اسلامیات

تصویر کشی میں بڑھتی ہوئی بے احتیاطی

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم صفت ’’ مصوّر‘‘ یعنی صورت گر ہونا ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کو صرف جسم ہی نہیں دیتے ، اس کے مناسب حال صورت بھی عطا فرماتے ہیں ، جس سے چیزیں اور شخصیتیں پہچانی جاتی ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت ہے کہ اگر انسان ٹھنڈے دل سے غور کرے تو یہی ایک بات اس کے ایمان لانے کے لئے کافی ہے ، پھر ایسا نہیں ہوا کہ تمام چیزوں کو ایک ہی شکل دے دی گئی ؛ بلکہ ہر قسم کی الگ الگ شکل ہے ، اور اس کے تحت آنے والے ہر فرد کی بھی الگ شکل ہے ، صورت گری کا یہ کمال انسان کے اندر تو بالکل ظاہر ہے کہ ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے ہر بچہ کی شکل الگ ہوتی ہے ، رنگ میں بھی فرق ہوتا ہے ، ناک نقشہ میں بھی اور قدوقامت میں بھی ؛ لیکن یہ صرف انسان ہی پر موقوف نہیں ، ہاتھی ، شیر ، چیتا ، بیل اور بکری وغیرہ ، ہر جاندار کو الگ الگ صورتوں سے نوازا گیا ہے ، پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام بکریاں ایک ہی صورت کی ہوں کہ پہچانی نہ جاسکیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان میں بھی ایسا فرق رکھا گیا ہے کہ ہزاروں کی بھیڑ میں جانور کا مالک اپنے جانور کو پہچان لیتا ہے ، قدرت کا یہی اعجاز درختوں ، پھولوں اور پھلوں میں بھی موجود ہے اور اسی تنوع کی وجہ سے انھیں بآسانی پہچان لیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اس کی قدرت کے ساتھ ساتھ اس کی وحدانیت کی بھی روشن اورواضح دلیل ہے ؛ مگر انسان نے اپنی احسان ناشناسی اور ناشکری کی وجہ سے اسی کو شرک جیسے گناہ کا ذریعہ بنالیا اور انسانوں و جانداروں کی مورتیاں بنا کر ان کی پرستش شروع کر دی ، شریعت محمدی چوں کہ اللہ کی طرف سے اُتاری جانے والی آخری شریعت ہے ، آپ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا ،نہ کوئی کتاب نازل ہوگی ، اور نہ کوئی اور شریعت انسانیت کے لئے بھیجی جائے گی؛ اس لئے اس بات کا خصوصی اہتمام فرمایا گیا کہ جو چیزیں دوسری قوموں میں مشرکانہ افکار کے پھیلنے کا سبب بن گئی تھیں ، اس دین متین میں ان کو منع کر دیا جائے ، اور وہ دروازے بند کر دیئے جائیں ، جو انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتے رہے ہیں ، جیسے پچھلی شریعتوں میں بطور تعظیم کے اپنے بڑوں کو سجدہ کرنے کی اجازت تھی ، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے ؛ (جامع البیان:۱۳؍۳۵۶) لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا ، (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۸۵۳) رب کے معنی پروردگار کے ساتھ ساتھ مالک کے اور عبد کے معنی بندہ کے ساتھ ساتھ غلام کے بھی ہیں ، اس دوسرے معنی کے لحاظ سے غلام اپنے آقا کو رب اور آقا اپنے غلام کو عبد کہا کرتے تھے ، آپ ﷺ نے اس تعبیر سے منع فرمادیا اور تلقین فرمائی کہ مالک کو سید اور غلام کو مولیٰ کہا جائے ۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۲۴۹)
اسی طرح کے احکام میں تصویر کا مسئلہ بھی آتا ہے ، قرآن مجید سے اشارہ ملتا ہے کہ گزشتہ اقوام میں مجسمہ سازی اور تصویر کشی کی اجازت تھی ، جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے جنات مجسمے بنایا کرتے تھے ؛ (سورہ سبا:۱۳) لیکن شریعت محمدی میں تصویر کشی کو شدت کے ساتھ منع فرما دیا گیا ؛ کیوں کہ یہ صورت گری اورتصویر سازی آہستہ آہستہ شرک کا سبب بن جاتی تھی،آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہوگا جو تصویر بنائے؛ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق کی نقل کرتا ہے : أشد الناس عذابا عند اللّٰه یوم القیامۃ الذین یضاھؤن بخلق اللّٰه (مسلم، حدیث نمبر: ۲۱۱۷) آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں تصویر ہوتی ہے ، اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے : إن البیت الذی فیہ الصور لا تدخلہ الملائکۃ (بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۰۵)
