اہم خبریں

بابری مسجد پر رام مندر بنانے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ اصول انصاف کے منافی

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ریویو پٹیشن دائر کرے گا


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلسِ عاملہ کی ایک اہم ہنگامی میٹنگ آج بتاریخ 17؍نومبر 2019ءکو بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کےفیصلےمورخہ9.11.2019کی بابت تفصیلی گفتگو کی گئی،مجلس عاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے مورخہ۹؍نومبر2019ءمیں دیئے گئے مندرجہ ذیل باتیں خاص طور سے زیربحث آئیں:
(۱) بابری مسجد کی تعمیر بابر کے کمانڈر میر باقی کے ذریعہ 1528میں ہوئی تھی جیسا کہ مقدمہ نمبر ۵ کے فریقین نے اپنے مقدمہ کے عرضی دعویٰ میں خود مانا ہے ،اور سپریم کورٹ نے اسے قبول کیاہے۔
(۲) مسلمانوں کے ذریعہ دیئے گئے ثبوت سے یہ واضح ہے کہ1857سے1949تک بابری مسجد کی تین گنبد والی عمارت اور مسجد کا اندرونی صحن مسلمانوں کے قبضہ اور استعمال میں رہا ہے،اسے بھی سپریم کورٹ نے ماناہے۔
(۳) بابری مسجد میں آخری نماز 16دسمبر 1949کو پڑھی گئی تھی، سپریم کورٹ نے اسے بھی تسلیم کیاہے۔
(۴)22/23دسمبر، 1949کی رات میں بابری مسجد کے بیچ والے گنبد کے نیچے رام چندر جی کی جو مورتی رکھ دی گئی تھی، سپریم کورٹ کی نگاہ میں وہ قانون کی خلاف ورزی تھی۔
(۵) بابری مسجد کے بیچ والے گنبد کے نیچے کی ’’زمین‘‘ رام چندر جی کی جائے پیدائش (جنم استھان) کی شکل میں پوجا کیا جانا ثابت نہیں ہے۔لہٰذا سوٹ نمبر ۵ کے فریق نمبر ۲ (جنم استھان) کوDeity نہیں مانا جاسکتا۔
(۶) مسلمانوں کے ذریعہ دائر کردہ مقدمہ نمبر ۴ میعاد(limitation)کے اندر ہے اور جزوی طور سے ڈگری کئے جانے کے لائق ہے۔
(۷) سپریم کورٹ نے فیصلہ میں یہ بھی رائے دی ہے کہ ۶؍دسمبر 1992کو بابری مسجد گرائے جانے کا کام ہندوستان کے سیکولر آئین کے خلاف تھا۔
(۸) نزاعی عمارت میں چونکہ ہندو بھی سینکڑوں سال سے عبادت (پوجا) کرتے رہے ہیں اس لئے پوری نزاعی عمارت کی زمین مقدمہ نمبر 5کے فریق نمبر 1(بھگوان شری رام للا) کو دی جاتی ہے۔
(۹)چونکہ نزاعی زمین مقدمہ نمبر 5کے فریق نمبر1کو دی گئی ہے اس لئے مسلمانوں کو 5؍ایکڑ زمین مرکزی حکومت کے ذریعہ یا تو Aquired Landیا صوبائی حکومت کے ذریعہ ایودھیا میں کسی دوسری اہم جگہ پر دی جائے جس پر وہ مسجد بنا سکیں۔ یہ حکم سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 142کا استعمال کرتے ہوئے دیاہے۔ جس کے مطابق مذکورہ 5؍ایکڑ زمین سنی وقف بورڈ کو دیئے جانے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔
(۱۰)سپریم کورٹ نے اے۔ایس۔آئی۔ (آثارِ قدیمہ) کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ بات تسلیم کی ہے کہ کسی مندر کو توڑکر مسجد نہیں بنائی گئی ہے۔
میٹنگ میں اس بات پر بھی گفتگو ہوئی کہ 22/23دسمبر 1949کی رات میں بابری مسجد کے گنبد کے نیچے مورتیاں رکھے جانے کے تعلق سے درج F.I.R.اور حکومت اتر پردیش ، ڈی۔ایم۔ فیض آباد و ایس۔پی۔ فیض آباد کے ذریعہ مقدمہ نمبر1اور 2میں داخل جواب دعویٰ میں یہ مانا جا چکا ہے کہ مذکورہ مورتیاں چوری سے یا زبردستی رکھی گئی تھیں اور ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 30ستمبر2010کے فیصلے میں بھی مذکورہ مورتیوں کو Deityنہیں مانا تھا۔
مذکورہ بالا حالات میں آج کی میٹنگ میں یہ محسوس کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ بالا فیصلے میں کئی پہلوؤں پر نہ صرف باہمی تضاد ہے بلکہ کئی نقطوں پر یہ فیصلہ سمجھ سے پرے ہے اور پہلی نظر میں ہی غیر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مجلسِ عاملہ خاص طور پر درج ذیل بنیادوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو اصول انصاف کے مطابق نہیں پاتا ہے:
(i)جب 22/23دسمبر1949کی رات میں جبراً رکھی گئی رام چندر جی کی مورتی اور دیگر مورتیوں کا رکھا جانا غیر قانونی تھا تو اس طرح غیر قانونی طور سے رکھی گئی مورتیوں کو Deityکیسے مان لیا گیا ہے ،جو ہندو دھرم شاستر کے مطابق بھی Deityنہیں ہو سکتی ہیں؟
(ii)جب بابری مسجد میں 1857سے 1949تک مسلمانوں کا قبضہ اور نماز پڑھا جانا ثابت مانا گیا ہے تو کس بنیاد پر مسجد کی زمین مقدمہ نمبر 5کے مدعی نمبر 1کو دیدی گئی؟
(iii)آئین کی دفعہ 142کا استعمال کرتے وقت معزز ججوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وقف ایکٹ 1995کی دفعہ 104-Aاور 51(1)کے مطابق مسجد کی زمین کے Exchange یاTransfer کو مکمل طور پر منع کیا گیا ہے تو وقف ایکٹ کے درج اس قانونی روک؍پابندی کو دستور کی دفعہ 142کے تحت مسجد کی زمین کے بدلے میں دوسری زمین کیسے دی جا سکتی ہے؟ جبکہ خود سپریم کورٹ نے اپنے دیگر فیصلوں میں وضاحت کر رکھی ہے کہ دفعہ 142کے اختیارات معزز ججوں کے لئے لا 
محدودنہیں ہیں۔
مجلسِ عاملہ نے مذکورہ پہلوؤں پر غور کرنے اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں مذکورہ اور دیگر Apparent errors ہونے کی وجہ سے نظر ثانی کی درخواست داخل کرنے کا فیصلہ کیاہے ، جس میں اس پہلو کا بھی ذکر کیا جائے گا کہ مسجد کی زمین کے بدلے میں مسلمان کوئی دیگر زمین قبول نہیں کر سکتے ہیں اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ مسلمانوں کو بابری مسجد کی زمین دی جائے، مسلمان کسی عام حصہ زمین پر جائز حق لینے کے لئے سپریم کورٹ نہیں گئے تھے بلکہ مسجد کی زمین کے لئے انصاف حاصل کرنے کی خاطر عدالت گئے تھے
Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close