مضامین

کیا کوئی مسلمان مفکر اس کے بارے میں سوچ رہا ہے؟

اوریا مقبول جان

.

*اگلے دس سال: یہودی علماء کی نظر میں*

آخرالزمان، آمدِ مسیحا، یاجوج ماجوج اور قیامت سے پہلے برپا ہونے والے آخری معرکۂ خیر و شر جیسے موضوعات ، صرف علماء اسلام ہی کا موضوع نہیں، بلکہ عیسائیت اور یہودیت میں بھی یہ سب مدتوں سے زیرِ بحث اور زیرِ مطالعہ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تینوں مذاہب کے وہ علماء جو ان موضوعات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، وہ سب گذشتہ تیس سالوں سے ان واقعات کے عنقریب ظہور پذیر ہونے کی اطلاع دے رہے ہیںاور بیشتر علامات کے ظہورسے ان کے شواہد بھی پیش کر رہے ہیں۔ اس علم کو ’’ایسکاٹا لوجی‘‘ (Eschatology) کہتے ہیں، یعنی مذاہب کا ایسا علم جو موت، دنیا کے اختتام، اور جزاو سزا کے معاملات پر گفتگو کرتا ہے۔ ایک عرصہ تک عیسائیت میں اس موضوع پر مسلسل گفتگو ہوتی رہی،لیکن یورپ کے جدید ’’سیکولر انقلاب‘‘ اور ’’چرچ کی بالادستی‘‘ کے خاتمے کے بعد اب یہ موضوع عیسائیت کے چند ایک مخصوص فرقوں اور مسلکوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔لیکن گذشتہ تیس سالوں میں ایک دفعہ پھر،اس موضوع میں اس وقت سے جان پڑی ہے، جب دنیا بھر کے سائنس دانوں خصوصاً سیارگان کی فزکس کے ماہرین نے اس بات پر کانفرنسیں منعقد کرنا شروع کیں کہ زمین کا مادہ اور ہمارے نظامِ شمسی میں سیاروں کی چا ل ڈھال یہ بتا رہی ہے کہ اب دنیا ’’فنا‘‘ ہونے والی ہے۔ ان سائنس دانوں کی وارننگ اور تباہی کے اندازوں کے بعد ایک دفعہ پھر انجیل مقدس کے پرانے اور نئے عہدنامے کھولے گئے اوراب عیسائیت کے تناظر میں ’’آخری معرکۂ خیر و شر‘‘ (Armageddon)کے بار ے میں گفتگو موجودہ دور کا ایک سنجیدہ موضوع بن چکی ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوںسے کہیں زیادہ، یہودیوں نے اس موضوع پر تحقیق کی اور سب سے زیادہ لٹریچر بھی انہوں نے ہی تحریر کیا ہے۔ صہیونیت کی خفیہ تحریک کا آغاز، ان کا 1896ء کے اجتماع میں ’’ورلڈ پروٹوکولز‘‘ (Protocols) پر اتفاق، 1916ء میںبرطانیہ کے ساتھ اسرائیل کے قیام کے لئے خفیہ معاہدے ’’بالفور ڈیکلریشن‘‘کا اعلان، 1920ء سے جافہ، تل ابیب اور دیگر ریگستانی علاقوں کی جانب ، یورپ کے یہودیوں کی قافلوں کی صورت روانگی کا آغاز اور آخرکار،چودہ مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام تک، سارے مراحل اسی ’’آخری معرکۂ خیر و شر‘‘ کی جانب پیشقدمی تھے۔ وہ معرکہ جس کے نتیجے میں یہودی ’’ہیکلِ سلیمانی‘‘ کی دوبارہ تعمیر کریں گے، وہاں ’’تختِ داؤدی‘‘ آراستہ کریں گے اورپھر ان کا ’’آخری مسیحا‘‘ اس تخت پر بیٹھ کر ایک عالمی حکومت قائم کرے گا۔ یہودیوں سے زیادہ کوئی اور گروہ اس معاملے میں اتنا سنجیدہ نہیںہے۔اسی عقیدے پر ایمان کی بنیاد پرلاکھوں یہودی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے اپنی پُرآسائش رہائش گاہیں اور بڑے بڑے کاروبار چھوڑ کر آج اسرائیل میں آکر آباد ہوچکے ہیں۔ جس طرح دنیا بھر میں جدید سیکولرازم اور لبرل ازم کے طوفان سے تمام مذاہب کے لوگ متاثر ہوتے ہیں، ویسے ہی اسرائیل میں آباد یہودی، خصوصاًان کے نوجوان بھی اس کی زد میں آئے ہیں۔ اسرائیل کا ماحول، دراصل خالصتاً جنگی بنیادوں پر استوار کیا گیاہے ، جس میں ہر نوجوان کو میٹرک کے بعد دو برسوںکے لئے لازمی فوجی ملازمت کرنا ہوتی ہے،اور ان دو برسوں میں اسے مسلمانوں سے لڑنے، ان پر فتح حاصل کرنے اور مسیحا کی آمد تک اسرائیل کو مضبوط بنانے کے جذبات سے اسقدر بھر دیا جاتا ہے کہ وہ باقی ماندہ زندگی یہی خواب دیکھتا رہتا ہے کہ کب وہ وقت آئے گا، جب وہ اس فوج کا حصہ ہوگا اور اُردن، مصر، عراق، شام اور سعودی عرب میں آباد مسلمانوں کا خاتمہ کرتے ہوئے، ایک عالمی یہودی حکومت کے قیام کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ اسرائیل اور دنیا بھر کے وہ ممالک جہاں یہودی مستقلاًآباد ہیں، وہاں ان کے علماء جنہیں قرآن’’احبار و رہبان‘‘ پکارتا ہے اور عبرانی زبان میں وہ ــ’’ربائی‘‘کہلاتے ہیں، گذشتہ تیس سالوں سے یہودیوں کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرکے ،لوگوں کو آخری معرکۂ خیر وشر کی تیاری کے لئے مذہب کی جانب لوٹنے اور اس کی مکمل پابندی کا درس دے رہے ہیں۔ ان تمام یہودی علماء میں سب سے زیادہ مقبول ’’امنون اسحاق‘‘ (Amnon Yitzhak) ہے جس نے 1986ء میں 33سال کی عمر میں ’’شوفار‘‘ نامی ایک تنطیم بنائی ،جس کا مقصد بھٹکے ہوئے یہودیوں کو واپس مذہب کی جانب لانا تھا۔ یہ پہلا ربائی تھا جس نے اپنے خطبوں کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا۔ پہلے اس نے اپنے خطبات ویڈیو کیسٹوں کے ذریعے پھیلائے، پھر سی ڈیز اور اب اس کے یوٹیوب پر لاکھوں مداحین موجود ہیں۔ تنظیم کے ابتدائی چار سال بعد ہی وہ اسقدر مقبول ہوچکا تھا کہ اسے سننے کے لئے لوگ سٹیڈیم بھرنے لگے۔ وہ یہودیوں کو ایسی خالص مذہبی زندگی گذارنے کی جانب راغب کرتا ہے، جس میں فحاشی، عریانی، کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس نے 2011ء میں یروشلم کے ٹیلی ویژن سنٹر کے سامنے اپنے ہزاروںپیروکاروں کی موجودگی میں ایک ہزار ٹیلی ویژن سیٹ توڑنے کا مظاہرہ کیا۔ آج سے چھ سال قبل دنیا بھر کے یہودی علماء ’’چار خونی چاند‘‘ (Four blood moon) کے اس قدیم تصور کے تحت اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ آئندہ تین چار سالوں میں یہودیوں پر بہت بُرا وقت آنے والا ہے اور پھر اس کے بعد ہماری آخری بڑی فتح ہوگی۔ اس تصور کو وہ ’’المیہ کے بعد کامرانی‘‘ (Tragedy and Triumph) کا نام دیتے ہیں اور یہودی ، تاریخ سے ایسی بیشمار مثالیں دیتے ہیں، جب ان پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹے،جس کے بعد اللہ نے انہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل وہ سپین میں 1942ء میں ازبیلا اور فرڈینیڈ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہودیوں پر توڑے جانے والے مظالم سے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی سال امریکہ دریافت ہوا تھا، جو بعد میں یہودیوں کی عالمی منظرنامے پر چھانے کی علامت بنا۔ اسی طرح وہ 1967ء کی فتح کو بھی انہی چار خونی چاند کے آسمان پر طلوع سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تصور دراصل ایک ساتھ آگے پیچھے ایسے چاند گرہنوں کی بابت ہے کہ جو ان کے بڑے تہواروں خصوصاً ’’یومِ کپور‘‘ کے وقت واقع ہوتے ہیں۔ امنون اسحاق نے 2014ء اور 2015ء کے ان چار خونی چاند گرہنوں کے بعد بتایا تھاکہ کچھ عرصے بعد یاجوج ماجوج اور بڑی عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے اور دنیا میں صرف چند یہودی ہی باقی بچیں گے۔ یہودیوں کے ہاں ’’خالص بنی اسرائیل‘‘ کی برتری کا ایک گہرا تصور موجود ہے اور مسیحا کی آمد کے بارے میں بھی ان پیش گوئیوں میں یہی درج ہے کہ وہ خالص بنی اسرائیل کی یعنی ’’آلِ یعقوبؑ‘‘ کی حکومت قائم کرے گا۔ امنون اسحاق نے 2011ء کے اکتوبر میں کہا تھا کہ موجودہ یہودی علماء میں ’’آلِ یعقوبؑ‘‘ میں سے صرف 5فیصد ہیں اور باقی 95فیصد وہ بہروپیئے ہیں جو خود کو آلِ یعقوبؑ کہتے ہیںاور انہی کی وجہ سے اب یہودیوں پر عذاب آئے گا اور نتیجے کے طور پر خالص بنی اسرائیل ہی باقی رہ جائیں گے۔ ربائی امنون اسحاق نے 2019ء کے آخر میں کہا تھا کہ کچھ ماہ بعد دنیا ایک بہت بڑے وائرس کا شکار ہوجائے گی اور اس کے مطابق یہ وائرس دراصل عیسائی دنیا کا عالمی ’’ایجنڈا21‘‘ ہے۔ ’’کرونا‘‘ وائرس نے اس کی پیش گوئی سچ ثابت کردی۔اس نے پھر28 مئی 2020ء کو کہا کہ ’’پہلی کرونا کی لہر ختم ہو جائے گی، مگر اسکے بعد اکتوبر میں دوسری لہر شروع ہوگی اور اس دوسری لہر کے نو ماہ بعد دنیامیں ’’مسیحا‘‘ کے آنے کا دور شروع ہوجائے گا۔ اس نے تالمود اور تورات کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب تک ’رومی‘زوال پذیر نہیں ہوتے( یعنی یورپ ختم نہیں ہوتا) مسیحا نہیں آئے گا‘‘۔ امنون اسحاق اس وقت یہودیوں میں سب سے مقبول ترین ربائی ہے، جس کو سننے کے لیئے یہودی لاکھوں کی تعداد میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ اس نے یکم اکتوبر2020ء کو ایک ایسی ویڈیوجاری کی جس نے پوری دنیا میں ایک ہیجان برپا کر رکھا ہے،اس ویڈیو میں اس نے اگلے دس سالوں کے لئے قوامِ متحدہ کے ایک ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے خفیہ پلان سے پردہ اٹھایا ہے۔

یوں تو آمون اسحاق، 1990ء سے ہی دنیا بھر کے یہودیوں میںایک مقبول ترین ربائی رہا ہے، لیکن گذشتہ سال 27ستمبر 2019ء کو جب اس نے کرونا وائرس کی پیش گوئی کی اور ساتھ ہی یہ انکشاف کیا کہ بل گیٹس اس وائرس کو پھیلانے والا ہوگا اور یہ کہا کہ کارپوریٹ دنیا ایک ایسی ویکسین تیار کروائے گی جس کے ذریعے لوگوں کے جسموں میں ایک مائیکروچپ (Micro chip) داخل کی جائے گی جس سے پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہوئے 2021ء میں نیا ورلڈ آرڈر نافذ کر دیا جائے گا۔ بل گیٹس سے نفرت تو سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ کارپوریٹ دنیا میں واحد غیر یہودی سرمایہ دار ہے، لیکن آمون اسحاق کی اس سازشی موضوع پر بنائی گئی ویڈیوز یوٹیوب حذف (delete) کر دے گی، جن میں 21ستمبر 2019ء والی ویڈیو بھی شامل ہو تو پھر اس قصے کو سمجھنا کافی مشکل نظر آتا ہے۔ آمون اسحاق نے جس طرح تہذیب ِ مغرب، جمہورت اور جدید سیکولر دنیا کو یہودیت کا دشمن قرار دیا ہے، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’جدید تہذیبِ مغرب‘‘ کو اسی طرح یہودیوں کے لئے زہرِ قاتل تصور کرتا ہے جیسے مسلمان علماء و مفکرین کی اکثریت اپنے لیئے سمجھتی ہے۔ اس کے نزدیک ’’مسیحا‘‘ کے آنے سے پہلے پوری دنیا پر ایک شیطانی حکومت قائم ہونے والی ہے۔جب تک اسرائیل ایک قومی ریاست اور جمہوری آئینی وجود کے طور پراپنے وجود کو قائم رکھے گا اس پر مغرب کا یہ شیطانی اقتدارمسلط رہے گا۔یہ تمام تصور ہمارے ہاں ’’دجال ‘‘ اور ’’دجالی قوتوں‘‘ جیسا ہے، یعنی جس طرح مسلمان مفکرین کہتے ہیںاس وقت دنیا پر چھایا ہوا ’’مغربی دجالی نظام ‘‘پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے چکا ہے ویسے ہی آمون اسحاق بھی گفتگو کرتا ہے ۔اس کے مطابق اب مغرب، دنیا میں ’’نیا ورلڈ آرڈر‘‘ نافذ کرنے والا ہے۔ آمون نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 1992ء میں برازیل کی کانفرنس میںایک ’’ایجنڈا21ئ‘‘ منظور کیا تھاجسے ’’صدی کے ترقیاتی اہداف‘‘ (Millennium Development Goals) کہا جاتا ہے۔ وہ کامیاب نہیں ہوا، اس لئے اب ان کا ’’ایجنڈا30ئ‘‘ ہے جس کا نفاذ اس دنیا پر مکمل کنٹرول کے لئے بہت ضروری ہے۔’’ ایجنڈا21 ئ‘‘کے اہداف میں غربت ، بھوک اور بیماری، کا خاتمہ، صاف پانی ، ٹرانسپورٹ اور توانائی کی فراہمی شامل تھے۔ لیکن ’’ایجنڈ30ء ‘‘ کے نیو ورلڈ آرڈرکے تحت جو اہداف ہیں وہ بہت ہی خوفناک ہیں۔ اس کے تحت (1۔پوری دنیا میں صرف ایک حکومت قائم کی جائے گی، (2۔کیش کرنسی ختم کر دی جائے گی، (3۔دنیا پوری کا ایک ہی سنٹرل بینک ہوگا، (4۔ پوری دنیا کی ایک ہی فوج ہوگی، (5۔کسی قسم کی ریاستی خودمختاری یا قومی ریاست کا وجود نہیں ہوگا، (6۔ تمام کاروبار، گھر وغیرہ ریاست کی ملکیت ہوں گے اور کسی قسم کی نجی ملکیت نہیں ہوگی، (7۔خاندان نام کے ادارے کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور بچے ریاست پالے گی، (8۔دنیا کی آبادی کو بہت حد تک کم کر نے کے بعدمزید بڑھنے سے بھی روکا جائے گا، (9۔ہر کسی کو زبردستی بے شمار ویکسین لگا کر کنٹرول کیا جائے گا، (10۔ عالمی سطح پر ہر فرد کی ایک بنیادی آمدنی ہوگی، (11۔ ہر فرد کے اندر زبردستی مائیکرو چپ لگائی جائے گی تاکہ اس کی زندگی کے ہر لمحے پر نظر رکھی جا سکے، (12۔عالمی سوشل کریڈٹ سسٹم کا قیام جس میں صحت، تعلیم، اور روزگار کا تحفظ ہوگا جیسے چین میں ہوتا ہے، (13۔5G کوایک بہت بڑے مانیٹرننگ سسٹم کی طرح بنا دیا جائے گا، (14۔تمام تعلیمی ادارے حکومت کی ملکیت ہوں گے، (15۔ تمام گاڑیاں بھی حکومت کی ملکیت ہوں گی، (16۔تمام کاروبار اور کارپوریشنیں بھی حکومت کی ملکیت ہوں گی، (17۔ضروری سٖفر کے علاوہ ہر قسم کے سفر پر پابندی ہو گی،(18۔لوگوں کی رہائش کے لئے شہر یا علاقے مخصوص کر دیئے جائیں گے اور ان کے علاوہ کہیںبھی رہائش نہیں رکھی جاسکے گی، (19۔ ذاتی گھر، ذاتی زراعت، ذاتی آبپاشی، ذاتی بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں پر پابندی ہوگی، (20۔ انسانوں کی ضروریات کے مطابق زمین کا محدوداستعمال ہوگا، (21۔ہر طرح کی دیسی ادویات یا طریقِ علاج پر پابندی ہوگی اور صرف Synthetic ادویات استعمال ہوں گی، (22۔لکڑیاں جلانے یا دیگر فطری طریقے سے آگ جلانے پر پابندی ہوگی۔ آمون کے مطابق یہ ہے اس عالمی حکومت کا نقشہ جو مغرب نافذ کرنے جا رہا ہے۔ یہ حکومت دراصل یہودیوں کے آنے والے ’’مسیحا‘‘ کے مقابل قائم کی جائے گی، تاکہ اسے روکا جاسکے۔ آمون اسحاق نے کہا کہ یہ ایک ایسی حکومت ہوگی کہ آپ فرعون کے زمانے کو بھول جائیں گے۔ آمون اسحاق کی باتیں آج سب کو ایک دیوانے کا خواب نظر آتی ہیں،مگر اس کی باتوںپر یقین کرنے والوں کی اکثریت یہودیوں میں موجود ہے۔ ایسا ہی ایک ’’دیوانے کا خواب ‘‘ ایک اوریہودی ’’کارل مارکس‘‘ نے ڈیڑھ سو سال قبل دیکھا تھا۔ اس کیمونسٹ نظام میں بھی کوئی نجی ملکیت نہیں تھی، کسی ریاست کا تصور نہیں تھا، خاندان کا ادارہ موجود نہ تھا۔ کاروبار سب کا سب ریاست کی ملکیت تھا، زراعت اور صنعت بھی ریاست کی ذمہ داری تھی، گھر، روٹی کپڑا، صحت اور تعلیم ریاست کی ذمہ داری تھی۔ یہ سب جب اس نے فروری 1848ء میں’’کیمونسٹ مینی فیسٹو‘‘ تحریر کیا تو لوگوں کویہ باتیں دیوانے کی بڑ لگتی تھیں مگردنیا کے ہر خطے میں اس کے بیشمار ماننے والے پیدا ہوتے چلے گئے۔ برصغیر پاک و ہند کا ہر بڑا شاعر اور ادیب اس بظاہر ’’پاگل پن‘‘ نظر آنے والے تصور کا دیوانہ تھا۔ سجاد ظہر سے فیض احمد فیض اور اختر الایمان سے ساحر لدھیانوی تک سب اس نظام کی جدوجہد میں شریک تھے۔ صرف ایک علامہ اقبال تھے جو اسے ’’یہودی کی شرارت‘‘ کہتے تھے۔ وہ کال مارکس کے بارے میں تحریر کرتے ہیں وہ کلیمِ بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب ’’وہ ایک ایسا کلیم ہے جس کے پاس کوہ طور کی تجلی نہیںہے، ایسا مسیح ہے جس کے پاس کوئی صلیب نہیں،وہ پیغمبر نہیں ہے، لیکن بغل میں کتاب (داس کیپیٹل) لئے پھرتا ہے‘‘۔ لیکن انسانی تاریخ کو یہ دیوانے کا خواب ٹھیک ستر سال بعد 1917ء میں نافذ ہو کر حیران کرگیا۔ روس میں ’’کیمونسٹ انقلاب‘‘ آیا اور پھر یہی دیوانے کا خواب ایک نظام کی صورت 75سال تک آدھی دنیا پر نافذ رہا۔اس ’’دیوانے کے خواب‘‘ کو نافذ کرنے کے لیئے لینن کو مارکس سے تھوڑی بغاوت کرتے ہوئے ریاست کی صورت میں ایک ’’پرولتاریہ آمریت‘‘ (Proletariat Dictatorship)قائم کرنا پڑی ۔ اسی ریاستی تجربے کی راکھ میں سے اب یہ نئی چنگاری برآمد کی جا رہی ہے ۔ اس دفعہ بھی اس کی جنم بھومی ’’یہودی نسل‘‘ ہے۔ آمون نے اس ’’نیوورلڈ آڈر‘‘ کو ایک شیطانی حکمرانی کا نام دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’کرونا کی دوسری لہر اور ویکسین کی ایجاد اس کا راستہ ہموار کرے گی، اور جب ’’نیوورلڈ آرڈر قائم ہو جائے گا تو اس کے نتیجے میں یہودیوں پر قیامت ٹوٹے گی، مگر ان کو بچانے کے لئے ایک ’’مسیحا‘‘ آئے گا جو یورپ کو نیست و نابود کرے گا اور یروشلم سے عالمی حکومت قائم کرے گا۔ کیا کوئی مسلمان مفکر اس کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ (ختم شد)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close