مضامین

دوہرے پیمانے ملک کو تباہی کی طرف لے جائیں گے

کیاقانون کا ڈنڈا صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ عبدالغفار صدیقی 9897565066

دوہرے پیمانے ملک کو تباہی کی طرف لے جائیں گے
کیاقانون کا ڈنڈا صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟
عبدالغفار صدیقی
9897565066
ماضی میں ملک کا ماحول اس وقت خراب ہوتا تھا جب الیکشن سر پر ہوتے تھے،جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے،نفرت کا ماحول بنایا جاتا تھا،اس کے باوجود بھی ایک طبقہ ایسا تھا جو انصاف کی بات کرتا تھا،میڈیا میں بھی حق گو صحافی موجود تھے،اور عدل پر مبنی رپورٹنگ کرتے تھے،لیکن گزشتہ دہائی سے ملک کی اخلاقی حالت میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ حق و باطل کے پیمانے بدل گئے ہیں،ہر دن کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتاہے،اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہر وقت چناؤ کا موسم ہے،کسی نہ کسی اسٹیٹ میں کوئی نہ کوئی الیکشن ہوتا رہتا ہے،الیکٹرانک میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملک کے ایک گوشہ کی خبر دوسرے گوشہ میں پہنچ جاتی ہے،ماضی میں منی پور،آسام،ناگالینڈ وغیرہ جیسی ریاستوں کے انتخابات کی خبرسے شمالی ہندوستان کے لوگوں کو کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔موجودہ زمانے میں مرکزی حکومت نے انتخابات کے معیار کو اس قدر گرادیا ہے کہ لوکل باڈیز کے انتخابات تک میں مرکزی وزراء بلکہ وزیر اعظم تک چناؤ پرچار کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی،بے روزگاری،فاقہ کشی،روپے کی قدر میں گراوٹ اپنے عروج پر ہے،عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے،ان سنجیدہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی ملک میں ہر وقت فرقہ ورانہ تناؤ کو باقی رکھاجاتا ہے۔سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ صحیح بات کہنے والے روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں،اس لیے کہ جو سچ بولتا ہے وہی مارا جاتا ہے۔برٹش براڈ کااسٹنگ تک اس کی زد میں ہے۔حال یہ کہ:
آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ کہہ دیں تو مارے جائیں
رواں مہینے میں چند واقعات ایسے ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں عدل و انصاف کے پیمانے بدل گئے ہیں۔10فروری کو ساحل گہلوت نے نکی یادو کا قتل کردیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے کرکے اپنے ہی ڈھابے کے فریزر میں رکھ دیا۔ساحل نے نکی کو اپنے عشق کے جال میں پھنسایا،اسے شادی کا لالچ دیا،اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے،پھر اپنے والدین کی مرضی سے دوسری لڑکی سے شادی کرلی،اخباری رپورٹوں کے مطابق اس نے یہ قتل اپنے گھر والوں کی مرضی سے کیا تھا،اسی لیے اس کے والد کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔لیکن اس خبر پر اس طرح کا کوئی ہنگامہ نہیں ہوا جس طرح کا ہنگامہ آفتاب اور شردھا کے موقع پر ہواتھا،جب کہ دونوں کا جرم ایک ہے۔آفتاب کے معاملے کو مذہب،لو جہاد اور ملک سے غداری تک سے جوڑدیا گیا،وہاں میڈیا نے آسمان سر پر اٹھالیا،اس کی بے رحمی کو چیخ چیخ کر آشکارا کیا گیا،نارکو ٹیسٹ تک کی منظوری لی گئی،اسلام اورمسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ساحل گہلوت نے بھی وہی جرم کیا،لیکن اسے ایک مجرم کی طرح ہی پیش کیا گیا،کسی دھرم کو الزام نہیں دیا گیا،اگر ایک طرف دوسرے مذہب کی لڑکی ہے تو دوسری طرف دوسری برادری کی لڑکی ہے۔برادران وطن تو شادی میں گوتر تک کا خیال کرتے ہیں۔میں آفتاب کے جرم کو ہلکا نہیں کررہا ہوں،بلکہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجرم کو صرف مجرم سمجھاجائے،اس کا دھرم نہ دیکھاجائے،بلکہ جرم کی نوعیت کی مطابق اس کو سزا دی جائے۔
