اہم خبریں

خطاب جمعہ ۔۔۔7/ جولائی یکساں سول کوڈ،، غیر اسلامی اور غیر جمہوری محمد قمر الزماں ندوی

محمد قمر الزماں ندوی استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد ۔ ان الدین عند اللہ الاسلام ۔۔
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
حضرات ،دوستو ،بزرگو اور بھائیو !
ہم سب مسلمان ہیں ،اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایمان والے گھرانے میں ہم سب پیدا ہوئے ،ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اسلام خدا کا نازل کردہ
اس وقت ہندوستانی مسلمان عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں ، مخالف طاقتیں مسلمانوں کو ہر طرف سے خوف زدہ اور ہراساں کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، ان کو مجبور و بے بس کرنے کے لئے پوری چال چل رہے ہیں ، دو ہزار چوبیس کے الیکشن میں جیت کے لئے ان کے پاس کوئی مدعا نہیں ملا، تو یکساں سول کوڈ کو الیکشن کا موضوع اور ایشو بنا لیا ہے اور وہ اس پر اگلا الیکشن جیتنا چاہ رہے ہیں ۔ یہ بات یاد رہے کہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے ،یہاں کے بہت سے ذاتی اور دھرم کے لوگوں کے لئے بھی اس میں پریشانی اور دقت کا مسئلہ ہے ،اس لئے مسلمانوں کو جذباتی ہو کر نہیں، بہت ہی دانشمندی اور ذہانت سے اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے ۔وہ تو چاہتے ہی ہیں کہ یہ موضوع گرمائے اور ہندؤ مسلم میں خلیج پیدا ہو ،دوریاں بڑھے اور اس کا سیدھا فائدہ اگلے انتخاب میں اس کو ملے ۔۔ بہر حال اس تمہیدی گفتگو کی بعد میں اصل موضوع پر آتا ہوں کہ یکساں سول کوڈ سے کیا کیا نقصانات ہوں گے اور ہمارا ایمان و عقیدہ اور عائلی و معاشرتی نظام کس قدر تہس نہس ہو کر رہ جائے گا، اور خود ملک و قوم کا کتنا نقصان ہوگا ۔ ہم اس موضوع پر حضرت مولانا شاہ منت اللّٰہ رحمانی صاحب رح اور دیگر اکابر کے مضامین اور ان کی تقریروں سے بھی استفادہ کریں گے، تاکہ اس موضوع کا مالہ وما علیہ ہمارے ذہن میں آجائے ،اور ہم سامنے والے کو جواب دے سکیں۔۔۔
الحمدللہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہ شرف اور عزت حاصل ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سرزمین پر قدم رکھنے کا شرف بخشا، خدا کی کتاب کو اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہمیشہ سے وہ اپنے سینے سے لگائے رہے اور صرف یہی نہیں کہ حوادث و واقعات اور طوفان و مشکلات میں اس کی حفاظت کی اور اس کو مٹنے نہیں دیا ۔بلکہ اپنی محنتوں ،مشقتوں اور دیانتوں سے اس میں اضافہ بھی کیا ،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے ہمیں جو ، منشور ،دستور ،قانون اور گائڈ لائن قرآن وحدیث کی روشنی میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ملا، ہم اس کو اپنے سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اور ان شاءاللہ تعالیٰ قیامت تک سینوں سے لگائے رہیں گے اور اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں گے ۔
آج بھی ہندوستان کے مسلمان بیدار ہیں ،ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ وہ اپنے اقدار و روایات اپنے دین و شریعت کے تحفظ کیساتھ وہ ایک عزت و آبرو کی زندگی گزارے گا اور وہ اپنے مسلم پرسنل لا میں جس کی بنیادیں دین و شریعت پر ہیں، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو ہرگز پسند نہ کرے گا ۔ہندوستان کی حکومت کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی کسی حکومت کو قانون شریعت میں مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔اس لئے کہ یہ قانون انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے،اللہ رب العزت کا نازل کردہ قانون ہے ۔یہ امانت ہے اور مسلمان اس امانت سے دست بردار نہیں ہوسکتا ۔اس امانت کو اپنے سینوں میں لگائے ہوئے زندہ رہنا چاہتا ہے ،ایک مسلمان کے لئے ضروری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھے اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر آخری سانس تک قائم رہے ۔۔
