اسلامیات

جہیز معاشرے کا ناسور! سسکتی غریب بچیاں

تحریر: محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام ابوالبشر(انسان کا باپ) کو پیدا فر مایاآپ کو دنیا کا پہلا انسان ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کا پہلا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پہلا پیغمبر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔قرآن مجید میں آپ کاذکر کئی مقامات میں موجود ہے۔اللہ رب العزت نے حضرت اماں حوا کی پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے فر مائی حضرت حوا،حضرت آدم علیہ السلام کی بیوی اور نسل انسانی کی ماں ہیں ،ماں حوا کا نام قرآن کریم میں نہیں آیاصرف زوجہ آدم کا کئی مقام پر ذکر ہے۔ قر آن کریم میں صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ تمام نسل انسانی ایک ہی جوڑے حضرت آدم و حوا کی اولاد ہیں۔
*نکاح انسان کی فطری ضرورت ہے:*
انسان کی جس طرح بہت ساری فطری(طبعی، قدرتی) ضروریات ہیں،اسی طرح شادی بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اسی وجہ کر مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو اپنی فطری ضرورت کو جائز اور مہذب طریقے کے ساتھ پوری کرنے کے لیے نکاح( شادی) کرنے کی اجازت دیتا ہے۔اسلام نے نکاح کونسل انسانی کی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے،اور نکاح کو احساس بندگی اور شعور زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فر مایاہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے۔وَ لَقَدْ اَرْ سَلْنَا رُسُلاًمِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَا جًَاوَّذُرِّیِّۃً۔(القرآن، سورہ رعد،13:آیت،38) تر جمہ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے۔ رسول کریم ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء کرام علیہم ا لسلام گزرے ہیں ان میں سے اکثر کی بیویاں تھیں اور اولاد تھیں ،صرف حضرت یحیٰ علیہ ا لسلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بغیر بیوی کے عمر شریف گزاری۔ باقی تمام انبیائے کرام نے نکاح فرما یا،سب کی بیویاں تھیں اور اولاد تھی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی 300 بیویاں اور700باندیاں تھیں۔حضرت دائود علیہ السلام کی99 بیویاں تھیں۔
*ہندو مذ ہب میں شادیوں کی کثرت:*
ہندو مذہب کے لوگ مسلمانوں پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ مسلمان کئی کئی شادی کرتے ہیں،ہندوئوں کے بعض اوتاروںنے کئی کئی شادیاں کیں۔ہندئوں کے معبود’’رام‘‘ کے والد راجا دسرتھ کی تین 3 بیویاں تھیں دوسرے معبود’’ کرشنا‘‘ کی 16100 بیویاں تھیں، کنھیا کی 1000 ہزار بیویاں تھیں (تفصیل کے لیے تاریخ کا مطالعہ فر مائیں)۔ زیادہ بیویاں رکھنا نبوت کے خلاف نہیں ہے، مذہب اسلام میں نکاح ایک مقدس مذہبی ضرورت اور قر بِ الٰہی کا ذریعہ بھی ہے نبی اکرم ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیاہے،آپ نے فر مایا:النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے اعراض(روگر دانی،کنارہ کشی۔)aversionکیا وہ مجھ سے نہیں،فقہا نے نکاح کی کئی صورتیں بیان فر مائی ہیں، رسول کریم ﷺ نے نکاح کو ایمان کانصف حصہ قرار دیا:اِذاَتَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِسْتَکْمَلُ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ ا للّٰہِ فِی نِّصْفِ الْبَا قِِیْ۔تر جمہ: جب بندے نے نکاح کر لیا تو اسنے نصف(آدھا) دین مکمل کرلیا ،اور باقی نصف کے لیے وہ اللہ سے ڈرے۔(مشکوٰۃ شریف حدیث،286)نکاح کی ضروت و فضیلت پر قرآن واحادیث میں بہت صراحت سے ذکر موجود ہے۔
*جوان لڑ کے لڑ کیوں کو نکاح کی تر غیب:*
