اسلامیات

دنیا کا انوکھا اور البیلا سفر (سفر معراج)

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی ادارہ تسلیم و رضا سمری دربھنگہ (بہار)

باشندگان عالم ہر دور میں اسفار کرتے رہےہیں ، اب تو پہلے کے بنسبت کچھ زیادہ ہی اسفار ہونے لگے ہیں ،اور اسفار بھی آسان ہو گئے ہیں،پہلے تو اسفار کرنا گویا کہ ہتھیلی پر جان لے کر چلنا ہوتا تھا،اسی کے ساتھ پریشانیاں الگ، اس لئے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سفر کو جہنم کا عذاب کہا گیا ہے:”السفر قطعة من العذاب”(صحیح بخاری)سفر جہنم کے عذابوں میں سے ایک عذاب ہے، کتنے ہی سفر کرنے والے ایسے بھی ہوئے جب وہ سفر پر نکلے تو وہ کبھی واپس نہیں آسکے ، اور دنیاوی سفر سے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔
اسفار کرنے والوں میں ہر طرح کے افراد ہوتے ہیں اگر ان میں کوئی صاحب قلم و قرطاس ہوتا ہے تو وہ اپنے اسفار کی روداد کو قلم بند بھی کرتے ہیں جس سے ان کے اسفار زندہ و تابندہ ہو جاتا ہے ۔
انبیاء کرام علیہم السلام جو رب کریم کے سب سے محبوب اور چہیتے بندے ہوتے ہیں ان کے بھی اسفار ہوئے ہیں ، ہمارے نبی کریم صلی اللہ بھی بعثت سے پہلے اسفار کئے جس کی روداد کتب سیر میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔
بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایسے اسفار بھی ہوئے ہیں جسے خود رب کریم درج کئے ہیں،ان کی روداد سفر کا ذکر قرآن مجید میں محفوظ ہے، سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت خضر علیہ السلام کا سفر کا ذکر بڑا ہی انوکھا اور دلچسپ ہے سورہ کہف کی تفسیر دیکھی جا سکتی ہے۔
دنیا میں ہزاروں اسفار کا ذکر سینۂ قرطاس پر محفوظ ہے، لیکن ان تمام اسفار میں سب سے انوکھا و البیلا اور حیران کن سفر ایک شب کی سفر ہے، اور شب بھی نہیں ،چند گھنٹے بھی نہیں بلکہ چند ساعت کی سفر ہے، لیکن دنیا جہان میں جتنے بھی اب تک اور قیامت تک اسفار ہوں گے ان تمام میں سب سے طویل سفر سب سے کم وقت میں طے ہوا، اور یہ دنیا کا انوکھا اور البیلا سفر کرنے والے مسافر بھی تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے افضل و برتر ہستی یعنی پیغمبر خاتم الانبیاء حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرمبارک فرش سے عرش کا ہوا تھا، اس سفر کے سواری بھی دنیا کے تمام سواریوں سے تیز رفتار سواری تھی، اس سفر کا نام "سفر معراج”ہے ،اسے بھی اللہ تعالیٰ قلم بند کئے ہیں اور صبح قیامت تک محفوظ رہنے والی کتاب "قرآن مجید”میں محفوظ ہے،ارشاد ربانی ہے:
*سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞* (بنی اسرائیل:1)
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:
اس سے معراج کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور رات کے وقت انہیں ایک جانور پر سوار کیا جس کا نام براق تھا، وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آپ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے گیا، یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا، جسے اسراء کہا جاتا ہے، پھر وہاں سے حضرت جبریئل ؑ آپ کو ساتوں آسمانوں پر لے گئے، ہر آسمان پر آپ کی ملاقات پچھلے پیغمبروں میں کسی پیغمبر سے ہوئی، اس کے بعد جنت کے ایک درخت سدرۃ المنتہی پر تشریف لے گئے، اور آپ کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلامی کا شرف عطا ہوا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائیں، پھر رات ہی رات میں آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، اس آیت میں اس سفر کے صرف پہلے حصے کا بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ آنے والے تذکرے سے اسی کا تعلق زیادہ تھا، البتہ سفر کے دوسرے حصے کا تذکرہ سورة نجم : 13 تا 18 میں آیا ہے، صحیح روایات کے مطابق یہ معجزانہ سفر بیداری کی حالت میں پیش آیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی آپ کو دکھائی گئی تھی، یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ واقعہ بیداری کے بجائے خواب میں دکھایا گیا ؛ کیونکہ یہ بات صحیح احادیث کے تو خلاف ہے ہی قرآن کریم کا اسلوب واضح طور پر یہ بتارہا ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے، اگر یہ صرف ایک خواب کا واقعہ ہوتا تو یہ کوئی غیر معولی بات نہیں تھی، انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا رہتا ہے، پھر اسے اپنی ایک نشانی قرار دینے کے کوئی معنی نہیں تھے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
