مضامین

الیکشن اورسوشل بازی گری

ڈاکٹرراحتؔ مظاہری

لوک سبھا انتخابات 2024 کی سیٹوں پر 26 اپریل کو دوسرے مرحلے میں شام 6 بجے تک کل 54 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ اس تعداد میں معمولی اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔جہاں دوسرے مرحلے میں ووٹنگ ہوئی ان میں یوپی کے امروہہ، میرٹھ، باغپت، غازی آباد، گوتم بدھ نگر، بلند شہر، علی گڑھ اور متھرا میں شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ امروہہ میں 62.3% اور سب سے کم متھرا میں 47.8% رہا۔اس مرتبہ اتر پردیش میں این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کے درمیان سخت مقابلے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔گذشتہ لوک سبھا انتخاب یعنی 2019 کی بات کی جائے تو بی جے پی نے 62، بی ایس پی نے 10، سماجوادی پارٹی نے 5، اپنا دَل (ایس) نے 2 اور کانگریس نے ایک سیٹ حاصل کی تھی۔ظاہرہےکہ اس بار کانگریس اور سماجوادی پارٹی متحد ہو کر اپنی سیٹوں کی تعداد بڑھانے کیمیںہیں۔
نیز یہ معلومات بھی بہت اہم اورقابل یادداشت ہے کہ لوک سبھا سیٹوں کے اعتبار سے اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے، اس لیے یہاں زیادہ مراحل میں انتخاب کرائے جانے کا امکان پہلے سے ہی ظاہر کیا جا رہا تھا۔ ریاست میں لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہیں جہاں الگ الگ تاریخوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ سبھی سیٹوں پر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی ایک ساتھ 4 جون کو ہوگی اور اسی دن نتائج بھی برآمد ہو جائیں گے۔بہرحال امروہہ بی جے پی کے لیے ایک اہم سیٹ ہے کیونکہ یہ واحد سیٹ ہے جہاں پارٹی کو 2019 کے انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔ اس بار بی جے پی نے کنور سنگھ تیور کو ٹکٹ دیا ہے۔ دانش علی انڈیا بلاک سے امیدوار ہیں۔ بی ایس پی نے مجاہد حسین کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
آئیے سمجھتے ہیں کہ امروہا کے آس پاس کے اضلاع اورحلقوں میںووٹنگ فیصد کا کیا مطلب ہے؟ نیزیوپی کی 8 لوک سبھا سیٹوں پر کتنی ووٹنگ ہوئی؟امروہہ: 62.3%،میرٹھ: 55.5%،باغپت: 53.7%،غازی آباد: 49.1%،گوتم بدھ نگر: 52.4%،بلندشہر: 54.3%،علی گڑھ: 56.6%،متھرا: 49.2%،
جبکہ ان مذکورہ سیٹوںپر2019 ا میں 8 سیٹوں پر اوسطاً 62.7 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ اور 2014 میں ان 8 سیٹوں پر اوسطاً 62.4 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔
اگرامروہا کی سیٹ پرتجزیہ کیاجائے تومیری اپنی ناقص فہم کے مطابق اس سیٹ پرعام سیکولراور بیدار مغز مسلم طبقات کے علاوہ انڈیااتحاد کے مشترکہ امیدوارکنور دانش علی کی ضرورت سے زیادہ ا حتیاط اوران کے اندر کسی بڑے فیصلہ لینے کی ہمت کافقدان بھی ہے جیساکہ تحصیل حسن پور کےحوالہ سے یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ خبروںاورالیکشن کمیشن کی اطلاع کے مطابق یوپی کی دیگرنشستوںکے علاوہ امروہہ سیٹ پر ووٹ فیصد بہت اچھارہامگر ہماری اپنی تحصیل حسن پور کے حلقوں اوردیہات میں ووٹ کافی صد فقط 50 %تک ہی محدود رہا، نیزوہاںووٹ انتشارکی نذربھی ہواجس کے ذمہ دارکوئی اورنہیں صرف اس تحصیل کے مسلم نیتاہی ہیں جیساکہ حلقو میں دانش علی کا ضرورت کے مطابق عوام سے رابطہ بنانے میں سستی اوراپنے کارکنوںکے کاندھوں کی ان کی بساط سے زیادہ مضبوطی پراعتماد کرلینا،نیز وہاںکے مقامی نیتاؤںکی خودغرضی، ڈھل مل راج نیتی اورسطحی فکرکوبہت بڑادخل ہے، جیساکہ وطن مالوف قصبہ ڈھکاّ اور اس کے اطرف کے پولنگ بوتھوں کے دن بھر خالی پڑے رہنے اورعوام کی عدم دلچسپی کے تعلق سے یہ خبرسننے میں آئی کہ وہاںایک بہت بڑاطبقہ سماجوادی نیتاؤں سے مستقل دوری بنائے رہتاہےجوکہ بہوجن سماج پارٹی کاعہدے داربھی ہے، اس کے تعلق سے اس سیٹ کےایک مشہور سابق سماجوادی منسٹرجوکہ سماج وادی ہی سے راجیہ سبھاکے ممبرآف پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں ان کادانش علی کویہ انتباہ کہ اگران لوگوںسے ملے تو ہم سماجو ادی کارکنآپ کاساتھ نہیں دے سکتے، جس پر دانش علی نے بھی اپنے صحیح اورسخت موقف پرڈتے رہنے کے بجائے ان ہی کاندھے کواپنے لئے زیادہ مضبوط سہاراسمجھا، جس کے نتیجے میں دیگرطبقات کے مسلم عوام اور نیتابھی دانش علی کے ساتھ اپنی دلی ہمدردی رکھتے ہوئے ان سے کٹ گئے اورانھوںنے راتوںرات بی ایس پی یعننی اپنی پارٹی کے مسلم امیدوارمجاہد علی کے حق میں ووٹ مانگے، ظاہر ہے کہ جولوگ الیکشن کی تاریخ ڈکلیئر ہونے سے آج تک دانش علی کے حق میں لوگوںسے کھلے طور پرووٹ مانگ رہے تھے، آخروقت میں وہ ان سے کٹ گئے ، جس نے نتیجے میں عام لوگ کنفیوزن کاشکارہوگئے اور کچھ ووٹ دانش علی کوتوکچھ ووٹ مجاہد علی کے حق میں بٹ گئے ، نیزبعض لوگوں نےا سی فکرمیں اپنے حق رائے دہی کااستعمال بھی نہیں کیا، کہ جب دانش علی جیتنانہیں توکسی کوووٹ دے کر بھی کیافائدہ؟
اس حوالہ سے ہمارے ایک دوست کاایک انتخابی انشائیہ بہت پرلطف اورمعنیٰ خیزہے موصوف لکھتے ہیں:سوشل سائنس اور الیکشن انجنئیرنگ میں بھی ایسے شخصی مادّے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انکا استعمال بہت شاطرانہ انداز سے کیا جاتا ہے نیزووٹ کٹوا اورسوشل کیٹلیس(characteristics ) کے درمیان بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ اوّلالذکر کی پہچان عام طور پر ہو ہی جاتی ھے مگر آخرالذکر کی ایمانداری، مخلصی اور معصومیت پر ذرّہ برابر شک نہیں ہوتا۔گلی محلوں اور چوک چوراہوں پر بازیگروں کے شعبدے تعجب اور حیرت کے ساتھ سب نے ہی دیکھے ہونگے۔ نادانی کی عمر تک ان کو حقیقی بھی جانتے رھے ہونگے اور اسکی اصلیت کا یقین کرنے میں بہت وقت لگا ھوگا۔ جس نے اپنی آنکھوں کے
سامنے چھومَنتَر سے پیسے بنتے ہوئے دیکھے ھیں اسکا ذہن یہ قبول کرنے کو قطعی راضی نہیں ہوتا کہ آنکھوں دیکھے سچ کو جھٹلا دیا جائے، اسی کو تو کہتے ہیں کامیاب بازیگری۔الیکشن انجنئیرنگ میں بھی اسی طرح کے تجربات کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت وسیع و عمیق سبجیکٹ ہے۔ الیکشن لڑنے کو تو سب لڑتے ہی ہیں۔ مگر لڑایا کیسے جاتا ہے۔ یہ بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ اور جو اس علم میں مہارت رکھتے ہیں وہ بہت سمجھدار، دور اندیش، ذہین اور شاطر ہوتے ہیں۔ سماجی و معاشرتی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انکے لئے عوام و خواص کی ذہن سازی یا دوسرے الفاظ میں نظربندی اسی بازیگر کی مہارت کی طرح ہے، جو ہوا سے کچھ بھی نکال سکتا ہے۔۔ ان کے لئے یہ کام اُس وقت اور بھی آسان ہوجاتا ھے جب انہیں catalytic elements اور انکے characteristics کے بارے میں نہ صرف مکمل جانکاری ہو بلکہ وہ ان کو استعمال کرنا بھی اچھی طرح جانتے ہوں۔
اب اگر سیاسی ماہرین کی مانیں تو ووٹنگ فیصد میں کمی بی جے پی کے حق میں کام کر سکتی ہے۔ کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کم ووٹنگ کا مطلب ہے کہ ووٹر اقتدار میں تبدیلی نہیں چاہتے اور ووٹنگ فیصد میں اضافہ اقتدار میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن درست نتائج 4 جون کو نظر آئیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close