مضامین

تب خاک کے پردے سے ’اَسرار،نکلتے ہیں

جناب ڈاکٹرراحتؔ مظاہری صاحب، جنرل سکریٹری مولاناآزادایجوکیشنل اینڈمیڈیکل آرگنائیزیشن

سرسیدبہارحضرت مولانااسرارلحق قاسمی کی وفات ،سال2018کے ان متوفی اساطین علم وفن ، رہنما، ادیبوں اورصاحب قلم حضرات کی فہرست میں مزیداضافہ ہے جن کے قلم، شعروادب، فہم وفراست اوران کی خدادصلاحیتوں پراہل بصیرت نیزقوم مسلم کونازتھایعنی مرحوم حضرت مولاناقاری مبین احمد(داماد، خلیفہ ومجاز،حضرت شاہ وصی اللہ الٰہ آبادی)مولانا حیات اللہ قاسمی(مہتمم نورالعلوم بہرائچ،صدرجمیعۃ علمائے یوپی)، مولاناصادق علی صادق ؔ بستوی،قاسمی(مدیرنقوش حیات ،مصنف وشاعر’داعی اسلام، منظوم ،غیرمنقوط)حضرت مولانااسرالحق قاسمی،صوبہ بہارکے باشندے، ازہرہنددارلعلوم دیوبند سے فاضل، جمعیۃ علمائے ہند کے سابق جنرل سکریٹری،مشہور صاحب قلم ،کالم نگار،مفکرومدبر،ہردل عزیزرہنما،مقبول عوام وخواص مقرر،صاحب بصیرت شخصیت، اپنے مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ،علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے کورٹ ،ایک صوفی مشرب ،عوامی خدمت گار،ملی کونسل کے سابق سکریٹری، ماہرتعلیم اورآل انڈیاملّی وتعلیمی فاؤنڈیشن کے بانی، ڈائریکٹرتھے،جن کی وفات سے یقینی طورپر مذکورہ مزاج وصفات کے حاملین اہل نظر اورصاحب فکرحلقوں میں ایک افسردگی اورمایوسی چھائی ہوئی ہے، امیدکی جاتی ہے کہ مرحوم کی ملّی خدمات کوبہت دنوں تک یادرکھاجائے گا۔
مولاناکی پیدائش ضلع کشن گنج کے ایک متوسط گھرانے میں /5 فروری 1942کوہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے علاقے اورفراغت 1964میں ازہرہنددارالعلوم دیوبند سے پائی، اگلے سال /16مئی1965کوشادی کردی گئی، فراغت کے بعد آپ اپنے بزرگوں اوراساتذہ کی روایت پربیگوسرائے (بہار )کے ایک مدرسہ میں درس وتدریس کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔جمعیۃ علمائے ہندکے صدرمحترم فدائے ملّت حضرت مولانااسعدمدنی ( مرحوم) کی جوہرشناس نظرنے اس گوہرتاب میں چھپے کمالات کوبھانپا،وہاں سے لاکرجمیعۃ علمائے ہند میں سکریٹری کے منصب پرفائزکردیا، چونکہ موصوف فطرتاََ کام کے دھنی ،نہایت مخلص ومحنتی تھے اس لئے اکابر کی نظرمیں چڑھتے رہے اورایک روزجمعیۃ علمائے ہندکے پروقار اوراعلیٰ عہدے ناظم عمومی کے شرف سے نوازدئے گئے ، اسی طرح کم وبیش /22برس کی طویل مدت تک آپ جمعیۃ کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے اکابرکی اس یادگاری تنظیم سے وابستہ رہے،کچھ مجبوریوں کی بناپرآپ اپنے چندرفقائے کارکے ہمراہ جمعیۃ سے مستعفی ہوگئے مگرجمعیۃ کے وقار کی حفاظت کی غرض سے ان حضرات نے