مضامین

آآآآآہ آم والے حاجی صاحب

حاجی نور الحسن صاحب 17 رمضان 1444 مطابق 9 اپریل 2023 کو ایک مختصر علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔ خبر سن کر بہت افسوس ہوا۔ دارالعلوم دیوبند کی طالب علمانہ زندگی میں حضرت سے آشنائی کی سعادت ملی تھی۔ انتقال کی خبر کی سماعت نے شناسائیت کی 17 سالہ یادوں کو مضطرب و ملتہب کردیا۔ مصروفیات کی وجہ سے انھیں لفظوں کو جسم نہیں دے پارہا ہوں،ان کی زندگی میں ہی یہ تحریر لکھی تھی، سردست اسی کو مکرر اشاعت کی جارہی ہے۔ سبھی سے حضرت کی مغفرت کے لیے دعا کی درخواست ہے

محمد یاسین جہازی 9891737350

تاریخ شاہد عدل ہے کہ ہندستان میں اسلام کی نیو اگرچہ تاجروں کے ہاتھوں رکھی گئی، لیکن مسلمانوں کو مسلمان بنانے اور ان کی اخلاقی و دینی تربیت اور روحانی تزکیہ خاک نشیں علما و صلحا، صاحب کشف و کرامات بزرگوں اور اولیا اللہ نے کی۔ یہ صحرا نشیں اولیا ئے دین ہی کی نگاہ مومنانہ کا کرشمہ تھا کہ جن پر ان کی مشفقانہ نگاہ پڑجاتی تھی، ان کی زندگیاں بدل جاتی تھیں، ان کے ایمان و اعتقاد میں انقلاب برپا ہوجاتا تھا، ان کی عبادتیں رسمی حرکات سے نکل کر احسانی کیفیات کا عملی نمونہ اور پیکر مجسم بن جایا کرتی تھیں۔ پھر وہ شخص کسی کے اقتدا کے بجائے خود لاکھوں لوگوں کے لیے مرجع رشد و ہدایت ہوتا تھا۔ اس کی ذات بے شمار افراد کے دینی، اخلاقی اور روحانی تربیت و تزکیہ کا مرکزبن جایا کرتی تھی۔ بیعت و ارشاد کے جتنے بھی سلسلے ہیں، وہ سب کے سب اسی مشن کے حامی تھے کہ انسانوں کی عبادتیں رسمیات سے نکل کر احسانیات کے پیکر میں ڈھل جائیں۔وہ جو بھی اعمال بجالائیں، وہ محض ایک رسم بن کر نہ رہ جائے، بلکہ وہ جو کچھ بھی کریں، مشاہدہئ حق ان کے پیش نظر ہو۔ اور اگر یہ مقام حاصل نہ کرسکیں، تو کم از کم یہ یقین تو پیدا ہی کرلیں کہ اللہ تو ضرور ہی دیکھ رہا ہے۔ ہندستان میں اس مشن کے کئی سلسلے ہیں، اور ان سلسلوں سے جڑے سینکڑوں اولیائے کرام ہیں، جنھوں نے اپنے اپنے طور پر امت کی صلاح و فلاح اور رشد وہدایت کا کام انجام دیا، ان میں جہاں خواجہ معین الدین اجمیری،خواجہ نظام الدین اولیا، خواجہ صابر کلیری، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی محمود حسن دیوبندی اور دیگر اکابر کے نام نمایاں ہیں، تووہیں ان کے خلفااور مریدین میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا صفی اللہ، قاری صدیق احمد باندوی، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی، مولانا ابوالحسن ندوی اور مولانا اسعد مدنی رحمھم اللہ وغیرہ کے نام بھی کافی اہم ہیں۔ اسی سلسلہ سے وابستہ ایک نمایاں نام جناب حاجی نور الحسن مد ظلہ العالی کا ہے۔ ان کی زندگی، زندگی کا ہر عمل، گفتار، کردار، اخلاق، عادات، اطوار، معاملات اور ان کی ہر ادا بزرگوں کی یاد دلاتی ہے، ان کے نورانی چہرے پر کچھ ایسی قدرتی کشش ہے کہ جس کسی کی نظر پڑجاتی ہے، وہی آپ کا شیدا اور دیوانہ بن جاتا ہے۔ان کی فراست ایمانی متجسس و متذبذب دلوں کو ڈھونڈھ لیتی ہے۔ ان کی مومنانہ نگاہ کرم سے نہ جانے کتنے بندگان خدا کی قسمت سنور گئی، ان کی زندگیوں میں انقلاب آگیا اور گمراہی و ضلالت کے راستے سے نکل کر فلاح و ہدایت کے سچے پیکر بن گئے۔ آج کی تحریر میں اسی ہستی کے کچھ پہلو کا تذکرہ پیش نظر ہے۔
