مضامین

مسلمانان ہند کی ترقی کے لیے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا 22 نکاتی پروگرام

مسلمانان ہند کے لیے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا 22 نکاتی پروگرام
ذیل میں میرے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کا 22نکاتی پروگرام مسلمانان ہند کے لیے پیش ہے۔ اگر مسلما نان ہند نے ان اصولوں کو اپنایا، تو وہ بہت ترقی کرسکتے ہیں ۔
1۔ نماز اور جماعت کی حد درجہ پابندی کی جائے۔
2۔ہر محلہ اور بستی میں کوشش کی جائے کہ کوئی آدمی بے نمازی نہ رہ جائے۔
3۔شریعت کے جملہ امور میں پابندی کی جائے اور لوگوں کو پابند بنایا جائے۔
4۔تعلیم کو جس میں مذہبی ضروریات اور دنیادی لوازم ہوں، نہایت عموم کے ساتھ اشاعت دی جائے اور کم از کم بکثرت ابتدائی مکاتب قائم کیے جائیں ۔
5۔ بیاہ اور شادی کی فضول خرچیاں یک سر قلم بند کر دی جائیں اور ایسے قوانین و مراسم بیاہ شادی کے لیے بنائے جائیں، جن کے ادا کرنے میں ہر قوم اور ہر خاندان کے غریب سے سے غریب آدمی قرض دار نہ ہوں۔
6۔ غمی کے ایسے قوانین بنائے جائیں کہ ان میں قرض داری کی نوبت نہ آئے اور اسی طرح ختنہ وعقیقہ وغیرہ کے مصارف تقریباً با لکل بند کر دیے جائیں۔
7۔مقدمہ بازی اور اس کی فضول خرچیاں بند کر دی جائیں اور جہاں تک ہو سکے، ہر محلہ اور قوم کے درمیان فیصلہ کرا دیا کریں، یا صلح کرا دیں ۔
8۔لڑکیوں اور لڑکوں کو جلد بیاہ دیا جائے۔
9۔رانڈ (بیوہ) عورتوں کو حتی الوسع بلا شادی نہ چھوڑا جائے۔
10۔بچپن کی شادی ترک کر دی جائے۔
11۔ہر قسم کی تجارت کے شعبوں میں مسلمان مکمل حصہ لیں۔ کوئی شعبہ ایسا نہ رہے، جس میں مسلمانوں کی تجارت پورے پیمانہ پر نہ ہو۔
12۔مسلمان حضرات حتی الوسع کوشش کریں کہ وہ اپنی جیب کے پیسے سے مسلمانوں کو ہی نفع پہنچائیں اور ان ہی سے سامان خریدیں۔
13۔سودی قرضہ یک قلم بند کر دیں۔
14۔مسلمان حتی الوسع کوشش کریں کہ جو فنون سپہ گیری قانو نا جائز ہیں، ان میں پورے مشاق ہوں ۔
15۔مسلمانوں میں آپس کے اختلاف بالکل دور کر دیے جائیں اور مذہب کی حفاظت اور مسلمانوں کی کمزوری کو دورکرنے کے لیے باہم پورے متحد ہو جائیں ، خواہ اپنے کا اختلاف مذہبی ہو یا سیاسی، دنیا وی ہو یا دینی ، شخصی ہو یا قومی وغیرہ وغیرہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے عقائد مختلفہ کا ازالہ کر دیا جائے جو تقریبا ناممکن ہے؛ بلکہ اگر وہ دور نہ ہوسکیں، تو باوجود ان کے موجود ہونے کے آپس میں پورا اتفاق کر لیا جائے اور رواداری کو کام میں لایا جائے، تاکہ مسلمانوں کی کمزوری دور ہوجائے۔
16۔فضول جھگڑے اور ہنگا ہے نہ اٹھائے جائیں۔ اگر غیر مذاہب ایسی چیزوں میں جو کہ ہم کو مذہبا لڑائی اور جنگ پر مجبور نہیں کرتی ہیں، رواداری یا انصاف یا دل جوئی کا ثبوت نہ دیں تو ہم برسر پیکار نہ ہوں۔
17۔ اگر مذہب کی ضروریات میں جن پر جان دینا ضروری ہے کوئی غیر مذہب دخل دے، تو پوری اجتماعی اور اتحادی قوت کے ساتھ مدافعت کی جائے۔
18۔ چوں کہ اقوام غیر اشتعال دے کر عوام مسلمان کو ہر طرح کے ضرر پہنچاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات بھیس بدل کر اور غلط افواہوں کے ذریعہ سے عام مسلمانوں میں غم و غصہ اور ہنگامہ آرائی چھیاتے ہیں جیسا کہ کلکتہ اور دوسرے مقامات میں مشاہدہ ہوا ہے، اس لیے باقاعدہ ان میں ہر قسم کا انتظام کیا جائے اور ان کومنظم طریقہ پر کام کے لیے تیار کیا جائے۔
19۔ہر جگہ والنٹیرقائم کیے جائیں اور باقاعدہ ان میں ہر قسم کا انتظام کیا جائے۔
20۔ اگر غیرمسلم قوام مسلمانوں پر دست درازی کریں، تو حتی الوسع عفو،اور عالی حوصلگی سے کام لیا جائے ؛مگر اپنی قوت ہر جگہ ، ہر ضلع، ہر صوبہ میں مکمل طریقہ پر منظم ہو، اور جب تک سخت مجبوری لاحق نہ ہو، جنگ کو ظاہر نہ ہونے دیا جائے اور اپنی تنظیم ایسی کرلی جائے کہ غیر مرعوب ہو جائیں ۔
21۔ اسلام کی اشاعت میں پوری کوشش کی جائے اور نہایت مشفقانہ اور ناصحانہ طریقہ پر لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا جائے۔
22۔ جو لوگ مسلمانوں میں مشرکا نہ رسوم کے پابند ہیں اور ہندووں کے پڑوس کی وجہ سے قواعد اسلام میں کمزور ہیں، ان کو راہ راست پر لایا جائے اور نہایت نرمی اور محبت سے ان کو درست کیا جائے ۔
(ماخوذ از مدینۃ العلم) انفاس قدسیہ حضرت مدنی، ص؍232۔ از قلم : مفتی عزیز الرحمن صاحب بجنوری )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close