استعفیٰ نامہ کوعوام کی نظروں سے بچاکر استعفیٰ صدرمحترم کودفترمیں نہ پیش کرکے موصوف کے غیرملکی دورے سے واپسی پردہلی ائیرپورٹ پرجاکرپیش کیا،مگر اس کے بعدکہاں جائیں ان کے پاس متبادل کے طورپرنہ کوئی جگہ قیام کے لئے تھی اورنہ ہی طعام کاکوئی انتظامنہ کوئی ایسااثاثہ یاذخیرہ پاس تھاجس سے زندگی کی گاڑی کھینچی جائے، اس لئے ایئرپورٹ سے لوٹ کرپرانی دہلی ریلوے اسٹیشن پرآکربیٹھ گئے، لال کنواں دہلی کے ایک متوسط گھرانے کے شناسانے ان حضرات کوکئی گھنٹے وہاں بیٹھادیکھاتوماجراسناکروہ ان حضرات کو اپنے گھرلے آئے، جہاںیہ لوگ پانچ، چھ روزتک روپوش رہے اورمیڈیاوالے تلاش کرکرکے تھک چکے تھے کہ جمعیۃ علمائے ہندسے جن چھ، سات لوگوں نے استعفیٰ دیاہے وہ کہاں ہیں اوراستعفیٰ کیوں دیاگیاہے؟پھریہاں سے یہ قافلہ مرکزی جمعیۃ علمائے کے بانی حضرت مولانافُضیل احمدقاسمی(مرحوم) کی معیت میں چندروزتک پنج پیراں میں مقیم رہا۔
چونکہ آپ اپنے فرائض کی ادائیگی میں نہایت محنتی اورمخلص واقع ہوئے تھے اس لئے فقیہ ملّت مولاناقاضی مجاہد الاسلام (مرحوم) نے آپ کوملّی کونسل کے سکریٹری کے عہدہ کے لئے منتخب کرلیا، آپ نے اس پلیٹ فارم سے بھی کئی سال تک قوم کی خدمت انجام دی،جب آپ کوقوم کے لئے کام کرتے کرتے کئی سال اورمتعددتجربات ہوگئے،کام کے طویل تجربہ کی بنیادپربہت سے ایسے خیالات ورجحانات آپ کے دل دماغ جنم لیتے تھے جن پران اداروں کے اصول وضوابط اوربندشیں سدراہ تھیں اس لئے آپ اپنے کچھ قریبی مشیروں کے ایماپر ’آل انڈیاملی وتعلیمی فاؤنڈیشن ، کی بنیادڈالی ، آج الحمدللہ جس کے تحت کئی تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں ان میں’ملّی گرلس کالج(تعلیم آباد، ٹَپواکانٹا،کشن گنج) اقامتی ادارہ ہے، جس میں اس وقت 500لڑکیاں زیرتعلیم ہیں،جہاں عصری علوم کے ساتھ مع صوم وصلاۃ ان کی مذہبی نشونمابھی جاری ہے،جامعہ صفہ( ٹَپواکانٹا)جہاں خالص قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے،جامعہ اخلاقیہ پوجاکالونی ،(غازی آباد)یہاں بھی حفظ قرآن کریم ودینیات کی تعلیم کابندوبست ہے، دار العلوم اسراریہ(سنتوش پور، کولکتا)یہاں کولکتااورنواحی علاقے کے مسلم نونہالوں کے لئے فاؤنڈیشن کے سکریٹری مولانانوشیرکی مخصوص نگرانی میں قرآن کریم اوردینیات کی تعلیم کاخاص نظم ہے۔
کشن گنج (بہار)میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کاسینٹرجوکہ224ایکڑ(91ہیکٹر)زمین پرپھیلاہواہے، وہ بھی مرحوم کی آخری دسیوں برس کی شبانہ روزکی تگ ودوکاہی ثمرہ ہے،اس کے علاوہ ان کا میدان عمل خانہائے خداکی تعمیر وتزئین بھی رہاہے جن میں ایک سوسے زاید مساجدکی نئی تعمیرات اورتقریباََ200 مسجدوں کی مرمت وتزئین کاری شامل ہے۔
