تاریخی گفتگو سے میں بہت متاثر ہوا اور اسی وقت یہ ارادہ کرلیا کہ مولانا کی رہ نمائی میں جمعیت کی تاریخ پر کام کریں گے۔ چنانچہ اس کے بعد اس حوالے سے استفادہ کا تعلق تا دم مرگ جاری رہا۔ ناچیز نے ”جمعیت علمائے ہند کے سو سال …… قدم بہ قدم“ کے عنوان سے جمعیت کی تاریخ کو جمع کرنا شروع کیا اور اس کے ہر مرحلہ پر مولانا سے رہنمائی لیتا رہا؛ لیکن افسوس کہ یہ کام ابھی ابتدائی مرحلے ہی میں ہے اور مولانا دنیا سے پردہ فرماگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو منور کردے۔
جمعیت سے عملی وابستگی کی شروعات شعبہ نشرو اشاعت (میڈیا) میں معاون کار کی حیثیت سے ہوئی تھی؛ لیکن کچھ سالوں بعد ناچیز کو ادارہ مباحث فقہیہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ ادارہ مولانا معز الدین احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر نگرانی تھا۔ چوں کہ کچھ ہی دنوں بعد ناچیز کو ”مرکز دعوت اسلام“ سے وابستہ کردیا گیا؛ اس لیے ایک دو نشست کے علاوہ مولانا سے کچھ خاص استفاد ہ نہیں کرسکا۔
مولانا معز الدین احمد صاحبؒ معاملہ فہمی اور رائے کی پختگی کے لیے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ بھارتی مسلمانوں کے تعلق سے ملک و ملت کے تقریبا ہر مسئلے میں ان کی رائے بالعموم فیصلہ کن ثابت ہوتی تھی۔کورونا بیماری کے تعلق سے وہ احتیاط کے تو قائل تھے؛ لیکن اس کی وجہ سے عقیدے کو خراب کرنے کے سخت مخالف تھے۔ اصول پسندی اور وضع داری کے حامل تھے۔ انھیں بے اصولی اور اعتدال سے انحراف پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے کچھ احباب ان سے خفگی کا اظہار بھی کرتے تھے؛ لیکن مولانا مرحوم کبھی اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ مولانا کا باطن ظاہر کا اور ظاہر باطن کا مظہر تھا۔وہقول و عمل میں تضاد کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ حق گوئی ان کی فطرت میں شامل تھی۔ بلاوجہ دوسروں کے معاملہ میں دخل دینے سے ان کی ذات بری تھی۔ کم گو ئی اور نیک گوئی کا مزاج رکھتے تھے۔معاملات کی صفائی کا خاص خیال رکھنا ان کی شناخت تھی؛ غرض مولانا مرحوم ان تمام خوبیوں کے حامل تھے، جن پرایک شخصیت کی تعمیر کی جاتی ہے۔
مولانا مرحوم دارالعلوم دیوبند سے، تعلیمی اور معین تدریسی سے فراغت کے بعد1988میں براہ راست جمعیت علمائے ہند سے وابستہ ہوئے۔ جمعیت میں ان کا تقرر”امارت شرعیہ ہند“ کی نظامت کے لیے ہوا تھا۔جس کی ذمہ داری انھوں نے بہ خوبی نبھائی۔وہ ”ادارہ مباحث فقہیہ“ کے بھی ناظم تھیجس کے تحت تا دم حیات پندرہ فقہی سیمینار منعقد کرائے۔ سولھواں سیمینارکے لیے بھی مکمل تیاری ہوچکی تھی؛ لیکن کووڈ لاک ڈاون کی وجہ سے نہیں ہوپایا۔ ساتھ ہی جمعیت ہلال کمیٹی کے بھی مرکزی ذمہ دار تھے۔ گذشہ کچھ سالوں سے جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔ مولانا مرحوم کم و بیش 32سال جمعیت علمائے ہند سے عملی طور پر وابستہ رہے۔