تعارف
آپ کا اسم گرامی نور الحسن ہے۔ حاجی صاحب کا لقب زبان زد خاص وعام ہے۔ بہار کے ضلع مدھوبنی کاگاوں ستگھراآپ کی جائے پیدائش ہے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت گاوں ہی کے مکتب میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے لکھنو کا رخ کیا اور مدرسہ فرقانیہ لکھنو سے حفظ کی تکمیل کی۔ آپ بچپن ہی سے انتہائی شریف الطبع واقع ہوئے تھے، لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ سے آپ کو سخت نفرت تھی،صغر سنی سے ہی تصوف کی طرف میلان تھا، اس لیے مولوی کی روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بجائے تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہوئے، سلوک و تصوف کی طرف قدم بڑھایا اور بڑھاتے چلے گئے اور اتنے آگے نکل گئے کہ پیچھے مڑکر دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس بات کا بھی موقع نہیں ملا کہ باقی درسی تعلیم کی تکمیل کرلیں۔
بیعت و اجازت
آپ بیعت و اجازت کے کئی سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آ پ کو مولانا انعام الحسن کاندھلوی ؒ سے بھی استفادہ کا موقع ملا اور مولانا ابوالحسن ندوی ؒ کے بھی خوشہ چیں رہے۔ مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی ؒ سے بھی فیض یافتہ ہیں اور مولانا صفی اللہ الٰہ بادی کے بھی منظور نظر رہے۔ ان بزرگوں کی تربیت و تزکیہ نے آپ کو کندن بنادیا۔
بدیس میں، دیس میں
آپ تین سال تک مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں مقیم رہے اور روحانیت کے مدارج طے کرتے رہے۔ وہاں کے صوفی منش علمائے کرام سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ حرم کے سایہ میں مولانا سعد صاحب نور اللہ مرقدہ، مولانا انعام الحسن کاندھلوی اور مولانا ابوالحسن ندوی ؒ بیٹھے ہوئے تھے، اسی محفل میں آپ کے بارے میں ان بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب آپ مکہ معظمہ سے ہندستان کا رخ کریں، وہاں آپ کی سخت ضرورت ہے۔ ہندستان کی امت سخت پیاسی ہے، وہاں لوگوں کی ہدایت و فلاح کا کام آپ کو سونپا جاتا ہے۔ چنانچہ بزرگوں کے فیصلے کو سر آنکھوں لیتے ہوئے آپ نے یہاں کا رخ کیا اور تب سے مختلف سطح پر ہند کی امت مسلمہ کی صلاح و ہدایت میں مصروف عمل ہیں۔
مسلسل سفر، سفر در سفر
مسلسل سفر، سفر در سفر آپ کی شان امتیازی ہے۔ امت کی گمراہی آپ کوایک پل بھی ایک جگہ چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، کبھی یہاں کا سفر، کبھی وہاں کا سفر، کبھی ادھر جانا، کبھی ادھر آناآپ کے اصلاحی مشن کا اہم حصہ ہے۔ عموما بزرگوں کے احوال میں یہ لکھا ملتا ہے کہ اپنی خانقاہ میں جلوہ افروز رہتے ہیں اور مریدین کا تزکیہ فرماتے رہتے ہیں۔ اگرچہ حضرت کی بھی ایک خانقاہ ہے، جس کا نام مولانا ابرارالحق ہردوئیؒ کے دعوتی مشن کے نام پر ”خانقاہ دعوت الحق“ ہے، لیکن حضرت کا ماننا ہے کہ اصلاح و ہدایت کے اس مخصوص دائرے سے نکل کر بھی کام کرنا چاہیے، تاکہ پتہ چلے کہ امت مسلمہ کے عام طبقہ کی دینی حالت کیا ہے اور اس کی اصلاح و ہدایت کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہیے، یہی وقت اور زمانے کا تقاضا ہے۔ آج دین کے تعلق سے لوگوں کی یہ پوزیشن ہوگئی ہے کہ وہ پیاسے ہیں،؛لیکن انھیں پیاس کا احساس نہیں ہے۔ آج علما کو اس پہلو پرتوجہ دینا ضروری ہے کہ پہلے عوام الناس کو دینی پیاس کا احساس دلائے اور پھر ان کی پیاس بجھانے کا انتظام کرے۔ یہ انتظام چہاردیواری تک محدود نہ رہے۔ آج کے دور میں اس بات کا انتظار بالکل لایعنی ہے کہ لوگ آپ کے پاس اپنی ہدایت کے لیے آئیں گے؛ بلکہ تبلیغ و ہدایت کا صحیح فرض اسی وقت ادا ہوگا، جب ہم خود چل کر ان کے پاس پہنچیں گے اور ان کو احساس دلائیں گے کہ آپ پیاسے ہیں، آپ کو آب ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔ اسی لیے حضرت کا یہ خاص امتیاز ہے کہ آپ ہر وقت سفر میں رہتے ہیں، کبھی یہاں رہتے ہیں۔کبھی وہاں رہتے ہیں۔
شان کرم و سخا اور بزم سجاد
۵-۴۰۰۲ء کی بات ہے۔ راقم دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث شریف کا طالب علم تھا۔ اسی سال تین صوبوں: بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ اور ایک ملک:نیپال کی مشترک انجمن ”بزم سجاد“ کا صدر تھا۔ اس کے سالانہ اخراجات تقریبا پچاس ہزار کے قریب تھے، جو تمام کے تمام ممبری فیس اور مہمانان کرام کی توجہ و عنایت سے پورے ہوتے تھے، لیکن اس سال قدرت کا کچھ کرنا ایسا ہوا کہ مذکورہ اخراجات کا نصف بھی آمد نہ ہوسکی۔ سالانہ مسابقتی اور اختتامی پروگرام کا وقت آپہنچا تھا۔ راقم اور دیگر ذمہ دار کافی پریشان تھے کہ آخر اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔ایک دن نائب صدر مفتی شہزاد قاسمی مظفر پوری راقم کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ چلیے حاجی صاحب بلا رہے ہیں۔ میں تفصیل معلوم کیے بغیر ان کے ساتھ چل دیا۔ وہ ہمیں مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند لے کر آئے اور مذکورہ عہدے کے ساتھ ہمارا تعارف کراتے ہوئے آں حضرت کے سامنے پیش کردیا۔ حضرت کا پہلا جملہ تھا کہ لاؤ بھائی پہلے صدر صاحب کو آم کھلاو۔ المختصر دیگر تمام رسمی و لازمی گفتگو ہونے کے بعد دعا کی درخواست کے پیش نظر میں نے حضرت کو انجمن کے حالات بتائے، تو حضرت نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اب میں آگیا ہوں تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ وہ تمام مسائل اس طرح حل ہوئے کہ اس کے دو تین روز بعد حضرت نے مجھے طلب کیا اور اخرجات کی تفصیل پیش کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میں نے مسابقتی و اختتامی پروگرام کے حوالے سے جتنے اخراجات تھے، وہ سارے پیش کردیے، جن میں انعامات، پروگرام اور ضیافت کے اخراجات تھے۔ حضرت وہاں سے کسی انجان سفر پر روانہ ہوگئے۔ اور بالکل لاپتہ ہوگئے۔ حضرت کی تسلی آمیز باتوں سے ہم لوگ بالکل مطمئن تھے، لیکن جب پروگرام میں کچھ ہی دن باقی رہ گئے اور حضرت کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں ہیں اور دوبارہ کب تشریف لائیں گے، تو ہماری پریشانیوں اور حیرانیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم لوگ یہ یقین کرچکے تھے کہ ہمیں طفلی تسلی دی گئی۔ آگے پروگرام کا دباو، اخراجات کی رقم نہ ہونے کی فکر،بدنامی کا خدشہ اور ان سب سے بڑھ کر کسی اجنبی کی باتوں پر یقین کرکے تیاریوں سے بے فکر ہوجانے کی حماقت پرآنسو بہا رہے تھے۔ اب اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ سارازور صرف کرکے تیاریوں کی تکمیل کی جاسکے۔ المختصر حیرانگی و سراسیمگی کے اس عالم میں محو اضطراب تھے کہ پروگرام سے ٹھیک دو دن پہلے حضرت آچانک تشریف لے آئے۔
ہم نے تقریری و تحریری اول، دوم، سوم پوزیشن اور تشجیعی انعامات کے لیے چند کتابوں کی فہرست پیش کی تھی، لیکن حضرت ایک ٹرک کتابیں لے کر آئے۔ انعامات کے مستحقین میں تقسیم کے علاوہ کچھ کتابیں ”سجاد لائبریری“ کو وقف کی گئیں، کچھ دیگر انجمنوں کو حوالے گئیں اور کچھ مظاہرالعلوم سہارنپور بھیجی گئیں۔ مالیت کے اعتبار سے لاکھوں سے متجاوزکی کتابیں تھیں۔ اور صرف کتابی اخراجات تک معاملہ نہیں رہا، بلکہ پروگرام سے ایک دن پہلے ہی سے دفتر سجاد لائبریری میں دعوت عام رکھا گیا اور ہر کسی آنے جانے والے کو آم کھلایا گیا۔ حضرت نے اس موقع سے اتنے دل کھول کر خرچ کیے کہ دیکھنے والے کو رشک آتااور یہ اعتراف کرتا کہ بڑے بڑے مالداروں کو دیکھا ہے، مگر حضرت کے خرچ کا جو عالم اور کیفیت ہے، اس کی شان ہی کچھ اور ہے۔حضرت نے صرف انھیں اخراجات کی تکمیل نہیں فرمائی؛ بلکہ سالوں کے بجلی بل، بورڈ، دفتر کی مرمت اور دیگر تمام ضروری اشیا بہم پہنچائی۔ علاوہ ازیں ضیافتی اشیا: دسترخوان، پیالیاں، پلیٹیں وغیرہ اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کی خرید کر لائبریری کو وقف کیں۔ یقینا یہ بزم سجاد کے لیے تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اتنی ہمدرد اور اتنی بہی خواہ شخصیت نے اس کے دفتر میں اپنا قدم مبارک رکھا تھا جن کے قدم رنجہ فرمانے سے اس کی رونق میں دوبالگی اور اس کے حسن میں چار چاند لگ گیا تھا۔
آم والے حاجی جی
آپ کی شان فیاضی کچھ اس طرح ہے کہ دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پیسے آپ کی جیب میں چبھتے ہوں۔ آپ دونوں ہاتھ واکرکے دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ اسی سال جب آپ پہلی مرتبہ دیوبند کی مقدس سرزمین پر جلوہ افروز ہوئے تھے اور آم کا موسم تھا، اتنی کثرت سے آپ نے طلبہ اور شہریوں کو آم کھلایاکہ آپ کا لقب ہی پڑگیا ”آم والے حاجی جی“۔ آپ مسجد قدیم یا مسجد رشید نماز کے لیے تشریف لے جاتے، تو راستے میں جو بھی ٹھیلہ والا آم بیچتا نظر آتا، توآپ یہ کہتے کہ بھائی سب کا سب تولو۔ چنانچہ ٹھیلے والے بھی آپ کی آمد کے منتظر رہتے اور جوں ہی ان کی نظر آپ پر پڑتی، فورا آپ کے کہے بغیر بھاو تاو اور ناپ تول کی باتیں کرنے لگتے۔ گویاان کو یقین ہوگیا تھا کہ حضرت کے قدم جب یہاں پڑے ہیں تو ضرور ٹھیلے کے سارے آم خرید لیں گے۔ ہفتوں آپ کا قیام وہاں رہا، لیکن آپ کے فیاضی کے اس عمل میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ حتی کہ بزم سجاد کے اختتامی پروگرام کے موقع پر آپ کا یہ کہنا تھا کہ دارالحدیث تحتانی میں -جس میں بیک وقت ہزاروں سامعین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور پروگرام میں شریک رہتے ہیں – موجود تمام سامعین کو آم کھلایا جائے، لیکن انتظامی امور کے پیش نظر اس ارادے کو ملتوی کرنا پڑا اور اس کی دوسری شکل یہ نکالی گئی کہ پروگرام کے دن ظہر کی نماز کے بعد ہی سے دفتر سجاد لائبریری میں آم کی دعوت عام رکھ دی گئی اور عشا کی اذان تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔اس راستے سے گذرنے والے ہر فرد کو پہلے دسترخوان پر بیٹھا کر جی بھر کر آم کھلایا جاتا، پھر جاتے وقت دو دو آم دیا جاتا۔ مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند میں ہر نماز کے بعد یہی سلسلہ رہتا کہ جو بھی ملاقات کے لیے آتا، پہلے آم سے اس کی ضیافت کی جاتی، پھر دوسری کوئی بات کرتے۔ آپ کا یہ عمل کچھ اس طرح شناخت اختیار کرگیا کہ اس دور کے جتنے بھی طالب علم ہیں، ان کے سامنے آپ صرف یہ کہہ دیں گے کہ آم والے حاجی جی، تو فورا ان کے چہرے پر ایک مسرت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ آپ کی ذات جلوہ گر ہوجائے گی۔
عطر ضرور ملا ہوگی
آپ کی سخاوت کسی خاص موسم کی محتاج نہیں ہے کہ آم کا موسم ہوگا، تبھی آپ کے دریائے سخاوت کی موجوں میں طغیانی آئے گی۔ آپ کی جودو سخا سدا بہار ہے، نہ کسی موسم کا پابند ہے اور نہ ہی کسی مخصوص چیزکی محتاج؛ بلکہ جو کچھ بھی سامنے ہوتا ہے، جب تک وہ چیز آپ دوسروں کو تحفہ میں نہیں دیدیتے، تب تک آپ کو چین نہیں آتا۔ اگر کسی نے کوئی چیز آپ کے حوالے کی تو وہ چند ہی لمحوں میں کسی اور کی ملکیت میں نظر آئے گی۔ آپ جہاں ایک ہاتھ سے لیتے ہیں، وہی دوسرے ہاتھ سے فورا کسی اور کو گفٹ کردیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے باوجود خصوصیت کے ساتھ جو چیز آپ کسی کودینا نہیں بھولتے، وہ عطر ہے۔ آپ اپنے ہر محفل میں ہر واردین و صادرین کو عطر سے معطر ضرور کرتے ہیں، بلکہ یہ آپ کی ایک امتیازی عادت میں شامل ہے کہ جو کوئی بھی حضرت کے سامنے ہوتے ہیں، شناسا اور غیرشناسا کی تمیز کیے بغیر آپ فورا عطر لگاتے ہیں اور لگاتے لگاتے شیشی کی شیشیاں ہدیہ دیتے چلے جاتے ہیں۔ حتی کہ متعلقین میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اگر کوئی حضرت سے ملاقات کرکے آتا ہے اور جاننے والے کو پتہ چلتا ہے کہ ابھی حضرت سے مل کر آرہا ہے تو وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ کیا کیا ہدیہ ملا، عطر تو ضرور ملا ہوگی۔
کراماتی نگاہ