نہ جب تک کٹ مروں میں کعبئہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے ،کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا ۔۔

یہ بہت بڑا مغالطہ ہے ،جس کو متعدد ذرائع ابلاغ سے پھیلایا جارہا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایک ہی طرح کا قانون نافذ کردیا جائے تو ہر طرح کی شکایتیں ہر طرح کی مشکلات ،ہر طرح کی خامیاں ، الجھنیں ،دقتیں اور ہر طرح کی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی ۔اور وہاں امن و امان اور شانتی و صلح و آشتی کی فضا قائم ہوگی ،ہر طرف چین کی بانسری بجے گی کوئی کسی پر اتیا چار اور ظلم نہیں کرے گا ،فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات نہیں ہوں گے ،سارے لوگوں کے دل مل جائیں گے اور ایک ہوجائیں گے ۔۔لیکن یاد رہے یہ بہت بڑا مغالطہ ہے، جس کو عام کیا جارہا ہے ۔
آپ میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ جنگ عظیم میں حصہ لینے والوں کا مذہب ایک تھا ،ان کا قانون ،دستور اور سول کوڈ بھی تقریباً ایک تھا ،لیکن اس کے باوجود آپس میں جو کشاکش ،کشمکش اور غدر شروع ہوئی اور پھر ایک جنگ عظیم کی صورت اختیار کرلی ،لاکھوں جانیں گئیں اور آج تک اس کے اثرات پڑ رہے ہیں ۔یہ کیسے ہوا جب کے ان کا مذہب ،ان کا کلچر ،ان کی تہذیب ان کا اسکول آف ٹھاٹ ایک تھا ،مگر یکساں سول کوڈ اس عظیم جنگ اور عالمی ابتری اور فساد کو روک نہ سکا ۔۔پھر جن کا مذہب الگ ،جن کی تہذیب الگ ،جن کا کلچر الگ ،جن کی روایات الگ ،جن سوچنے کے طریقے الگ اور جن کے محبت و عقیدت کے پیمانے اور طریقے الگ ان کو یکساں سول کوڈ کیسے ملا سکے گا اور باہم مربوط و شیر و شکر کرسکے گا ۔اس سچائی کے باوجود یکساں سول کوڈ کا نعرہ حقائق کو جاننے کے باوجود یہ سمجھا جائے کہ یہ محض سیاسی نعرہ ہے ،اس کے پیچھے سازشی نظریات و افکار کے لوگ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرہے ہیں تاکہ یہ ملک ایک ہندؤ راج والا ملک بن جائے اور یہاں کی جمہوریت اور رنگا رنگی کا خاتمہ ہوجائے ۔۔
اس لئے اس وقت جو سب سے سنگین مسئلہ مسلمانوں کو درپیش ہے، وہ قانون شریعت مسلم پرسنل لا میں ترمیم و تنسیخ کا ہے ۔مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے اور سول کوڈ کے نفاذ کا مسئلہ ہے ۔یہ خطرہ صرف مسلم پرسنل لا ہی کا نہیں، بلکہ مسلمانوں کے نظام میں اور ان کے ملی وجود کا خطرہ ہے ۔میں تو یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔آزادی کے بعد ہی سے یہ سازشیں چل رہی ہیں کہ مسلمانوں کے وجود کو ان کے ملی شعائر اور عائلی شناخت کو ختم کردیا جائے اور یہاں اندلس کی تاریخ دھرا دی جائے ۔۔
آپ جانتے ہیں یکساں سول کوڈ جیسا بھی ہو ،بہر حال غیر شرعی اور غیر اسلامی ہوگا ۔خدا نخواستہ اگر یکساں سول کوڈ ڈالا گیا، تو مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ،عائلی نظام بہت الجھنوں میں مبتلا ہو جائے گا اور بہت سے امور اور معاملات میں ہمیں قانون کے ذریعہ مجبور کیا جائے گا کہ ہم جائز اور حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دیں اور حرام و نائز کو قبول کرلیں ۔
ہندوستان کے قانون سازوں کا ذہن مغربی سانچوں میں ڈھلا ہے اور قانون بناتے وقت ان کے سامنے کسی مغربی ملک یورپ و امریکہ کا کوئی نہ کوئی قانون رہا کرتا ہے، جو اس کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے ۔اس لئے یاد رہے کہ یکساں سول کوڈ پورے طور پر مغربی طرز اور ساخت کا ہوگا ،جس کی ایک مثال ،،ہندؤ کوڈ،، ہے ۔ اگر خداناخواستہ اس ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا ،حکومت نے یہاں یکساں سول کوڈ بنایا تو وہ موجودہ ہندؤ کوڈ کو یونیفارم سول کوڈ کا نام دے گی ،اسے تھوڑی بہت ظاہری تبدیلی کے ساتھ سول کوڈ بنا دیا جائے گا ۔۔۔
