اسلامیات

دسواں پارہ

تلخیص: مولانا ڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی

دسواں پارہ:’’وعلموا‘‘ سے شروع ہے۔ اس کی ابتدائی آیتوں میں مال غنیمت کو تقسیم کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ پھر مقام بدر کا نقشہ کھنچتے ہوئے مسلمانوں سے کہاگیا کہ تم مدینہ شہر کے قریب تھے اور مکہ کے مشرکین مدینہ شہر سے دور تھے اور ابوسفیان کا تجارتی قافلہ بدر سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جبکہ بدر کا میدان بلندی پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں نے دونوں جماعتوں کو بغیر کسی پیشگی وعدہ کے میدان میں اکٹھا کردیا، اس لئے کہ اگر جنگ کے لئے کسی دن اور تاریخ کا اعلان ہوتا تو یہ لڑائی کے لئے جمع نہ ہوتے، لیکن اللہ نے جنگ ہونا مقدر کردیا تھا، اس لئے ایسے اسباب پیدا کردئیے گئے کہ دونوں فریق میدان بدر میں بغیر کسی پیشگی وعدہ کے جمع ہوگئے، مسلمانوں کا مقابلہ کفار مکہ کے بڑے لشکروں کے ساتھ ہوا ۔ حالات سازگار نہیں تھے، مسلمان نہتے تھے اور کفارمکہ اسلحہ سے لیس تھے، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز پر مسلمانوں کی مدد کی۔ مدد کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ خیمہ میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگنے کے بعد جب آپؐ پر نیند کا غلبہ ہوا ،تو خواب میں کفار مکہ کی تعداد اصل تعداد سے کم دکھائی گئی، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے حوصلہ بڑھانے میں آسانی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ بھی مدد کی ، اس طرح مسلمان کم تعداد میں رہنے کے باوجود کفار مکہ پر غالب رہے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ بدر میں کامیابی عطا فرمائی۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں پر جو احسانات فرمائے، ان میں سے ایک بڑے احسان کا ذکر فرمایا ہے، وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مومنین کے ذریعہ مدد فرمائی ،وہ آپؐ کے ہر طرح معاون ومددگار بن گئے۔ مومنوں پر یہ بھی احسان فرمایا کہ ان کے درمیان پہلے جو عداوت تھی، اسے محبت والفت میں تبدیل کردیا، پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،اب ایک دوسرے کے جاں نثار ہوگئے۔ پہلے ایک دوسرے سے دلی دشمنی رکھتے تھے، اب آپس میں مہربان ہوگئے، صدیوں پرانی دشمنی کو پیارومحبت میں بدل دیا ، یہ اللہ کی خاص مہربانی اور اس کی مشیت تھی، ورنہ یہ ایسا کام تھا کہ بظاہر ہونا بہت مشکل تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایاکہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپسی تفرقہ میں نہ پڑو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے، تو اس نے تمہیں بچالیا، اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پائو۔(سورہ آل عمران)
اس کے بعد مہاجرین اورا نصار کے بھائی چارہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا تھا، حتی کہ وہ وراثت میں حقیقی رشتہ داروں پر مقدم سمجھے جاتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے میراث کے احکام نازل کرکے اسے منسوخ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں مہاجرین اور انصار کی تعریف کی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایاکہ مومن مرد اور عورتیں ان میں سے بعض بعض کے دوست ہیں ،وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے منع کرتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ بیشک اللہ سب پر غالب اور کمال حکمت والا ہے۔(سورہ توبہ)
اس کے بعد سورۂ توبہ شروع ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدائی آیت میں ان تمام معاہدوں کے منسوخ کرنے کا اعلان فرمایاہے، جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کئے تھے۔ معاہدوں کو توڑنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیا کرتے تھے اور ان کے شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے۔ اس سورت میں مسجد کے متولی کے اوصاف بھی بیان کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سےنہیں ڈرا، تو یہ لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والوں میں سے ہوں گے۔ حضرت عثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مسجد بنائے اور محض اللہ کی رضا کے لئے بنائے تو اللہ اس کے لئے بہشت میں ویساہی گھر بنائے گا۔(بخاری) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ مسجد ہے اور سب سے ناپسندیدہ جگہ بازار ہے۔(مسلم)
پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تعلیم دی کہ کعبہ یا کسی بھی مسجد کی تولیت اور آبادکاری مشرکوں کے لئے مناسب نہیں ،کعبہ خالص طور پر اللہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا، اسی طرح دوسری مسجدیں بھی اسی غرض سے بنائی جاتی ہیں، لیکن یہ مشرک بیت اللہ میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنایا کرتے تھے۔ چنانچہ مشرکوں نے بیت اللہ میں تین سوساٹھ بت رکھ دیئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن بیت اللہ کو بتوں سے پاک کیا، اس کے علاوہ بیت اللہ میں مشرکین مکہ فحاشی کے کام بھی کیا کرتے تھے، کیا مرد، کیا عورت سب ننگے طواف کرتے تھے، ان کی نظروں میں بیت اللہ کے احترام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہاں تک کہ وہ پوجا کے وقت سیٹی بجاتے، تالیاں لگاتے اور گانے بجانے کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا ایسے لوگ مساجد کے متولی ہوسکتے ہیں؟ اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ ایسے لوگ مسجدوں کے متولی نہیں ہوسکتے ہیں۔
اس سورت میں کفارمکہ کے ایک سوال کا جواب بھی دیاگیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مسلمان اپنے آپ کو اچھا کہتے ہیں اور وہ نیک کام کرتے ہیں ،تو ہم بھی تو حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں ،انہیں پانی پلاتے ہیں، انہیں کھانا کھلاتے ہیں، نیز مسجد حرام کی مرمت کرتے ہیں ، حرم میں روشنی وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں ،تو اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ جب تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان ہی نہیں تو تمہارے سب اعمال رائیگاں ہوجائیں گے۔ اس طرح دوسری نیکیوں کا دارومدار ایمان پر ہے، اگر ایمان قبول نہیں کیا تو دوسری نیکیوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
اس کے بعد غزوۂ حنین کا ذکر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ۸ھ میں مکہ فتح کرلیا تو آپؐ کو معلوم ہوا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ آپ سے جنگ کرنے کے لئے جمع ہورہے ہیں، تو آپؐ بارہ ہزار مجاہدین کو لے کر روانہ ہوگئے۔ بعض مسلمانوں کو اس موقع پر اپنی کثرت تعدادپر فخر ہوا، جب دونوں فوجیں جمع ہوئیں ،تو ہوازن کے لوگوں نے اپنی کمین گاہ سے نکل کر یکایک حملہ کردیا ،جس کی وجہ سے مسلمانوں کے پائوں اکھڑگئے ،لیکن پھر مسلمان واپس لوٹے اور جم کر مقابلہ کیا۔ پھر اللہ نے فتح عطا کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے غزوہ حنین میں مسلمانوں کی مدد کی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تعلیم دی کی کثرت تعداد پر فخر کرنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے ، اس کے بعد مصارف زکوٰۃ کا بیان ہےکہ صدقات توصرف فقیروں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے لئے ہے جو اس کے کارندے ہیں ، اوران کے لئے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہو اور گردنیں چھڑانے کے لئے اور تاوان بھرنے والے کےلئے اور اللہ کے راستہ میں اور مسافروں پر خرچ کرنے کے لئے ہے ، یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔اس کے بعد منافقین کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ نے کہا کہ منافقین چاہے مردہوں یا عورت سبھی ایک جیسے ہیں، وہ بُرائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں ،صلہ رحمی اور کسی بھی خیر کے کام میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے اور اللہ کی یاد سے غافل رہتے ہیں، اس لئے اللہ نے ان کو بھلادیا اور ان کو اپنی رحمت سے محروم کردیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close