مضامین

مودی حکومت اورعوامی نقطہ نظر

ڈاکٹرراحتؔ مظاہری

سابق وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ کی حکومت کی دوسری میقات میں بڑھتےگھوٹالوںکے نتیجے میں2014ء میں کانگریس کوکراری شکست دیتے ہوئے پہلی بار شری نریندر دامودر داس مودی کی قیادت میں بی جے پی کو واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا،جوکہ بھارت کی سیاسی تاریخ میں ایک نہایت اہم موڑ تھاکہ جب آرایس ایس کے ہاتھ اپنے دیرینہ خواب اور منصوبہ بندعزائم کوجامہ پہنانے کاموقع ملناشروع ہوا، جس کے نتیجے میں ملک کی بڑی اقلیت کوسرراہ اورکھلے عام نہ صرف رسوابلکہ اس کاناطقہ بندکرنے کی مہم شروع کردی گئی، جس کے بارے کبھی کسی نے سوچابھی نہیں تھااورپھریہ کاروبارایساپھلاپھولاکہ بی جے پی کے ایک سڑک چھاپ نیتاسے بڑے بڑے عہدوںپربراجمان وزیربھی اسی بداخلاقی،تشدد اوربربریت کواپنی ترقی کی لئے سنجیونی بوٹی یاپھراس کو پارس کاپتھرخیال کرنے لگے، جس پرایک غیرمسلم صحافی نے لکھاتھا کہ ایک شبدھ’’ مسلمان،،ہے، اس شبدھ کے خلاف ہندؤںکے بیچ جو بھی بی جے پی نیتا جتنازیادہ اس کاجاپ کرے گااس کواتناہی بڑاعہدہ ملے گایعنی جس کوبی جے پی میں اپنی سیاسی وسماجی ترقی مطلوب ہوتووہ مسلمانوں کے خلاف کھل کرزہرافشانی کرے اوران کواپنے پلیٹ فارم سے زیادہ زیادہ گالیاںدے ۔
ایک سیاسی مبصرکی رائے میں مودی حکومت باوجودیکہ دستور سے وفاداری کادم بھرتی ہے ا ور اس کواپنے لئے سب سے مقدم رہنما کتاب مانتی ہے، مگرہمہ وقت اوربہرحال مذکورہ حکومت کے اقدامات سے دستور سے واضح انحراف دیکھا جاسکتاہے، نتیجتاً یہ حکومت اندرون اور بیرون ملک تنقید کانشانہ بنتی رہی ہے،مگر 2019ء کے بعدمودی کی دوسری میقات یعنی واضح اکثریت سے برسر اقتدار آنے کے بعد ان تمام تنقیدوں کونظر انداز کرتے ہوئے اپنے فسطائی ایجنڈے پرہی گامزن ہے،جس کی زد میں ملک کی معیشت روزافزوںخرابی پرہے۔ جس پر کھلی تنقید کرتے ہوئےمعاشیات کے لئے مشہور کالم نویس پروفیسر سید ابوذر کمال الدین نے لکھاتھا’’2014 ءکے الیکشن مہم کے دوران ایک کتابچہ’’ مودتو ،،کے نام سے شائع کیا گیا تھا جس میں مودی کے وژن کو14نکات میں بانٹ کر پیش کیاگیا تھا ان میں سے جن نکات کے معاشی اثرات ہیں ہم ان کاذکر کریں گے۔
گویاکہ مودی دورمیںحکومت کم اورحکمرانی زیادہ ہے، حکومت کابزنس اورملک کے مفادسے کوئی تعلق نہیں ہے،وفاقی امداد باہمی کو فروغ نہیں۔قوت کی معدوم ی سےمرکزیت بھی نہیں۔
گاؤں میں شہری سہولیات کےفروغ کاوعدہ بالائے طاق ہے۔آبپاشی کے اسمارٹ طریقے سے زرعی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں،زراعت، صنعت اورخدمات کے ذریعہ عالمی بازار پرقبضہ کے دعوے بھی کھوکلے ہی ہیں،عوام کے ذریعہ زیادہ پیداوارپبلک اور پرائیوٹ پارٹنر شپ کوکوئی فروغ نہیں۔
جبکہ این جی اوز اورلوکل کمیونیٹیز کے ذریعہ ترقیاتی کاموں کی سوشل اڈیٹنگ وہ وژن تھا جس کو لے کر یہ حکومت برسر اقتدار آئی تھی۔
