مضامین

سناتن کے نام پر سوالات کا رخ موڑنے کی کوشش، عبدالحمید نعمانی،

ملاحظات

جس مسئلہ اور بحث کا سرے سے کوئی تعلق اسلام اور مسلمانوں سے نہیں ہوتا ہے، اسے بھی کھینچ تان اور گھما پھرا کر اسلام ،مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھنے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اصل سوال سے توجہ ہٹ کر معاملے کو وارانہ بنا دیا جائے، چاہے ڈاکٹر چندر شیکھر (وزیر تعلیم بہار )،سوامی پرساد موریہ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات و اعتراضات کا معاملہ ہو یا ادے ندھی، اے راجا اور کرناٹک کے ایم ایل اے پرینک گھڑگے کی بات ہو، کسی کا بھی اسلام ، مسلمانوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن بار بار آنے بہانے سے کچھ ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جن سے ثابت و ظاہر ہوتا ہے کہ سناتن کو ہندو برہمن دھرم اور ہندوتو کے طور پر پیش کر کے ملک کو ایک مخصوص ڈگر پر لے جانے والوں کے پاس اپنے موقف پر کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے اور اونچ نیچ پر مبنی طبقاتی نظام کے تحت سماج کو 4حصوں ،برہمن، کشتری، ویش ،شودر میں تقسیم کرنے کے متعلق سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے، اس تعلق سے مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے بہت سی باتیں کہی اور لکھی جا رہی ہیں لیکن ان میں اصل سوالات کے جوابات ندارد ہیں، اس سلسلے کے کئی ٹی وی مباحث میں ہمیں بھی حصہ لینے کے مواقع ملے، بہت سے دھرم گروؤں، آچاریوں اور سیاسی، غیر سیاسی لوگوں کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا، بہت غور و توجہ سے دیکھنے سننے کے باوجود اصل سوالات اور جن وجوہ سے سناتن برہمن دھرم اعتراضات و تنقیدات کی زد میں ہے ان کے متعلق کوئی اطمینان بخش جواب ابھی تک نہیں ملا ہے، اصل سوالات کے جوابات دینے کے بجائے بحث کا رخ اسلام اور مسلمانوں کی طرف موڑنے کا مطلب بہت صاف ہے کہ بہت کچھ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جہاں تک سناتن کے معنی کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ہر مذہب والے اپنا تصور رکھتے ہیں، ایک خدا اور بنیادی عقائد کے حوالے سے اس کے لیے دین قیم کی اصطلاح قرآن مجید میں موجود ہے، سناتن کا معنی ہمیشہ سے چلا آ رہا، اپنے آغاز سے اپنی اصلی حالت میں قائم و باقی ہو، اس کے لیے ہندی سنسکرت میں शाश्वत کا لفظ ہے، اس تناظر میں ہر دین، دھرم، والے کو اپنے بنیادی متون میں اپنی بنیاد کو تلاش کرنا چاہیے، گاندھی جی، ڈاکٹر رادھا کرشنن وغیرہ کی تحریروں و بیانوں سے سمجھ میں میں آتا ہے کہ بھارت ،دھرم، عقیدہ و عمل کے لیے ایک طرح سے تجربہ گاہ ہے، اسے حال فی الحال آر ایس ایس وچارک پروفیسر راکیش سنہا نے بھی ری پبلک ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا اور تسلیم کیا ہے، ایسا انہوں نے سناتن دھرم پر بحث میں ہی کہا ہے، اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندو دھرم بھی مسلسل ایک تجربہ و ارتقاء کے عمل سے گزرتا رہا ہے، اس حوالے سے اسے ہمیشہ سے چلا آ رہا عقیدہ و عمل ثابت کرنا مشکل ہے، جو عقیدہ و عمل مسلسل تجربہ و ارتقاء کے عمل سے گزر رہا ہو اسے جاودانی، دائمی قرار دینا ایک ثبوت طلب امر ہے، اس معاملے میں سب سے بنیادی بات ایک خالق کی عبادت اور اس کا تصور ہے، اس کے متعلق گزشتہ دنوں مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم نے بنیادی سوال اٹھایا تھا، حالیہ دنوں میں سناتن کے معنی و بحث میں دین اسلام سے موازنہ اور سناتن کو اسلام کے مقابلے میں ہندوتو وادیوں کی طرف