مولانا مرحوم اگرچہ سند کے اعتبار سے مفتی نہیں تھے؛ لیکن فقہیات میں گہرا درک تھا؛ بالخصوص نئے مسائل پر جو بھی رائے قائم کرلیتے تھے، بڑے مفتی حضرات بھی اسی رائے کو اہمیت دینے لگتے تھے۔ اکابر نے شاید یہی خصوصیت دیکھی ہوگی، جس کی بنیاد پر انھیں جمعیت میں امارت شرعیہ ہند کی نظامت تفویض کی گئی تھی۔
جمعیت علمائے ہند کی تاریخ کے کچھ حصے تو وہ ہیں، جو کسی نہ کسی کتاب میں چھپے ہوئے ہیں؛ لیکن کچھ تاریخیں ایسی بھی ہیں، جو آج تک حیطہ تحریر میں نہیں لایا گیا ہے، وہ سینہ بہ سینہ ہی منتقل ہوتا آرہا ہے۔ تاریخ کے اس حصہ کا ایک وافر ذخیرہ مولانا کے سینہ میں محفوظ تھا۔ائے کاش! مولانا مرحوم سینہ سے صفحات پر منتقل کردیتے تو جمعیت کی تاریخ میں قابل قدر اضافہ ہوجاتا۔
اسی طرح جمعیت علمائے ہند کی دستوری دفعات پر ان کی گہری نظر تھی؛ گویا مولانا ان کے حافظ تھے۔ جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ منعقدہ 4/ اگست 2019میں نئی ممبر سازی اور جمعیت کی یونٹوں کے لیے نئے انتخابات کا اعلان کیا گیا تو راقم نے ممبر سازی اور انتخابات کے طریقوں پر ایک مضمون لکھنے کا ارادہ کیا۔ دستور کا مطالعہ شروع کیا، تو معلوم ہوا کہ اسے سمجھنا آسان نہیں ہے، چنانچہ مولانا مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دستور کی تفہیم کی درخواست کی۔ مولانانے تدریسی طریقہ کے بجائے یہ کہا کہ تم نے دستور پڑھ کر جو سمجھا ہے، پہلے وہ لکھ کر لے آو، ہم اس کو دیکھ لیں گے۔ چنانچہ راقم نے ایک مضمون بعنوان: ”جمعیت کی ممبرسازی کیسے کریں، مقامی، ضلعی، شہری،علاقائی اور ریاستی جمعیتیں کیسے بنائیں“ لکھ کر پیش کیا، تو اس کے نوک پلک درست کیے۔
جب کسی کو عشق ہوجاتا ہے، تومعشوق و مطلوب تک رسائی خواہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو، وہ اسے حاصل کرکے ہی رہتا ہے۔ راقم کے عندیے میں مولانا مرحوم اپنی ذاتی کمالات میں جو کچھ تھے، وہ تو تھے ہی؛ اس کے علاوہ وہ ایک بڑے عاشق بھی تھے۔ انھیں تاریخی کتابوں؛ بالخصوص فقہی اور اکابر دیوبند کی کتابوں سے بہت گہرا عشق تھا۔اردو عربی فارسی میں کوئی ایسی مستند کتاب نہیں ہوگی، جو انڈو پاک میں کہیں چھپتی ہو اور اس کی پہلی اشاعت کی کاپی مولانا کے پاس نہ ہو۔ خود راقم کا مشاہدہ ہے کہ ان دونوں موضوعات پرکتابوں کے حوالے سے اساتذہ دارالعلوم دیوبند بھی آپ سے مشورہ اور مطالعہ کے لیے کتابیں طلب کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ راقم نے سید الملت مولانا محمد میاں صاحب دیوبندیؒ کی کتاب ”دینی تعلیمی تحریک اور دستور العمل“ کی نئی اشاعت کے موقع پر احادیث کو اصل مآخذ کے الفاظ سے مطابقت کرتے ہوئے اصلاح کردی۔ تو مولانا نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث کے الفاظ کو تم نے کیوں بدلا؟۔ ناچیز نے عرض کیا کہ پورے ذخیرہ احادیث میں اس طرح جملہ نہیں ہے، جس طرح ابھی کتاب میں چھپا ہوا ہے۔ مولانا نے فرمایا: تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو، کیا تم نے سارے ذخیرہ احادیث کو پڑھ لیا ہے؟۔ میں نے مکتبہ شاملہ کا حوالہ دیا اور یونی کوڈ بیسڈ تلاش کے بارے میں بتایا۔ ساتھ ہی پی ڈی ایف بھی مولانا کو دکھایا۔ اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد دیکھا کہ مولانا نے اینڈورائڈ فون خرید لیا اور انٹرنیٹ پر موجود اکثر اہم کتابوں کا ذخیرہ کرنے لگے۔ اس کے بعد یہ ہونے لگا کہ ہم لوگوں کو جو کتاب سرسری تلاش میں نیٹ پر نہیں ملتی تھی، تو مولانا سے رابطہ کرتے تھے اور وہ کسی نہ کسی سائٹ تک رہ نمائی کردیتے تھے یا پھر پی ڈی ایف ہی دے دیتے تھے۔ اسے مولانا کا کمال ہی کہا جائے گا کہ پچھلی جنریشن سے تعلق رکھنے کے باوجود نئی چیزوں کو بہت جلد اخذ کرلیتے تھے، جب کہ ناچیز کا تجربہ ہے کہ ہمارے موجودہ اکابر بالعموم یا تو اجنبیت محسوس کرتے ہیں یا ان چیزوں کو دیر سے قبول کرتے ہیں۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
مولانا جمعیت میں وابستگی کے ساتھ ساتھ بزنس مین بھی تھے۔انھیں کتابوں کی اشاعت کا مکمل تجربہ تھا۔یہ کوئی خاص کمال کی بات نہیں ہے، تجارت میں تجربہ تو کسی کو بھی ہوسکتا ہے؛ لیکن مولانا کا کمال یہ تھا کہ خود بھی اہل علم تھے اور اہل علم کے بڑے قدر داں تھے، اور ایسی شخصیات کو کتابوں کی سوغات پیش کیا کرتے تھے۔ راقم کا مشاہدہ ہے کہ کووڈ لاک ڈاون میں جس وقت کہ ایک نادیدہ وائرس نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا، اہل ثروت غربت کے کگار پر اور غریب تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا، ایسے سخت حالات میں بھی اپنی تجارت کے سرمایہ کو بطور تحفہ تقسیم کرتے رہے۔ انھیں دنوں میں راقم ”تذکرہ سحبان الہند“ کے مطالعہ کے لیے مولانا مرحوم کے پاس گیااور گذارش کی کہ اس کتاب کو ہفتہ دو ہفتہ کے لیے عاریۃ عنایت فرمادیں۔ مولانا نے ایک خاص لہجے میں کہا کہ میں کتاب خریدتا بیچتا ہوں، عاریۃ دوں گا تو کون خریدے گا۔ تمھیں خریدنی ہی ہوگی۔ راقم نے عرض کیا کہ خریدنے کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے ایک دو ہفتہ کے لیے نہیں، تو کم از کم دو دن کے لیے ہی دے دیں، اس پر بھی وہی جواب دیا۔ آخر میں راقم نے گذارش کی کہ کم از کم مشمولات کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے دیں۔ مولاناؒ نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا۔ کچھ دیر بعد واپسی کی اجازت طلب کی، تو فرمانے لگے کہ کتاب فروشی میرا ذریعہ معاش ہے؛ لیکن اہل طلب کو کتابوں تک رسائی نہ دینا بھی میرا شیوہ نہیں ہے۔تمھارے شوق طلب کو دیکھ کر ہفتہ دو ہفتے کے لیے نہیں؛بلکہ ہمیشہ کے لیے بطور ہدیہ دیتا ہوں۔ چنانچہ مولاناؒ نے ”تذکرہ سحبان الہند“ ہی نہیں؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ”تذکرہ فدائے ملت“ اور ”تذکرہ مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ“ بھی عنایت فرمادی۔مولانا کا یہ معاملہ صرف ناچیز کے ساتھ نہیں تھا؛ بلکہ ہر اس رہ روان شوق کے ساتھ ہوتا تھا، جو ذوق طلب کے لیے تشنہ بلب نظر آتے تھے۔مولانا مرحوم کا یہ کردار دراصل اہل فضل و کمال کی معرفت و قدر کا عملی مظہر ہے، جو موجودہ دور مادہ پرستی میں رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جارہا ہے۔ اور ایسی شخصیات کا دنیا سے رخصت ہوجانا قیامت کی نشانیوں میں ایک اور اضافہ ہے۔