ان کی خوش قسمتی رہی کہ ملک میں مانسون اچھارہا جس سے زرعی پیداوار میں رکارڈ اضافہ ہوا اور کچے تیل کی قیمت میں بھاری کمی آئی، جس کی وجہ سے بیرونی زرمبادلہ کی کافی بچت ہوئی۔
ان سب ناکامیوںکے باوجودتشہیرکازبردست عنصر دیکھاجاسکتاہے جیساکہ گزشتہ دارالحکومت دہلی کے قلب انڈیا گیٹ پر ایک مخصوص پروگرام ’ایک نئی صبح‘ کا انعقاد ہواجس کا’ جی 20 ،کی طرح بڑاڈھنڈوراپیٹاگیاتھامگروہ بھی عوام کے لئے بےسودہی ثابت ہوا۔
بہرحال اس وقت 2024 کاالیکشن جاری ہے ،اس میں ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ اس وقت حکومت کی وہی زبان اورعمل ہے جوگزشتہ برسوںمیں رہاہے،حالانکہ کانگریس نے اس کوگھیرنے کے لئے ’’ملک بھرکی سیاسی پارٹیوںکولے کرایک بڑاتحاد بنایاہے جس کانام انھوںنے’انڈیا، رکھاہے ،جوکہ سردست مودی کوپوری طرح گھیرنے کے لئے کمرکسے ہے،مگر اس کے مستقبل کے بارے میں ابھی خاموشی ہی بہترہے۔
مگرپھربھی ایک جانب پروگرام میں نریندر مودی نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکرتے اور مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ،لیکن وہیں دوسری جانب کانگریس نے بی جے پی حکومت کے دو سال پر ’مودی کے جھوٹ اور جھوٹے وعدوں کے دو سال‘ نام سے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں حکومت کی ناکامیوں کا ذکر ہے۔
مگراس حقیقت سے انکاراورراہ فراراختیار کرنابھی ممکن نہیں کہ وزیراعظم مودی ، وزیرداخلہ امت شاہ اوربی جے پی کی پوری مشینری اس 2024 کے الیکشن کی مہم میںکہیںبھی ملک کی ترقی خوش حالی اوراپنی حکومت کی کامیابیوںکی بنیادپرووٹ مانگتے نظرنہیںآتے بلکہ عوام کے جذبات کوبری بھک بھڑکاکران سے ’’رام مندر، ،جیسے متنازع ایشوپرہی ووٹ مانگتے ہیں، اورعوام بھی بے وقوف ہیں کہ ان سے روزگارکے مطالبے کے بجائے دھرم کے مکڑجال ہی کواپنامستقبل اورخوحالی سجمھ رہے ہیں۔
گویاکہ یوںکہاجاسکتاہے کہ جس طرح 1984 کے آس پاس اس وقت کی کانگریس صدراورملک کی وزیراعظم آنجہانی شریمتی اندراگاندھی کے تعلق سے ان کے حاشیہ بردارکانگریسیوںنے ایک لبھاؤنانعرہ دیاتھا’’INDIRA IS INDIA, INDIAIS AIDIRA,,توبالکل یہی صورت حال اس وقت شری نریندرمودی کی بھی مودی بھکتوںکی نظرمیںہے، مگرآپ دیکھتے ہیں کہ آج انداراکی پارٹی گدی سے کوسوںدورہےظاہرہے کہ اس وقت کے کانگریسیوںپربھی اپنی فرعونیت کاکھلاخبط سوارتھاجوکہ آج ان کی جانشیں حکومت اوراس کے حواریوںپرسوارہے، نیزاندراکاحوالے سے مذکورہ نعرہ کوشری راجیوگاندھی کی شہادت کے بعد1990 میںکانگریسی لیڈرشری دیوکانت بروہانے پھرسے زندہ کرناچاہاتھامگرٹائی ٹائی فِش ثابت ہواکہ کاغذکی ناؤکی کوئی عمرنہیںہوتی۔
بہرحال آج 2024 کے پارلیمانی الیکشن میںالیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 97 کروڑ ہے، لوک سبھاکی کل سیٹوں کی تعداد 543 ہے جن پر کامیاب ہونے والےممبران آئندہ پانچ سال کے لیے منتخب ہوں گے۔
نیز یہ بھی مسلمہ ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات میں 272 نشستیں جیتنے والی سیاسی جماعت نئی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
