زبان و ادب

6 دسمبر یومِ شہادت بابری مسجد(بابری مسجد کی فریاد)

وقاص جامی دیوبند

اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

قرآن کہ سجدوں کا سفر میری زمیں پر
کیا کیا نہ ہوا شام و سحر میری زمیں پر
کیسے میں بھلادوں وہ سما کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

رمضان کا موسم تو کبھی عید کا موسم
برسوں یہاں دیکھا گیا توحید کا موسم
بن جائے نہ یہ شرک کی جا کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

رونے کو بہت روئے مرے غم پہ بظاہر
کچھ دن کا ہے بس سوگ کہ خوش ہوں گے سب آخر
غم جس کو ہوا وقتی ہوا کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

یادوں کی سحر،ذکر بھری رات سے چھینا
باطل نے مرے حق کو مری ذات سے چھینا
تو دیکھ ذرا دیکھ ذرا کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

وہ دور بھی گزرا ہے یہاں سب نے سنی تھی
میرے بھی مؤذن کی اذاں سب نے سنی تھی
پھر آئے وہی دور خدا کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

اپنوں کا تعاون ہے نہ غیروں کا سہارا
مجھ کو تو ملا صرف اندھیروں کا سہارا
دوں کس کو میں آواز بتا کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

ہوتے ہیں امامت کے جو آداب عطا کر
پھر سے تو مرے ممبر و محراب عطا کر
ہے عشق کے مرکز میں خلا کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

یہ نظم نہیں ہے یہ مرا درد ہے یا رب
سن لے کہ مرا تو ہی تو ہمدرد ہے یا رب
دنیا پہ بھروسہ نہ رہا کوئ نہیں ہے
اے خالقِ حق تیرے سوا کوئ نہیں ہے
میں کس سے کہوں حال مرا کوئ نہیں ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close