آپ کی نگاہ میں کچھ ایسی مقناطیسی قوت ہے کہ جس پر آپ کی نگاہ پڑجاتی ہے، اس کی تقدیر ہی بدل جاتی ہے۔ راقم نے بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا کہ وہ کسی قیمت پر بھی آپ کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے؛ لیکن جوں ہی حضرت کی نگاہ ان پر پڑی، فورا اس کے لیے آمادہ ہوگیے۔ ایسا بارہا مشاہدہ میں آیا۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کا قصہ ہے کہ وہاں ایک بہت مشہور پینٹر ہے، جن کا نام مستقیم ہے۔ اسی نام سے ان کی دوکان بھی ہے۔ بڑے ماہر اور مشہور پینٹر ہیں۔ ان سے کچھ بھی پینٹ کرانے کا مطلب ہے کہ آپ کم از کم دو ڈھائی مہینے کا انتظار کریں۔ بزم سجاد کے اختتامی پروگرام میں صرف دو دن رہ گئے تھے۔ حضرت کا حکم ہوا کہ تین نئے بینر بنوالو۔ ہم نے عرض کیا کہ حضرت اتنی جلدی تو کوئی بھی لکھ کر نہیں دے سکے گا۔ حضرت نے کہا مجھے پینٹر کے بارے میں بتاو۔ ہم نے اسی مشہور پینٹر کا نام لیا۔ ایک صاحب نے ان کا موبائل نمبر فراہم کردیا۔ حضرت نے فون کیا اور یہ کہا کہ آپ صرف ملنے کے لیے دفتر بزم سجاد آئیں۔ پہلے تو انھوں نے وقت کا عذر کیا؛ لیکن ہم نے دیکھا کہ کچھ دیر بعد وہ دفتر میں حضرت کے روبرو دوزانوبیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت کی نگاہ خاص کا کرشمہ تھا کہ پینٹر صاحب نے دودن کے بجائے اسی دن ہمیں تین بینر بنا کر دیے اور وہ بھی بغیر قیمت لیے۔
راجدھانی دہلی میں ایک جگہ نبی کریم ہے۔ اس کے پولیس تھانے کے برابر میں میزبان نامی ہوٹل ہے۔ حضرت ایک مرتبہ لکھنو سے تشریف لا رہے تھے۔ میرے پاس آپ کی تشریف آوری کی اطلاع آئی۔ میں نے فون کی گفتگو میں اپنے پاس تشریف لانے کے لیے اصرار کیا۔ حضرت نے کہا:پہنچ کر دیکھیں گے۔ البتہ اسٹیشن آجانا۔ ہم نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچے، معلوم ہوا کہ وہاں اورکئی لوگ اپنی اپنی کاریں لے کر موجود ہیں۔ حضرت نے میزبان کا رخ کیا اور ساتھ میں موجود تمام افراد کو کھانا کھلایا۔ رات کے پونے ایک بج چکے تھے۔ ہوٹل مالک نے کہا کہ حضرت آپ کے قیام کا کیا ارادہ ہے۔ حضرت نے میری جانب اشارہ کیا کہ آج کا کمانڈو یہ ہے۔ ہوٹل مالک نے مجھ سے کہا کہ حضرت کو آج میرے یہاں قیام کرنے دو۔ میں نے حضرت کی سہولت اور آرام کی خاطر ہاں کہہ دیا۔ باتوں ہی باتوں میں اس بات کا تذکرہ آیا کہ آپ کی حضرت سے وابستگی کیسے ہوئی۔ انھوں نے لمبی داستان سناتے ہوئے آخر میں کہا کہ حضرت نے لوگوں کو فری میں دعوتیں کھلا کھلاکر میرا ہوٹل تقریبا ختم ہی کردیا تھا اور میں کافی متفکر بھی تھا، لیکن کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی میں نے حضرت سے خیروبرکت کے لیے دعاکو کہا۔ حضرت نے سامنے بیٹھا کر ایک خصوصی نظر ڈالی اور کچھ نہیں فرمایا۔ اس دن سے میرے ہوٹل میں اتنی برکت ہوئی کہ یہ ایک منزل سے کئی منزلہ ہوٹل میں تبدیل ہوگیا۔
۸۰۰۲ء کا واقعہ ہے کہ حیدرآباد میں جمعیۃ علماء ہند کا انتیسواں اجلاس عام تھا۔ اس موقع سے از دیوبند تا حیدرآباد خصوصی ٹرین چلائی گئی۔ حضرت نے نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے مجھے فون کیا۔ اس وقت راقم جامعہ عربیہ بیت العلوم جعفرآباد دہلی میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا اور کسی کام سے جامع مسجد آیا ہوا تھا۔ مجھے حکم دیا کہ بس نظام الدین ریلوے اسٹیشن آجاو۔ میں حاضر خدمت ہوگیا۔ حضرت نے مجھے اپنے پاس بیٹھا لیا اور کہا کہ دو ٹکٹ ہیں، تمھیں بھی ساتھ چلنا ہے۔ میں نے مدرسے سے چھٹی نہ لینے اور مہتمم صاحب کو اطلاع نہ دینے کا عذر کیا۔ حضرت نے مجھ پر ایک خاص نگاہ ڈالی کہ پھر میں کچھ نہ کہہ سکا۔ اور بغیر کسی تیاری اور سامان سفر کے حضرت کے ساتھ ہولیا۔ میں وہاں پہنچ کر بار بار پریشان ہوکر مہتمم صاحب کو فون کررہا تھا، تاکہ میں اپنی مجبوری بتا سکوں، لیکن حضرت مہتمم صاحب میرا فون ریسیو تک کرنے کے لیے تیارنہ تھے۔ میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے کہاکہ تم سمجھتے ہو کہ تمھیں مدرسے سے نکال دیں گے۔ تم مطمئن رہو،ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوگا۔چنانچہ وہی ہوا، جو حضرت نے کہا۔ حضرت مہتمم صاحب ناراض ضرور تھے، اس کے باوجود راقم کو ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
حیدرآباد کے سعیدآباد میں ایک مدرسہ ہے۔ وہاں حضرت اپنے ساتھی اس مدرسے کے مہتمم جناب قاری امیر حسن ؒ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ حضرت کہیں باہر نکل گئے ہیں اور دوپہر بعد ہی آنے کی توقع ہے۔ انتظار گاہ میں حضرت لیٹ گئے اور کہاکہ ملاقات کرکے ہی جانے کی سوچ رہاہوں۔ لیکن ہم لوگ اکتاہٹ محسوس کرنے لگے، تو حضرت نے کہا روکو ابھی تھوڑی دیر میں تم لوگوں کو سیر پر لیے چلتا ہوں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک اور شخص حضرت سے ملنے آئے، انھوں نے مدرسے کے لیے حیدرآباد سے تقریبا اسی کیلو میٹر دور وقارآباد میں ایک جگہ خریدی تھی، مدرسے کے سنگ بنیاد اور دعا کے لیے آئے تھے۔پہلے ان دونوں صاحبان کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں۔ پھر گفتگو ہونے لگی اور کچھ دیر بعد وہ بہت زیادہ اصرار کرنے لگے کہ حضرت ان کو تو ہم بعد میں لے کے جائیں گے ہی، آپ زہے قسمت سے یہاں موجودہیں، آج آپ کو چلنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ حضرت نے ہاں کہہ دیا۔ انھوں نے بیٹے کو فون کیا۔ ان کا بیٹا گاڑی لے کر آیا اور ہم سب کو وہاں لے گئے۔ زمین پر کدال چلا کر حضرت نے دعائے خیر فرمائی۔
اس طرح کے کئی اور واقعات ہیں کہ جہاں حضرت کی نگاہ پڑی،وہاں ناممکن بھی ممکن ہوتا نظر آیا۔ یقینا یہ آپ کی مومنانہ نگاہ کی فراست ہے کہ جو چیز عام لوگوں کی نگاہیں دیکھنے سے قاصر ہیں، حضرت ان کا ادراک فرمالیتے ہیں اور جن پر وہ نگاہ فراست پڑجائے، تو ان کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے شاید انھیں حضرات کے لیے کہا تھا کہ ع
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
قوت کشف