معاشیات کے لئے مشہور کالم نویس پروفیسر سید ابوذر کمال الدین نے ایک مضمون بعنوان ’’بھارت کی معاشی پالیسیوں میں تبدیلیوں کاپچھتر سالہ معاشی صورتحال کاایک جائزہ (1947ء – 2023ء)کے تحت،،اس کی تیسری قسط میں لکھاتھا کہ مودی کی پالیساں جیسےکہ
’’میک انڈیا،،ہے، توملک کی معاشی اورانتظامی صور حال اتنی زیادہ خراب ہے کہ 2014ء میں مودی حکومت نے بڑے زور شور سے Making India:کا نعرہ دیاتھا اور اس کے لئے 11 کروڑ صرف کرکے تمام طرح کے کل پرزوں سے مزین ایک شیر کا لوگو ایک امریکی اشتہار کمپنی سے بنوایا تھاجس کا مقصد بھارت کی صنعتی پیداوار کو بڑھاواتھا،
اسی طرح2014 میں صنعتی پیداوار کا جی ڈی پی میں حصہ 16% تھا جس کو اس مہم کے ذریعہ بڑھاکر 2025ء تک 25% کرنا تھا۔ لیکن 2019ء میں جاری ورلڈبنک کے ڈاٹا کے مطابق یہ 16% سے گھٹ کر 13.6% ہوگیا۔2020ء میں اس میں مزید کمی آئی جبکہ اس درمیان بنگلہ دیش اور ویتنام کے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو اجو بالترتیب 16سے19%اور13 سے16% ہوگئی۔
اسی طرح مارچ2014ء میں مودی جی کے حکومت سنبھالنے سے پہلے 312 بلین ڈالر کا بھارت نے ایکسپورٹ کیا تھا، جو اس کے بعد کے سال میں لگاتار گھٹتا گیا، ایک سال بعد یہ 310 بلین ڈالر تھا جو 2015 -2016میں پھر ایک بار اس میں کمی آئی اور 290 بلین ڈالرہوگیا۔ اس طرح اور بھی جو معاشی اشاریات ہیں ان میں کمی دیکھنے کو ملی۔مغربی بنگال میں تصادم
جی۔ ایس۔ ٹی کانفاذ:جی ایس ٹی جس کو گڈس اور سروسیز ٹیکس کہتے ہیں، اس کو گڈ اور سمپل ٹیکس کے طور پر پیش کیا گیا، جس کا نفاذ بہت دھوم دھام سے ایک جولائی 2017ء کو آدھی رات کویہ کہتے ہوئے کیاکہ یہ ہماری دوسری آزادی ہے اور تاریخی قدم ہے اور Co – operative federalism کی مثال ہے اس سے چھوٹے تاجروں کوفائدہ ہوگا۔
دراصل دنیامیں جب سے لبرلائزیشن کے دروازے کھولے گئے ہیں بھارت پرعالمی اداروں کا دباؤ تھا کہ ٹیکس ریجیم کو سہل بنایا جائے اورٹیکس کی شرح گھٹائی جائے، دنیا کے کئی چھوٹے ممالک نے اس کواپنایا بھی تھا۔
مزے کی بات یہ ے کہ یوپی اے کے زمانے سے ہی اس پر بحث چل رہی تھی لیکن اس کی عملی دشواریوں کودیکھتے ہوئے حکومت نے اس کانفاذ نہیں کیا، خود نریندر مودی جس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے اس قدم کی سخت مخالفت کی۔ مگر جب وہ ملک کے وزیر اعظم بنے توانہوں نے اپنے این ڈے اے کے سہارے ان ساری دشواریوں کو ہوا میں اڑاکر اس کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔ بہت ساری ریاستیں آخر آخر تک اس کے نفاذ پر راضی نہیں تھیں مگر ان پر دباؤ ڈال کر راضی کرلیا گیا اور انہیں بتایا گیاکہ ان کے ٹیکس آمدنی میں جو کمی ہوگی وہ مرکز پوری کرے گا۔
بہرحال جس طرح کے داؤفریب سے فی الحال ملک کی گاڑ کوچلایانہیںبلکہ اسکو کھینچاجارہاہے وہ کوئی قابل اطمینان طریقہ ٔ کاریاصور ت حال نہیںہے۔
(مضمون نگار’’مولاناآزادایجوکیشنل اینڈمیڈیکل آرگنائزیشن،، دہلی کے جنرل سکریٹری ہیں)

مودی حکومت اورعوامی نقطہ نظر
