مضامین

کیا بہت جلد بھارتی مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کردی جائے گی

کیا بھارت کے مسلمان نسل کشی کے آخری پڑاؤ پر آگئے ہیں
مسلمانوں کے پاس ایمان کی وہ قوت موجود ہے جو انھیں میدان جنگ میں غازی بنادیتی ہے

اقوام متحدہ میں مشاورتی حیثیت کی حامل امریکا کی غیر منافع بخش تنظیم ”جسٹس فار آل“ کی جانب سے منعقدہ ایک ورچوئل عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے کہا کہ بھارت نسل کُشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔ پروفیسر گریگوری اسٹینٹن امریکی ادارے”’جینوسائڈواچ“ کے بانی ہیں۔ یہ ادارہ نسل کُشی اور بڑے پیمانے پر قتل کی دیگر شکلوں کی پیشن گوئی اور تدارک کے لیے کام کرتا ہے۔پروفیسر صاحب کی اس تحقیق کی روشنی میں ہمیں ان دس مراحل کا جائزہ لینا چاہئے جو نسل کشی سے متعلق ہیں۔
سب سے پہلا مرحلہ شہریوں کی درجہ بندی (Classification)ہے۔اکثریت خود کو ایک زمرے میں رکھتی ہے اور مد مقابل کو دوسرے خانے میں رکھتی ہے،پروفیسر کے الفاظ میں ”انھیں اور ہم“ میں انسانوں کو تقسیم کردیا جاتا ہے۔یہ سب سے پہلا قدم ہے جو غیریت اور اجنبیت کا احساس دلانے کے لیے اٹھایا جاتا ہے۔عام طور پر ہم گھر میں بھی جب کسی کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس کا نام لینے یا رشتے کے نام سے پکارنے کے بجائے ”اسے یا انھیں“ کہہ کر بلاتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ علامت گری(Symbolization) ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس قوم کی نسل کشی کی جانی ہے اس کی علامتیں پہلے مٹائی جاتی ہیں۔اس کے نام سے بنے شہروں کے نام بدلے جاتے ہیں،اس کے آباء و اجداد کے ذریعے تعمیر شدہ تعمیرات کو زمیں دوز کردیا جاتا ہے۔اس کے مذہبی شعائر کی توہین کی جاتی ہے۔اس کے لباس اور رہن سہن کو مطعون کیا جاتا ہے۔دوسری طرف ظالم گروہ اپنی علامتوں کو اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
نسل کشی کی راہ میں تیسرا مرحلہ عصبیت یا امتیازی سلوک(Discrimination)ہے۔یہ امتیازی سلوک ہر میدان میں ہوتا ہے۔سرکاری نوکریوں سے لے کر دوکان سے سامان خریدنے تک یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اکثریت اقلیت سے دور ہی رہے۔
چوتھا پڑاؤ غیر انسانی سلوک (Dehumanization)ہے۔جب نشان زدہ قوم کے افراد کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ان کو ایسی حقارت سے دیکھا جاتا ہے جیسے کہ یہ انسان ہی نہ ہوں۔ان کی لنچنگ کی جاتی ہے۔ان کی توہین کی جاتی ہے۔
نسل کشی کی پانچویں منزل تنظیم (Organization) ہے۔اس لیے کہ نسل کشی کے لیے تنظیم بہت ضروری ہے۔بغیر تنظیم کے کسی قوم کو نہیں کچلا جاسکتا۔یہ تنظیم پورے ملک میں اپنے منصوبے کے مطابق ہر مرحلے کو انجام دیتی ہے۔
چھٹا مرحلہ پولرائزیشن(Polarization)ہے۔جب تنظیم اپنے گروپ کو دشمن قوم کے لیے یکجا کرتی ہے۔ہر وقت ایسے ایشوز اٹھاتی ہے کہ اکثریت اقلیت کی دشمن بنی رہے۔عداوت مزید پختہ ہوتی رہے۔دوریاں ہر دن بڑھتی رہیں۔
ساتواں قدم تیاری (Preparation)ہے۔اس کے تحت نسل کشی کی تیاری کی جاتی ہے۔ہتھیار بنانے سے لے کر چلانے تک کی تربیت دی جاتی ہے۔قانونی طور پر پوری قوم کو باغی اور غدار قرار دیا جاتا ہے تاکہ نسل کشی کو جائز قرار دیا جاسکے۔
آٹھویں مرحلے میں ہراساں کرنا اور ایذا پہنچانا (Persecution)ہے۔ہر طرح سے مخالف قوم کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے۔کبھی اپنی کثیر آبادی کا خوف دلایا جاتا ہے۔کبھی اپنے تیوہاروں پر ہتھیاروں کی پوجا کرکے دہشت زدہ کیا جاتا ہے۔کبھی جلسے اور جلوس کے ساتھ ہراساں کیا جاتا ہے۔اشتعال انگیز بیانات اور نعروں سے تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔دھرم سنسد میں قتل عام کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔اسلامی شعائر پر نازیبا کمنٹ کیے جاتے ہیں۔
نواں مرحلہ تباہی(Extermination) ہے۔اس مرحلے پر مخالف قوم کو تباہ و برباد کرنے کے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔قانون بنا کر بھی اس کی ترقی کے راستے روکے جاتے ہیں اور نفرت پیدا کرکے اوراپنی قوم کو اکساکر جانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔یہ تباہی نسل کشی کو انجام تک پہنچا دیتی ہے۔
آخری اور دسواں مرحلہ انکار(Denial)ہے۔جس میں نسل کشی کرنے والا گروہ اپنے جرم کا انکار کردیتا ہے۔وہ اپنے اقدام کو جرم مانتا ہی نہیں۔وہ قتل عام کو ملک کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔اسے کوئی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔
یہ ہیں وہ دس مراحل جو پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے اپنی تحقیق میں پیش کیے ہیں،جب ہم اپنے ملک بھارت میں ان مراحل کا تجزیہ کرتے ہیں تو بلاشبہ خود کوآخری پڑاؤ پر پاتے ہیں۔آزادی کے بعد سے ہی کنارے لگانے کا عمل شروع ہوگیا تھا،تقسیم ملک کے بعد سے ہی مسلمان اور اسلام کے خلاف سازشیں کی جانے لگی تھیں،علامتوں کو مٹانے اور ختم کرنے کے ضمن میں شہروں اور سڑکوں نام بدلنے سے لے کر بابری مسجد انہدام تک کی کارروائی کو رکھا جاسکتا ہے۔وندے ماترم اور سوریہ نمسکار کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔تعصب اور امتیازی سلوک کا رویہ بھی اگرچے ابتدا ء سے ہی روا رکھاجانے لگاتھا لیکن اس میں گزشتہ دس سال میں بہت تیزی آئی ہے،جب ایک مسلمان سبزی فروش سے سبزی خریدنے کو بھی ناپسند کیاجارہا ہے۔لنچنگ کے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مسلمان انسان ہی نہیں ہیں۔تنظیم کی داغ بیل 1925میں پڑ گئی تھی۔جس کے تحت آج ڈیڑھ سو سے زیادہ سنگٹھن ہیں۔جس میں بعض سنگٹھن صرف مارنے،پیٹنے کے لیے ہی ہیں۔پولرائزیشن کے نتائج ہم گزشتہ کئی انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔جس کے نتیجے میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس آج علاقائی پارٹیوں سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔سنگھ نے نسل کشی اور مسلمانوں کے قتل عام کی تیاری پوری طرح کرلی ہے۔اس کی شاکھاؤں میں جہاں ایک طرف ذہنی طور پر مسلمانوں کا دشمن بنایا جاتا ہے وہیں ہتھیاروں کی ٹریننگ دے کر عملی طور پر تیار کیاجاتا ہے۔رام اور ہنومان کے نام پر نکالے جانے والے جلوسوں میں ہتھیار وں کی نمائش اور نفرت انگیز نعرے بازی نے ہراساں اور خوف زدہ کرنے کا مرحلہ پار کرلیا ہے۔سرکار کے بلڈوزر نویں مرحلے میں داخل ہوکر تباہی کررہے ہیں۔گویا اب اس دن کا انتظار ہے جب آمنے سامنے کی جنگ شروع ہوجائے گی۔
ضروری نہیں کہ پروفیسر صاحب کے اندازے حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوں۔اس لیے کہ وہ بھی انسان ہی ہیں،انھوں نے دنیا کی تاریخ کے حوالے سے یہ نکات مرتب کیے ہیں۔بظاہرہم اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ان کی تحقیق کو سچ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔کئی ممالک میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوچکی ہے۔چنگیز خان اور ہلاکو نے بھی مسلمانوں کو نیست نا بود کرنے کا بیڑہ اٹھایاتھا اور لاکھوں مسلمان شہید کردیے تھے۔عیسائیوں اور صلیبیوں نے بھی اندلس کو اسپین بنادیا ہے۔تازہ واقعہ میانمار کا ہے جہاں کی حکومت نے اپنے ملک سے مسلمانوں کو جلاوطنی پر مجبور کیا ہے۔ان عظیم حادثوں کے باوجود مسلمان آج بھی ساری دنیا میں موجود ہیں،پچاس سے زیادہ آزاد مسلم ممالک ہیں۔
بھارت میں نسل کشی کی ان تیاریوں کے بیچ ابھی آئین باقی ہے جس میں اس طرح کے کسی ا قدام کی گنجائش نہیں،ابھی جمہوری نظام میں اپنی سیاسی قیادت کو وجود میں لانے کے امکانات روشن ہیں،ابھی عدلیہ سے انصاف پر مبنی فیصلے ہورہے ہیں،سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ابھی غیر مسلموں کا ایک بڑا گروہ نفرت انگیز مہم کا مخالف ہے۔اس لیے مجھے نسل کشی کا کوئی خطرہ مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔میں مانتا ہوں کہ بھارت میں ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت کی ایک مضبوط د یوار کھڑی ہوگئی ہے۔میں یہ بھی مانتا ہوں کہ سنگھ نے اپنے نوجوانوں کو مسلح کردیا ہے۔لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ موت و حیات کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں،اور مجھے پوری امید ہے کہ اگر بھارت میں کسی گروہ نے مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لیے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کی تو اسلام اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی۔مسلمانوں کے پاس ایمان کی وہ قوت موجود ہے جو انھیں میدان جنگ میں غازی بنادیتی ہے۔اور میرا اس پر بھی ایمان ہے کہ و مکرو اومکر اللہ واللہ خیر الماکرین(آل عمران۔54)وہ بھی چال چل رہے ہیں اور اللہ بھی چال چل رہا ہے اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے اور بقول اقبالؒ

کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close