مضامین

؎کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے

ڈاکٹرراحتؔ مظاہری 9891562005

حقیقت یہ ہے کہ مبصرین کے نزدیک پہلے مرحلے کی ووٹنگ بی جے پی کے حق میں کم اوردوسروںکے حق میں زیادہ ہونے کانتیجہ ہے کہ اس کے بعد سرکار کی بوکھلاہٹ بڑھ گئی ہے اسی لئےوزیراعظم شری مودی نے راجستھان میں اپنی انتخابی ریل میں کھلی زہرافشانی کی ہے، جس کی 21 اپریل کی راجستھان کی نفرت انگیز تقریر کی اطلاع اور شکایت الیکشن کمیشن تک پہنچ چکی ہے، جس میں انھوںنے پرانی جھوٹ بولنے کی عادت کومزیدآگے بڑھاتے ہوئے سابق وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ کی ایک پرانی تقریرمیںجھوٹ کاسہارالیتے ہوئے اس میںاپنی چائے کی پرانی کیتلی میں جھوٹ کا کڑواکسیلا ادرک اورزہریلی چائے کی پتی ڈال کرجوراجستھان کے عوام کوپیش کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
لیکن الیکشن کمیشن بہادر گو نگے کاگڑ کھائےخاموش تماشائی بنابیٹھا ہے۔
واضح ہوکہ مصوف نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی تقریرکامن ماناآپریشن کرتے ہوئے اس میں مسلمانوںکو گھس پیٹیا، زیادہ بچے پیداکرنے کاالزام لگاتے ہوئےمجمع سے سوال کیاہے کہ کیاآپ اپنی محنت کی کمائی مسلمانوں، گھس پیٹیوںاورزیادہ بچے پیداکرنے والوںکے قبضے میں دینا پسند کریںگے؟
جبکہ من موہن سنگھ نے اپنی تقریرمیں یہ کہاتھا’’ دیش اگرترقی کرتاہے تواس کی خوشحالی میں ایس سی ،ایس ٹی، اقلیتوںاورمسلمانوںکوبھی شامل کیاجائے گا،،
جس سیدھی سادھی بات اکے خلاف مودی توڑمروڑکر اپنے شیدائیوںکوبے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔
اگر الیکشن کمیشن چاہتاتو اپنے اختیار کااستعمال کرتے اور قانون پرعمل پیراہوتے ہوئے پیر کے دن ہی مودی کو نوٹس جاری کرکے ان سے پوچھ سکتا تھا۔ لیکن کمیشن سو رہا ہے۔ آخر نفرت انگیز تقریر کیا ہے اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (MCC) اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
شاید کہ نئی نسلوں کی نظرسے سے ہندوستانی تاریخ کاوہ صفحہ نہ گذراہوکہ سابق وزیراعظم شریمتی اندراگاندھی کے دور میں ایک آئی ایس افسر نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کواپنااستعفیٰ پیش کرنے کے بعدان کواسی منظورکی اطلاع اورقانونی کاروائی سے پہلے ہی اگلے روزموصوف اندراگاندھی کے الیکشن کے پرچار اورمٹنگوںمیں پائے گئے، جس پراس زمانے کے الیکشن کمیشن نے ان کی مبینہ شرکت پراپناردعمل ظاپرکرتے ہوئے موصوف کی شرکت کی وجہ سے اندراگاندھی کاالیکشن رد کرکے ہی اطمینان کی سانس لی تھی، اوراندراگاندھی کادل گردہ یااس کو دیش اورقانون پریم کہیں کہ اپنے عہدکی فل پاور وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی الیکشن کمیشن سے کبھی بعدمیں اس بابت بازپرس یاپوچھنے کی جسارت نہ کرسکی۔
نیزجبکہ مودی اورامت شاہ دور کی شفافیت سے بغاوت کے لئے آپ کومعلوم ہواورشاید آپ کی نظروںمیں وہ فوٹوآئے ہوں جن می سابق ڈپٹی اسپیکرراجیہ سبھاشری اوم برلاکی کلکٹربیٹی آن ریکارڈ اپنے پتاجی کے الیکشن میںکھلے عام ان کے لئے ووٹ مانگتی دیکھی جاسکتی ہے۔
اورہماراپوراالیکشن کمیشن گاندھی جی تینوںبندروںکاکردارتن تنہاہی نبھاکرحکومت کی ڈفلی بجاکراپنی عدم اہلیت کاثبوت دے رہاہے، کیااس سے کوئی پوچھنے والاہے کہ آخریہ کیامعاملہ ہے، جب اپوزیشن سے کوئی خطاہوجاتی ہے تواس کے کان کھینچے جاتے ہیں، راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی ممبرشپ کھالی جاتی ہے، بنگلہ خالی کرنے کانوٹس دیدیاجاتاہے،مگرمودی ، امت شاہ اورموجودہ حکومت کاایک معمولی ورکربھی اول فول بکے یاکسی پرزبانی بوفورس سے حملہ کردے اس کابال بانکاکرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ کیاآپ نے اپناعہدہ سنبھالتے وقت کرسی سے چپکے رہنے کی شپتھ لی تھی؟
سوال یہ کہ کیا مودی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیںکر رہے ہیں؟