دستور ہند کی دفعہ 25/ اور 26/ میں بنیادی حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے ۔لیکن دستور کی دفعہ 44/ باب 4/ میں یونیفارم سول کوڈ بنانے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ باب رسم و رواج سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ بنیادی حقوق سے،جن کا تعلق رسم و رواج سے آگے مذہب سے ہے ۔اور پرسنل لا کی بنیادیں مذہب سے وابستہ ہیں ۔لہذا ان پر دفعہ /44 کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔البتہ جن لوگوں کا پرسنل لا مذہب سے وابستہ نہ ہو، بلکہ ان کا مدار رسم و رواج پر ہو، ان پر دفعہ 44/ اثر انداز ہوسکتی ہے ۔۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کو قانون شریعت کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔کیونکہ نکاح ،طلاق ،وراثت حضانت ، ،خلع وغیرہ یہ شریعت کے وہ قانون ہیں ،جس میں کسی کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔۔
1935ء میں یہاں کی حکومت نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ جب آزادی کے بعد اقتدار ہاتھ آئے گا، تو حکومت پرسنل لا میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی ۔ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی قانون و دستور سازی کے وقت کہا تھا کہ مسلمانوں کی مرضی کے خلاف مشترکہ سول کوڈ نہیں بنایا جائے گا ۔۔۔۔۔لیکن دھیرے دھیرے قول و فعل میں تضاد آنا شروع ہوگیا اور اب اس وقت جو صورتحال ہے وہ آپ لوگوں سے مخفی نہیں ہے ۔اس کے لئے پورا تانا بانا کسا جارہا ہے اور مختلف انداز سے اس کو نافذ کرنے کی تیاری چل رہی ہے اس کے فوائد شمار کرائے جارہے ہیں اور کچھ اپنوں کو بھی استعمال کررہے ہیں ۔۔
میں نے گزشتہ مضمون میں لکھا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ یہ کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے ،اس سے قومی یکجھتی پھلے پھولے گی نہیں ،بلکہ متاثر ہوگی ۔اس کوڈ کا جو مجوزہ خاکہ ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ بہت سے امور میں شریعت کے عائلی قانون سے متصادم ہوگا ۔ جودینی نقطئہ نظر سے مسلمانوں کے لئے قطعا قابل قبول نہیں ہوگا ۔اس کے علاوہ یہ کسی طرح باشندگان ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا یہ بھارت دیش مختلف مذاہب اور متنوع تہذیبوں کا ایک گلدستہ ہے اور یہی تنوع اور رنگارنگی اس کی خوبصورتی اور رعنائی ہے ،اگر اس تنوع،رنگارنگی اور ندرت کو ختم کردیا جائے گا تو پھر اس گلدستہ کی خوبصورتی متاثر ہوگی اور یکساں سول کوڈ نافذ کرکے جو خوشنما باغ دکھایا جارہا ہے ،سچائی یہ ہے کہ وہ واقعہ کے خلاف ہے ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ مسلمان جس طرح نماز ،روزہ ،حج زکوٰۃ اور قربانی جیسی عبادت کو انجام دینے کا مکلف بنایا گیا ہے ،اتنا ہی ان پر ضروری ہے کہ وہ نکاح و طلاق میراث ،عدت ،ولایت ،حضانت اور دیگر عائلی قانون کو اپنی زندگی میں نافذ کرے ۔ اس کے بغیر وہ مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا ۔اس لئے پرسنل لا کے سلسلہ میں تمام مذاہب اور مختلف گروہوں کے نقطئہ نظر کی رعایت کرنا ضروری ہے ،اور دستور کی روح بھی یہی ہے ۔
راقم الحروف نے گزشتہ قسط میں یکساں سول کوڈ سے مسلمانوں کو کس قدر نقصان ہوگا اور ان کے ایمان و عقیدہ اور معاشرت اور عائلی زندگی پر کیسا منفی اثر پڑے گا اور ان کو شریعت سے ہٹ کر کس طرح زندگی گزارنی پڑے گی، اس کی کچھ تفصیلات بیان کیا تھا ،اب مزید ان نقصانات کی نشاندھی کی جارہی ہے ۔ مولانا سید شاہ منت اللّٰہ صاحب رحمانی رح لکھتے ہیں ۔:
،، ہندؤ کوڈ کی بنیاد ہندؤ مذہب کی تعلیمات نہیں بلکہ مغربی نظریات ہیں ،مثلا ہندؤ کوڈ کی رو سے شادی کے بعد تین سال تک زوجین یعنی میاں بیوی میں علیحدگی کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا ۔اوردونوں میں سے کوئی اگر علیحدگی چاہے تو اسے شادی کے بعد کم سے کم تین سال انتظار کرنا ہوگا ۔ہندؤ کوڈ نے طلاق کا اختیار بھی مردوں سے ختم کردیا ہے اور یہ صراحت کی ہے کہ مرد اور عورت میں سے جو بھی علیحدگی چاہے عدالت میں درخواست دے،عدالت اگر علیحدگی کے مطالبہ کو درست سمجھے گی، تو علیحدگی کرا دے گی ۔یہ سسٹم خدا کے بنائے ہوئے قانون سے صاف طور پر متصادم ہے اور اس سے ٹکراتا ہے۔ شریعت نے یعنی مسلم پرسنل لا نے اس کا پابند نہیں کیا ہے کہ نباہ ہو رہا ہو یا نہیں ،بہر حال تین سال تک زوجین میاں بیوی ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہیں ،شریعت نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے،خلع اور فسخ کا حق عورت کو دیا ہے ،اس کے لئے مخصوص رکھا ہے ۔اس لئے اس طرح کے قوانین ایک مسلمان کی عائلی زندگی کے لئے حد درجہ نقصان دہ ہیں اور ناقابل برداشت بھی ۔۔
ہندؤ کوڈ میں وراثت کے متعلق بھی دفعات موجود ہیں ۔یہ دفعات بھی اسلام کے قانون وراثت سے ٹکراتی ہیں ۔مثلا ہندؤ کوڈ نے ماں ،بیوی ،بیٹا اور بیٹی کو برابر کا درجہ دیا ہے ۔اگر مرنے والے کے یہ چاروں وارث موجود ہوں تو جائیداد برابر تقسیم کی جائے گی اور سبھوں کو برابر حصہ ملے گا ۔جب کہ اسلام کا نظام وراثت اس وقت یہ ہوگا کہ ان چاروں کے درجات الگ الگ ہوں گے اور ہر ایک کے حصہ کی مقدار کو بھی بیان کردیا گیا ہے ۔
اس طرح ہندؤ کوڈ کا وہ پورا حصہ جو میراث سے متعلق ہے، اسلام کے قانون وراثت سے بالکل الگ اور جدا ہے ۔بہت سے لوگ جو اسلامی قانون کے لحاظ سے حقدار یا زیادہ کے حقدار ہوا کرتے ہیں ،ہندؤ کوڈ کی نظر میں اس کا حصہ کم ہوگا یا نہیں ہوگا ۔اور بہت سے وہ لوگ جو اسلامی قانون کے لحاظ سے کم کے مستحق ہیں یا جنہیں کچھ نہیں ملنا چاہیے وہ ہندؤ کوڈ کے مطابق زیادہ پاسکتے ہیں ۔اسلامی نقطئہ نظر سے اس طرح پر کچھ لوگوں کی حق تلفی ہوگی اور کچھ لوگوں کو بیجا نفع پہنچتا ہے، جو غلط ہے ۔۔دونوں قوانین کے درمیان جو فرق ہے ،اس کی یہ چند مثالیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مغرب سے برآمد کیا ہوا یہ ہندؤ کوڈ مسلم پرسنل لا سے بالکل الگ اور مخالف قانون ہے ۔یکساں سول کوڈ موجودہ ہندؤ کوڈ سے زیادہ الگ اور مختلف نہیں ہوگا ،اس لئے اگر مسلم پرسنل لا کی جگہ یکساں سول کوڈ نافذ کیا گیا ،تو مسلمانوں کی عائلی زندگی کی پوری عمارت ڈھ جائے گی،، -( اقتباس از مضمون مولانا سید شاہ منت اللّٰہ صاحب رحمانی رح ماہنامہ ہدایت جئے پور شمارہ مارچ 2015ء)..۔۔۔
اسلام ایک کامل و مکمل دین ،مستقل تہذیب اور کامل دستور العمل ہے ، یہ خدا کا نازل کردہ آخری دین ہدایت ہے ،اور اب صرف یہی دین یعنی اسلام اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہے ، جو اس کے علاوہ کسی اور دین کو قبول کرے گا وہ اللہ کے نزدیک ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا ،اور وہ آخرت میں گھاٹا و نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ۔ اسلامی شریعت کا قانون یہ خدا کا بنایا ہوا قانون ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی شریعت ہے ،اس میں کسی انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ کسی فرد ،جماعت اور حکومت کو حق ہے کہ وہ منصوص اور کلی مسئلہ میں اپنی طرف سے کوئی رد وبدل کرے اور دین کے کسی مسلمہ اصول کی تشریح و تعبیر اپنے الفاظ میں اپنے من اور اپنی رائے و فکر سے کرے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے یہ دین ہم تک پہنچا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دین کی تفہیم و تشریح کا فریضہ انجام دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کو اس کے لئے تیار کیا، ان کی تربیت کی ، پھر صحابہ کے ذریعہ سے یہ پورا اسلام اور پوری شریعت ہم سب کو ملی ۔
شریعت اسلامی کو انسانی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لئے تمام مسلمانوں کو اس کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دین کو شامل کریں ،اس پر چلیں ،اسی کے مطابق اپنے تمام مسائل حل کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ کو سو فیصد اپنے لئے اسوہ اور نمونہ بنائیں۔ ما آتاکم الرسول خذوہ و مانھاکم عنہ فانتھوا ۔۔۔۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة..
قارئین باتمکین!!!!!!
