مضامین

وزارت داخلہ کا خفیہ سرکلر

جہازی میڈیا کی خصوصی تحقیق

وزارت داخلہ کا خفیہ سرکلر
انگریزی ماہ نامہ”سوریا انڈیا“ کے جنوری کے شمارے میں شائع ہوئی مرکزی وزارت داخلہ کی ایک خفیہ دستاویز کا ترجمہ ناظرین کی خدمت میں پیش ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہریجنوں کے قبول اسلام کے معاملے میں حکومت ہند اور آر ایس ایس کے نقطہ ہائے نظر کتنے ہم آہنگ ہیں۔
منصوبہئ عمل
وزارت داخلہ میں 14/ دسمبر 1981ء کو منعقد ہونے والی مشاورتی میٹنگ، آئٹم نمبر31، خفیہ۔وزیر کی فائل کے لیے ایک نوٹ شری ایچ ایس سرجیت۔
خصوصاً تامل ناڈو اور اتر پردیش میں ہریجنوں کا اجتماعی قبول اسلام، اس تبدیلی مذہب، مذہب کے اسباب اور ان پر حکومت کے رد عمل کی تفصیل۔
آئٹم نمبر45۔ شری بی ایم دیش مکھ
ہریجن ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے لیے غیر ملکی دولت کا استعمال،تفصیل بتائیں۔
۱۔ تامل ناڈو میں ہریجنوں کو مسلمان کرنے کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے ہریجنوں پر ایک مدت سے جو سماجی جبر ہوتا رہا ہے، اس کے سبب ہندو سماج کا یہ طبقہ عیسائی مشنریوں اور اسلامی مبلغین کے اثرات کا شکار ہوتا رہا ہے۔
1980ء میں ہریجنوں کی ایک معتدبہ تعداد مسلمان ہوئی تھی (ضلع مدورئی کے کورے پور گاؤں کے 260 ہریجن اور ضلع تھنجاور کے ترو تھوڑے پونڈی گاؤں کے 63ہریجن۔ لیکن ان واقعات کی تشہیر نہ ہو سکی۔
۲۔ ضلع تیرونیلویلی کے تن کاسی تعلق کے مینا کشی پورم گاؤں میں ہر یجنوں کے اجتماعی قبول اسلام کا واقعہ پوری شدت کے ساتھ عوام کے علم میں آیا۔ ریاستی حکومت سے موصول اطلاع کے مطابق 19/ فروری 1981 ء کو اس گاؤں کے 143 کنبوں کے 558 ہریجنوں نے اسلام مذہب اختیار کیا۔
۳۔ اس کے بعد سے تامل ناڈو میں بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہوئے۔ چند نمایاں واقعات حسب ذیل ہیں:
(۱) میناکشی پورم (ضلع نیرو نیلویلی)25/مئی 1981ء کو سو افراد۔
(۲) اتھی یوتھو (ضلع رامناتھ پورم)14/جون 1981ء کو ایک اٹھاسی افراد۔
(۳) الامنور (ضلع رامنا تھ پورم)13/ جولائی1981 کوایک سو بہتر افراد۔
(۴) کو ریور (ضلع رامناتھ پورم) 26/جولائی کو ایک سو باون افراد۔
1981ء سے اب تک کل تقریبا دو ہزار ہریجن اسلام قبول کر چکے ہیں۔ قبول اسلام کے یہ واقعات زیادہ تر تیرونیل،ویلی، مدورئی، رام ناتھ پورم اور تھنجاور اضلاع میں رونما ہوئے ہیں۔ ابھی حال میں نارتھ ارکاٹ اضلاع میں بھی تبدیلی مذہب کے معاملات سامنے آئے ہیں۔
۴۔ ماضی میں ایسے مواقع آتے رہے ہیں، جب ہر یجنوں نے حکومت سے زیادہ مراعات حاصل کرنے اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے خلاف شکایات کا اظہار کرنے کی غرض سے تبدیلی مذہب کی دھمکیاں دی ہیں۔ ضلع سیلم کے نمکال تعلقہ کے دیورا یا پورم گاؤں کے تقریبا سترہریجنوں نے ایک دفعہ یہ دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے مسائل کا حل نہ کیا گیا، تو وہ یکم اگست 1981ء کو مسلمان ہو جائیں گے؛لیکن مقامی ذمہ داروں نے فوری عمل کیا اور ان کی شکایات دور کیں۔ ان کے اس اقدام کے ذریعے ہریجنوں کے قبول اسلام کا خطرناک معاملہ عارضی طور پر ٹل گیا۔ اس کے بعد سے اب تک اس گاؤس سے تبدیلی مذہب کے کسی واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ کا لیکم (تامل ناڈو، ضلع جنگلے پیٹ) میں واقع مدراس اٹلانک پاورپروجیکٹ کے ہر یجن ملازمین کے ایک طبقے نے اعلیٰ ذات کے ہندو ملازمین سے اپنے تعلقات کی کشیدگی کے سبب 15/ اگست 1981ء تک اسلام قبول کرنے کی دھمکی دی تھی؛ لیکن پروجیکٹ کے ذمہ داروں نے ان ہریجن ملازمین سے گفتگو کی اور ان کو اپنے ارادے سے باز رہنے پر رضامند کر لیا، اس شرط پر کہ ان کی شکایات جلداز جلدرفع کردی جائیں گی۔