مودی کی فرقہ وارانہ تقریروں کے بعد ملک میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ یا MCC منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ رہنما خطوط کی دستاویز ہے۔
ان قوانین میں تقاریر، انتخابی ریلیوں میں بیانات، پولنگ کے دنوں، پولنگ اسٹیشنز اور عام طرز عمل سے متعلق امور شامل ہیں۔ انتخابی تاریخوں کا اعلان ہونے کے دن سے ضابطہ نافذ ہو جاتا ہے۔ موجودہ انتخابی سیزن میں، MCC 16 مارچ سے نافذ العمل ہے۔
جبکہ اسی الیکشن کمیشن کی دوسری طرف کی تصویریہ بھی ہے کہ ہوبہو اسی دن انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا، اس دوران الیکشن کمیشن نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی کے ہیلی کاپٹر کی تحقیقات کی ہے لیکن مودی کی فرقہ وارانہ تقریر پر خاموش ہے۔
اسی طرح اترپردیش کے علی گڑھ میں برج علاقہ کے بوتھ صدور کو خطاب کرتے ہوئے نہ صرف مہاگٹھ بندھن ایک ڈھکوسلہ ہے کہہ کے حملہ پراکتفاکیابلکہ اسی کے ساتھ انھوں نے اپوزیشن کی مذمت کی۔
امت شاہ نے کہا کہ بی جے پی اترپردیش میں 74 سیٹیں جیت کر بوا -بھتیجے کی زبان پر علی گڑھ کا تالا لگا دے گی ۔
۔ وہیں کانگریس صدر پر نشانہ سادھتے ہوئے شاہ نے کہا کہ راہل بابا کو یہ تک نہیں پتہ کے آلو زمین کے نیچے ہوتا ہے یا فیکٹری میں ہوتا ہے اور
وہ کسانوں کی بات کررہے ہیں ۔
انھوںنے مرحوم مختارانصاری اورعتیق اوراشرف برداران کانام نہ لیتے ہوئے کہاکہ اترپردیش میں زمین مافیا کے خلا ف مہم چلانے کا کام بی جے پی حکومت نے کیا ۔
نیزانھوںنے ہندوجذبات بھڑکاتے ہوئے اورالیکشن میںدھرم کے استعمال کاحربہ بھی استعمال کیا جوسراسر الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزی ہے،
بی جے پی صدر نے کہا کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ ایودھیا میں اسی مقام پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ہو ۔ کانگریس ، ایس پی اور بی ایس پی کیلئے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا موقف تو واضح ہے ، لیکن اگر ہمت ہے تو یہ رام مندر پر اپنا ایجنڈہ واضح کریں ۔
اس دوران انہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کا معاملہ بھی اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ جب سے بی جے پی کی نریندر مودی حکومت آئی ہے تو دشمنوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے این آر سی کے معاملہ پر امت شاہ نے کہا کہ اس کو ہٹانے کیلئے ایس پی ، بی ایس پی ، ٹی ایم سی اور کانگریس سبھی نے مخالفت کی ، کیونکہ ملک کی سیکورٹی ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی سیکورٹی کیلئے خطرہ بنے دراندازوں کی کانگریس پارٹی حمایت کررہی ہے ۔ ملک کے کونے کونے سے دراندازوں کو چن چن کر باہر نکالنے کا کام مودی حکومت کرے گی ۔
اس دوران انہوں نے اترپردیش کی یوگی حکومت کی آڑمیں مسلمانوںکوکھل کرنشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ لیکن اب دنگا کرنے والے یوپی سے بھاگتے نظر آرہے ہیں ۔
اس کے علاہ یہ تمام ہی لیڈر ایک طرف تومنھ بھرائی کے دورکورخصت پذیر بتاتے ہیں کہ جبکہ دوسری جانب اپنے قول وفعل دونوںہی سے ہندوفرقہ کی منھ بھرائی میں مصروف عمل ہیں، ان کی نظر میں ملک کی خوشحالی نہ اتحاد واتفاق میں ہے اورنہ ہی لوگوںکے مضبوط روزگارمیں ہے اورفقط ہندوستان کے ہندومسلم باشندوںکو ایک دوسرے کےخلاف ابھارنے اورلڑانے ہی میں ہے جودیرپامدعانہیںثابت ہوسکتا۔ظاہربات ہے کہ ان لوگوںکوکہیں نہ کہیں اپنی شکست نظرآرہی ہے ، ، بقول مرزاغالب :بے خودی بے سبب نہیںغالبؔ/ کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے
اسی طرح اگرآپ بی جے پی کاانتخابی منشوربھی ملاحظہ فرمائیں تواس میں بھی ملک کے اصل مدعوںسے فرارہے اورانگریزوںکی طرح ’’لڑاؤاورراج کرو،،کی ہی پالیسی کااشتہارہے۔

23 april2024

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close