آج کی مجلس میں خاص طور پر ہمیں بات کرنی ان لوگوں کے بارے میں جو لوگ یا جو حکومت کامن سول کوڈ کے جواز کےلئے مسلم حکومتوں اور مسلم ممالک کا حوالہ دیتے ہیں ۔
اسلام مخالف طاقتوں کی طرف سے اور موجودہ خود ساختہ مفکرین کی طرف سے بھی یہ بات دہرائی جاتی ہے اور بار بار حوالہ دیا جاتا ہے کہ جب مسلم ممالک اور موجودہ اسلامی حکومت میں مسلم پرسنل لا کو ختم کیا جاسکتا ہے ،اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ،اس میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے اور حالات کے اعتبار سے اس کو اپٹوڈیث کیا جاسکتا ہے تو ہندوستان میں ایسی تبدیلی کیوں نہیں ہوسکتی ،یہاں یہ تبدیلی کیوں غلط ہوگی؟ ۔خاص کر وہ لوگ جو ہر معاملہ میں پڑوس ملک کے نام سے بدکتے ہیں ،اس معاملہ میں اس ملک کی دہائی دے کر ہندوستانی مسلمانوں کو پڑوس ملک کے مسلمانوں کی پیروی اور تقلید کا مشورہ دیتے ہیں ۔اور وہاں کی حکومت کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔
مسلم پرسنل لا کی تنسیخ یا تبدیلی کی یہ دلیل بظاہر مضبوط اور قوی معلوم ہوتی ہے ،مگر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جو قرآن وحدیث کے خلاف ہے ،وہ غلط ہے،خواہ کہیں ہورہا اور کوئی کررہا ہو۔مسلم ممالک کی غلط اور ناجائز کاروائی اسلامی شریعت اور اسلامی قانون نہیں کہلا سکتی ہے۔اور نہ اس بنیاد پر اسلامی قانون میں ترمیم و تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔جو چیز قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح اور درست ہے،اسے ہی صحیح اور اسلام کے مطابق کہا جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلم ممالک میں پرسنل لا کی تبدیلی کا جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ،وہ در حقیقت افواہ ہے اور حقیقت سے دور ہے ۔عام طور پر مسلم ممالک میں مسلم پرسنل لا نافذ ہے، اور وہاں کے لوگ دین و شریعت کے مطابق اپنے عائلی مسائل حل کراتے ہیں ۔صرف چند ممالک ایسے ہیں جہاں تھوڑی بہت تبدیلی ہوئی ہے ۔ماضی بعید میں تبدیلی کی ایک اہم مثال آپ ترکی موجودہ ترکیہ کی پیش کرسکتے ہیں ،جہاں 1926ء میں نہ صرف مسلم پرسنل لا کو ختم کردیا گیا بلکہ انفرادی زندگی کے نظام کو درہم برہم کردیا گیا ، انتہا یہ ہوئی کہ انگریزی لباس کو قانونی شکل دی گئی،عربی زبان پر پابندی عائد کر دی گئی ،اسلامی عبادات پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا ، اسلامی عائلی قوانین کو بھی ختم کردیا گیا اور مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ مذہب و معاشرہ کے معروف و مشہور اور منصوص طریقوں سے الگ ہو جائیں ۔اس قسم کے باطل قوانین کی مخالفت کرنے والے سیکڑوں علماء شہید کردئے گئے اور توپوں کے سائے میں اسلام اور اسلامی تعلیمات و قوانین کو حرف غلط کی طرح مٹایا گیا ۔۔علامہ اقبال مرحوم نے ان سے متاثر ہوکر بہت ہی بے قراری کی حالت میں کہا تھا ۔
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ آوروں کی عیاری بھی دیکھ

اور فرمایا تھا کہ
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ترکمان سخت کوش

اس وقت بھی ترک علماء اور عوام نے اس تبدیلی کو دل سے قبول نہیں کیا اور آخر کار ترکی حکومت قوانین بدلنے پر مجبور ہوئی، اور اب ترکی پھر بہت حد تک مسلم پرسنل لا کے قریب ہے اور اس پر ان کا عمل ہے ۔ خصوصا موجودہ ترکی کی، اب کیا حالت ہے ؟وہ آپ سب جانتے ہیں۔ الحمدللہ وہ ملک کتنا اسلام کے قریب آچکا ہے وہ سب آپ کی نگاہ اور نظر میں ہے ۔