ڈاکٹرراحتؔ مظاہری
سابق وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ کی حکومت کی دوسری میقات میں بڑھتےگھوٹالوںکے نتیجے میں2014ء میں کانگریس کوکراری شکست دیتے ہوئے پہلی بار شری نریندر دامودر داس مودی کی قیادت میں بی جے پی کو واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا،جوکہ بھارت کی سیاسی تاریخ میں ایک نہایت اہم موڑ تھاکہ جب آرایس ایس کے ہاتھ اپنے دیرینہ خواب اور منصوبہ بندعزائم کوجامہ پہنانے کاموقع ملناشروع ہوا، جس کے نتیجے میں ملک کی بڑی اقلیت کوسرراہ اورکھلے عام نہ صرف رسوابلکہ اس کاناطقہ بندکرنے کی مہم شروع کردی گئی، جس کے بارے کبھی کسی نے سوچابھی نہیں تھااورپھریہ کاروبارایساپھلاپھولاکہ بی جے پی کے ایک سڑک چھاپ نیتاسے بڑے بڑے عہدوںپربراجمان وزیربھی اسی بداخلاقی،تشدد اوربربریت کواپنی ترقی کی لئے سنجیونی بوٹی یاپھراس کو پارس کاپتھرخیال کرنے لگے، جس پرایک غیرمسلم صحافی نے لکھاتھا کہ ایک شبدھ’’ مسلمان،،ہے، اس شبدھ کے خلاف ہندؤںکے بیچ جو بھی بی جے پی نیتا جتنازیادہ اس کاجاپ کرے گااس کواتناہی بڑاعہدہ ملے گایعنی جس کوبی جے پی میں اپنی سیاسی وسماجی ترقی مطلوب ہوتووہ مسلمانوں کے خلاف کھل کرزہرافشانی کرے اوران کواپنے پلیٹ فارم سے زیادہ زیادہ گالیاںدے ۔
ایک سیاسی مبصرکی رائے میں مودی حکومت باوجودیکہ دستور سے وفاداری کادم بھرتی ہے ا ور اس کواپنے لئے سب سے مقدم رہنما کتاب مانتی ہے، مگرہمہ وقت اوربہرحال مذکورہ حکومت کے اقدامات سے دستور سے واضح انحراف دیکھا جاسکتاہے، نتیجتاً یہ حکومت اندرون اور بیرون ملک تنقید کانشانہ بنتی رہی ہے،مگر 2019ء کے بعدمودی کی دوسری میقات یعنی واضح اکثریت سے برسر اقتدار آنے کے بعد ان تمام تنقیدوں کونظر انداز کرتے ہوئے اپنے فسطائی ایجنڈے پرہی گامزن ہے،جس کی زد میں ملک کی معیشت روزافزوںخرابی پرہے۔ جس پر کھلی تنقید کرتے ہوئےمعاشیات کے لئے مشہور کالم نویس پروفیسر سید ابوذر کمال الدین نے لکھاتھا’’2014 ءکے الیکشن مہم کے دوران ایک کتابچہ’’ مودتو ،،کے نام سے شائع کیا گیا تھا جس میں مودی کے وژن کو14نکات میں بانٹ کر پیش کیاگیا تھا ان میں سے جن نکات کے معاشی اثرات ہیں ہم ان کاذکر کریں گے۔
گویاکہ مودی دورمیںحکومت کم اورحکمرانی زیادہ ہے، حکومت کابزنس اورملک کے مفادسے کوئی تعلق نہیں ہے،وفاقی امداد باہمی کو فروغ نہیں۔قوت کی معدوم ی سےمرکزیت بھی نہیں۔
گاؤں میں شہری سہولیات کےفروغ کاوعدہ بالائے طاق ہے۔آبپاشی کے اسمارٹ طریقے سے زرعی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں،زراعت، صنعت اورخدمات کے ذریعہ عالمی بازار پرقبضہ کے دعوے بھی کھوکلے ہی ہیں،عوام کے ذریعہ زیادہ پیداوارپبلک اور پرائیوٹ پارٹنر شپ کوکوئی فروغ نہیں۔
جبکہ این جی اوز اورلوکل کمیونیٹیز کے ذریعہ ترقیاتی کاموں کی سوشل اڈیٹنگ وہ وژن تھا جس کو لے کر یہ حکومت برسر اقتدار آئی تھی۔
ان کی خوش قسمتی رہی کہ ملک میں مانسون اچھارہا جس سے زرعی پیداوار میں رکارڈ اضافہ ہوا اور کچے تیل کی قیمت میں بھاری کمی آئی، جس کی وجہ سے بیرونی زرمبادلہ کی کافی بچت ہوئی۔
