اہم خبریں

ہمیں فلسطین سے محبت کیوں ہے؟

محمد یاسین جہازی 9891737350

فلسطین سے ہمیں محبت کیوں ہے؟
محمد یاسین جہازی 9891737350
پوری دنیا کے مسلمانوں کا فلسطین سے مضبوط رشتے کی تین بنیادی وجوہات ہیں: (۱) انسانیت۔ (۲) وحدت امت۔ (۳) قبلہ اول۔
ہمیں فلسطین سے محبت اس لیے ہے کہ وہاں پر رہ رہے انسانوں پر ظلم و بربریت انسانیت پر ظلم و سفاکیت ہے اور ظلم و بربریت پوری دنیائے انسانیت پر کہیں بھی ہو، ہماری نگاہ میں وہ قابل مذمت و نفریں ہے۔ فلسطینی باشندگان یہودیوں کی چیرہ دستیوں کی اسیر ہیں۔ اور ان کی سفاکیت و خوں آشام فطرت کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں و پیچاں ہیں، اس لیے ہمارا انسانی فریضہ ہے کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کے پنجے کو مروڑ کر رکھ دیں۔ اگر ہم اپنے اندر اس جذبے کو محسوس نہیں کرتے ہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہم زندہ قوم نہیں ہیں۔
اسلام وحدت امت کی تعلیم دیتا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ اگر دنیا کے آخری کونے پر بسنے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے پر بسنے مسلم فرد کے دل میں اس کی چبھن محسوس ہونی چاہیے۔ اگر ہمارا دل اس درد کی لذت سے نا آشنا ہے، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مردہ قوم ہیں۔ زندگی ہمارے اوپر لعنت بھیج چکی ہے۔
ہمارا قبلہ اول مسجد اقصیٰ ہے اوریہاں کی سرزمین انبیائے کرام کے ورود بامسعود سے زعفران زار رہی ہے، اس لیے اس جگہ سے محبت ہمارا وفور ایمان کا حصہ ہے۔ اگر کوئی مسلم شخص اس جذبے سے محروم ہے، تو یقین مانیے کہ اسے اپنے آپ کو زندہ سمجھنے کا حق نہیں ہے۔
لیکن ……آج ہمارا مظلوم فسلطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا، ان کے حال زار پر رحم و کرم کے لیے بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہونا اور جگہ جگہ پر امن احتجاج اور یوم دعا منانا اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔ ہمارے اندر ابھی بھی وہی خون رواں دواں ہے، جو صلاح الدین ایوبی کے وارثین کی شناخت ہے۔ ہم اس وراثت کے امین ہے، جس نے سمندروں کے سینے چیر کر فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑے تھے۔ ہمارے گھوڑے خشکیوں کی رہین منت نہیں تھے، دشت،و جبل اور ارض و فلک ہمارے اقبال مندی کی پیشانی چومنے کے لیے بے چین و مضطرب رہا کرتے تھے۔
مسلمانوں کے دو قبلے اور دستور الٰہی
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے دو جگہوں کو قبلہ بنایا ہے: ایک بیت اللہ اور دوسرا بیت المقدس۔ ان دونوں قبلوں کے تعلق سے خدا تعالیٰ کا دستور الگ ہے۔ بیت اللہ پر کفار و مشرکین کبھی بھی غالب نہیں آسکتے، کیوں کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اس سلسلے میں واقعہ فیل مشہور ہے۔ دوسرا قبلہ بیت المقدس ہے۔ اس کے متعلق قانون قدرت یہ ہے کہ جب مسلمان معاصی اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے، تو سزا کے طور پر ان سے یہ قبلہ چھین لیا جائے گا، جو اس بات کی علامت ہوگی کہ امت مسلمہ ہر اعبتار سے پس روی کی شکار ہوگئی ہے، نہ تو اس کے اندر اسلام کی عملی روح باقی ہے اور نہ ہی فکر اسلامی سے اس کا ذہن و دماغ روشن و منور ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ پوری دنیا میں اتنے مسلم ممالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ نظریاتی و عملی دونوں اعتبار سے اپاہج ہوچکی ہے، جو ہم سب کے لیے سوچنے اور کچھ کرگزرنے کی دعوت دے رہا ہے، لیکن ہم ہیں کہ بہرے سے بھی زیادہ بے حس، گونگے سے بھی زیادہ خاموش اور لنگڑے سے بھی زیادہ پاوں توڑ کر بیٹھ چکے ہیں۔
اگر ہم بیت المقدس کو دوبارہ واپس لینا چاہتے ہیں، تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ اور رجوع الیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ سیاست و معاشرت میں اسلامی حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے کھل کر فلسطین کی حمایت و نصرت کا اعلان کریں۔
۲۲/ دسمبر ۷۱۰۲ کو جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک میں تقریبا ایک ہزار سے زائد مقامات پر رجوع الیٰ اللہ اور اسلامی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے پرامن احتجاج کیا اور بعد نماز جمعہ ”یوم دعا“ مناتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعائیں کی گئیں۔ اس دور بیں اور اسلامی حکمت عملی پر مبنی فکر کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران و کارکنان یقینا مبارک بادی کے مستحق ہیں۔دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے کی گئی کوششوں کو کامیاب و کامران کرے۔ آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close