کچھ دہائی قبل پڑوس ملک میں بھی کچھ تبدیلیاں لائی گئیں ،جب وہاں فوجی حکومت وقفہ وقفہ سے قائم ہوتی رہی ،جس کا ذکر یکساں سول کوڈ کے حامی اکثر کرتے رہتے ہیں ۔اگر چہ وہاں جو تبدیلیاں ہوئیں ان کا زیادہ تر تعلق انتظامی امور سے ہے ۔لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ متعدد تبدیلیاں قانون شریعت کے خلاف ہوئی ہیں اور نہ صرف ہم ہندوستانی مسلمان بلکہ وہاں کے اکثر مسلمان اس کو غلط سمجھتے ہیں ۔جس وقت وہاں یہ تبدیلیاں لائی گئیں وہاں کے علماء اور غیرت مند مسلمانوں نے اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی ،احتجاج کیا اور عوام الناس نے بھی علماء کا ساتھ دیا ۔ مگر وہاں کی فوجی آمر حکومت نے اس کے باوجود مسلم پرسنل لا کے کچھ حصوں میں ترمیم و تبدیلی کر ڈالا ۔
ہمارا یہ ملک تو ایک عظیم جمہوری ملک ہے ،آمریت اور فوجی حکومت کو یہاں کا کوئی باشندہ اور یہاں کی حکومت پسند نہیں کرتی ،جمہوری نظام اور جمہوری طرز حکومت پر ہندوستان کو فخر حاصل ہے ،تو کیا یہاں بھی کسی کے پرسنل لا میں تبدیلی لاکر ہم آمریت اور غیر جمہوری حکومت اور اس کے نظام کی تائید کرنے کے لئے تیار ہوجانا چاہتے ہیں ؟۔ مجھے تو یقین ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ لوگ اس نظام کو پسند نہیں کریں گے ۔۔
یاد رہے کہ وہاں اس جزوی تبدیلی کے باوجود وہیں کے بعض صوبے میں یہ ہدایتں بھی دی گئی ہیں ،زنا کرنے والوں اور شراب پینے والوں کو سزا نائٹ کلب اور ڈانس پر پابندی ،رمضان المبارک کا احترام ،تمام عملہ کے لئے نماز کی پابندی ،عورتوں کو چست کو چست اور جاذب نظر لباس پہن کر نکلنے کی ممانعت اور اسی انداز کے اور بھی قوانین ہیں ۔۔ (مستفاد و ملخص از مضمون حضرت مولانا سید شاہ محمد منت اللّٰہ صاحب رحمانی رح بحوالہ ماہنامہ ھدایت جئے پور شمارہ مارچ 2015ء)
بہر حال اختصار کرتے کرتے بھی مضمون دراز ہوگیا اس کے لئے معذرت چاہتے ہیں ، اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اس موضوع پر جتنا کچھ مواد ہوسکتا ہے ، ان شاء الگ الگ عنوان سے آپ کی خدمت میں پیش کریں گے تاکہ ہم کو آپ کو اس موضوع سے متعلق اچھی معلومات حاصل ہوجائے اور ہم اس پر یعنی مسلم پرسنل لا پر ہر وقت عمل کرنے کے لئے بھی تیار رہیں ۔۔۔۔
نوٹ / اس مضمون کو تیار کرنے میں مختلف مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہم مسلمان سخت امتحان اور آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں ،حالات یقینا بہت سخت اور مشکل ہیں ،خصوصا ہندوستانی مسلمان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں ۔اس امت پر آج جو حملے ہورہے ہیں،جو سازشیں رچی جارہی ہیں اور دشمنوں کے جو عزائم اور ارادے ہیں، وہ طشت از بام ہیں ،شعائر اللّٰہ زد پر ہیں ،جان و مال عزت و آبرو کے لالے پڑے ہیں، دھمکیوں سے ڈرانےاور خوف زدہ کرنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے اور وطن عزیز کا یہ منظر کتنا دلخراش ہے کہ بقول شخصے نیائے اور قانون اس دھرتی پر بیچارہ ہوتا جارہا ہے ،انصاف خود پر شرمسار ہے ،سچائی کو کھرچ کھرچ کا مٹایا جارہا ہے ،حقیقتوں کو پروپیگنڈہ میں دبایا جارہا ہے اور بے بصیرتی کی انتہا یہ ہے کہ وہ ملت جس کا ہر فرد ہمارے وطن کا چھٹا انسان ہے، اس کو خوف زدہ کرکے اور ڈرا دھمکا کر اس کےحقوق غصب کرنے کی فضا اور ماحول بنایا جارہا ہے ،یقینا اس وقت مسلمان سخت امتحان اور آزمائش کے دور سے گزر رہےہیں ،مرحلہ سخت و دشوار اور امتحان بڑا ہے ۔۔

بچھ گئے کوئے یار میں کانٹے
کس کو عذر برہنہ پائی ہے