ان سب ناکامیوںکے باوجودتشہیرکازبردست عنصر دیکھاجاسکتاہے جیساکہ گزشتہ دارالحکومت دہلی کے قلب انڈیا گیٹ پر ایک مخصوص پروگرام ’ایک نئی صبح‘ کا انعقاد ہواجس کا’ جی 20 ،کی طرح بڑاڈھنڈوراپیٹاگیاتھامگروہ بھی عوام کے لئے بےسودہی ثابت ہوا۔
بہرحال اس وقت 2024 کاالیکشن جاری ہے ،اس میں ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ اس وقت حکومت کی وہی زبان اورعمل ہے جوگزشتہ برسوںمیں رہاہے،حالانکہ کانگریس نے اس کوگھیرنے کے لئے ’’ملک بھرکی سیاسی پارٹیوںکولے کرایک بڑاتحاد بنایاہے جس کانام انھوںنے’انڈیا، رکھاہے ،جوکہ سردست مودی کوپوری طرح گھیرنے کے لئے کمرکسے ہے،مگر اس کے مستقبل کے بارے میں ابھی خاموشی ہی بہترہے۔
مگرپھربھی ایک جانب پروگرام میں نریندر مودی نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکرتے اور مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ،لیکن وہیں دوسری جانب کانگریس نے بی جے پی حکومت کے دو سال پر ’مودی کے جھوٹ اور جھوٹے وعدوں کے دو سال‘ نام سے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں حکومت کی ناکامیوں کا ذکر ہے۔
مگراس حقیقت سے انکاراورراہ فراراختیار کرنابھی ممکن نہیں کہ وزیراعظم مودی ، وزیرداخلہ امت شاہ اوربی جے پی کی پوری مشینری اس 2024 کے الیکشن کی مہم میںکہیںبھی ملک کی ترقی خوش حالی اوراپنی حکومت کی کامیابیوںکی بنیادپرووٹ مانگتے نظرنہیںآتے بلکہ عوام کے جذبات کوبری بھک بھڑکاکران سے ’’رام مندر، ،جیسے متنازع ایشوپرہی ووٹ مانگتے ہیں، اورعوام بھی بے وقوف ہیں کہ ان سے روزگارکے مطالبے کے بجائے دھرم کے مکڑجال ہی کواپنامستقبل اورخوحالی سجمھ رہے ہیں۔
گویاکہ یوںکہاجاسکتاہے کہ جس طرح 1984 کے آس پاس اس وقت کی کانگریس صدراورملک کی وزیراعظم آنجہانی شریمتی اندراگاندھی کے تعلق سے ان کے حاشیہ بردارکانگریسیوںنے ایک لبھاؤنانعرہ دیاتھا’’INDIRA IS INDIA, INDIAIS AIDIRA,,توبالکل یہی صورت حال اس وقت شری نریندرمودی کی بھی مودی بھکتوںکی نظرمیںہے، مگرآپ دیکھتے ہیں کہ آج انداراکی پارٹی گدی سے کوسوںدورہےظاہرہے کہ اس وقت کے کانگریسیوںپربھی اپنی فرعونیت کاکھلاخبط سوارتھاجوکہ آج ان کی جانشیں حکومت اوراس کے حواریوںپرسوارہے، نیزاندراکاحوالے سے مذکورہ نعرہ کوشری راجیوگاندھی کی شہادت کے بعد1990 میںکانگریسی لیڈرشری دیوکانت بروہانے پھرسے زندہ کرناچاہاتھامگرٹائی ٹائی فِش ثابت ہواکہ کاغذکی ناؤکی کوئی عمرنہیںہوتی۔
بہرحال آج 2024 کے پارلیمانی الیکشن میںالیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 97 کروڑ ہے، لوک سبھاکی کل سیٹوں کی تعداد 543 ہے جن پر کامیاب ہونے والےممبران آئندہ پانچ سال کے لیے منتخب ہوں گے۔
نیز یہ بھی مسلمہ ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات میں 272 نشستیں جیتنے والی سیاسی جماعت نئی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