حضرت حاجی صاحب کا قوت کشف بھی بہت تیز ہے۔بارہا ایسا ہوا کہ راقم کے دل میں کچھ خیال گذرا اور حضرت نے اس کے مطابق کچھ کہا یا کروا دیا۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت دہلی تشریف لائے اور مولانا سلمان صاحب – حضرت مولانا عمر پالنپوری ؒ کے صاحب زادے- کے ہوٹل میں بہتر گھنٹے کا قیام فرمایا۔ پہلے دن کسی سے ملاقات کی غرض سے نبی کریم تشریف لے گئے، وہاں سے فون آیا کہ یہاں چلے آو، ہم چلے آئے اور بیت العلوم سے ایک طالب علم کو بھی ساتھ لے لیا، جو نعت بڑی اچھی پڑھتا تھا۔ دوسرے دن پھر نظام الدین آنے کا حکم دیا اور کہا کہ اس نعت گو طالب علم کو بھی ساتھ لیتے آنا۔ چنانچہ تعمیل حکم کرتے ہوئے ہم دونوں دوسرے دن نظام الدین حاضر ہوئے۔ راستے میں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ حضرت اگر یوں ہی روزانہ ہم کو ادھر ادھر بلاتے رہیں گے اور ہم دو آدمی حاضر ہوتے رہیں گے، تو شاید میری تنخواہ آمدو رفت کے اخراجات کے لیے ناکافی ہوجائے گی۔ حضرت کا کشف ملاحظہ کیجیے کہ حضرت نے جب مجھے واپسی کا حکم دیا تو مولانا سلمان صاحب کو کہا کہ ان کو پانچ پانچ سو دے دو۔ میں چوں کہ کمرے سے باہر آگیا تھا، اس لیے انھوں نے طالب علم کو پیسے دے یے۔ وہ باہر آیا اورمیرا حصہ میرے حوالہ کرنے لگا، تو میں واپس کرنے اور لینے سے معذرت کے لیے اندر گیا، تو حضرت نے اور پانچ پانچ سو دینے کا حکم کردیا۔ مولانا سلمان صاحب میرا ہاتھ پکڑے مجھے کمرے سے باہر لائے اور مزید پانچ پانچ سو عنایت کرتے ہوئے بطور مذاق کہاکہ بھائی اب چلے جاو ورنہ میری جیب اور ڈھیلی ہوجائے گی۔ اور بہ اصرار انھوں نے میرے جیب میں پیسے رکھ دیے۔ اب انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی تھی۔ اس لیے عافیت اسی میں محسوس ہوئی کہ جتنی جلدی ہوسکے، یہاں سے نکلنا ہی مناسب ہے۔اس طرح کے کئی واقعات ناچیز کے ساتھ پیش آئے۔
ایک لاکھ دو
حضرت کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی مسئلہ آپ کے سامنے بیان کرتا تو، آپ یہ کہتے کہ اپنا کیس مجھے لکھ کر دو اور ایک لاکھ دو، تمھارا کام ہوجائے گا، سامنے والا کہتا کہ ہمارے پاس تو ایک لاکھ روپیے نہیں، اور دل میں یہ بھی خیال کرتا کہ یہ کس قسم کے بزرگ ہیں، جو دعا کے لیے پیسے مانگتے ہیں اور وہ بھی تھوڑا بہت نہیں؛ پورے ایک لاکھ!۔ لیکن جب وہ کہتا کہ یہ تو میرے پاس نہیں ہے، تب حضرت کہتے کہ ایک لاکھ مجھے درود شریف پڑھ کے دو۔ آپ کا یہی طرز عمل ہے کہ جس کسی کا کیس لیتے ہیں، اس سے ایک لاکھ درود شریف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور ہر کسی کو کثرت سے درود شریف پڑھنے کو کہتے ہیں۔
بہت ساری باتیں ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ میں وہ تمام باتیں، بطور خاص جو باتیں براہ راست راقم کے مشاہدے اور معاملات میں ہوئیں، ایک ایک کرکے لکھ دوں، لیکن مصروفیات اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ موقع ملے گا، تو پھرکبھی یہ داستان حقیقت سنائیں گے۔ حضرت کی ذات گرامی ابھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ آپ بھی حضرت سے قریب ہوکران کی شخصیت اور بزرگی سے فائدہ اٹھائیے اور بچشم خود ان حقیقت کا مشاہدہ کیجیے۔ اللہ حضرت کا سایہ تا دیر ہمارے اوپر قائم رکھے اور ان کی ذات گرامی سے دنیا وجہان کو فائدہ بخشے۔ آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close