ایک واقعہ ناصر اور جنید کو زندہ جلانے کا ہے۔یہ دونوں نوجوان ہمارے ملک کے شہری تھے،ان کو ان کی کار میں زندہ جلا دیا گیا،جلانے والوں نے کہا کہ یہ گائے کی اسمگلنگ کررہے تھے۔موجودہ وقت میں پیٹ پیٹ کر جان سے ماردیے جانے کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔جہاں دیکھو ذرا ذرا سی بات پر لوگ جان سے ماردیتے ہیں۔پہلے صرف مسلمان ہی نشانہ بن رہے تھے،ادھر دوچار واقعات ایسے بھی ہوئے جس میں غیر مسلم شرپسندوں نے غیر مسلموں کو ہی نشانہ بناڈالا۔ماب لنچنگ میں اضافہ کی اصل وجہ مجرموں کو سیاسی پناہ کا ملنا ہے۔ سیاسی آقاؤں کی سرپرستی اور پشت پناہی انھیں حاصل ہوتی ہے جس کے بل پر وہ یہ جرم کرتے ہیں،ناصراور جنید کے معاملے میں بھی اخبارات میں یہ خبر آئی ہے کہ مجرم کی تصاویر ملک کے وزیر داخلہ کے ساتھ ہیں،میں کہتا ہوں کہ تصویر تو کسی کی کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے،لیکن محترم وزیر کی خاموشی اس تعلق کی تصدیق کرتی ہے۔مجرموں کے حوصلے اس لیے بھی بلند ہیں کہ ان کا سماج ان کی حفاظت میں سڑکوں پر نکل آتا ہے۔ہریانہ میں تو یہ خاص طور پر ہورہا ہے۔بجائے اس کے کہ مجرموں کی مذمت کی جائے،انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے یا تو خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے یا ان کی حمایت کی جانے لگتی ہے،ذرا سوچیے کہ دولوگوں کو زندہ جلانا کوئی معمولی جرم نہیں ہے،لیکن ان مجرموں کو بچانے کے لیے ریلیاں ہورہی ہیں،سڑک جام کی جارہی ہیں،ان پر نہ کوئی NSAہے نہ میڈیا پر کوئی بحث نہ ان کے گھر کسی بلڈوزر کی زد میں ہیں۔دراصل جب مجرموں کی گل پوشی کی جانے لگے تو جرائم پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے۔بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کے بعد ان کا استقبال کیا گیا،اس سے پہلے مظفر نگر فسادمعاملے میں ایک وزیر کا پھولوں سے استقبال کیا گیا تھا۔یہ صورت حال صرف مسلمانوں کے لیے ہی نقصان دہ نہیں ہے۔بلکہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔بچہ جب گالی دینا سیکھ جاتا ہے تو اپنوں کو بھی دیتا ہے،کتا جب کاٹنے لگتا ہے تو مالک کو بھی کاٹ لیتا ہے۔
ایک واقعہ پنجاب میں ہوا۔ایک شخص کی گرفتاری پر پولس کو دھمکی دی گئی اور اس دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا۔پانچ سو پولس والوں کی موجودگی میں تھانے پر قبضہ کرلیا گیا،قبضہ کرنے والے ہتھیاروں سے لیس تھے،پھر پولس نے مجرم کو چھوڑ نے کا اعلان کر دیا۔یعنی عوامی دباؤ میں عدل کو طاق پر رکھ دیا گیا۔اس طرح تو جب اور جو چاہے گا اپنے مجرموں کو چھڑالے جائے گا۔یہ واقعہ ملک میں امن و قانون کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ان لوگوں نے خالصتانی تحریک کے حق میں نعرے لگائے،ملک کے وزیر اعظم،اور وزیر داخلہ کو غیر مناسب الفاظ کہے۔ان کی شان میں بدتمیزی کی،انھیں اندراگاندھی کا نام لے کر دھمکیاں دیں،پھر بھی میڈیا خاموش ہے،کوئی ایجنسی ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ نہیں چلا رہی ہے،کسی کی زبان پر مجرموں کا دھرم نہیں ہے۔اگر امرت پال کی جگہ محمد حسین ہوتا تو کیا ہوتا۔کیا تھانے پر قبضہ کرادیا جاتا یا لاشیں بچھا دی جاتیں؟،اگر کوئی مسلمان یہ کہتا کہ جب آپ ہندو راشٹر کی بات کرتے ہیں تو ہم اسلامی راشٹر کی بات کیوں نہیں کرسکتے تو کیا اب تک وہ آزاد گھوم رہا ہوتا؟
ایک واقعہ کرناٹک سے متعلق ہے،جہاں پرمود متالک نے کہا ہے کہ اگر مسلمان ایک ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے تو تم دس مسلمان لڑکیوں کو پھنساؤ،ہم ایسا کرنے والوں کو روزگار اور تحفظ دیں گے، پرمود متالک شری رام سینا کا صدر ہے۔اس نے یہ بیان ایک جم غفیر کے سامنے دیاہے،اس کی ریکارڈنگ موجود ہے۔اس سے پہلے بھی اس طرح کے بیانات آچکے ہیں،مسلم اقلیت کومارنے اور قتل کرنے کی دھمکیاں ملتی ہی رہتی ہیں،اس معاملے میں وزیر و کبیر سب شامل رہتے ہیں۔ہمیشہ کی طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش ہیں،ٹی وی چینل پر اس بیان پر کوئی بحث نہیں کرائی جارہی ہے،کسی ہندو دھارمک منچ سے اس کی مذمت نہیں کی گئی ہے۔
ذرا سوچیے اگر یہ ریت چل پڑی کہ عوام خود مجرموں کو سزا دینے لگ جائیں،انھیں جان سے ماردیں،ان کو زندہ جلادیں،حکمران مجرموں کی پشت پناہی کرنے لگیں،تھانوں پر قبضے کیے جانے لگیں،انتقاماً بہو بیٹیوں کی عزت سے کھلواڑ کیاجانے لگے تو ملک کا کیا حال ہوگا؟اگر میڈیا خاص طورپر الیکٹرانک میڈیا اسی طرح دوغلی پالیسی پر عمل پیرا رہے،جس پالیسی پر اس وقت چل رہا ہے،توعدل و انصاف کی آواز کہاں سے اٹھے گی؟ملک کے حکمرانوں کو سمجھنا چاہئے کہ دنیا میں کوئی ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا ہے،ایک دن ہر شخص کو دنیا چھوڑ کر جانا ہے،مرنے کے بعد اپنے کرموں کا حساب دینا ہے،ناانصافی کسی دھرم میں جائز نہیں ہے۔مجرم کو سزادینے کا اختیار ہمیشہ عدالت کا ہوتا ہے۔ملک لاء اینڈ آرڈر سے چلتا ہے،قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہئے۔کسی کے لیے بلڈوزر اور کسی کے لیے پھولوں کا ہار،کسی پر ملک سے غداری کے مقدمات اور کسی کی پشت پناہی،یہ رویہ ملک اور سماج کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close