مضامین

ڈکٹیٹر سوم کی گرفتاری: جمعیت کا دائرہ حربیہ یا مجلس حربی قسط نمبر(18)

محمد یاسین جہازی، خادم جمعیت علمائے ہند

مولانا بشیر احمد صاحب نے مولانا حفظ الرحمان صاحب سیوہاروی کو تیسرا ڈکٹیٹر مقرر فرمایا تھا۔24اپریل 1932کو دہلی کے گھنٹہ گھر پر کانگریس کاسینتالیسواں اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس کو روکنے کے لیے پولیس نے ہر ممکن کوشش کی اور کانگریس کے مجلس استقبالیہ کے ارکان اور دیگر سبھی کانگریسی کارکنوں کو پہلے ہی گرفتار کرلیا۔ صدر اجلاس پنڈت مدن موہن مالویہ کو دہلی آتے ہوئے جمنا پل پر گرفتار کرلیا گیا۔ باہر کے آئے ہوئے سبھی ڈیلی گیٹس اور عام لوگوں کو بھی گرفتار کرتی رہی۔ شہر میں مکمل ہڑتال ہوگیا۔ ریلوے اسٹیشن، عام گزرگاہوں، ہوٹلوں، لاریوں، تانگوں غرض ہر جگہ پر پولیس کی سخت نگرانی تھی۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود مجاہدین آزادی نے گھنٹہ گھر پر اجلاس کیا۔ اجلاس میں شرکت کے لیے اکالی دل کے جتھے بھی آگئے۔ ان کے آتے ہی پولیس نے پانچ منٹ میں منتشر ہونے کا حکم دیا، لیکن مجمع منتشر نہیں ہوا اور برابر اجلاس کرتے رہے۔ جس کے بعد پولیس نے لاٹھی چارج کرکے لوگوں کو منتشر کرنا چاہا، لیکن لوگ اجلاس میں ڈٹے رہے۔ مولانا حفظ الرحمان صاحب ڈکٹیٹر سوم جمعیت علمائے ہند چوں کہ کانگریس کی مجلس استقبالیہ کمیٹی کے ممبر تھے، اس لیے آپ جیسے ہی اس اجلاس میں تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔

”کل صبح(24اپریل 1932) دس بجے جمعیت علمائے ہند کے تیسرے ڈکٹیٹر حضرت مولانا ابوالقاسم محمد حفظ الرحمان صاحب سیوہاروی پروفیسر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گھنٹہ گھر سے گرفتار کرلیے گئے۔ آپ آل انڈیا کانگریس کی مجلس استقبالیہ کے ممبر بھی تھے۔ اور کل ہی کانگریس کے اجلاس کی شرکت کے لیے دہلی تشریف لائے تھے۔ کانگریس کی منظور شدہ تجاویز پر تقریر کرنے کے لیے آپ کھڑے ہی ہوئے تھے کہ گرفتار کرلیے گئے۔مولانا عبداللہ صاحب بٹالوی رکن جمعیت مرکزیہ علمائے ہند، مولانا حافظ نصیر احمد صاحب کراچوی اور بہت سے ارکان جمعیت، نیز 35رضاکاروں کا ایک دستہ بھی آپ کے ہمراہ گرفتار ہوا۔“ (الجمعیۃ28اپریل1932)
آپ کو گرفتار کرنے کے بعددہلی ڈسٹرکٹ جیل میں رکھا گیا۔
رہائی
آپ کو کل پندرہ ایام جیل میں رکھا گیا اور 9مئی 1932کو آپ کو بلا شرط رہا کردیا گیا۔
”حضرت مولانا ابوالقاسم محمد حفظ الرحمان صاحب ڈکٹیٹر سوم جمعیت علمائے ہند و ممبر مجلس استقبالیہ انڈین نیشنل کانگریس کانفرنس اور مولانا حافظ نصیر احمد صاحب رکن جمعیت علمائے صوبہ سندھ و عبد العزیز صاحب کارکن جمعیت علمائے مرادآباد جو کانگریس کے سینتالیسویں اجلاس منعقدہ گھنٹہ گھر سے گرفتار ہوئے تھے، آج جیل میں مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیے گئے، ہر سہ حضرات کو بغیر کسی شرط کے رہا کردیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ آج اور بھی بہت سے ڈیلی گیٹ رہا کیے گئے ہیں۔“ (الجمعیۃ 9مئی 1932)
حضرت سیوہاروی کو دہلی چھوڑنے کا حکم
جیل سے آنے کے بعد آپ چین سے نہیں بیٹھے اور آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے سول فرمانی کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے باعث آپ کو ۴ /جون1932 کو بارہ گھنٹے کے اندر دہلی چھوڑنے کا حکم دیا۔
”دہلی،۴/جون۔ مولانا ابوالقاسم محمد حفظ الرحمان صاحب سیوہاروی سابق ڈکٹیٹر سوم جمعیت علمائے ہند کل صبح دہلی تشریف لائے اور جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں قیام فرمایا۔ نو بجے کے قریب ایک انسپکٹر سی آئی ڈی اور ایک سب انسپکٹر پولیس آپ کے پاس پہنچے، اور ہنگامی اختیارات کے آر ڈی نینس کے ماتحت آپ پر نوٹس تعمیل کرنا چاہا۔ نوٹس میں مذکور تھا کہ حدود دہلی سے بارہ گھنٹہ کے اندر نکل جاو۔ مولانا موصوف نے نوٹس لینے سے انکار کردیا اور نماز جمعہ کے بعد کئی ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ نے ایک مدلل مبسوط اور پرزور تقریر فرمائی۔“ (الجمعیۃ 5جون 1932)
جلسہ عام میں خطاب
”دہلی، ۴جون۔ کل بعد نماز جمعہ جامع مسجد میں مسلمانان دہلی کا ایک مہتم بالشان جلسہ منعقد ہوا، جس میں مولانا ابوالقاسم محمد حفظ الرحمان صاحب سیوہاروی سابق ڈکٹیٹر سوم جمعیت علمائے ہند اور مولا نا راشد میاں صاحب نے حج کے متعلق مسودات قانون اور دیگر اہم اور ضروری مسائل پر نہایت پر اثر تقریریں فرمائیں۔“ (الجمعیۃ 5جون 1932)
نوٹس اور گرفتاری کے امکانات کے باوجود مجلس حربی کے تحت سول نافرمانی کو منظم طور پرچلانے کے لیے آپ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سید محمد میاں صاحب لکھتے ہیں کہ
”ہمیں یہاں یہ عرض کر نا ہے کہ حضرت مولانا سجاد صاحب کے دست راست اور ”نفس ناطقہ“ یہی رفیق محترم مجاہد ملّت رحمۃ اللہ علیہ تھے، جن کو نظام رضاکا ران کا ناظم اعلیٰ یا کمانڈر بنایا گیا تھا اور ان کاکام یہ تھا کہ ملک میں گھوم پھر کر تحریک کا جائزہ لیں اور اس نظام کو کامیاب بنائیں۔“ (الجمعیۃ، مجاہد ملت نمبر، ص88)

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close