مضامین

مندر/مسجد کے نام سے سیاسی تقویت و توسیع

مولانا عبدالحمید نعمانی گڈاوی جھارکھنڈی

ملاحظات،
،
،
بھارت، مذہب/ دھرم کے تفوق والے ممالک میں شامل ہے، قدیم عہد سے اقتدار مذہب کو سیاسی اقتدار پر ترجیح و تفوق حاصل رہا ہے، جب اس کے برعکس ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ معاملہ گڑبڑ ہے اور سماج، اخلاقی و نظریاتی طور سے زوال کی طرف گامزن ہے، آج کی تاریخ میں فرقہ پرستی پر مبنی ہندوتو وادی سماج زبردست نظریاتی و اخلاقی بحران میں مبتلا ہے اس سے نکالنے کے لیے ہندوتو وادی عناصر شیو، رام، ہنومان، کرشن کے نام پر اکثریتی سماج کو بھرما، ورغلا کر مذہبی کرداروں کا بری طرح استحصال کر رہے ہیں غیر تاریخی ادوار کے کرداروں اور دیو مالائی علامتوں سے جوڑ کر سماج کو اخلاقی اعتبار سے اوپر اٹھانے کی کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، لیکن سیاسی تقویت و توسیع کے لیے ،سماج میں نفرت و تفریق پیدا کر کے اس کی غلط تقسیم کی تائید نہیں کی جا سکتی ہے، اور اس کا ،آدرش کے لحاظ کے پیش نظر کوئی جواز بھی نہیں ہے، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی جاری تعمیر اور بنے ہوئے حصے کے گربھ گرہ میں رام کی مورتی کی تنصیب اور اس میں پران ارپن ( جان ڈالنے کا عمل) کی تقریب، پران پرتشٹھا کی بے تحاشا تشہیر کر کے 2024 کے عام انتخابات میں سیاسی کامیابی اور فائدے کے لیے جذباتی استحصال کا جو سلسلہ جاری ہے، وہ دھرم کے تفوق و تقدس کو مجروح کرنے کا کام کر رہا ہے، اس سلسلے میں کیلاش، دوارکا، اور پوری کے شنکر آچاریوں نے اپنے موقف کے حساب سے جو تنقید و تبصرہ کیا ہے اسے بجا طور سے دھرم ستا( مذہبی اقتدار ) کی بالا تری کی سمت میں ایک اچھی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، اقتدار کے کھونٹے سے مذہبی طبقے کو باندھ کر اپنے سیاسی اقتدار و طاقت میں اضافہ کے لیے استعمال کرنا ملک کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے، رام کے نام کا استحصال کر کے رام مندر کی تعمیر کی تحریک میں شروع سے آخر تک فرقہ وارانہ تقسیم اور منفی جارحانہ ذہنیت کار فرما رہی ہے، کسی بھی عبادت گاہ کی مثبت و مقدس بنیاد کے بغیر، متنازعہ حیثیت میں کوئی زیادہ معنویت و فضیلت نہیں ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رام کے آدرش کے مطابق رام مندر بنانے میں پورا ہندوتو وادی سماج پوری طرح ناکام ہے ،اس پر ایک سیاسی شناخت والی شخصیت وزیر اعظم کی طرف سے پران پرتشٹھا تقریب کا افتتاح سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے بلکہ بچی کھچی مذہبی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی، ابھی رام مندر کی تعمیر مکمل بھی نہیں ہوئی ہے اس کے باوجود عجلت میں درمیان ہی میں پران پرتشٹھا تقریب کو انجام دینے کا مطلب بہت صاف ہے کہ ایک پارٹی اور فرقہ وارانہ شناخت والی تنظیموں کا پروگرام بنا کر سیاسی فوائد حاصل کیے جائیں، بھارت کی روایات اور معلوم تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاسی شناخت والی، برسر اقتدار پارٹی کی شخصیت