اسی آیت کے ذیل میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ بہت ہی دل کش اور نہایت ہی دلچسپ انداز میں تفسیر کئے ہیں اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں،حضرت لکھتے ہیں:
سورۃ کا آغاز ایک اہم واقعہ سے ہوتا ہے ، جس کو حدیث و سیرت کی کتابوں میں ’’ واقعۂ اِسْراء ‘‘ یا ’’ واقعۂ مِعْراج ‘‘کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے ، اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ مکی زندگی میں ظاہری طورپر آپ ﷺ کے چچا حضرت ابوطالب اور اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کو بڑا سہارا تھا ، حضرت ابوطالب کی وجہ سے آپ ﷺ کو بنو ہاشم کی تائید حاصل تھی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا چوں کہ مکہ کی ایک مالدار اور معزز خاتون تھیں ؛ اس لئے مشرکین مکہ کو بھی اِس کا پاس و لحاظ تھا ، جب حضرت ابوطالب کی اور ان کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی تو یہ ظاہری سہارے ٹوٹ گئے ، اہل مکہ کی روش کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ طائف تشریف لے گئے کہ شاید انھیں ایمان کی توفیق ہوجائے ؛ لیکن وہ اہل مکہ سے بھی زیادہ سخت دل ثابت ہوئے اور آپ کو ایسی تکلیف پہنچائی کہ شاید اس سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ آپ ﷺ کی زندگی میں پیش نہیں آیا ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی دل داری کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو معراج کا شرف بخشا گیا ؛ کیوں کہ انسان جب اپنے محبوب کے لئے چوٹیں سہتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے محبوب ومطلوب کی طرف سے محبت و قربت کا اظہار ہوتا ہے تو سارے زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔
حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ اس واقعہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر یہ البیلا واقعہ کتنی کتابوں اور کتنے اہل علم اس کی روایت کرتے ہیں اس پر رقم طراز ہیں:
یہ واقعہ دو مرحلوں میں پیش آیا ، پہلا مرحلہ : مسجد حرام سے بیت المقدس تک ، جس کو ’’ اسراء ‘‘ کہا جاتا ہے ، دوسرا مرحلہ : بیت المقدس سے آسمان کے سفر کا ہے ، جس کو ’’ معراج ‘‘ کہتے ہیں ، اس واقعہ کو بکثرت حدیث و سیرت کی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے ، قرطبی میں ہے کہ بیس (۲۰) صحابہ سے یہ واقعہ منقول ہے ، ( تفسیر قرطبی : ۱۰؍ ۲۰۵) اور علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے علامہ زُرْقَانِی رحمہ اللہ کے حوالے سے ٤٥ صحابہ کا ذکر کیا ہے ، ( سیرت النبی ا: ۳؍۲۲۸) ان میں سات اکابر صحابہ وہ ہیں ، جن کی روایتیں بخاری اور مسلم میں ہیں ۔
خلاصہ کے طور پر مولانا محترم لکھتے ہیں:
واقعہ کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺ حَطِیم کعبہ میں یا حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر پر آرام فرمارہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور نیند سے بیدار کیا ، سینۂ مبارک کو چاک کیا ، آبِ زم زم سے دھویا اور سونے کا ایک طشت جو ایمان اور حکمت سے بھرپور تھا ، سینۂ مبارک میں اُنڈیل دیا ، ان کے ساتھ ایک تیز رفتار سواری بھی تھی ، جس کو ’’بُرَاقْ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ، یہ گدھے سے بڑا ، خچر سے چھوٹا ، سفید رنگ کا لمباسا جانور تھا ، اس پر آپ ﷺ کو سوار کرایا گیا ، یہ ایسی تیز رفتار سواری تھی کہ حدِّ نگاہ پر اس کا قدم پڑتا تھا ، اس سواری سے آپ ﷺ بیت المقدس پہنچے ، وہاں تمام انبیاء پہلے سے آپ ﷺ کے منتظر تھے ، آپ کے تشریف لاتے ہی صف بن گئی اور آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی گئی ، انبیاء کی تشریف آوری کی کیا شکل پیش آئی ؟ یہ اللہ کو معلوم ہے یا تو انبیاء جسم سمیت وہاں لائے گئے یا ان کی روحیں لائی گئیں ، یہاں سے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا اور آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ کے ساتھ آسمان کی طرف تشریف لے گئے ، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کی خدمت میں دو پیالے پیش کئے ، جن میں سے ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی ، آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ قبول فرمایا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا : آپ ﷺ نے فطرت کو پسند کیا ، اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپ ﷺ کی اُمت گمراہ ہوجاتی ، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ آپ ﷺ آسمان پر چڑھے ، جب پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا ، فرشتوں نے دریافت کیا : کون ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنا نام بتایا ، پھر پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا : محمد ﷺ ، استفسار کیا گیا کہ کیا انھیں بلایا گیا تھا ؟ کہا گیا : ہاں ! پھر دروازہ کھلا ، اب آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ اندر داخل ہوئے ، یہی بات ہر آسمان پر پیش آئی ۔
پہلے آسمان پر آپ ﷺ کی ملاقات انسانیت کے جَدِّ اَمْجَد حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ، آپ ﷺ نے ان کو سلام کیا ، حضرت آدم علیہ السلام نے پُرتپاک طریقہ پر آپ ﷺ کا خیر مقدم فرمایا اور کہا : فرزند صالح اور نبی صالح کو خوش آمدید ’’ مرحباً بالنَبیِّ الصالِح والِابْنِ الصالح‘‘ آپ ﷺ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس حال میں دیکھا کہ آپ کے دائیں بائیں بہت سے لوگ ہیں ، جب آپ دائیں دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے اور مسکراتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو غمگین اور رنجیدہ ہوتے اور روتے ہیں ، آپ ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے اس کا سبب دریافت فرمایا ، تو بتایا گیا کہ دائیں طرف آپ کی جنتی اولاد ہیں اور بائیں طرف دوزخی —اسی طرح مختلف آسمانوں سے آپ کا گذر ہوا ، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، تیسرے پر حضرت یوسُف علیہ السلام ، چوتھے پر حضرت اِدریس علیہ السلام ، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام ، چھٹے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جہاں ’’ بیت ِمَعْمُوْر‘‘ بنا ہوا تھا کہ ہر دن ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں ۔
پھر آپ ﷺ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور اس مقام تک پہنچے ، جہاں قلم تقدیر کے چلنے کی آواز آتی تھی ، آگے بڑھ کر آپ ﷺ ’’سِدْرَۃُ المنتہیٰ‘‘ نامی مقام پر پہنچے ، جس سے آگے فرشتوں کا بھی گذر نہیں ، حضرت جبرئیل علیہ السلام یہیں رُک گئے ؛ لیکن آپ ﷺ اس سے بھی آگے بلائے گئے ، جہاں اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کا شرف بخشا ، سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں نازل ہوئیں اور پچاس نمازوں کا تحفہ اُمت کے لئے حوالہ کیا گیا ، اس شرف و اعزاز اور تحفۂ ربانی کے ساتھ جب واپس ہوئے تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پچاس نمازوں کی فرضیت کا حال معلوم ہوا تو بنی اسرائیل کے تلخ تجربہ کی روشنی میں مشورہ دیا کہ بارگاہ ِالٰہی میں تخفیف کی درخواست کی جائے ، آپ ﷺ بار بار تخفیف اور کمی کی درخواست فرماتے رہے اور نمازیں کم کی جاتی رہیں ، یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں ؛ لیکن مژدۂ رحمت سنایا گیا کہ اجر پچاس نمازوں ہی کا ہوگا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ آپ ﷺ مزید تخفیف کیدرخواست کریں ؛ لیکن آپ ﷺ اشارۂ خداوندی سمجھ چکے تھے ، کہ ان پانچوں نمازوں کی فرضیت کو باقی رکھنا ہی مقصود ہے ؛ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ سے مزید تخفیف کی درخواست کرنے میں حیا آتی ہے — اس طرح پانچ نمازوں کی فرضیت باقی رہی ۔
حضرت مولانا ان لوگوں پر رد کرتے ہوئے عمدہ کلام کئے ہیں جو اس حیرت انگیز سفر پر اعتراض کرتے ہیں موصوف لکھتے ہیں:
اتنا طویل سفر چند لمحوں میں اللہ نے کرایا ، آسمانوں کی سیر ہوئی ، انبیاء سے ملاقات ہوئی ، جنت و دوزخ کے مناظر کا مشاہدہ ہوا ، پیش گاہ ربانی میں حاضری ہوئی ، ہم کلامی سے مشرف ہوئے اور تحفۂ نماز لے کر واپس آئے ، یہ سب کچھ ہوا صرف چند ساعتوں میں ، جو لوگ غیبی نظام پر یقین نہیں رکھتے تھے اور خدا کی قدرت کو اپنی قدرت کی ترازو میں تولتے تھے ، انھیں ان باتوں پر یقین ہی نہ آتا تھا ، وہ استہزا کرتے ، مذاق اُڑاتے ، تمسخر کرتے ، جھٹلاتے ، لوگوں نے سوچا کہ یہی موقع ہے کہ رفیق خاص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کی تصدیق و تائید سے منحرف کردیں ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس بلکہ آسمان سے ہوکر آیا ہے تو یہ بھی کوئی قابل یقین بات ہوگی ؟ فرمایا : ہرگز نہیں ، کہنے والوں نے کہا : محمد آج یہ دعویٰ کررہے ہیں ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر آپ ﷺ کہتے ہیں تو سچ کہتے ہیں ، میں نے کبھی فرشتہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ؛ لیکن آپ ﷺ پر نزول وحی کی تصدیق کرتا ہوں ، تو آخر اس بات کی تصدیق کیوں نہ کروں ؟ یہی شانِ تصدیق ہے ، جس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’ صِدِّیق ‘‘ بنایا ، پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط اور سمندر سے بھی زیادہ اتھاہ ایمان و یقین والی ہستی— سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(آسان تفسیر قرآن مجید)
اس انوکھا اور البیلا سفر سے متعلق بے شمار کتابیں ہیں ، جس میں اس انوکھا سفر سے اہل بصیرت نے ایسے ایسے دروس و عبر اخذ کئے ہیں کہ عقلیں حیران ہوتی ہیں ،آج سے دو سو تین سو سال سے پہلے تک مستشرقین وملحدین اور دشمنان اسلام اس برق رفتاری سے بھی زیادہ تیز رفتار سفر معراج کا انکار کرتے تھے ایسا محیر العقول سفر کو قبول کرنے سے نکارتے تھے تو اسلام بیزار بھی بعض اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کا سہارا لیتے ہوئے اسے محال بتاتے تھے، تاویلات فاسدہ اور کاسدہ کرتے تھے، لیکن موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات کے بعد اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر آج وہ منکرین زندہ ہوتے تو وہ ضرور اپنی سوچ و فکر پر ماتم کناں ہوتے۔
اس مبارک سفر سے جہاں ان گنت خوبیاں اور دروس و عبر سامنے آتے ہیں ان میں ایک اہم اور قابل تعریف درس وہ ہے جس کی طرف سلطان القلم حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی البیلی کتاب "النبی الخاتم”ﷺ میں کی ہے،مولانا رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*”ان بھولے بھالوں سے کوئی کیا کہہ سکتا ہے ،آخر جو نیچے سے دبایا گیا اور وہ دبتا ہی چلا گیا ،کس قدر عجیب بات ہے کہ اسی کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اوپر کی طرف کس طرح چڑھا اور کیوں چڑھتا گیا ۔۔۔۔۔۔”*
اس کا مقصد یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل دس یا بارہ سال تک دبایا گیا ان کی اپنی زمین پر ان کو ستایا گیا ،جائے پیدائش کی جگہ ان پر تنگ کر دی گئی، تو کیا اللہ تعالیٰ ان کو نہیں اٹھائیں گے،یقینا اٹھائیں گے اور اٹھائے اور اتنا اٹھائے کہ فرش سے عرش تک پہنچا دئیے گئے ، رب کریم کے حضور پہنچ گئے اور پھر دیدار الٰہی کا شرف حاصل ہوا۔
اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانان عالم حالات و مصائب سے دوچار ہوں گے ،ان پر ان کی زمین تنگ کر دی جائے گی ،ہاں!اس نازک حالت میں اگر مسلمانان عالم صبر کا دامن تھامیں گے، شکوہ شکایت نہیں کریں گے بلکہ اپنے رب سے ہی لو لگائیں گے ،ان پر ہی بھروسہ اور اعتماد کریں ،اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسے ہی صبر کریں گے تو یقیناً رب کریم مسلمانان عالم کو اٹھائیں گے اور اتنا اٹھائیں گے کہ لوگ حیران ہوں گے اور پھر وہی سوال دوہرائیں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے البیلا سفر کے موقع پر کرنے لگے تھے کہ اوپر کیوں اٹھائیں گے ۔
اللہ تعالی ہم مسلمانان عالم کو اس البیلا اور انوکھا سفر سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close