۵۔ تامل ناڈو میں ہونے والی تبدیلی مذہب کے ان واقعات کے اثرات دوسری ریاستوں میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ ملحقہ مرکزی علاقے پا نڈی چیری میں پندرہ سو ہریجنوں نے قبول اسلام کی دھمکی دی تھی؛ لیکن ذمہ داروں کے بر وقت عمل کے سبب ایسا نہ ہو سکا۔ کر ناٹک میں سرگرم دلت ایکشن کمیٹی نے یوم آزادی کو ہندو مذہب کو ترک کرنے کے دن کی طرح منانے کی آواز دی تھی؛ لیکن وہاں تبدیلی مذہب کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اسی طرح دلت پینتھر رز سے منسوب ایک خبر تھی کہ کان پور میں پچیسہزار ہریجن اور دیگر پس ماندہ طبقات کے افراد15/ اگست1981ء کو اجتماعی طور پر بدھ مت، یا عیسائی مذہب قبول کرنے والے ہیں۔ اس اعلان نے اس شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر دی تھی۔ تشدد کو ر وکنے اور فرقہ وارانہ بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے کی غرض سے اتر پردیش سرکار نے اس روز دفعہ 144 عائد کر کے شہر میں عوامی جلسہ منعقد کرنے اور دلت پینتھررز کے ذریعے مشعل جلوس نکالنے پر پابندی لگادی تھی۔ چوں کہ اس تنظیم کے افراد امتناعی احکامات کو توڑنے پر اڑے ہوئے تھے، اس تنظیم کے افراد امتناعی احکامات کو توڑنے پر اڑے ہوئے تھے، اس لیے 9سے 16/ اگست کے درمیان رات پینتھررز سے متعلق چھبیس افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاریاں عام قانون کے تحت کی تھیں۔ قومی تحفظ قانون کے تحت نہیں۔ ریاستی حکومت کے ذریعے کیے گئے اس احتیاطی اقدام کے سبب کان پور میں اجتماعی تبدیلی مذہب کا واقعہ عمل میں نہیں آسکا۔ تبدیلی مذہب کے چند اکا دکا واقعات کی خبریں بہار، مہاراشٹر، یوپی، دہلی اور آندھرا پردیش سے بھی ملی ہیں۔
۶۔ ہریجنوں کے ذریعے ارادتاً دوسرے مذاہب کو اختیار کرنے کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ ہندوؤں میں رائج ذات پات اور چھو اچھوت کے نظام سے تنگ آکر ماضی میں ہریجن بد ھ مت، عیسائی مذہب قبول کرتے رہے ہیں۔ حکومت تامل ناڈو کی ابھی حال کی ایک رپورٹ کے مطابق ابھی جبری تبدیلی مذہب کے کسی واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہریجنوں خصوصاً تعلیم یافتہ ہریجنوں میں سماجی وقار اور قبولیت حاصل کرنے کی ایک خواہش پائی جاتی ہے۔ جب یہ چیز انھیں اپنے سماج میں حاصل نہیں ہوتیں، تو وہ سماجی برابری اور سماجی وقار حاصل ہونے کی امید میں اسلام کی طرف رخ کرتے ہیں،تا کہ انھیں اور ان کے بچوں کو ایک بہتر مستقبل مل سکے۔ یہ لوگ دلیل پیش کرتے ہیں کہ مسلمان ہریجنوں کے لیے زیادہ ہمدردیاں رکھتے ہیں اور مسلمان ہوجانے کے بعد ان کی کفالت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مدراس کے مندرج فہرست ذاتوں اور ٹرائبز کے ڈائریکٹوریٹ نے میناکشی پورم کے قبول اسلام کے واقعات پر ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو سماج میں ہریجنوں کے لیے چھواچھوت پر مبنی امتیازات کا نظام ان واقعات کا بڑا سبب ہے۔ تامل ناڈو میں ہوئے تبدیلی مذہب کے حالیہ واقعات کی بہت زیادہ تشہیر ہوئی ہے، جس سے اکثریتی فرقے کے افراد میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ ہر چند کہ خبروں کے مطابق مسلمان ہونے والے ہر یجنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی قسم کے زور و جبر، تحریص یا تحریک کے بغیر مسلمان ہوئے ہیں؛ لیکن اخباروں میں مستقل یہ خبریں آرہی ہیں اور متعدد ہندو تنظیموں کی طرف سے مسلسل یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ اس تبدیلی مذہب کے پیچھے بہت بڑے پیمانے پر امیر اسلامی ملکوں سے آنے والی دولت کار فرما ہے۔ دوسری طرف مسلم تنظیموں کا اصرار ہے کہ یہ قبول اسلام بالارادہ، مطلب اسلام کے سماجی اصولوں کی کشش ہے۔
۷۔ جماعت اسلامی ہند اور انڈین یونین مسلم لیگ کے سرگرم افراد، نیز اس علاقہ میں سرگرم تبلیغی تنظیمیں اشاعت اسلام سبھا اور تبلیغی جماعت ہریجنوں کو قبول اسلام کے لیے راغب کرنے میں تشویش ناک کردارادا کر رہی ہیں، کیوں کہ ہریجنوں سے یہ کہتی ہیں کہ انھیں صرف قبول اسلام کے ذریعے ہی سماجی وقار اور طاقت حاصل ہو سکتی ہے۔ غیرملکوں سے آنے والی تبلیغی جماعتوں کی تعداد امسال دوگنی ہو گئی ہے۔ 1982ء کے پچھلے چھ ماہ میں بارہ اجتماعات ہوئے،بے شمار اسلامی علما مسلم کانفرنسوں میں شرکت کے لیے ہندستان آرہے ہیں۔ مسلم اداروں، مسجدوں اورافراد کوخلیجی ممالک سے مالی امداد فراہم کی جارہی ہے، اوربہت سے مواقع پر امداد کا وسیلہ جائز نہیں ہوتا۔ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن کے بموجب اس علاقے میں جماعت مالی اسلامی ہند اور دیگر احیاپسندتنظیمیں کریں جس جوش و خروش کے ساتھ ہریجنوں کوقبول اسلام کے لیے تیزی سے راغب کررہی ہیں، اس کی پشت پر کم از کم جزوی طور پروہ ذرائع ورسائل ہیں،جو انھیں گذشتہ دو یا تین برسوں کے دوران مسلم ممالک اور پان اسلامی تنظیموں کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں۔ اس علاقے کے دولت مند مسلمان، جن کے خلیجی اور جنوبی مشرق کے مسلم ممالک کے ساتھ گہرے تجارتی رابطے ہیں، اس کام میں ان تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں۔کراچی میں قائم مؤتمر عالم الاسلامی نے میناکشی پورم میں اور قرب وجوار کے علاقوں میں ہونے والے قبول اسلام کا سہرا اپنے سر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ سال 1981ء میں پچاس ہزار ہریجنوں کو مسلمان بنانے کا نشانہ مقرر کیا گیا تھا، جس میں سے سترہ سو کو پہلے ہی مسلمان بنایاجا چکا ہے۔ یہ نشانہ1982ء میں دولاکھ کے قبول اسلام کا ہے۔ اس طرح لندن میں قائم اسلامک کلچرل سینٹر کے بارے میں خبر ہے کہ اس نے خلیجی اور دوسرے اسلامی ممالک سے حاصل شدہ عطیات کے ذریعے ہندستان کے بارہ کروڑ ہریجنوں میں سے آٹھ کروڑ کو مسلمان بنانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کا مقصد اگلے دس سالوں میں ہندستانی مسلمانوں کی آبادی کو آٹھ کروڑ سے بیس کروڑ تک بڑھانا ہے۔