نے پران پرتشٹھا تقریب کو انجام دیا ہو، یہ پہلی بار ہوگا کہ ہندستانی روایت و تہذیب کے برخلاف ایک آدرش شخصیت، رام کے نام پر بننے والے مندر میں تنصیب کی جانے والی مورتی میں پران ارپن کا فریضہ ایک خالص سیاسی شخصیت ادا کرے گی، ملک کے تمام باشندوں اور مذاہب کی مشترکہ ذمہ داری، وزارت عظمی وغیرہ کے منصب کے ساتھ ایک مخصوص کمیونٹی کی متنازعہ تقریب کی انجام دہی کا معاملہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے، اس کی نوعیت ایک سیکولر حکومت میں بہت حد تک اور بھی مختلف ہو جاتی ہے، غالبا اسی سبب سے اکثریتی سماج کے مذہبی طبقے کی ایک بڑی تعداد، رام مندر کے پران پرتشٹھا پروگرام میں، سیاسی اور فرقہ وارانہ شناخت والی تنظیموں/پارٹیوں کے کلیدی افراد کے بنیادی کردار میں ہونے کو نا پسند کرتے ہوئے اس کی کھلی مخالفت کر رہی ہے، ہم نے فدائے ملت مولانا اسعد مدنی رح اور مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر کیلاش، دوارکا کے شنکر آچاریہ سوامی سروپ نند مہاراج سے اتم شرما کے ہمراہ دہلی اور کنبھ میلے میں ملاقات کی تھی، انھوں نے ہم سے کہا تھا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی رام مندر معاملے میں سیدھی اور کھلی مداخلت و شمولیت ہمارے سماج کے لیے اچھی علامت نہیں ہے، اس سے دھرم سنکٹ پیدا ہو جائے گا، انھوں نے ہماری کئی باتوں کو سن کر کہا تھا کہ سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے، ہم نے کہا تھا کہ رام ،کرشن، شیو کے حوالے سے مسجد کے کردار کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ کے ججوں نے بابری مسجد کے حق میں تمام تر حقائق و شواہد ہونے کے باوجود جس طرح اکثریتی سماج کی مبینہ آستھا کا خیال کرتے ہوئے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا تھا اس کی شفافیت و صداقت کو لے کر وہ مطمئن نہیں تھے، غالبا اسی لیے انہوں نے فیصلے پر دستخط نہیں کیے ہیں، ججوں نے مندر فریق کے تمام تر بنیادی دعوے کو مسترد کر دیا تھا، رام مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کے بنیادی دعوے کو مسترد کر کے اصل حقیقت بتا دی ہے، مسجد کے لیے جگہ دے کر فیصلے کی حیثیت واضح کر دی ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مندر فریق کی اصولی و اخلاقی لحاظ سے بڑی ہار ہوئی ہے، ایسی حالت میں ہندستانی باشندوں کے مشترکہ حکمراں وزیر اعظم کے لیے اس طرح کے ایک کمیونٹی کے متنازعہ پروگرام میں شرکت کا کوئی جواز نہیں ہے، وزیر اعظم اور ایک کثیر الاشاعت ہندی کے اداریے میں اس کے مدیر کا یہ کہنا پوری طرح تاریخی حقیقت کے خلاف ہے کہ رام مندر، اکثریتی سماج کے پانچ، ساڑھے پانچ سو سال کے انتظار اور جد وجہد کا ثمرہ ہے، اس دعوے کو جہاں سپریم کورٹ نے پوری طرح مسترد کر دیا ہے وہیں تاریخی طور سے اس دعوے میں ذرا بھی دم نہیں ہے ،مندر/مسجد تنازعہ برٹش سامراج کے عہد بد کی پیداوار ہے، ہم نے مختلف مواقع پر مندر فریق کے نمائندوں اور سنگھ، بی جے پی اور ہندوتو وادی عناصر کے ترجمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کسی