مضامین

جھوٹی خبریں مفاسد و نقصانات

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

معاشرہ اور سماج کو جن چیزوں سے بڑا نقصان پہونچتا رہا ہے ان میں ایک جھوٹی خبریں بنانا، اس کی تشہیر کرنا اور اس طرح پھیلا نا کہ وہ افواہ کا رخ اختیار کرلے، بھی ہے، اس سے سماج کو سخت نقصان پہونچتا ہے، اسی لیے شریعت نے اس پر زور دیا ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی شریر آدمی ایسی خبر لائے (جس میں کسی کی شکایت ہو) تو (بدون تحقیق کے اس پر عمل نہ کیا کرو،بلکہ اگر عمل کرنا مفقود ہو تو) خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہونچا دو، پھر اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (سورۃ الحجرات: ۶، ترجمہ حضرت تھانوی)
اس آیت پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو بکر جصاص ؒ نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنا اور اس پر عمل در آمد اس وقت تک جائز نہیں ہے، جب تک کہ دوسرے ذرائع سے اس خبر کے صحیح اور سچی ہونے کی تصدیق نہ ہوجائے، اسی سلسلے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ جوکچھ سنے دوسرے سے بیان کردے۔ (رواہ المسلم فی المقدمہ) اور جھوٹو ں پر اللہ کی لعنت قرآن کریم میں مذکور ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ (متفق علیہ) یہ معاملہ اس قدر جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا سب اس میں شامل ہے۔
غیر تو غیر مسلمان بھی ان احکام وہدایات پر آج عمل پیرا نہیں ہے، اسے جھوٹی خبریں پھیلانے میں مزہ آتا ہے، اس کی وجہ سے وہ خود تو لعنت میں مبتلا ہوتا ہی ہے، سماج اور معاشرے پر بھی اس کے انتہائی مضر اثرات پڑتے ہیں اور بسا اوقات یہ جھوٹی خبریں اور افواہ بڑے فتنہ، فساد، قتل اور غارت گری کا ذریعہ بن جاتا ہے، سوشل میڈیا کے اس دور میں جھوٹی خبریں آگ کی طرح پھیلتی ہیں اور بہت کچھ خاکستر کر دیتی ہیں، اسی لیے اب جہاں کہیں فتنہ وفساد ہوتا ہے پہلے مرحلہ میں حکومت نیٹ بند کر تی ہے، تاکہ غلط خبریں اور افواہ آگ پر گھی ڈالنے کا کام نہ کرے، حالاں کہ اس کا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ صحیح خبریں لوگوں تک نہیں پہونچ پاتی ہیں، یہ عمل اس قدر مضر اور نقصان دہ ہے کہ اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب آیت 60۔61میں فرمایا کہ ”اگر منافقین اور جن کے دلوں میں خرابی ہے اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اٹھ کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے ٹِک پائیں گے ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھارہوگی۔“ جہاں کہیں ہوں گے پکڑے جائیں اور قتل کیے جائیں گے۔
مشہور یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ زیادہ دیر اور دور تک چل نہیں سکتا، لیکن ایک تازہ تحقیق کے نتیجے میں جو امریکہ کی مشہور یونیورسیٹی ایم آئی ٹی نے تیار کی ہے بتایا گیا ہے، جھوٹی خبریں اوراطلاعات سچ کے مقابل چھ گنا زیادہ رفتار سے پھیلتی ہیں۔ میسا چوسٹس انسٹی چیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT)کی لیبارٹی برائے سوشل میشنز کے سر براہ ڈیپ رائے جواس تحقیق میں شامل تھے کا کہنا ہے کہ جھوٹ سچ کی بہ نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، سوا لاکھ سے زائد ایسے مضامین جو جھوٹ پر مشتمل تھے 2006سے 2016تک ٹوئٹ کیا گیا، صارفین نے اسے دوبارہ لاکھوں مرتبہ ٹوئٹ کر دیا، جب کہ سچائی اور حقیقت پر مبنی مضامین ومقالات کو پندرہ سو صارفین تک پہونچا نے میں ساٹھ گھنٹے لگے، جب کہ جھوٹی خبریں صرف دس گھنٹوں میں پندرہ سو صارفین تک پہونچ گئیں۔
یہاں پر یہ سوال بہت اہم ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جھوٹی خبروں کے پھیلنے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، اس کی وجہ جھوٹی خبروں کے اندر پائی جانے والی سنسنی خیزی ہے، خلاف توقع واقعات کا مذکورہونا ہے، تجسس، سسپنس کی طرف انسانی فطرت جلد راغب ہوتی ہے اور وہ بلا سوچے سمجھے آج کے دور میں فارورڈ کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے جھوٹی خبریں تیز رفتار بن جاتی ہیں۔
