مضامین

مولانا ظریف احمد صاحب قاسمی ندوی مدنی:خدمات اور کارنامے

محمد عارف جیسلمیری مقیم لدھیانہ پنجاب ۱۹نومبر ۲۰۲۱ عیسوی

قسط(58)

مدینہ منورہ میں مفکراسلامؒ کی آمد اور مولانا مدظلہم کی بڑی صاحب زادی کے عقیقے میں آپؒ کی شرکت

مولانا ظریف احمد صاحب کے مدینہ منورہ کے چار سالہ زمانۂ طالب علمی میں،مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کئی مرتبہ وہاں تشریف لائے۔مولانا ظریف احمد صاحب کی بڑی صاحب زادی ناہیدعائشہ اور مولانا صلاح الدین صاحب کی صاحب زادی صالحہ کی پیدائش کے بعد قریبی زمانے میں جب حضرت مفکراسلامؒ مدینہ منورہ تشریف لائے،تو مولانا ظریف احمد صاحب اور مولانا صلاح الدین صاحب نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوے،اپنی صاحب زادیوں کے عقیقے کی دعوت کا پروگرام بنایا اور ہندوستان بھر کے اپنے سے متعارف احباب کو اس دعوتِ عقیقہ میں شرکت کی دعوت دی۔

مفکراسلامؒ سے چوں کہ ان دونوں ہی حضرات کا بڑا گہرا تعلق تھا،اس لیے آپؒ اس دعوت سے بہت خوش ہوے اور آپ ہی نے اس موقع پر شاہ فیصل شہیدؒ کے مشیرخاص شیخ صالح الحصین کو یہ کہہ کر اس دعوت میں شرکت کی دعوت دی تھی کہ یہ میرے عزیزوں کی جانب سے دعوت ہے،شیخ صالح الحصین نے شرکت کا وعدہ کیا اور وہ متعینہ وقت پر پہنچ کر دعوت میں شریک ہوے،مفکراسلامؒ نے اس موقع پر مولانا ظریف احمد صاحب اور مولانا صلاح الدین صاحب کو اپنی دلی دعاؤں سے نوازا اور یہ حضرت مفکراسلامؒ کی مستجاب دعاؤں کا اثر ہے کہ دونوں ہی حضرات کی اولاد دین دارانہ زندگی گزار رہی ہیں۔

مفکراسلامؒ کی شیخ عبدالعزیزبن باز سے ایک یادگار ملاقات

جدہ،مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور ممبئی میں بستان نور ولی کے نام سے سادہ سے مکانات بنے ہوے تھے،جن کے مالک ممبئی کے نامی ایک صاحب تھے،وہ حضرت مفکراسلامؒ سے دلی تعلق رکھتے تھے اور ان کی خواہش پر حضرت کا ممبئی،جدہ اور حرمین شریفین حاضری کے موقع پر ان کے اسی سادہ سے مکان میں قیام رہا کرتا تھا،ایک دفعہ بعد العصر مولانا ظریف احمد صاحب حضرت مفکراسلامؒ کی خدمت میں حاضر تھے کہ حضرت مفکراسلامؒ سے مفتیِ اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن بازؒ نے فون پر بات کی۔

مولانا مدظلہم کا بیان ہے کہ بغیر کسی اطلاع کے اچانک جب یہ فون آیا،تو ایک عجب سی ہل چل دیکھی گئی،ہر کوئی یہ جاننے کی کوشش میں تھا کہ یہ کن کا فون تھا اور کس مقصد سے کیا گیا تھا۔معلوم ہوا کہ فون مفتیِ اعظم سعودی عرب کی جانب سے آیا ہے اور انھوں نے حضرت مفکراسلامؒ سے کہا ہے کہ:شیخ ابوالحسن علی ندوی آپ میرے حقیقی بھائی کے درجے میں ہیں،خدا نے آپ کو آنکھیں دی ہیں اور میں اس نعمت سے محروم ہوں۔اگر میں آنکھوں والا ہوتا،تو آپ کی زیارت و ملاقات کی غرض سے وہیں مدینہ منورہ حاضری دیتا۔ان کی اس گفتگو کے جواب میں حضرت مفکراسلامؒ نے ان سے ریاض آکر ملاقات کا وعدہ کیا اور پھر جب ہوائی جہاز سے حضرت مفکراسلامؒ ریاض کے ہوائی اڈے پر پہنچے،تو آپ کے استقبال کے لیے مفتیِ اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن باز خود موجود تھے۔دونوں بزرگ بڑی گرم جوشی سے ملے،شیخ کی معیت میں ان کے یہاں مفکراسلامؒ تشریف لے گئے اور مختلف علمی و دینی اور سیاسی و سماجی مسائل پر دونوں بزرگوں کے بیچ دیر تک تبادلۂ خیال رہا۔

مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ کی مجلس میں آپ کا ایک اہم سوال

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کی وفات کے وقت آپ مدینہ منورہ ہی میں تھے،لیکن اس روز جامعہ اسلامیہ میں امتحانات میں مصروفیت کے سبب آپ نمازِجنازہ اور تدفین میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔

شیخ الحدیثؒ کی وفات کے بعد قریبی زمانے میں مفتیِ اعظم مفتی محمودالحسن صاحب گنگوہیؒ،مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلویؒ اور مولانا یونس صاحب جونپوریؒ مدینہ منورہ تشریف لائے،مولانا ظریف احمد صاحب ان اکابر کی بعدالعصر کی مجلس میں ہر روز شریک ہوتے تھے۔ایک روز جب آپ اس مجلس میں شریک ہوے،تو،آپ نے ایک عربی مجلہ مفتی محمودالحسن صاحب گنگوہیؒ کی خدمت میں پیش کیا،جس میں ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب عمریؒ کا مضمون تھا،جس میں انھوں نے علمائے دیوبند کے بارے میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ یہ لوگ جب کسی چیز کا اپنی کتاب میں حوالہ دیتے ہیں،تو متن اور حاشیہ کے تعین کا مطلق اہتمام نہیں کرتے اور مطلق صفحے کا حوالہ دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔اس چیز کا ذکر کرتے ہوے ان کے قلم سے یہ تلخ جملے نکلے تھے "الدیوبندیون من لا امانۃ لھم و لا دیانۃ لھم” مولانا ظریف احمد صاحب کو اس بات سے قدرے حیرانی ہوئی اور آپ نے مجلے کا متعلقہ صفحہ کھول کر مفتی صاحبؒ کے سامنے رکھ دیا۔مفتی محمودالحسن صاحبؒ نے اس کے ملاحظے کے بعد فرمایا تھا کہ واقعی یہ ہمارے لوگوں کی ایک بڑی کمی ہے کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں کسی دوسری کتاب کی بات کا حوالہ دیتے وقت اس کا بالکل اہتمام نہیں کیا کہ انھوں نے یہ بات متن سے نقل کی یا حاشیے سے۔اس لیے ڈاکٹر صاحب کا یہ نقد کافی حد تک بجا ہے اور ہمیں اپنی یہ کمی دور کرنی کی کوشش کرنی چاہیے۔

جاری

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close