معاشیات کے لئے مشہور کالم نویس پروفیسر سید ابوذر کمال الدین نے ایک مضمون بعنوان ’’بھارت کی معاشی پالیسیوں میں تبدیلیوں کاپچھتر سالہ معاشی صورتحال کاایک جائزہ (1947ء – 2023ء)کے تحت،،اس کی تیسری قسط میں لکھاتھا کہ مودی کی پالیساں جیسےکہ
’’میک انڈیا،،ہے، توملک کی معاشی اورانتظامی صور حال اتنی زیادہ خراب ہے کہ 2014ء میں مودی حکومت نے بڑے زور شور سے Making India:کا نعرہ دیاتھا اور اس کے لئے 11 کروڑ صرف کرکے تمام طرح کے کل پرزوں سے مزین ایک شیر کا لوگو ایک امریکی اشتہار کمپنی سے بنوایا تھاجس کا مقصد بھارت کی صنعتی پیداوار کو بڑھاواتھا،
اسی طرح2014 میں صنعتی پیداوار کا جی ڈی پی میں حصہ 16% تھا جس کو اس مہم کے ذریعہ بڑھاکر 2025ء تک 25% کرنا تھا۔ لیکن 2019ء میں جاری ورلڈبنک کے ڈاٹا کے مطابق یہ 16% سے گھٹ کر 13.6% ہوگیا۔2020ء میں اس میں مزید کمی آئی جبکہ اس درمیان بنگلہ دیش اور ویتنام کے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو اجو بالترتیب 16سے19%اور13 سے16% ہوگئی۔
اسی طرح مارچ2014ء میں مودی جی کے حکومت سنبھالنے سے پہلے 312 بلین ڈالر کا بھارت نے ایکسپورٹ کیا تھا، جو اس کے بعد کے سال میں لگاتار گھٹتا گیا، ایک سال بعد یہ 310 بلین ڈالر تھا جو 2015 -2016میں پھر ایک بار اس میں کمی آئی اور 290 بلین ڈالرہوگیا۔ اس طرح اور بھی جو معاشی اشاریات ہیں ان میں کمی دیکھنے کو ملی۔مغربی بنگال میں تصادم
جی۔ ایس۔ ٹی کانفاذ:جی ایس ٹی جس کو گڈس اور سروسیز ٹیکس کہتے ہیں، اس کو گڈ اور سمپل ٹیکس کے طور پر پیش کیا گیا، جس کا نفاذ بہت دھوم دھام سے ایک جولائی 2017ء کو آدھی رات کویہ کہتے ہوئے کیاکہ یہ ہماری دوسری آزادی ہے اور تاریخی قدم ہے اور Co – operative federalism کی مثال ہے اس سے چھوٹے تاجروں کوفائدہ ہوگا۔
دراصل دنیامیں جب سے لبرلائزیشن کے دروازے کھولے گئے ہیں بھارت پرعالمی اداروں کا دباؤ تھا کہ ٹیکس ریجیم کو سہل بنایا جائے اورٹیکس کی شرح گھٹائی جائے، دنیا کے کئی چھوٹے ممالک نے اس کواپنایا بھی تھا۔
مزے کی بات یہ ے کہ یوپی اے کے زمانے سے ہی اس پر بحث چل رہی تھی لیکن اس کی عملی دشواریوں کودیکھتے ہوئے حکومت نے اس کانفاذ نہیں کیا، خود نریندر مودی جس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے اس قدم کی سخت مخالفت کی۔ مگر جب وہ ملک کے وزیر اعظم بنے توانہوں نے اپنے این ڈے اے کے سہارے ان ساری دشواریوں کو ہوا میں اڑاکر اس کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔ بہت ساری ریاستیں آخر آخر تک اس کے نفاذ پر راضی نہیں تھیں مگر ان پر دباؤ ڈال کر راضی کرلیا گیا اور انہیں بتایا گیاکہ ان کے ٹیکس آمدنی میں جو کمی ہوگی وہ مرکز پوری کرے گا۔
بہرحال جس طرح کے داؤفریب سے فی الحال ملک کی گاڑ کوچلایانہیںبلکہ اسکو کھینچاجارہاہے وہ کوئی قابل اطمینان طریقہ ٔ کاریاصور ت حال نہیںہے۔
(مضمون نگار’’مولاناآزادایجوکیشنل اینڈمیڈیکل آرگنائزیشن،، دہلی کے جنرل سکریٹری ہیں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close