جوانی میں میں نکاح کرنے سے لڑ کے لڑ کیاں گناہ سے بچتے ہیں اور معا شرہ بہت سی برائیوں سے پاک ہوتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے فر مایا:’’ اے نو جوانوں! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کر تا ہے(یعنی نظر کو بہکنے سے اور جذ بات کو بہکنے ،بے قابو،بے لگام ہونے سے بچاتا ہے)اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہیے کہ شہوت (خواہشِ جماع،نفسانی خواہش) کا زور توڑ نے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے۔(بخاری،حدیث،5065,5066) غور کر نے کا مقام ہے کی رسول پاک ﷺ نے کس طرح نوجوانوں کی فکر فر مائی ہے،اس میں کتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں لکھنے کے لیے کتاب بھی کم پڑ جائے گی،اسی لیے آقا ﷺ نے فر مایا جس نے نکاح کر لیا اسکاآدھا ایمان مکمل ہو گیا۔
*دیر سے شادی بہت سی برائیوں کی جڑ ہے:*
مذہب اسلام نے نکاح کے صحیح ہونے کے لیے مردو عورت کے در میان نہ تو عمر کی قید رکھی ہے کہ شوہر کی عمر اتنی ہو اور بیوی کی اتنی، نکاح کی صحت کے لیے شریعت نے بلوغ (جوانی،شباب) ہی کی قید لگائی ہے البتہ نکاح عظیم مقاصد کا تقاضہ یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان کا ایک تناسب ہو نا چاہیے،نکاح کی تر غیب اور حو صلہ دیتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا: تین لوگوں کا ذمہ اورحق اللہ عز وجل (نے خود) پر(لے رکھا ہے) کہ ان کی مدد کرے :(1) وہ غلام جس نے آقا سے رقم مقررکر کے آزادی حاصل کر نے کا معا ہدہ کیا ہو، اور وہ اس کے ادا کر نے کا ارادہ بھی رکھتا ہو(2) ایسا نکاح کر نے والا، جو نکاح کے ذریعے عفت و پاکدامنی کا خواہاں ہواور(3) وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جدو جہد کر نے والا ہو۔(نسائی، تر مذی، ابن ماجہ) پاک اور صالح معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہے کے جوان لڑکے اور لڑ کیاں بغیر شادی کے نہ رہیں،اس لیے کی نگاہ وشرم گاہ کی حفاظت کا تصور بغیر نکاح کے ممکن ہی نہیںہے۔ اتنے اہم اور واضح احکامات کے با وجود آج لوگ بچوں کی عمر کو پار کر دیتے ہیں جہیز کی لا لچ میں لڑ کیوں کے لیے اچھے سے اچھے لڑ کے کی تلاش میں اور اسکے نتائج کتنے خراب ہو رہے ہیں کسی سے مخفی نہیں ہے۔
*مہنگی ہوتی شادیاں سسکتے والدین اور معاشرہ:*
آجکل کی شادی بہت ہنگامہ خیز اور رومانیromance,) )ہو تی ہیں رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگاتے شادی ہال ،گھر گلیاں وغیرہ وغیرہ۔ مسلمانوں کے رئیس حضرات نے شادی کو اپنااسٹیٹسstatus)) سمبل بنا لیا ہے اور دکھاوے کے اس کھیل میں فضول خر چی کے ساتھ غیر اسلامی رسم و رواج کو بھی بڑھا وا دے رہے ہیں بے جا رسمیں کر نا ،ناجائزوحرام کام کر نا اب کوئی معیوب نہیں سمجھتا، جب خدا و رسول کا ہی ڈر نہیں، تو شرم وحیا اور سماج سوسائٹی کس چڑ یا کا نام ہے جانتے ہی نہیں،جانتے ہیں تو مانتے ہی نہیں ہندوستانی معاشرے میں بہت سی برائیاں درآئی ہیں۔ان معاشرتی برائیوں میں شراب نوشی طرح طرح کی نشہ خوری ،تعلیم سے دوری،جہیز کا مسئلہ،شادی کے پر مسرت مو قع پر بے جا خرافات اور حد سے زیادہ اسراف،فضول خرچی انتہائی فکر کی بات ہے مسلمانوں کو شاید اللہ رب العزت کا یہ حکم معلوم ہی نہیں ۔(القرآن ،سورہ: اعراف7،آیت31)تر جمہ:اے اولاد آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت(پہن) لیا کرو اور کھائواور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کر و کہ بیشک وہ بے جا خرچ کر نے والوں کو پسند نہیں فرماتے ماتا۔ ایک جگہ ہے فضول خر چی نہ کرو،فضول خر چی کر نے والے شیطان کے بھائی ہیں۔جو کام شریعت مطہرہ کے قانون کو با لائے طاق رکھ کر کیا جائے،خدائی قانون کی اندیکھی کی جائے وہ کام کیسے صحیح اور کامیاب، نفع بخش(successful,) ہوگا،راقم کا تجر بہ ہے بیسیوں واقعات میں تحریر کر سکتا ہوں فضول خر چی ،دولت کی نمائش کر نے والوں کی شادیاں کامیاب نہیں ہیں جھگڑے پڑے ہوئے ہیں مقد مے چل رہے ہیں لڑ کیاں گھر بیٹھی رو رہی ہیں اور لڑ کا حواس باختہ گھوم رہا ہے،گھر والے پریشان ہیںیہ عذاب الٰہی نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا دولت مند لوگ ایسا نہیں کر سکتے کی اپنی بیٹی یا بیٹا کی شادی کر تے وقت اپنے غریب رشتے دار،ہمسایہ، یا یتیم بچی کی شادی ( نکاح) کرادیں ثواب بھی کمائیں اور نیک نامی بھی ،اس کی بر کت سے ان کے اولا دوں کی جوڑی بھی خوش خرم رہے اس نقطہ پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