زبان، اردو، ہندی سنسکرت فارسی، اودھی کی تاریخ و روایت میں دکھا دیں کہ رام مندر کے لیے ہندوؤں نے پانچ ساڑھے پانچ سو سال انتظار اور جد وجہد کی ہے، لیکن وہ نہیں دکھا سکے، ہم نے تلسی داس کو اچھا خاصا پڑھا ہے، رام چرت مانس، ونے پتریکا، گیتا ولی، دوہا ولی، حتی کہ ان کی طرف منسوب ہنومان چالیسا، کسی میں بھی مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر اور رام جنم استھان پر عظیم الشان مندر ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے، تلسی داس، بابر کے بعد، عہد اکبر کے شاعر ہیں، ان کے علاوہ دیگر معاصر و بعد کے قریبی شعراء و ادبا۶ اور مصنفین میں سے کسی نے بھی رام مندر کے انہدام اور اس کی جگہ مسجد کی تعمیر کا نہ تو ذکر کیا ہے اور نہ ہی مندر کی بازیابی کے لیے جنگ اور جد وجہد کا کوئی حوالہ دیا ہے، جس طرح اسلامی نظریات و روایات میں مسجدحرام، مسجد اقصی، مسجد نبوی کی اہمیت و فضیلت اور خصوصیات کی تفصیلات ہیں اس طرح ہندو روایات میں رام مندر کی فضیلت و اہمیت کا، رام چندر کے عہد تریتا یگ سے چودھویں صدی تک پورے بھارت میں رام مندر کے متعلق کسی خاص معنویت و فضیلت کا کوئی واضح ذکر نہیں ملتا ہے، والمیکی رامائن میں کس خاص مندر کا بھی ذکر نہیں ہے، برٹش دور کی مفروضہ کہانیوں کو تاریخ کی حیثیت و درجہ دینے کی کوششوں کی حقیقت کو جاننا، سمجھنا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے، شیو، رام، کرشن، ہنومان کے کئی کردار ہندستانی سماج کے لیے آدرش کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ہندو کردار کے طور پر پیش کرنا، ان کو چھوٹا کرنے اور محدود کر کے اپنے سیاسی مقاصد سے نتھی کرنے کی مذموم کوشش ہے، مسلم سماج کے بزرگان دین، علماء و صوفیاء نے رام، کرشن گوتم بودھ وغیرہم کو سماجی رہ نمائی کے حوالے سے ایک بہتر شبیہ و کردار میں دیکھا اور پیش کیا ہے، اس تعلق سے دارالعلوم دیوبند کے درجات تکمیلات کے کورس میں شامل کتاب ہندو ازم، تعارف و مطالعہ میں مختلف حوالے ہیں، اس جہت سے رام، کرشن وغیرہ کو ہندستانی روایات کے کردار کے بجائے ہندو کرداروں کے طور پر پیش کرنا دیانت دارانہ عمل قرار نہیں پا سکتا ہے، مرزا مظہر جان جاں رح اور امام مولانا محمد قاسم نانوتوی رح وغیرہ نے رام، کرشن وغیرہ کو بالکل الگ رنگ میں دیکھا ہے، اسی کے قریب قریب آریا سماج نے دیکھا، سمجھا ہے، اس کے شواہد والمیکی رامائن میں وافر مقدار و تعداد میں موجود ہیں، اس کے بہت سے ایسے پہلو اور جہات ہیں جن پر سنجیدہ و معقول طریقے پر سوچنے کی ضرورت ہے، اس کے بجائے مراکز عقیدت و عبادت، مندر/مسجد اور معروف شخصیات کو سیاسی مقاصد کی تقویت و توسیع کے لیے استعمال کرنا سماج میں قائم آدرش کے ساتھ بڑی زیادتی اور ناانصافی ہوگی، شیو سینا کے لیڈر سنجے راوت اور معروف دلت لیڈر ادت راج ،جب یہ کہہ رہے ہیں کہ اب بھگوان رام کو امید وار بنا دینے کا اعلان باقی ہے اور پانچ سو کے بعد دوبارہ منو واد کی واپسی ہو رہی ہے تو بات کو تہہ میں جا کر سمجھنے کی ضرورت سوا ہو جاتی ہے،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close