اس وقت یقینا حالات کروٹ بدل رہے ہیں ،مستقبل کے بارے میں ہمارے سامنے کئی اندیشے آرہے ہیں، پچھلے دو مرکزی انتخاب( الیکشن) میں ان کواقتدار و مسند ملا ہے، جو مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کی انفرادیت کو تسلیم نہیں کرتے اور ان اقلیتوں کو اپنے سماج میں ضم کرنے کا نصب العین ہی نہیں رکھتے، بلکہ ایک طرح کا اعلان کرچکے ہیں اور بطور خاص مسلمانوں کے دینی تشخص کو ختم کرنے کا پورا عزم اور ارادہ رکھتے ہیں اور سارے ہندوستانیوں کو اکثریتی سماج کی تہذیب اور اس کے تمدن میں ضم کرکے وہ یکسانیت قائم کرنا چاہتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ تہذیب و تمدن کی اس یکسانیت سے ملک طاقت ور ہوگا اور ملک میں اندرونی اتحاد و اتفاق مضبوط ہوگا ۔ جو صرف خام خیالی ہے ۔ اس کی ایک صورت یہ پیش کرتے ہیں کہ جب بین مذاہب شادی کا رواج عام ہوگا تو مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں اتحاد ہوگا ،آپس میں رشتہ داریاں ہوں گی تو آپسی تعلقات میں مضبوطی آئے گی، ہندؤ مسلم منافرت ختم ہوگی ۔۔ یہ صرف دھوکہ ہے ،خام خیالی پر مبنی بات ہے ۔ ابھی ایک ہفتہ قبل کی خبر ہے ،مسکان نامی لڑکی کو دو چار سال قبل ایک ہندؤ لڑکے سے پیار ہوگیا، وہ اس کے ساتھ چلی گئی ،گھر والوں نے منت خوشامد کرکے اس کو گھر ???? واپس لایا ،لیکن کچھ دنوں کے بعد دو بارہ وہ لڑکی گھر سے چلی گئی اور اس لڑکے سے شادی کرلی ۔ تین چار سال بعد ایک ہفتہ قبل لڑکی کے والدین کے پاس کسی افسر کا فون آیا کہ آپ کی لڑکی کی لاش پوسٹ مارٹم گھر میں ہے، اس کو آکر لے جائیے اور آخری کریا کرم یعنی تدفین کیجئے ،گھر والوں نے جب سوال جواب کیا تو کہا گیا کہ سوال جواب بعد میں، پہلے لاش یہاں سے لے جائیے ۔۔۔یہ تو ایک واقعہ بتایا گیا، ورنہ تو تقریباً روزانہ اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔
شرعی طور پر تو یہ حرام ہے ہی ولا تنکحوا المشرکات، منطقی اور عقلی طور پر بھی اس کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ بین مذاہب شادی سے بائی چارہ اور اتحاد و اتفاق کی راہیں کھلتی ہیں اور آپس میں خوشگواریاں بڑھتی ہیں ۔
بہر حال یہ خیال خام ہے، کیونکہ یورپ کے ممالک انگلستان ،جرمنی اور فرانس کی تہذیب اہک،تمدن ایک ،نسل ایک،کلچر ایک ،ثقافت ایک، کپڑوں کی نوعیت ایک ،نشست و برخواست ایک ،چلنے پھرنے کھانے پینے کا انداز ایک ،اتنی ساری یکسانیت کے باوجود پوری دنیا میں تباہی مچانے والی دو عالمگیر جنگیں ان ہی ممالک کی باہمی لڑائی کا نتیجہ تھیں ۔
میں نے عرض کیا کہ جو اندیشے مسلمانوں کے اطراف منڈلا رہے ہیں، ان میں سب سے خطر ناک آج یونیفارم سول کوڈ کی تدوین اور اس کے ملک میں نفاذ کا ہے ۔۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں تمام تعزیراتی PENAl، فوجداری اور دیوانی civil قوانین یکساں ہیں ،ان کے نفاذ اور اطلاق میں ہندؤ مسلمان ،سکھ ،عیسائی بودھ پارسی کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں ،سب پر ان کا اطلاق اور نفاذ ہوتا ہے ۔فرق صرف پرسنل لا یعنی عائلی قانون کے بارے میں ہے۔پرسنل لا سے مراد وہ قوانین ہیں ،جو ایک خاندان کی تشکیل اور خاندان کے افراد کے درمیان حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین کے بارے میں ہوتے ہیں۔خاندان وجود میں آتا ہے ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان شادی بیاہ سے اور اس خاندان کے افراد ماں باپ بھائی بہن بیٹا بیٹی کے درمیان فرائض و حقوق کا معاملہ آتا ہے اور اس قانون کی آخری منزل موت کے بعد مرنے والے کی چھوڑی ہوئی جائیداد کی تقسیم یعنی وراثت اور جانشینی سے متعلق ہے اور یہ تمام معاملات وہ ہیں جو مذہب طے کرتا ہے ۔اس لئے شادی ، علیحدگی ،نفقہ ،ترکہ ،وراثت ،ہبہ وصیت کے بارے میں ملک کے ہرمذہبی طبقے کے اپنے اپنے قوانین ہیں ۔