سے، ممتاز و معقول ثابت کرنا ایک بے معنی سی کوشش ہے، اسلام کے بارے میں بہتر طور سے جانے اور کم از کم قرآن مجید کا ضروری حد تک مطالعہ کیے بغیر، موازنہ کا کوئی وزن نہیں رہ جاتا ہے، سناتن برہمن دھرم میں طبقاتی نظام کے تناظر میں مختلف طبقات و افراد کی طرف سے اعتراض و اشکال اور اس کے استیصال کی باتوں کے مد نظر اسلام اور مسلمانوں کو بیچ بحث میں لانا، بالکل غیر متعلق، بے معنی اور بے ایمانی کا عمل ہے، ادے ندھی اور ان کی حمایت میں کچھ لوگوں نے جو بیانات دیے ہیں اور دے رہے ہیں ان کی تردید کرتے ہوئے اپنے موقف و نظریہ کو پیش کرنے کا حق اور آزادی ہر ایک کو حاصل ہے، اس سے مستثنٰی کسی کو نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن سناتن سے متعلق سوالات کا رخ دوسری طرف موڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ اس کی تائید کی جا سکتی ہے، یوپی کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے ادے ندھی کے بیان پر جو تبصرے کیے ہیں ان پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تبصرے میں یہ جوڑ دینا کہ "جو سناتن بابر، اورنگزیب کے مظالم نہیں مٹا، اسے یہ گھٹیا پست تر لوگ کیسے مٹا سکتے ہیں، سناتن بھارت کا قومی دھرم ہے” سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے، یہ اصل سوال کا جواب بھی نہیں ہے ،
بھارت میں کئی سارے دھرم، مذاہب ہیں، ہندو دھرم بھی بھارت میں موجود دیگر مذاہب، دھرموں کی طرح ایک دھرم ہے، یہ اور بات ہے کہ سپریم کورٹ، آر ایس ایس وغیرہ ہندو کو دھرم، دین تسلیم کرنے کے بجائے صرف ایک طرز حیات مانتے ہیں، ملک کے موجودہ نافذ آئین کی رو سے کسی مخصوص عقیدہ یا طرز حیات کو بھارت کا قومی دھرم یا قومیت سے جوڑ کر دیکھنا دکھانا ایک غیر آئینی فکر و عمل ہے، بھارت میں نہ تو ایک دھرم ،مذہب ہے اور نہ کوئی ایک سنسکرتی، تہذیب ہے، ڈاکٹر امبیڈکر نے لکھا ہے کہ بھارت میں ان گنت تہذیبیں ہیں، کوئی ایک تہذیب نہیں، ان کی ایک کتاب ہے
Revolution in Ancient India,
اس کا ایک باب ہے، "برہمن واد کی فتح "اس کے تحت وہ لکھتے ہیں ہیں
” انڈیا میں بھارتیہ سنسکرتی نام کی کوئی ایک تہذیب کہیں نہیں ہے، کبھی تھی نہ اب ہے، پہلے ویدک سنسکرتی تھی جو یگیوں کی تہذیب تھی جس میں برہمن پروہت کا بول بالا تھا، اس کے خلاف بودھ سنسکرتی آئی جس نے یگیوں اور برہمن واد کا خاتمہ کر کے اخلاقیات اور بھکشو تہذیب کو اہمیت دی، پھر برہمن واد آیا جس نے ویدک سنسکرتی کی کافی توسیع کی، بودھ سنسکرتی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا، اب باہم متصادم سنسکرتیوں میں سے کسی ایک سنسکرتی کو ہندستانی سنسکرتی کیسے کہا جا سکتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب سنسکرتیاں ہندستانی انسانی ارتقاء کی طویل و وسیع روایات کے مختلف ادوار ہیں، لہذا کسی ایک سنسکرتی کو بھارتیہ سنسکرتی کا نام دے کر اس کو نمائندہ بنا کر تشہیر کرنا بالکل غیر مناسب ہے ”
یہ اقتباس بہت واضح ہے، اس کی روشنی میں بھارت کے مطالعے کے، ہندوتو وادی عناصر کے برعکس نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس جہت سے ہندو دھرم کو سناتن دھرم بتا کر بھارت کا قومی دھرم قرار دینا، تاریخ، ملک کی روایات اور بھارت کے موجودہ نافذآئین ،سب کے خلاف ہے، ادے ندھی، سوامی پرساد موریہ، ڈاکٹر چندر شیکھر، وغیرہم اونچ نیچ پر مبنی جات پات اور طبقاتی نظام کے تحت سماج کی تقسیم کے حوالے سے جو تنقیدات و اعتراضات کرتے ہیں ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،
