مضامین

ہندوستانی مسلمان قابل تقلید طب

مکرمی!
"جب تک آپ اپنی پسند کی چیزوں کوصدقات وخیرات میں خرچ نہیں کریں گے تب تک آپ صداقت نہیں پاسکیں گے۔” (قرآن 3:92)
کوویڈ- 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حکومت کے عائد کردہ لاک ڈاؤن میں ہندوستانی مسلمانوں کا رویہ قابل ستائش رہا ہے۔ انہوں نے سماجی دوری اور گھریلو کورنٹائن پروٹوکول سمیت تمام اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے گھروں میں عیدالفطر منائی۔ اس عمل میںانہوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کیلئے دوسروں کے ساتھ ملکر چلنے کی ایک بہترین مثال قائم کی۔ عید الاضحی کی تقریبات کے دوران بھی اسی طریقہ کار کی پیروی کی گئی۔ ہم آہنگی اور امن کو برقرار رکھنے کیلئے صفائی ستھرائی اورگھروں میں قربانیپر خصوصی توجہ دی گئی تھی جبکہ دیکھا گیا کہ ہندو طبقے نے ساون منایاجس دوران ہندومیٹ کھانے سے بچتے ہیں۔جب یہ ملک کورونا کے ساتھ لڑ رہا تھاہندوستانی مسلمان پلازمہ عطیہ کرنے کیلئے بڑی تعداد میں سامنے آئے جس سے ہزاروں جانیں بچائی گئیں۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی دور میں ، میڈیا نے اپنی ٹی آر پیز کو بڑھاوا دینے کیلئے مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی پوری کوشش کی،حالانکہ ایک بار پھر قوم سے محبت کرنیوالے مسلمانوں نے انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ان میڈیاحربوں کو غلط ثابت کردیا ۔

’’جب آپ یہ سنوکہ طاعون کسی جگہ پھیلا ہواہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر یہ کسی ایسی سرزمین میں واقع ہو جس میں آپ پہلے سے ہی ہوں ، تو وہاں سے مت بھاگو۔‘‘

یہ مشہور حدیث ہے جو وباؤں کے دوران واضح طور پر گھریلو قرنطین کی بابت بات کرتی ہے اور متاثرہ علاقوں سے دوسرے علاقوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرتی ہے۔ یہ نہ صرف لاک ڈاؤن کی حمایت کرتی ہے بلکہ تمام افراد کو مذہب سے بالاتر ہوکر اپنے آپ کو طاعون(وبائی امراض) سے بچانے کیلئے تحریک بھی دیتی ہے۔ اس حدیث شریفہ کے حکم پر نہ صرف تہواروں کے دوران بلکہ ہر دن ہندوستانی مسلمانوں نے جذبے کے ساتھ عمل کیا۔ ہندوستانی مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مبنی لاک ڈاؤن پروٹوکول پر عمل پیرا تھے اور ہیں۔ وہ اپنی آزادی اور مواقع کی قربانی دیتے ہوئے تمام شہریوں کے مابین اخوت ، محبت اور ہمدردی کو برقرار رکھنے میں کافی جوش و خروش رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ باور کرادیا ہے کہ وہ بحران کے وقت صبر اور مستقل مزاجی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔’’ ہندوستانی مسلمان آئین پر پختہ یقین رکھتے ہیں جو تمام ہندوستانی شہریوں کو مساوی حقوق ، مواقع اور انصاف کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔‘‘ دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوج کے کمانڈر وںپر زور دیا کہ وہ طاعون کا سامنا کرتے ہوئے اپنی مہم سے پیچھے ہٹیں ،‘‘اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنی اور دوسروں کی حفاظت کیلئے آلودہ یا وباء متاثرہ علاقہ سے دور رہنا چاہئے۔اس حدیث شریف سے یہ تحریک بھی ملتی ہے کہ آپ کو دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب دینی چاہئے کہ وہ اپنا تحفظ کریں اور دوسروں کی جانوں کا بھی خیال رکھیں۔ ایک متقی مسلمان حفظان صحت کابہترین پیروکار ہوتاہے کیونکہ وہ پانچ بار وضو (چہرہ ، ہاتھ اور پیر دھونا) کرتا ہے۔

مذہب کے نام پرکچھ انتہا پسند گروہوں نے بہت سارے امتیازی سلوک کئے اور اشتعال انگیزی کی لیکن مسلمانوں نے آتش زدگی اور تباہی پھیلانے والی آگ میں تیل ڈالنے کے بجائے ان تمام حالات پر صبروتحمل کیا۔ہندوستانی مسلمان خوشی اور عقیدت کے ساتھ زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔محفوظ اور صحت مند رہنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اور زندگی کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے حتی الامکان کوشاں رہتیہیں۔ کالی بھیڑیں ہر برادری اور مذہب میں ہوتیہیں ، میڈیا ہمیشہ ان کی تلاش میں رہتاہے تاکہ وہ اپنے سیاسی آقاؤںکی خوشی بٹورے اورٹی آر پی بڑھائے۔ ایسے میںہندوستانی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جوبھی ’کالی بھیڑیں‘ جہاں بھی ہیں وہ ہمیشہ ’اقلیت میں رہیں اور اجتماعی سطح پرمسلم سماج اور معاشرے کی مثبت امیج پیش کی جائے۔

عبداللہ ، گلی قاسم جان، بلی ماران، دہلی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close