۔میر محفل حضرت مولان عبدالمجیدؒ صاحب گور گاواں
ولادت1910ء وفات ۹نومبر1983ء فاضل سہرام
”بابا ئے قوم،تو دنیا میں بہت گزر رہے ہیں لیکن ہمارے علاقے میں جب یہ نام لیا جاتا ہے توایک ایسی شخصیت کا تصور ذہن میں رقص کرنے لگتا ہے جو کلی طور پر اسکے لائق تھے اور دفتری کاغذات میں حضرت مولانا عبدالمجید صاحب کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے،میانہ قد گداز بدن، کھدر کالباس جو نہایت صاف جس پر کہیں دھبہ یا سلوٹ نہیں،بھاری بھرکم،لیکن نہیں سنگ روح وزندہ دل بلکہ پر مذاق لیکن طرافت پوری لطافت لیے ہوئے اہل علم حضرات جمع ہوئے تو لطف مجلس کا کیا پوچھنا وہ بلبل کی طرح چہکتے اور اپنے لطائف سے محفل کو زعفران زار بنا تے، میں نے ان سے بہتر اور دلچسپ مجلسی گفتگو کرتے ہوئے علاقے میں کسی کو کم پایا ہے، عرصہ تک کی خدمت اور پدرانہ شفقت کی بنا پر وہ حلقہ احباب میں ”بابانے قوم“ سے پکارے جانے لگے تھے۔
حضرت مولانا نے ۰۱۹۱ء کے ارد گرد آنکھیں کھولی ابتدائی میں شمسیہ کی تیز شعاؤں سے روشنی حاصل کی پھر اعلی تعلیم کے لئے مدرسہ خیریہ نظامیہ ضلع سہسرام تشریف لے گئے،مسند فضیلت حاصل کرنے کے بعد بھاگھپور وغیرہ میں مدرس ہوئے 1930 ء میں مادر علمی مدرسہ شمسیہ کے خادم تدریس بنے اور پوری عمر اسی کی نوک پلک سنوارنے میں بسر کردی آپ اس شیریں گفتاری سے سمجھا تے کہ طلبہ کو گھنٹہ کے گذرنے کا احساس نہیں ہوتا۔
مسلم ہائی اسکول پر سا ہویا ملت کالج دونوں کے مشیروں میں آپ کی ذات صف اوّل میں تھی بعض مرتبہ آپ نے ایسی رائے پیش کی کہ کہنہ مشق ومتجرب دانشور کی بگاہ اس گوشے تک نہیں پہنچ سکی، اہل مجلس کو آپ کی رائے یا تائید کا ہمیشہ انتظار ہتا،عمر کے آخر دو عشروں میں آپ میر مجلس کی حیثیت سے جلوہ فگن رہے چنانچہ ۱۷۹۱ء میں ملت کالج پر سا کا افتتاحی مہتمم بالشان جلسہ ہوا، اس میں پورا علاقہ امنڈ پڑاتھا،مندودبین میں پروفیسر عبدالمغنی صاحب چیرمین اقلیتی کمیش بہار جناب غلام سرور صاحب وزیر تعلیم بہار جیسے سحر طراز انشاء پر داز اور ادب شناس زعما شریک تھے،اس جلسہ کی صدارت آپ ہی نے کی تھی اور آپ کی نگرانی میں یہ جلسہ کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔
اسکول وکالج دونوں اداروں کو پروان چڑھانے کے لئے وافرمقدار میں مالیت کی حاجت محسوس ہوئی اسلئے مخلصین وبا اثر سربراہوں کے ایک وفد کی تشکیل کی گئی وہ ہر گاؤں میں مالداروں کی خدمت میں تشریف لے جاتے اور شائستگی سے اچھی رقم وصول فرماتے حضرت مولانا وفد کے میر کارواں ہوتے یہ اپنے لطائف و چاشنی سے شکر گھولتے رہتے اور سفر کو باغ وبہاربنا ئے رہتے۔
15/جنوری1953ء میں اعلی کمیٹی قائم ہوئی تو آپ بھی اس میں ممبر منتخب ہوئے اور اپنے نرالے انداز میں اس کام کو انجام دیا۔
مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ چوراہے پر واقع ہے،پہلومیں بارونق بازار ہے، اسلئے ہر جانب سے آنے جانے والوں کا ہجوم لگارہتاہے، لیکن خداکے حضور میں جبیں سائی کے لئے کوئی خانہ خدا نہیں تھا،طلبہ سلیمانیہ بھی مسجدومحراب کے لئے ترس رہے تھے۔
ٓآپ اس کی تکمیل کے لئے ضعف ومعذوری کے باوجود ۴۷۹۱ء میں مدرسہ شمسیہ سے سبکدودش ہو کر مسجد سنہولہ کے احاطہ میں کمبل ڈال دیا اور قیام وقعود کی معذوری تک وہیں مقیم رہے،وہ فن تعمیرمیں ید طولی رکھتے تھے، آپ نے معمار ومزدور فراہم کیا اور اپنی نگرانی میں مسجد کو تکمیل تک پہنچایا۔
آپ نے لمبی عمر پائی آخیر زمانے میں چلنے پھر نے سے معذور ہوگئے تھے،لیکن آپ کادل جواں تھا اور ظرافت کی شوخی تیز ہوگئی تھی) ۹/نومبر1983 ء میں آپ کا سانحہ ارتحال پیش آیا تو اس بزم نشاط میں سکوت طاری ہوگیا،ہزاروں سوگوار کوکارواں کی طرف امنڈ آئے اور افسردہ دلوں کے ساتھ آپ کورفیق اعلیٰ کے سپرد کیا۔
ان کی گوناگوں اور منفرد خدمات کی یاد گارمیں گڈاشہر میں پرشکوہ ”مجیدیہ مسافر خانہ“ تعمیر کیا جارہا ہے۔
ہر گز نمیر دآنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما