مضامین

بھاگل پور کا خوف ناک فساد

بھاگل پور کا خوف ناک فساد
24/ اکتوبر1989ء
24/اکتوبر کو جلوس کے نام پر ”ناتھ نگر“ کی طرف سے چلنے والا مسلح اور مشتعل ہجوم اشتعال انگیز نعرے لگاتا ہوا تا تار پور کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مخالف سمت کی دو جانب سے دو بڑے ہجوم بھی تاتارپور کی طرف بڑھ رہے تھے، جن کے ناپاک ارادے ان نعروں سے ظاہر تھے:”گائے ہماری ماتا ہے، میاں اس کو کھاتا ہے“۔ ”جے ہو ماں کالی، تاتار پور کر و خالی“۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرف کسی بھی قومی اخبار نے اشارہ نہیں کیا۔ انھیں تو صرف جلوس پر آتا ہوا بم نظر آیا۔ کیسا بم تھا کہ جس سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اس بم کے دھما کہ نے صرف ہجوم کو الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہیں سے بموں، باسکیٹ نامی رائفل اور ریوالوروں سے لیس فسادی اور بلوائی پولیس کی ملی بھگت سے شہر کے اقلیتی فرقہ کی دکانوں اور مکانوں پر ایک دم ٹوٹ پڑے۔ سارا شہر جنگی محاذ میں تبدیل ہوگیا۔ بموں کے خوف ناک دھماکوں اور گولیوں کی درد ناک آوازوں سے پورا شہر کانپنے لگا۔ آگ کی لپیٹیں اور دھوئیں کے بادل آسمان چھونے لگے۔ ہر طرف رونے، پیٹنے اور چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اقلیتی فرقے کے لوگ نہایت بے بسی اور خوف و دہشت کے ماحول میں اپنے جان و مال اور عزت و آبرو بچانے میں لگ گئے تھے۔ شیر خواروں کو ماؤں کی گودوں سے چھین کر زمین پرپٹخ دیا گیا۔ معذور اور بوڑھی عورتوں کو بلم اور بھالوں سے قتل کیا گیا۔ ٹرینوں سے کھینچ کھینچ کر اقلیتی فرقہ کے بے گناہ مسافروں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ دیہی علاقوں میں تقریباً ڈیڑھ سو گاؤں اس فساد کی لپیٹ میں آئے۔ اور کم از کم پچاس ہزار افراد کو اس فساد کی خوف ناک تباہیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھاگل پور کی تمام رعنائیاں چھین لی گئی ہیں۔ شہر اور دیہات مہیب جنگل میں تبدیل ہوگئے ہیں۔(بھاگل پور کا خوف ناک فساد اور جمعیت علمائے ہند کی امدادی خدمات۔ ص/4)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close