آپ نے بطورخاص اپنے پسماندہ علاقے سیمانچل کی تعلیم وترقی پرخاص زوردیاکیونکہ وہاں ابھی تک نہ توکوئی علم کاچراغ تھااورنہ ہی کاروباریاباشندوں میں خوشخالی ، بلکہ وہ ایک ایساسیلاب زدہ علاقہ ہے جہاں کے باشندوں کی زندگی پانی کے سیلاب وطوفان سے نہایت غیرمحفوظ ہے، جس کی گُہار آپ نے حکومت، اپنے ساتھی ممبران پارلیمنٹ اور اپنی پارٹی لیڈرمحترمہ سونیاگاندھی سے بھی بارہالگائی ہے۔
آپ دوبارکشن گنج سیٹ سے ممبرپارلیمنٹ چنے گئے اوردوبارہ میں توپہلی بارکے مقابلے زیادہ مقبول ہوکر ابھرے حدیہ ہے کہ بہارکی حکمراں پارٹی کے ممبر،سابق ایم ایل اے، وزیراعلیٰ نیتش کمارکے قریبی نوجوان امیدوارجناب اخترالایمان ٹکٹ لینے کے بعد بھی آپ کے حق میں الیکشن سے دست بردارہوگئے جواُن کاایک بہت بڑاکارنامہ ،قربانی ،اورعنداللہ عندالناس مولاناکی مقبولیت کی کھلی نشانی تھی۔
اسی طرح جب کشن گنج واطراف میں دوسال پہلے زبردست تباہ کن سیلاب آیاتومولانانے رات دن ایک کردیااورمستقل کشن گنج ہی میں مہینوں ڈیرہ ڈالے رکھاتاکہ وہاں کے افراد اورانتظامیہ سست نہ پڑجائیں جس کااعتراف خود وزیراعلیٰ بہارنتیش کمارنے بھی مولاناکے گھرآکر اپنے تعزیتی سفرمیں ان کے وارثین سے کیاہے۔مولاناکی کسرنفسی ، غربت اورسادگی کایہ عالم کہ اتنی تنظیموں سے وابستہ رہے ، فاؤنڈیشن کوعدم سے آسمان پرپہنچادیامگراپنی کمائی سے اپنے مکان کی مرمت بھی نہ کراسکے ایم پی بننے کے تین سال بعد تک دہلی کالوکل سفرآٹوسے اورباہرکاکرایہ کی گاڑیوں سے کرتے رہے، ہریانہ کے ایک لالہ کاکوئی پڑا،کام ہونے کے بعدبھی وہ لالہ جی آپ سے ملتے جلتے رہے ، ایک روزمعلوم ہواکہ مولاناکرائے کی گاڑیوں سے سفرکرتے ہیں تولگ بھگ تین سال تک انھوں نے پانی کاردیئے رکھی۔
مولانا کے مزاج میں سنت نبویﷺ کے اتباع میں میں نہایت سادگی، خوش اخلاقی، ملنساری، تواضع اتنی زیادہ تھی کہ ہرایک گانہ وبیگانہ اپنے کوان کے زیادہ قریب سمجھنے لگتاتھا،البتہ مولاناکی تمام ترقربانیوں اورخدمات کے اعتراف کے باوجودا ن پرایک ایسانازک وقت بھی آیاکہ قوم نے اپنی روایتی جلدبازی اوربے صبری کامظاہرہ کرتے ہوئے موصوف کی تما م قربانیوں کونظرانداز کرتے ہوئے ان پرطعن وتشنیع کے تیرونشتر چلادئے، یعنی مودی حکومت کی طرف سے’ تین طلاق بل،پیش کئے جانے پر لوک سبھامیں کانگریس نے ایس چُپّی سادھی کہ مولاناکوبھی بولنے کی اجازت نہیں ملی، بل کی مخالفت میں مولاناکی خاموشی اوربیرسٹرصلاح الدین اویسی کی مذکورہ بل کی مخالفت میں شیرببرکی طرح دہاڑ،پارلیمینٹ میں کھل کر بِل کی مخالفت اوراپنی روایتی شعلہ بارتقریرسے بیرسٹرصاحب قوم کی نظروں میں چڑھ گئے، جبکہ /21مسلم پارلیمنٹ میں سے اس ناز ک گھڑی میں فردواحد اویسی ہی کی تقریرنے ہندوستان مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی اورباقی سب کی طرف سے مایوسی رہی، مگرپارٹی کی پالیسی پر مولانا مرحوم ایوان میں اپنی نشست پرماہی بے آب کی طرح تڑپتے ،تلملاتے اورپچھتاتے رہے، آخر اگلے دن آپ نے پریس کانفرنس بلائی ،بالمشافہ ہائی کمان اورکانگریسی مسلم ممبران پارلیمنٹ کومتنبہ کردیا’خبردار!اگرراجیہ سبھامیں کانگریس نے طلاق بل کی مخالفت میں کوئی کسرکی تومیں پارٹی سے استعفیٰ دے دوں گا، جس کے بعدکانگریس نے ہوش کے ناخن لئے اوروہ بل راجیہ سبھامیں چاروں خانے چت کرگیا۔
اسی کے ساتھ چونکہ مولاناایک باعمل عالم دین اورطبعی طورپرصالح مزاج انسان تھے،صوفی مزاج تھے، اس لئے وہ شروع میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒ (سابق ناظم مظاہرعلوم سہارنپور)سے بیعت ہوئے، مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعدآپ ؒ نے (احقرکے بھی مرشدثانی) شیخ طریقت حضرت مولاناقمرالزماں صاحب الٰہ آبادی (حفظہ اللہ)کی طرف رجوع فرمایاحضرت موصوف نے بھی حضرت فقیہہ الاسلام کی طرح مرحوم کوخلعت وخلافت سے نوازا تھا، ؂جو لائق عزت ہوتاہے ہرحال میں عزت ہوتی ہے ۔
اس طبعی درویش کے رہن سہن اوربودوباش میں کبھی کوئی عہدہ ومنصب بھی ذرہ بھر فرق نہ لاسکا،نہ ہی پارلیمنٹ کی ممبری بلکہ وہ درویش تھے اور اپنی اسی درویشی وقلندری صفت کے ساتھ /7دسمبر2018کوجمعرات اورجمعہ کی درمیانی شب میں ایک مذہبی جلسہ میں تقریر کے بعدواصل بحق ہوگئے،اناللہ۔
حضرت مولانااسرارالحق صاحب نے اپنے ہزارہالاکھوں عقیدت مندوں کے علاوہ وارثین میں تین صاحبزادے جناب محمدسہیل،جناب سعود عالم ، جناب محمدفہداوردوصاحبزادیاں چھوڑی ہیں ماشاء اللہ سبھی حضرات خوش خلقی،نیک طبعی میں اپنے باپ کانمونہ اورشادی شدہ ہیں
اہلیہ محترمہ پہلے ہی /9جولائی2012کوانتقال فرماچکی ہیں،حضرت والا اپنے دیرینہ معمولات کے مطابق تہجد کے لئے وضوسے فارغ ہوئے ،قبل نمازتہجد دل میں تکلیف محسوس کی ،گارڈسے ڈاکٹرکے یہاں لے چلنے کو فرمایامگرجب تکلیف زیادہ بڑھتی دیکھی توخودہی اس سے فرمایا’’مجھے اب کہیں مت لے چلومیں اپنے رب کے پاس جارہاہوں اورمیری جوغلطی ہوتم بھی معاف کردینااوردوسرے لوگوں سے بھی کہدینامجھے سب معاف کردیں،،
عمربھرکی بے قراری کوقرارآہی گیا۔
میں اس وقت مرحوم میرتقی میرؔ کے مشہور زمانہ شعرکوتھوڑی ترمیم کے ساتھ لکھتاہوں
مت سہل ہمیں جانو، پھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے ’اَسرار،نکلتے ہیں

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close