مضامین

آہ! مولاناعتیق الرحمٰن سنبھلی

؎ ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا ڈاکٹرراحتؔ مظاہری

خوبصورت سا چہرہ، گورارنگ،چوڑی پیشانی،اپنے خاندا ن کے طرز پر آگے سے کچھ موٹی لمبی ناک،،موروثی طورپرقدبحرطویل، اسی کی مناسبت سےلمبے لمبے ہاتھ، پاؤِں،آوازمیں ایک قسم کی کھنکھناہٹ،گفتگومیں بڑی شائستگی اورٹھہراؤ، شیریفانہ اندازمیںدھیمی آواز، علی گڈھ کٹ پائجامہ، اوپرسے بادامی رنگ کی شیروانی، اسی میںکی اونچی باڑ ھ کی، ٹوپی ،یہ تھے نستعلیقی شخصیت کے حامل وہ حضرت مولاناعتیق الرحمٰن سمبھلی ، جن کے انتقال پر آج ہندستان سے لندن تک علمی ،صحافتی اورمذہبی حلقوں میں فرش عزابچھاہواہے،مرحوم کومیںنے یادش بخیر ان کے آبائی وطن سمبھل میں بعدعصربزمانہ اپنی نئی نئی ملازمت مدرسہ مدینۃ العلوم انجمن سمبھل مرحوم کے چچا حضرت مولاناحکیم محمداحسن قاسمی ؒ (مہتمم مدرسہ مذکورہ)کے ساتھ اس وقت بیٹھامحوگفتگودیکھاکہ جب موصوف لندن سے ہندستان کے سفرپرتشریف لائے سمبھل ہی کے لندن میں مقیم ایک ڈاکٹرجوکہ شہرکے ایک گپتا خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان سے اپنابلیڈ پریشر چیک کرارہے تھے، اسی وقت ہم نے بی پی انسٹرومینٹ کی زیارت بھی پہلی ہی بارکی تھی۔
حضرت مرحوم کاخانوادہ صرف ماردوطن ہندستان ہی نہیں بلکہ ایشیاکے ان خاندانوںمیں سے ہے جس کی ایشیااوربطورخاص عالم اسلام میں اپنی گہری شناخت ہے یعنی حضرت مولانامحمدمنظورنعمانی علیہ الرحمۃ بانی ومدیرماہنامہ ’الفرقان ،لکھنؤ(سابق رکن رابطہ عالم اسلامی) جن کی تصنیفی ، تحریری ، تبلیغی، خدمات اظہرمن الشمس ہیں ،آپ کے والد ماجدتھے، ہندستان کے مشہور مسلم صحافی جناب حفیظ نعمانی مرحوم آ پ کے بڑے بھائی اور مفکر اسلام حضرت مولاناخلیل الرحمان سجاد نعمانی مدظلہ چھوٹے بھائی ہیں۔
مولاناموصوف کی تحریروں میں وہ ساحرانہ کیفیت تھی کہ جس آدمی کو ان کی تحریرکاچسکالگ جائے پھروہ ان کے علاوہ دوسروںکی تحریر کونظرہی میں نہ لائے یہی وجہ تھی کہ جب وہ اپنے والد محترم کے جاری کردہ ماہنامہ الفرقان کے ایڈیٹربنے توالفرقان کے قارئین کو رسالہ سے زیادہ موصوف کی تحریروںکااشتیاق وانتظار رہاکرتاتھا۔
مولاناکی تحریروں کی خاصفت یہ تھی، کہ مضامین کوطول دینے کے بجائے بامعنیٰ گفتگو اورمکررات سے پرہیز، شستہ وشائستہ زبان،الفاظ کے ہیر، پھیر اورمنطقیات سے گریز، جامع ومانع طرزگفتگو،اسی وجہ سے ناکاقاری خودکوان کاگرویدہ بنانے پر مجبورسادیکھتاتھا،
ان کی لمبی تحریروںکالطف توآپ کوا نکے مضامین، تصنیفات اوران کی تحریر وں اورقرآنی تفسیرہی سے حاصل ہوسکتاہے مگرمشتے نمونہ ازخروارے کے طورپرموصوف لکھے گئے اس تعزیتی خط کاایک جملہ خود اسکی بین دلیل ہے جیساکہ کہاجاتاہے ؎مشک آں باشد کہ خودببوید نہ کی عطّاربگوید
مذکورہ خط مولاناعتیق الرحمٰن صاحب نے اپنے چچازادبھائی محترم اصغرامام خلّداللہ تعالیٰ فی جنات النعیم(والدعزیزی مولانامحمدوسیم مدرس مدرسہ مدینۃ العلوم انجمن سمبھل)کے انتقال پر مرحوم کی اہلیہ کولکھاتھا، سلام کے بعد پہلی لائن یہی تھی
’’آہ بھابی !یہ کیاہوا؟
آپ غورفرمائیں کہ اگراس جملے کے بعدکچھ بھی نہ لکھاجاتاتب بھی غم واندوہ سے بھرا یہی اکیلاجملہ کئی تعزیتی خطوط پر بھاری تھا۔
کل 23 جنوری 20200 کوآپ دارفانی سے دارباقی کی طرف چل بسے ، میری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ آں مرحوم کواپنے دامان رحمت میں پناہ دے اور بال بال مغفرت فرمائے۔ آمین۔
بطورخراج عقیدت یہ شعر ان کی نذرکرتاہوں
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا (پروین شاکر)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close