*نکاح کو آسان کرو بد کر داری کو ختم کرو!:*
اسلام میں نکاح کو آسان کرنے کو کہا گیا ہے بہترین شادی وہ ہے جوساد گی سے انجام پائے، اسلام نے نکاح آسان بنایا رسول کریم ﷺ نے فر مایا:اعلنو ہذا النکاح وجعلوہ فی المساجد۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ۔(تر مذی:207/1) نکاح کا اعلان کرو، اور نکاح مسجد میں کیا کرو۔آج میرج ہال میں شادی کا رواج عام ہو گیا ہے لا کھوں لاکھ میرج ہا لوں کا کرایہ ہے۔الامان و الحفیظ،(یہ وہی بات ہوئی کہ آ بیل مجھے مار(نہیں) بلکہ آ بیل مجھے دوڑ کے مار)آجکل شادیوں میں طرح طرح کے کھا نوں کا انتظام اسٹاٹر(stsrter) سے لیکر آئیس کریم وکھانوں میں کم ازکم دس سے پندرہ طرح کے کھانے کا ہو ناعام بات ہے ور نہ رئیسوں کے یہاں25سے50 بلکہ سو ،سو طرح کے کھانے اور پچاسوں اسٹال vegetrian اورnon-vege کے ہو تے ہیں لوگ کھاتے کم ذائقہ زیادہ لیتے ہیں اور بچا ہوا کھاناکچڑے کے ٹب dustbin میں پھینک دیتے ہیں۔ استغفراللہ استغفراللہ!۔آج ہندوستان میں ہر روز لا کھوں لوگ بھوکے سو جاتے ہیں اور کتنے بچے کوپوشن کا شکار ہیں اللہ نے آپ کو دیا ہے نوازا ہے تو آپ رزق کی بربادی کر رہے ہیں غور کریں، جس مذہب میں یہ حکم ہو کہ دستر خوان میں ایک دانہ بھی گرے تو اٹھاکر کھالو اللہ نے ریزوں میں برکت رکھی ہے آقا ﷺ نے یہ ترغیب اس لیے دی کہ کھانا کا ایک دانہ بھی ضائع نہ ہو۔آج اس حدیث کو دوسرے مذاہب والے اپنے بچوں کو سیکھا رہے ہیںmontessori)) میں ٹفن کے کھانے کو ٹھیک سے استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں،اورٹفن کے کھانے کو بر باد کر نے پر سزا دی جاتی ہے۔ لیکن آج ان نو دو لتیوں اور بگڑے رئیسوں کو سمجھانا بڑا مشکل ہورہا ہے، علما،اہل علم،دانشوران حضرات تقریروں،اور تحریروں میں سمجھا رہے ہیں بتا رہے ہیں لیکن ان کے کان میں جوئیں نہیں رینگتی،سنائی نہیں دیتا ایسے ہی لو گوں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( القرآن، سورہ :انبیا21،آیت1سے3) ترجمہ:لو گوں کا حساب قریب آ گیا اور وہ غفلت میں منھ پھیرے ہوئے ہیں۔جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہو ئے ہی سنتے ہیں،ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں۔سیکڑو ں انسانوں کی خوراک کھانا چند گھنٹوں میں بر باد کر دینا پھینک دینا انتہائی خراب بات ہے اسلامی نقطۂ نظر سے کھانے کا ایک دانہ بھی بر باد نہیں کر ناچاہیے،آ قا ﷺ نے کا فر مان ہے کی ذرہ یعنی ریزوں میں برکت ہے اس لیے برتن کو خوب صاف کرلو برکت چھوٹ نہ جائے،کھانا بر باد نہیں کر نا چاہیے کیوں کہ قیامت کے دن یہ کھانا کیڑا بن جائے گا اور بر باد کر نے والے کو وہی کیڑا کھانا پڑے گا۔ جو ہم دنیا کی شان وشوکت اور status کے لیے کر رہے ہیں وہ عذاب الٰہی بنکر ہم پر ہی آنے والاہے،استغفراللہ۔
*جہیزمعاشرے کا ایک ناسور:*
