مضامین

حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی در دار علیم

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی ادارہ تسلیم ورضا، سمری، دربھنگہ (بہار)

کل گزشتہ (١٤/شوال ١٤٤٥/ھ بروز منگل)سات بجے کے قریب واٹس ایپ کے بعض گروپ میں یہ دل حزیں خبر ملی کہ ملک کے نامور عالم دین فتنہ شیعیت کے لئے شمشیر برہنہ ،جانشین امام اہلسنت والجماعت حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ مسافران آخرت میں شامل ہوگئے ۔
کلمہ استرجاع پڑھا
إنا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له و ارحمه واسكنه في فسيح جناتك يا ارحم الراحمين.
حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ رمضان المبارک سے ہی علیل چل رہے تھے رمضان المبارک کے کسی تاریخ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سخت علیل ہونے کی خبر آئی تھی؛حالانکہ اس قدر علیل نہیں تھے تو آپ کے بھتیجا اور میرا ساتھی مولانا معاویہ ندوی فاروقی نے خبر دی تھی کہ مولانا کی طبیعت ماشاءاللہ اچھی ہے البتہ کچھ کمزوری ہے اس لیے مکمل صحتیابی کی دعاء کریں۔
اس وقت حضرت مولانا رحمہ اللہ کے لئے ملک و بیرون ملک کے تمام علماء کرام دعائیں کیں، اور رو بہ صحت ہوگئے ۔
لیکن کسے پتہ تھا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ صرف چند دن کے مہمان ہیں ، اور پھر اس دار فانی سے دار بقا کوچ کرجائیں گے ۔
آج جب یہ خبر ملی تو دلی تکلیف ہوئی کیونکہ حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ سے راقم الحروف کو بے انتہا محبت تھی اور اسی محبت نے ایام طالب علمی قیام پارک نگری لکھنؤ میں رہتے ہوئے بارہا آپ کے بیانات میں پہنچایا، کئی مرتبہ آپ کے قریب بیٹھا اور آپ سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ۔
ایک مرتبہ آپ کے کاشانہ جو چودھری گڑھیا لکھنؤ سٹی میں واقع ہے وہاں بھی جانے کا موقع ملا تھا آپ کے صاحب زادہ مولانا عبدالباری صاحب کے کہنے پر جانا ہوا تھا چائے نوشی سے ضیافت کئے ،حضرت مولانا سفر پر تھے اس لئے گھر پر ملاقات نہیں ہوئی تقریباً پندرہ بیس منٹ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے کاشانہ پر رہنا ہوا۔
حضرت مولانا رحمہ اللہ کے کاشانہ کو دیکھ کر کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ اتنی بڑی اور علمی شخصیت جو شہرہ آفاق کے حامل ہیں ان کا یہی مسکن ہے، فدوی جب تک بیٹھک میں رہا مولانا رحمہ اللہ کے صاحب زادہ سے گفتگو بھی کرتا رہا اور در و دیوار بھی دیکھتا رہا یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہی حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کا گھر ہے، بالکل سادہ سا گھر چئر و صوفہ بھی کافی عرصہ کا معلوم ہورہا تھا ،نیچے فرش پر بھی کوئی پتھر نہیں بلکہ ڈھلائی اور پلستر تھا، گھر سے باہر آنے کے بعد ہمیشہ یہی خیال آتا رہا کہ ملک کے اتنے بڑے عالم دین ہیں اور سادہ سا مکان میں زندگی گزار رہے ہیں؛حالانکہ حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ امام اہلسنت والجماعت حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتا ہیں، اس خانوادہ نے ملک میں خصوصاً "مدح صحابہ” میں بڑی خدمات انجام دئیے ہیں جو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا ۔
لکھنؤ شہر میں شیعوں کی بڑی تعداد ہے جو آئے دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا کرتے رہتے تھے اور ایک زمانہ میں سنیوں کی بڑی تعداد شیعوں کے ہم نوالہ ہوچکے تھے اس وقت حضرت مولانا عین القضاۃ رحمہ اللہ (بانی مدرسہ عالیہ فرقانیہ،لکھنؤ) نے حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا تھا کہ اب آپ کہیں نہ جائیں اور شہر کے شیعوں میں کام کرکے ان کو صحیح اسلام کی دعوت دیں، اس کے بعد حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات سے وہ سنی جو شیعہ کے ہم نوالہ ہوچکے تھے وہ پورے پورے خاندان اسلام کی طرف لوٹے، آج انہیں کی برکت سے لکھنؤ شہر میں سنیوں کی بڑی تعداد ہے۔ (دیکھئے سوانح حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی رح مصنف حضرت مولانا عبد الحئی فاروقی رح)
حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی رحمۃ اللہ علیہ مدح صحابہ کے عنوان سے ہر سال ماہ محرم میں دس روزہ یکم محرم سے پروگرام رکھا کرتے تھے جو تقریباً پچھلے سو سال سے زائد عرصہ سے جاری ہے جہاں ملک کے مقتدر علماء کرام کو دعوت دی جاتی ہے اور آئے ہوئے علماء کرام "فضائل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”پر گفتگو کرتے ہیں جس پروگرام میں لکھنؤ شہر کے شاید ہی کوئی سنی مسلمان ہو اور وہ شریک نہ ہوئے ہوں۔
راقم الحروف بھی پانچ سالہ قیام لکھنؤ میں ہرسال اس پروگرام میں شرکت کرتا رہا اور وہیں ملک کے بڑی بڑی علمی شخصیتوں سے بھی دید و لقا کا شرف حاصل ہوا ۔
حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی رح کے بعد ان کے صاحب زادہ حضرت مولانا عبد السلام صاحب فاروقی رح جانشین ہوئے اور ان کے بعد سے حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمۃ اللہ جانشین ہوئے آپ رحمۃ اللہ علیہ بڑے خوش اسلوبی سے اس پروگرام کو چلاتے تھے، پہلے یہ پروگرام پہلا عشرہ میں ہوتا تھا ،ہمارے دور میں پندرہ روزہ ہوگیا تھا اور سولہویں تاریخ کو "نعتیہ مشاعرہ”ہوتا تھا جس میں لکھنؤ شہر کے تمام ہی معروف شعراء آیا کرتے تھے اور وہ اس نعتیہ مشاعرہ میں اپنی آمد پر فخر کیا کرتے تھے ۔
لکھنؤ شہر کی تاریخ میں ایک انمول کام بھی آپ سے وابستہ رہا وہ یہ کہ لکھنؤ میڈیکل چوک پر ایک مشہور بزرگ حضرت شاہ مینا رحمہ اللہ کی درگاہ ہے جہاں سال بھر بدعات و خرافات ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک دن(غالباً بارہ ربیع الاول) یہ ساری چیزیں بند رہتی ہیں اس دن وہاں دیوبندیوں کا بڑے تزک و احتشام کے ساتھ پروگرام ہوتا ہے اور اس کے روحِ رواں ہمارے دور میں حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ہی ہوا کرتے تھے ۔
اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر سال 12/ربیع الاول کو "جلوس مدح صحابہ” بھی نکالا کرتے تھے جس میں دیوبندی بریلوی (بعد میں بعض فتنہ پرور بریلوی جلوس مدح صحابہ کے برعکس جلوس محمدی نکالنے لگے تھے) سبھی لوگ شانہ بشانہ ہوتے تھے اور لکھنؤ والے اس جلوس کو اپنے لیے اعجاز سمجھتے تھے جگہ جگہ کھانے پینے کے اسٹال لگاتے اور جلوس کے ہرفرد ان چیزوں سے کام و دہن شاد کرتے ،اس جلوس کے دولہا "حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ”ہی ہوا کرتے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کہیں پھولوں کا ہار پہنایا جاتا تو کہیں کہیں آپ رحمۃ اللہ علیہ پر گلاب کی پنکھڑیوں کی بارش ہوا کرتی تھی اور آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے نوجوان عاشقوں کے جھرمٹ (بشکل زنجیر)میں پا پیادہ ہوا کرتے تھے (ابھی شاید ایک یا دوسال قبل کی ویڈیو دیکھا جس میں حضرت رحمۃاللہ علیہ پیری کی وجہ سے کار پر نظر آئے۔)
آہ! کل گزشتہ (١٤/شوال المکرم ١٤٤٥/مطابق 24/اپریل 2024/ء بروز منگل)حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ فردوس بریں ہوگئے ،آپ اس وقت کئی عہدے پر فائز تھے آپ رکن شوریٰ مادر علمی دارالعلوم دیوبند اور مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تھے اسی طرح آپ جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر تھے نیز آپ "مدرسہ دارالمبلعین لکھنؤ”کے مہتمم و روح رواں بھی تھے ،آپ کے جانے سے یہ تمام مناصب خالی ہوگیا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عہدے پر آپ کا نعم البدل عطا فرمائے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close