اس لئے اُصول طور پر یہ بات متفق علیہ ہے کہ تصویر کشی حرام ہے ؛ البتہ احادیث، صحابہ کے آثار اور احکام شریعت کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے بعض تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ، امام مالکؒ کے نزدیک سایہ دار تصویر یعنی اسٹیچو بنانا حرام ہے ، اوربے سایہ تصویریں جو کاغذ یا کپڑے پر بنائی جائیں ، مکروہ ہیں ؛ پس سایہ دار تصویر کے حرام ہونے پر مذاہب اربعہ کااتفاق ہے ، اور بڑی حد تک یہ اجماعی مسئلہ ہے ، افسوس کہ بعض مسلم ملکوں میں ڈکٹیٹر حکمرانوں نے اپنی مجسمے نصب کرائے ۔
جو تصویریں سایہ دار نہ ہوں ، کاغذ پر ، کپڑے پر ، دیواروغیرہ پر بنائی گئی ہوں ، ان کے سلسلہ میں اختلاف ہے ، بعض فقہاء اس کو بالکل حرام قرار دیتے ہیں ، یہی زیادہ تر اہل علم کی رائے ہے ، امام مالکؒ کے نزدیک مکروہ ہے ، اور فقہاء احناف میں متأخرین نے اسے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے ، اور مکروہ تحریمی بھی قریب بہ حرام ہوتا ہے ؛ چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں:
’’شوافع اور دوسرے فقہاء نے کہا ہے کہ جاندار کی تصویر سخت حرام ہے ، یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، اور یہ ان شدید وعیدوں کے مصداق میں سے ہے ، جن کا حدیث میں ذکر آیا ہے ، چاہے یہ ایسی چیز پر بنائی جائے جس کا احترام نہیں کیا جا تا ہے ، یا قابل احترام چیز پر بنائی جائے ، ہر حال میں حرام ہے ؛ چاہے وہ کپڑے پر ہو ، یا بستر پر ، یا درہم و دینار پر یا برتن اور دیوار وغیرہ پر ؛ اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت اختیار کرنا ہے ‘‘
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جب تصویر کسی بھی چیز پر نقش ہو جائے تو پھر وہ حرام کے دائرہ میں آجاتی ہے ۔
پہلے زمانہ میں تصویر ہاتھوں سے بنائی جاتی تھی اور اس کے لئے اعلیٰ درجہ کے ماہرین ہوتے تھے ، پھر تصویر کی ایک نئی صورت کا آغاز ۱۸۱۶ء میں ہوا ، اور اس نے ترقی کرتے کرتے بیسویں صدی کے شروع میں اس وقت بہت عموم حاصل کر لیا ، جب ۱۹۱۳ء میں تصویر کھینچنے والا کیمرہ وجود میںا ٓیا ، کیمرہ کی تصویر آنے کے بعد اہل علم کے درمیان اختلاف پیدا ہوا کہ یہ ہاتھوں سے بنائی جانے والی تصویر ہی کے حکم میںہے اور حرام ہے یا اس تصویر کے حکم میں نہیں ہے ؟ جمہور علماء نے اسے حرام قرار دیا ، سعودی عرب کے مفتیان میں شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ ؒ، شیخ عبد العزیز ابن بازؒ ، مشہور عالم حدیث شیخ ناصر الدین البانیؒ اور بیشتر علماء نے اسے ناجائز قرار دیا ، بر صغیر میں تو دو چار کو چھوڑ کر سبھوں نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا ، یہاں تک کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ جو ایسے مسائل میں متوسع سمجھے جاتے ہیں ، انھوں نے بھی اسے ناجائز ہی کہا ، اور بعض اہل علم جو ابتداء جواز کے قائل تھے ، انھوں نے بھی اپنی اِس رائے سے رُجوع کر لیا ، جیسے : علامہ سید سلیمان ندویؒ ۔
لیکن علماء مصر نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ، جن میں علامہ محمد بخیت مطیعی حنفیؒ اور مفتی اعظم مصر حسنین مخلوفؒ سر فہرست ہیں ، پھر بیشتر علماء عرب نے اسی نقطۂ نظر کو اختیار کر لیا ، روایتی کیمرہ کی تصویر کے بعد تصویر کی دنیا میں ایک بڑا انقلاب آیا اور ڈیجیٹل کیمرہ کی ایجاد ہوئی، جس میں الکٹرانک ذرات مل کر کسی چیز کی شکل اختیار کرتے ہیں اور جب انھیں اسکرین سے ہٹادیا جاتا ہے تو یہ ذرات بکھر جاتے ہیں ، پھر دوبارہ ڈیجیٹل آلہ انھیں جمع کرتا ہے ، سوال پیدا ہوا کہ کیا اس پر تصویر کا اطلاق ہوگا یا یہ اس عکس کی طرح ہے ، جو آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے وقت نظر آتا ہے ؟ اس سلسلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ، برصغیر میں علماء کی بڑی تعداد باعتبار فتویٰ کے ابھی بھی اسے حرام کہتی ہے ؛ لیکن علماء عرب اور برصغیر کے بعض چوٹی کے فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے ، کچھ لوگوں نے اسے اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ اس پر تصویر کی فقہی تعریف صادق نہیں آتی، اور کچھ لوگوں نے اس نقطۂ نظر سے کہ موجودہ دور میں یہ ابلاغ کا نہایت اہم اور مؤثر ذریعہ ہے ، جس کا منکرات کی ترویج،مخالف اسلام افکارکی اشاعت اور اسلام اور مسلمان کے خلاف پروپیگنڈوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ؛ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، اسلام کی دعوت اور دین حق کے دفاع کے لئے اس کا استعمال کریں ، راقم الحروف کے خیال میں بر صغیر کے بیشتر علماء نے اسی پہلو کو سامنے رکھ کر اس میں توسع کا راستہ اختیار کیا ہے ۔
لیکن بہت سی دفعہ کسی حقیقی ضرورت اور واقعی مجبوری کے تحت جو توسع اختیار کیا جاتا ہے ، اس میں شرائط وقیود کی سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں ، اور اس کے استعمال میں بے احتیاطی آخری حدیں پار کر لیتی ہیں ، تصویر کے معاملہ میں بھی کچھ یہی صورت حال پیدا ہو رہی ہے ، اہل سیاست اور اہل دنیا سے کیا شکایت کیجئے کہ ان کے یہاں تو حلال وحرام کی کوئی سرحدہی نہیں ہے ؛ لیکن ان لوگوں کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ، جو دینی خدمتیں انجام دیتے ہیں ، دینی تعلیمی ادارے چلاتے ہیں ، مقتدائے قوم و ملت ہیں ، اور انھیں شریعت ِاسلامی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے کہ ان کے یہاں بھی تصویر کے معاملے میں بڑی بے اعتدالی اور بے احتیاطی کی روش سامنے آر ہی ہے ، نیز عوام ان کے قول و فعل کے درمیان ایک تضاد سا محسوس کرتے ہیں ۔
اس بات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اولاً تو آج بھی اہل علم کی ایک معتد بہ تعداد ہر طرح کی تصویر کو ناجائز ہی قرار دیتی ہے ؛ لیکن اگر ہم ان حضرات کی بات کو قبول کر لیں ، جن کے نزدیک ڈیجیٹل فوٹو گرافی پر تصویر کشی کا اطلاق نہیں ہو تا تب بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ روایتی کیمرہ یا ڈیجیٹل کیمرہ سے لی گئی تصویر کاغذ ، کپڑے ، پلاسٹک کی شیٹ ، دیوار ، گلاس ، اوراس طرح کی چیزوں پر نقش ہو جائے تو پھر اس کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ، اب اس کی گنجائش کسی اہم ضرورت ہی کے لئے ہو سکتی ہے ، جیسے : پاسپورٹ ، ویزا ، آدھار کارڈ ، اسکول میں ایڈمیشن وغیرہ ، یا کسی ملی مصلحت کے لئے جیسے : ریلی اور جلسہ کی تقریر ؛ تاکہ یہ بات باور کرائی جائے کہ مسلمانوں یا ہم وطنوں کی بڑی تعداد ہمارے موقف کے ساتھ ہے ۔
مگر اب اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پہلے تو اخبار میں خبروں کے ساتھ تصویریں آتی تھیں ، اب دینی جلسوں وغیرہ کے اشتہار میں بھی ادارہ کے ذمہ دار اور مقررین کی تصویریں شائع کی جاتی ہیں ، پھر یہ جذبہ تشہیراور آگے بڑھا اور جلسوں کے پوسٹر جن میں صرف تحریر ہوا کرتی تھی ، اس میں بھی مقررین کے چہرے چھپنے لگے ، پہلے صرف سیاسی پارٹیاں ایسے بینر شائع کرتی تھیں ، اب مذہبی تنظیمیں بھی کرنے لگیں ، پھر ایک قدم آگے بڑھا تے ہوئے بعض علماء اخبارات میں اپنے مضامین اس طرح شائع کرانے لگے کہ اس میں ان کے نام کے ساتھ ساتھ ان کی تصویریں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہوتی ہیں ، بات اس سے بھی آگے نکلی اور دینی حلقہ کے بعض مصنفین نے اپنی کتابوں کے سرورق پر تصویریں شائع کرنا شروع کر دیں ، یا اگر کسی شخصیت پر قلم اُٹھایا ، یا کسی صاحب علم کا تذکرہ مرتب کیا تو اس پر صاحب تذکرہ کی تصویر طبع کر دی ، یہ صورت حال بہت ہی قابل توجہ ہے ، قول وفعل کا تضاد بے اعتباری پیدا کرتا ہے ، اور علماء کے بارے میں عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں ؛ اس لئے اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے اور علماء وخواص کو اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ان کا عمل لوگوں کے لئے سنگ میل کا کام کرتا ہے ، اور لوگ ان کو دیکھ کر سفر زندگی کی راہیں متعین کرتے ہیں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close