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (1 )جو شخص کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے شادی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ا س ذلت میں اضافہ فر ماتاہے(2) اور جو شخص کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے شادی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے فقر میں اضافہ فرما تا ہے۔(3) اور جو شخص عورت کے حسب و نسب و خاندان کی وجہ سے شادی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کمینہ پن کو بڑھا وا دیتا ہے۔(4) اور جو شخص کسی عورت سے اس لیے شادی کرتا ہے کہ اپنی نظر نیچی رکھے یا صلہ رحمی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے نکاح میں برکت عطا فر ماتا ہے۔(طبرانی،284) دولت کی لا لچ میں شادی کر نے پر اتنی سخت وعید مو جود ہے تب بھی لا لچیوں، بے شر موں کو احساس نہیں اس کی نحوست سے دوچار رہتے ہیں بہت سی مثالیں موجود ہیں ،جن شادیوں میں غیر شرعی رسومات، فضول خر چی، نکاح میں ناچ گانا (جو کہ آجکل عام بات ہے)ہزاروں لا کھوں روپیے آتش بازی اور سجاوٹ میں ٖخرچ کر تے ہیں ان کی اولادیں بے حیا پیدا ہو رہی ہیں اور فحاشی میں سماج میں بدنام ہو رہی ہیں،والدین میں جھگڑے بڑھ رہے ہیں اور بھی طرح طرح کی نحوستیں پیدا ہو رہی ہیں ۔جہیز کے لینے دینے کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں جہیز ایک ہندوانہ رسم ہے جسے ہندو مذہب کے ماننے والے بھی برا مانتے ہیں،جہیز کے روایتی چلن پر روک لگانے کی سخت ضرورت ہے،بہت ہمت اور لگن سے اس کام میں لگنے کی ضرورت ہے،خصو صاً علمائے کرام،دانشور حضرات اور ہر طبقہ کے ذمہ داران کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی طاقت بھر کوشش کر تے رہیں، جہیز کو ختم کر نے کی کوشش پہلے بھی ہوتی رہی ہے ولیکن اب اس میں تیزی لانے کی سخت ضرورت ہے کیو نکہ اب جہیز کم ملنے کی صورت میں مسلم معاشرہ میں جان لینے کی وبا چل پڑی ہے جو انتہائی ظالمانہ،وحشیانہ،غیر انسانی کام ہے اس جہیز نے سیکڑوں بیٹیوں کی جانیں لے لی ہیں اور لاکھوں بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے جن کو جہیز کم ملا وہ بھی تکلیف میں ہیں ،سسرالیوں کا ظلم سہہ رہی ہیں اور طعنے سن رہی ہیں ،سسک رہی ہیں آہیں بھر رہی ہیں اور جو بن بیاہی ہیں وہ بھی اور ان کے گارجین بھی تکلیف میں ہیں ،سسک رہے ہیں آہیں بھر رہے ہیں ،بوڑھی ہوتی کنواری بیٹیوں ،بہنوں کی آنکھوں میں بسنے والے حسین خواب ٹوٹ چکے ہیں انہیں ناامیدی اور مایوسیوں کے اندھیروں نے گھیرلیا ہے اور والدین کو زندہ درگور کررکھا ہے۔افسوس!جہیز کی رسم وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جارہی ہے اس میں والدین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں اچھے سے اچھے دولہا کی قیمت لگا کر مارکیٹ ویلوکے حساب سے دولہا بکتا ہے ’’ *دولہابکتا ہے خریدو کے مصداق دولہا خرید رہے ہیں* ‘‘
خواہ اس کے لیے نہ ختم ہونے والا سودی قرض ہی کیوں نا لینا پڑے ،زمین مکان بیچنا پڑے وغیرہ وغیرہ،متوسط طبقہ کے شریف کم تنخواہ والے لڑکے ،علماء،حفاظ کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ’’علماء،حفاظ،متوسط طبقہ کے نوجوان‘‘دولت مندوں سے زیادہ خوش حال ازدواجی(شادی شدہ زندگی)گزار رہے ہیں ۔جہیز کے لالچی لوگ باقاعدہ جہیز کی لسٹ لے کر گھومتے ہیں اور باقاعدہ مول تول کرکے اپنی لسٹ کو پاس کرواکرہی دم لیتے ہیں ۔باقاعدہ اشتہار دے کر شادی کرنا عام سی بات ہوگئی ہے،
*میرج بیورو(Marriage Bureau)کے لوگ لوٹ رہےہیں*
جھوٹ بول کر دولہا کی خوبیاں بتاتے ہیں اورخامیاں چھپا کر لوگوں سے پیسے اینٹھ رہے ہیں ،یہ سماجی کوڑھ سب کو لگ رہا ہے۔ لہٰذا سبھی کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے،بڑے پیمانے پر نہیں تو محلہ محلہ کمیٹی بنا کر آپس میں تال میل قائم کرکے جہیز نہ لینے اور نہ دینے کی قسمیں کھائیں ،شروعات تو کریں ان شاء اللہ نتائج اچھے برآمد ہوں گے ،اسلام نکاح کے ساتھ جنسی خواہش کو لگام دیتا ہے۔نکاح کو آسان بنائیں ،اسلام پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں اللہ مدد فرمائے گا ،جہیز جیسی لعنت سے اللہ ہم سب کو بچائے آمین ثم آمین۔
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020,

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close