اسلامیات

کرپٹو کرنسی کا شرعی حکم

محمد یاسین جہازی

کرپٹو کرنسی کا شرعی حکم
محمد یاسین جہازی
کرپٹو کرنسی کی خریدو فروخت کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے راقم نے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند کے علاوہ نصف درجن سے زائد دارالافتا سے استفسار کیا؛ لیکن صرف دارالافتا دارالعلوم وقف دیوبند سے ہی جواب آیا۔ ملک کے بعض نامور مفتیان کرام سے بھی براہ راست اور بالواسطہ رابطہ کیا گیا؛ لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ حتیٰ کہ بعض بڑے مفتیان کرام نے اس موضوع پر جواب دینے سے نہ صرف انکار کیا، بلکہ سوال کرنے پر یہ کہہ کر ناراضگی کا اظہار کیا کہ ان سب مسائل کوکیوں موضوع بحث بنایا جارہا ہے۔
ناچیز نے کرپٹو کی تاریخ اور حقیقت کے بارے میں جاننے کے لیے کافی ریسرچ کیا۔ بعد ازاں ایکس چینج میں اکاونٹ کھول کر عملی تجربہ سے گذرا۔ ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔پھر ان تمام چیزوں کی روشنی میں ایک استفتا ترتیب دے کر ملک کے مختلف دارالافتا میں بھیجا، لیکن صرف دارالعلوم وقف دیوبند ہی کی طرف سے جواب آیا۔ وہ جواب درج ذیل ہے:


”مفتیان کرام سے درج ذیل مسئلہ میں شرعی رہنمائی کی گذارش ہے:
ڈیجیٹل کوڈ پر مبنی کرنسی جسے کرپٹو کرنسی کہاجاتا ہے، اور ڈالر یا روپیہ کی طرح اس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہوتا، کو خریدنا اور بیچنا جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت کے لیے عرض ہے کہ 2008 میں آئے عالمی کرائسیس کے بعد دنیا کے موجودہ معاشی نظام کے متبادل کے طور پر یہ کرنسی وجود میں آئی تھی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایسی کرنسی بنائی جائے جس پر کسی ملک یا بینک یا تھرڈ پارٹی کا کنٹرول نہ ہو، جس طرح کہ روپیہ پر آر بی آئی بینک کا، کھاتہ میں جمع ہماری رقم پر بینک کا کنٹرول ہوتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ میں ناجائز کہا گیا ہے اور دلیل یہ دی گئی ہے کہ اس مبیع کا وجود فرضی ہے، اس لیے ناجائز ہے۔ اسی طرح کہا گیا ہے یہ سٹہ اور جوا کی ایک قسم ہے۔
عملی تجربہ کے بعد یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اس میں کرنسی کے تبادلہ کی طرح لین دین ہوتا ہے، اس لیے جوا کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اسی طرح مبیع کا اگرچہ خارجی وجود نہیں ہوتا، تاہم ڈیجیٹل کوڈ ہوتا ہے، جس کو بطور ثمن و نقد استعمال کیا جاتا ہے، جس طرح آن لائن ٹرانزیکشن میں ٹرانزیکشن آئی ڈی ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں کرپٹو کرنسی کا لین دین کا چلن پوری دنیا میں عام ہوتا جارہا ہے، اور عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں آن لائن پیمنٹ کی طرح رقم کے متبادل کے طور پر کرپٹو کرنسی استعمال کی جانے لگے؛ کیوں کہ کچھ موجودہ کرنسی والے ممالک بھی کرنسی چھاپنے کے ساتھ ساتھ، یا کرنسی کے متبادل کے طور پر کرپٹو کرنسی کا رواج دے رہے ہیں، اس میں یو ایس کا کرپٹو کرنسی اس کی مثال ہے۔
امید ہے کہ شرعی رہنمائی فرماکر عند اللہ ماجور ہوں گے۔
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزا۔
محمد یاسین جہازی
23-12-2020
جواب از دارالافتا دارالعلوم وقف دیوبند
واللہ الموفق: کسی بھی چیز کے کرنسی بننے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومت اور اسٹیٹ کی جانب سے اس کرنسی کو سکہ اور ثمن تسلیم کرکے اس کو عام معاملات میں زر مبادلہ کا درجہ دے دیا گیا ہو، ایسی کرنسی کو لوگ رغبت و میلان کے ساتھ قبول کرنے کے لیے آمادہ بھی ہوجائیں اور اسے رواج عام مل جائے۔ مذکورہ وضاحت کی روشنی میں عرض ہے کہ موجودہ حالات میں کرنسی کے لیے خارجی وجود ضروری نہیں ہے؛ بلکہ قانونی حیثیت اور لوگوں میں رواج کی وجہ سے بھی اس کو ثمن تسلیم کرلیا جائے گا، جیسا کہ آج کل آن لائن ٹرانزیکشن میں ثمن میں کوئی خارجی وجود نہیں ہوتا ہے؛ لیکن اگر کسی کو ٹرانسفر کیا جائے اور اس کا خارجی وجود چاہے، تو ایسا کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کی یہ صورت حال نہیں ہے، نہ ہی اس کا عام چلن ہے اور نہ ہی ہرجگہ اس کو قانونی حیثیت حاصل ہے، اس لیے جن ملکوں میں ان کو قانونی حیثیت حاصل ہو، اور لوگوں میں اس کا رواج بھی حاصل ہو،تو اس ملک میں کرپٹو کرنسی سے خریدو فروخت کرنا جائز ہے اور جہاں پر اس کو ابھی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے، وہاں پر اس کو ثمن کا درجہ حاصل نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس سے خریدو فروخت کرنا درست ہوگا۔
حوالے: فتاویٰ شامی، مطلب فی النیبریۃ والزیوف، جلد ۵، ص/233۔ البحر الرائق، کتاب البیع،جلد ۵، ص/277۔ (طوالت کی وجہ سے عبارت حذف کردی گئی ہے)
واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ: امانت علی قاسمی
دارالافتا دارالعلوم وقف دیوبند 14-5-1442ھ۔ (30/ دسمبر2020)
ہندستان میں کرپٹو کرنسی کی پالیسی کے بارے میں حکومت کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ حکومت نے نہ ہی پابندی لگائی ہے اور نہ ہی عام چلن کا فیصلہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت غیر حکومتی، یا غیر بینکنگ منی ٹراسفر سسٹم جیسے کہ گوگل پے، فون پے وغیرہ کے بڑھتے ٹرانزیکشن سے پریشان ہے، کیوں کہ ان نیٹ ورکوں سے ٹرانزیکشن کرنے سے پیسہ پر بینک اور حکومت کا کنٹرول ختم ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح سکہ سازی اور نوٹ چھپائی میں کثیر لاگت، ان کو کٹنے پھٹنے سے محفوظ رکھنے اوران کی سکیوریٹی پر بڑے اخراجات ہونے کی وجہ سے بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک بھی اپنی اپنی کرنسیوں کو کرپٹو میں تبدیل کرنے کا پلان بنارہے ہیں؛ انھیں وجوہات کی بنیاد پر ماہرین اقتصادیات اور کرپٹو کے ایکسپرٹ یہ پیش قیاسی کر رہے ہیں کہ اگلی صدی کرپٹو کی صدی ہوگی۔
درج بالا فتویٰ اور درج بالا حقائق کے پیش نظر ہر شخص از خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ کرپٹو کا لین دین جائز کے دائرے میں آسکتا ہے یا نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے اور حرام سے بچنے کی توفیق ارزانی کرتے ہوئے جائز ذرائع کو اختیار کرنے میں برکتوں سے نوازے، آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close