اس کے علاوہ بابر، اورنگزیب کے مظالم کے حوالے سے سناتن کی اہمیت و عظمت مذکورہ اشخاص پر حملے کی معقولیت سمجھ سے پرے ہے، ہندوتو وادیوں کے دیگر دعوے کی طرح یہ دعوٰی بھی محض ایک دعوٰی بغیر دلیل کے ہے کہ بابر، اورنگزیب نے اپنے مظالم سے سناتن کو مٹانے کی کوشش کی تھی، بابر نے اپنی آپ بیتی تزک بابری میں بھارت کے ساتھ اس کی بہت سی باتوں حتی کہ بت تراشی کے فن کی بھی تحسین کی ہے، اورنگزیب نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا کہ اسے مظالم قرار دے کر سناتن کے مٹانے کی بات کی جائے، مسلم حکمرانوں خصوصا مغل حکمرانوں نے ہندو دھرم میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کی، ملک کی تمام رعایا کو اپنے اپنے دین دھرم پر عمل کی پوری آزادی تھی، اس کا اعتراف شری رام شرمانے بھی کیا ہے، انھوں نے اپنی کتاب، The Religious Policy of the Mughal Emperors,میں لکھا ہے ” یورپی حکمرانوں کے برعکس مغل حکمرانوں نے مذہب کو رعایا پر چھوڑ دیا تھا، جہاں تک عقائد کا سوال تھا انہوں نے مذہبی برتری کا کوئی قانون نہیں بنایا ”
ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں تاریخی شواہد و حقائق کے ساتھ، افسانوی باتوں پر دعوے پر وسیع پیمانے بحث و گفتگو کی جائے،
کئی سادھو سنتوں، آچاریوں اور وشو ہندو پریشد کے ذمےداروں نے ادے ندھی کے بیان کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑنے کے لیے یہ تک کہا کہ یہ بیان مسلمانوں کو لبھانے کے لیے دیا گیا ہے، اس میں انڈیا اتحاد کی پارٹیوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے ایک کثیر الاشاعت ہندی اخبار کے مطابق مرکزی وشو ہندو پریشد کے کارگزار صدر آلوک کمار، آل انڈیا سنت سمیتی کے قومی جنرل سیکرٹری سوامی جتیندر نند، آل انڈیا اکھاڑہ پریشد کے مہنت رویندر پوری نے مشترکہ طور سے کہا "اسٹالن کے بیان کا انڈیا اتحاد کی پارٹیوں کی طرف سے بچاؤ کرنے سے واضح ہے کہ یہ بیان مسلم ووٹ بینک کو لبھانے کے لیے سوچ سمجھ کر دیا گیا ہے، (دینک جاگرن، 7/ستمبر 2023)
سناتن کے نام پر سیاست اور سماجی، اونچ نیچ پر مبنی جات پات اور ورن سسٹم کے خلاف کوششوں اور بیانوں کے رخ کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف موڑنے کی مہم سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ سناتن کو ہندو دھرم قرار دینے والوں کی پوزیشن بہت ہی غیر مستحکم ہے، مذکورہ سیاسی اشخاص کے بیانات کے تناظر میں بار بار بہت سے ہندوتو وادیوں نے کہا ہے کہ ذرا یہ لوگ اسلام کو نشانہ بنا کر دکھائیں، اعلی پولیس افسر رہ چکے بی جے پی لیڈر اور یوپی اسمبلی کے سابق صدر ہردے نرائن دیکشت نے کچھ ہی دنوں پہلے(12/9/23) شائع اپنے آرٹیکل میں بھی سناتن پر بحث کے تناظر میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا اسٹالن اسلام کو بھی اسی طرح نشانہ بنا سکتے ہیں، ؟بی جے پی لیڈر اور ترجمان سدھانشو تر ویدی، پریم شکلا اور دیگر نے بھی ٹی وی چینلز پر اسی طرح کا سوال اٹھایا ہے، ان سب سے ہمارا سوال ہے کہ آخر ادے ندھی، سوامی پرساد موریہ، وغیرہ اسلام کو کس بنیاد پر نشانہ بنائیں گے؟ہم نے ٹی وی چینلز پر ہی سوال کیا کہ اسلام میں ایسا کیا کچھ ہے یا اس نے محنت کش طبقات کے انسانوں کو آگے بڑھنے سے کب روکا اور ان میں نفرت و تحقیر آمیز تفریق کی ہے ؟، آپ سب مل کر کوئی ایک مثال پیش کریں، ہم جواب دیں گے، لیکن وہ کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر و خاسر رہے اور ان شا۶ اللہ آئندہ بھی رہیں گے، سناتن سنسکرتی و دھرم کے نام پر بحث کے رخ کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف موڑنے سے اصل سوالات سے نجات نہیں مل سکتی ہے،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close