1950ء کے دہے میں حکومت ہند نے ہندوؤں کے لئے یکساں قوانین بنانے کی کوشش کی کیونکہ ہندوؤں میں ذاتی ،علاقے اور طبقے کے اعتبار سے قوانین الگ الگ تھے ۔مگر حکومت اپنے مقصد اور ہدف میں ناکام رہی، کیونکہ ہر قانون میں رواج کو تسلیم کرتے ہوئے رواج کی موجودگی میں قانون کو نظر انداز کرنے اور اس سے صرف نظر کرنے کی اجازت دی گئی ۔ذاتی اور طبقے کے ساتھ ساتھ شمال اور جنوب کی ایک ہی ذاتوں میں اختلاف ہے ۔جنوبی ہند میں تامل ناڈو ،کرناٹک اور آندھرا میں ماموں اور بھانجی کے درمیان بیاہ عام ہے ۔بہن اپنے چھوٹے بھائی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرے ورنہ ناراض ہوجاتی ہے ۔شمالی ہند کے ہندوؤں میں ایسا خیال بھی پاپ ہے ،ایسی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں ،غرض یہ کہ ملک کے ہندوؤں میں پرسنل لا کی یکسانیت پیدا نہیں کی جاسکتی اور یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے ،قبائلی علاقوں قبائلی نظام ہے وہ کسی طرح سے اس سے دستبردار نہیں ہوسکتے ، ناگا اور آدی واسی اس کی واضح مثال ہیں ۔
ہمارے برادران وطن یہ خیال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یونیفارم سول کوڈ رہے گا ،لیکن رواج پر عمل کرنے کی اجازت بھی رہے گی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہیں پر ملک کے عوام کے اس بڑے طبقے کی اس غلط فہمی کو دور کیا جائے ،تاکہ وہ محسوس کرسکیں کہ یونیفارم سول کوڈ بنے گا، تو ان کے رواج بھی ختم ہوں گے ۔ان میں اکثر کو یہ غلط فہمی ہے کہ صرف مسلمانوں کا قانون ختم ہوگا ہمارے رواج باقی رہیں گے ۔
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو جیسا کہ اوپر بھی ہم اس کا ذکر کرچکے ہیں کہ مسلم پرسنل لا ان کے نزدیک قانون شریعت کا حصہ ہے ،اس لئے اس کے تحفظ کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے ۔ اس لئے ہر مسلمان کو مسلم پرسنل لا اور اس کے متعلق جزئیات کا ضروری علم ہونا چاہیے اور ان کو عائلی قوانین کی صحت پر پورا یقین اور بھروسہ ہونا چاہیے کہ انہیں قوانین کے ذریعہ مسلم معاشرہ کی صلاح و فلاح ہوسکتی ہے اور یہ عائلی اور شخصی قوانین الگ الگ مسلم افراد پر پورے خاندان پر مسلم معاشرہ میں صحیح طور پر جاری و نافذ ہونا چاہیے ۔
لیکن آج مسلمانوں میں چار طرح کے لوگ آپ کو ملیں گے یا یہ کہیئے کہ مسلمانوں میں چار طبقات پائے جاتے ہیں ۔ایک وہ طبقہ ہے جن کو اسلامی قوانین کے بارے میں اور مسلم پرسنل لا سے متعلق اچھی معلومات ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔دوسرا وہ طبقہ ہے جسے قرآن و حدیث سے اسلامی قوانین کا علم حاصل نہیں لیکن یہ طبقہ پڑھا لکھا ہے ۔اسلام کا وفادار اور دین کا احترام کرنے والا ہے ۔ایمان داری کے ساتھ مسلم پرسنل لا میں بعض دشواریاں محسوس کرتا ہے ۔تیسرا وہ طبقہ ہے جو صرف اپنے کو مسلمانوں کا نمائندہ کہتا ہے، لیکن اسلام سے زیادہ مغربی افکار و نظریات کا وفادار ہے اور شریعت سے کہیں زیادہ ترقی پسندی کا علمبردار ہے ۔اور چوتھا طبقہ عام مسلمانوں کا ہے، جو اپنے علم و شعور کی حد تک دین پر عمل پیرا ہے اور یہ طبقہ کسی حال میں مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہمارا اصل ہدف اور میدان اسی طرح کے لوگ ہیں، جن پر ہم محنت کرکے ان کی اصلاح بہت حد تک کرسکتے ہیں، باقی محنت تو اور طبقوں پر بھی کرنی ہے ۔۔
اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اسلامی قوانین کو سمجھیں ان پر عمل پیرا ہوں اور ساتھ ہی مسلم پرسنل لا کی تفصیلات کا ہمیں بھرپور علم ہو ،مسلم پرسنل لا سے متعلق قوانین کے استعمال کا صحیح طریقہ معلوم ہو، کیونکہ اگر ہم سے اس معاملہ لغزش ہوئی تو مخالفین کو طاقت ملے گی اور وہ اس کو ہمارے خلاف استعمال کریں گے ۔۔۔۔۔۔
نوٹ ۔مختلف مراجع و مصادر کی روشنی میں یہ مضمون تیار کیا گیا ہے ۔۔۔۔
ناشر/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
6393915491

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close