2015میں شیطان کو کنکری مارنے والے عمل حج کے دوران بھگڈر مچنے کی وجہ سے جہاں سیکڑوں حاجی شہید ہوگئے تھے، وہیں مولانا معز الدین احمد صاحب مرحوم بھی شدید طور پر زخمی ہوگئے تھے۔ واپسی پر عیادت کے لیے حاضر خدمت ہوا، تو خود پر بیتے حالات کو سناتے ہوئے بتاتے تھے کہ”مفتی فاروق صاحبؒ (مہتمم جامعہ محمودیہ میرٹھ) نیچے گرگئے، میں ان کو بچانے کے لیے آگے بڑھا، تو ایک دوڑتی بھاگتی زبردست بھیڑ نے مجھے بھی گرادیا۔میں نیچے تھا اور میرے نیچے مفتی صاحب مرحوم تھے۔ حواسہ باختہ لوگ ہم دونوں کو روندتے ہوئے گذرتے رہے؛ یہاں تک کہ میں بے ہوش ہوگیا۔ تین دن کے بعد جب ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ میں ایک ہاسپیٹل میں ہوں۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ شاید یہ زندگی کے آخری لمحات ہیں؛ لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا اور مجھے دوبارہ زندگی عطا فرمائی۔ زندگی کا یہ دوسرا چانس اضافی موقع ہے اور شاید یہ دو تین سال تک چلے۔“ پھر دیکھیے خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ 2020کے آوائل میں کووڈ 19 مہاماری نے بھارت کو بھی اپنے شکنجہ میں لے لیا، جس کی وجہ سے اہم اہم شخصیات لقمہ اجل بن گئیں۔ مولانا معز الدین احمد صاحب بھی اس کی چپیٹ میں آگئے۔ شوگرکے دائمی مریض پہلے سے ہی تھے، اچانک کورونا پازیٹیو ہونے کی وجہ سے کمزوری نے آدبوچا؛ گرچہ علاج و معالجہ کے حوالے سے ہر ممکن کوشش کی گئی؛ لیکن تقدیر تدبیر پر غالب آگئی اور قضائے اجل آپہنچااور 13ستمبر2020کو میکس ہاسپیٹل دہلی میں آخری سانس لی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
راقم اس وقت کووڈ لاک ڈاون کی وجہ سے مادر وطن جھارکھنڈ میں تھا، سوشل میڈیا کے توسط سے جوں ہی یہ خبر ملی،دلی تکلیف ہوئی۔ سینے میں دھچکا سا لگا، حسرت و افسوس نے چہرے کا رنگ فق کردیا، آنکھیں بھی صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور آنسو بن کر چھلک پڑیں، زبان بے ساختہ گویا ہوئی کہ بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اللہ ہی کے پاس ہمارا اصل ٹھکانہ ہے۔ ؎
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم
انھیں جدید قبرستان اہل اسلام واقع آئی ٹی او نئی دہلی میں دفن کیا گیا۔ مجبوری دیکھیے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے جنازہ کو کندھا بھی نہ دے سکے۔ ؎
کس طرح تڑپتے جی بھر کر یاں ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم
اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم
آمدو رفت فلسفہ حیات کا تلازمہ ہے۔ آمد پر خوشی اور روانگی پر افسوس فطری خاصیت کا مظہرہے۔ ایسے موقع پر صبرو قرار کے لیے ایک ہی فارمولہ ہے کہ رضائے مولیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے، اس کے حکم کے مطابق مرحومین کے لیے دعائے خیر اور ایصال ثواب کرتے رہیں۔ اور ان کے لیے صحیح خراج عقیدت یہ ہے کہ ان کے مشن کو زندہ رکھیں۔ امید ہے کہ ان سطور کے قارئین ان دونوں گذارشات کو عملی جامہ پہنائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close