فرضی خبر کو من گڑھت، بناوٹی اور جھوٹی خبر بھی کہتے ہیں، اس کے لیے انگریزی میں Fake Newsکی اصطلاح مستعمل ہے، یہ پروپیگنڈہ اور زرد صحافت کے قبیل کی چیز ہے، جسے دانستہ غلط بیانی، مبالغہ آمیزی اور دروغ گوئی کے سہارے تیار کیا جاتا ہے۔ ان خبروں پر پابندی لگانے کی غرض سے مختلف ممالک میں قوانین موجود ہیں 2019میں سنگا پور میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو دس سال کی سزا اور 738500ڈالرکا جرمانہ لگانے کا قانون بنا ہے، روس میں خصوصی طور سے یوکرین جنگ کے سلسلے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو دس سال کی سزا مقرر ہے اور اگر اس نے دانستہ ایسا کیا ہے تو سزا پندرہ سال تک کی ہو سکتی ہے، پاکستان میں جھوٹی خبریں پھیلانے پر پانچ سال کی سزا دی جاتی ہے اور گرفتاری غیر ضمانتی ہوا کرتی ہے۔ہندوستان میں مختلف دفعات کے تحت نقصانات کی بنیاد پر مقرر ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں جتنی من گھڑت خبریں شائع ہوتی ہیں، ان میں اٹھارہ فی صد حصہ داری ہندوستان کی ہے، بھاجپا کے دور حکومت میں اس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، یہاں حقیقت سے دور جملے پھینکے جاتے ہیں، وعدہ کیا جاتا ہے اور سیاسی پارٹیاں رائے دہندگان کو مخالف پارٹی سے دور اور اپنوں سے قریب کرنے کے لیے بھی اپنے آئی ٹی سیل سے جعلی خبروں کی ترسیل کرتی ہیں اور لوگوں میں بھرم پیدا کرنے کا کام کرتی ہیں، ہندوستان میں یہ عمل انتخاب کے موقع سے اور زیادہ ہوجاتا ہے ان دنوں کئی ریاستوں میں انتخابات ہیں، 2024میں عام انتخابات ہیں اس لیے جھوٹی خبریں بنانے والی کمپنیاں میدان میں آگئی ہیں، اور دھیرے دھیرے رفتار پکڑ رہی ہیں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کی حصہ داری جھوٹی خبریں پھیلانے میں بالکل نہیں ہوتی، خوب ہوتی ہے، خاندان، ادارے، تنظیموں میں بھی اس کی خوب خوب کثرت ہوتی ہے، ایسا خاندان کو توڑنے، ادارے وتنظیموں کو کمزور کرنے کے لیے داخلی اور خارجی افراد کثرت سے کیا کرتے ہیں، تاکہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھاسکیں اور اپنے لیے ترقی کے دروازے کھول سکیں، ابتدا میں لوگ اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، لیکن اگر کسی خبر کو اس طرح پھیلا یا جائے کہ جھوٹی ہونے کے باوجود وہ تواتر تک پہونچ جائے تو کون اس پر اعتماد نہیں کرے گا، انگریزوں کا مشہور مقولہ ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ اور اس قدر بولو کہ وہ سچ ثابت ہو جائے۔
ہم لوگوں کے بچپن میں عورت کی ایک قسم ہوا کرتی تھی، جس کا کام ہی خاندان کو توڑنا، پڑوسی، پڑوسی میں دشمنی پیدا کرنا ہوتا تھا اسے ہم لوگ ”کُٹنی بُڑھیا“ کہا کرتے تھے، دو چار بار جب بُڑھیا اس کام میں کامیاب ہوجاتی تو اس کا چرچا ہوتا تھا اور دھیرے دھیرے لوگ یہ جان لیتے تھے کہ یہ سارا کیا دھرا اسی بڑھیا کا ہے، پھر جو ذلت ہوتی تھی، اس کا ذکر کرنا بے سود معلوم ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اور نیٹ کے اس دور میں ”کُٹنی بُڑھیا“ کا وجود تو اب قصہئ پارینہ ہے، لیکن اس کی جگہ ”وھٹسپ اور سوشل یونیورسٹی“سے منسلک افراد نے لے لی ہے، وہ جھوٹی خبریں گڑھتے ہیں اورپورے اعتماد کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں اور احباب بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے اسے آگے بڑھاتے رہتے ہیں، اور صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ کان اپنی جگہ سلامت ہے اسے کوئی دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا، البتہ”کوا کان لے گیا“ کا پرچار ہوتا رہتا ہے اور بات کہاں سے کہاں پہونچ جاتی ہے۔ان جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا مبلغ علم بھی زیادہ تر موبائل سے کچھ لکھنے تک محدود ہوتا ہے، ان کے املے، جملے اسلوب، طرز تخاطب دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے، یہ جھوٹی خبریں بغیر تحقیق اور بلا سوچے سمجھے فارورڈ کی جاتی ہیں، اتنے ہی پر بس نہیں ہوتا بلکہ بہت سارے لوگ ان خبروں کو بعینہ نقل کرنے کے بجائے اس میں کچھ نمک مرچ کا اضافہ اپنی طرف سے کرکے مزید سنسنی خیز بناتا چلا جاتا ہے، ایسے میں جب خبر آخری شخص تک پہونچتی ہے تو اس میں جھوٹ کا کئی گنا اضافہ ہوچکا ہوتا ہے، اب معاملہ جھوٹ میں مبالغہ کا ہو جاتا ہے اور مبالغہ بھی ایسا کہ الامان والحفیظ۔ اس لیے ہمیں جھوٹی خبروں پر تحقیق کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی اقدام کر
بیٹھیں اور بعد میں ہمیں شرمندگی کا منہہ دیکھنا پڑے، اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close