۹۔ ہندستان کی مسلم اقلیت میں مسلم ممالک کی یہ کھلی دل چسپی اور ہندستان میں مسلمانوں کی طاقت بڑھانے کی غرض سے ہریجنوں کو مسلمان بنانے کے لیے سعودی عرب کے زیر اثر لندن میں قائم اسلامک کلچرل سنٹر کی اس کھلی ہوئی تجویز کے پیش نظر تبدیلی مذہب کے یہ واقعات سنجیدہ غور و خوض کے مستحق ہیں۔ اجتماعی تبدیلی مذہب کے ان حالیہ واقعات نے اکثریتی فرقے میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہا ہے؛ کیوں کہ وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ چند عناصررفتہ رفتہ ہندوؤں کو اقلیت بنا لینے کی منصوبہ بند کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ احساس قائم رہا، تو خدشہ ہے کہ فرقہ وارانہ فضا پر برے اثرات مرتب ہوں اور فرقہ وارانہ تشدد میں تیزی آجائے۔ چنانچہ چند مستقل اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ تبدیلی مذہب کا یہ سلسلہ ملک میں فرقہ وارانہ فضا اور نظم و نسق کی صورت حال کو زہر ناک نہ بنا سکے۔ اس سلسلے میں چند ممکنہ اقدام تجویز کیے جارہے ہیں، جو حسب ذیل ہیں۔
مجوزہ اقدامات
بڑے پیمانے پر قبول اسلام کے ذریعے پیدا شدہ صورت حال پر- جس کی اخباروں میں بڑی تشہیر ہو چکی ہے اور جس پر عوامی بحث و تمحیص بھی شروع ہی ہو چکی ہے-کیبنٹ سکریٹری کی ہوم سکریٹری اور ڈائر کٹرانٹلی جنس بیورو کے ساتھ، نیز مرکزی، ریاستی وزرائے داخلہ کی سطح پر گفتگو ہوئی ہے۔ اس بات چیت کے دوران محسوس کیا گیا کہ مختلف محاذوں پر مستقل اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ تبدیلی مذہب کے ان واقعات کو بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکا جائے، جس کے سبب دوسرے فرقے کی طرف سے جوابی فرقہ پرستی کے سنگین خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
انتظامی اقدام
۱۔ ریاستی حکومتوں کو ان واقعات میں پوشیدہ امن و امان کو لاحق خطرات سے باخبر رہنے اور ہریجنوں کے جائز مسائل کو مؤثر طور پر حل کرنے کے لیے ہدایات دی جانی چاہیے۔ ہریجنوں کے لیے منظور شدہ اقتصادی ترقی کے پروگراموں پر، خصوصا مدور ئی، تیرو نیلویلی، رام ناتھ پورم اور تھنجاور اضلاع میں جہاں یہ واقعات کثرت سے رونما ہوئے ہیں تیزی کے ساتھ عمل کیا جائے۔
۲۔ ان اضلاع میں آزمودہ کار افسروں کو تعینات کیا جائے،جن پر اعتبار ہو کہ وہ ہریجنوں اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
۳۔ انٹلی جنس سے متعلق عملے کو طاقت ور بنایا جائے، تاکہ وہ ہندستانی غیر ملکی سرگرم افراد کی شناخت رکھ سکیں، ان کی حرکات و سکنات کار وزنا مچہ تیار کریں اور جب بھی ضرورت ہو، ہندستان سے غیر ملکیوں کے درمیان ان کی آمد و رفت پر پابندی عائد کرسکیں۔ دولت اور دیگر مادی محرکات کے ذرائع کی شناخت کر کے ان کے بہاؤ کو روک سکیں۔
۴۔ سرکاری ملازمت دینے والے بورڈ سے کہا جائے کہ وہ سرکاری اداروں میں ملازم ہریجنوں کے تبدیلی مذہب کے مضمرات کا جائزہ لے؛ خصوصا اس بات کا کہ شیڈولڈ کاسٹ ہونے کی بنیاد پر ہریجنوں کوملازمت پانے کے سلسلے میں جو مراعات حاصل ہیں، کیا وہ شیڈولڈ کاسٹ نہ رہنے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہیں۔
۵۔ اسی طرح ریاستی حکومتوں سے بھی کہا جائے کہ وہ ریاستی سرکاری اداروں میں ہریجنوں کی ملازمت کے سلسلے میں اس قسم کا جائزہ لیں۔
۶۔ اڑیسہ اور مدھیہ پردیش نے چندا یسے قوانین پاس کیے ہیں، جن کے تحت لالچ یا دیگر غیر قانونی طریقوں سے تبدیلی مذہب پر پابندی عائد ہوتی ہے اور یہ قوانین عدالتوں کے میعاد پر بھی پورے اترے ہیں۔ ان قوانین کا جائزہ بھی اس مقصد کے پیش نظر لیا جانا چاہیے کہ آیا وہ دوسری ریاستوں کے ذریعے بھی پاس کیے جاسکتے ہیں یا نہیں۔
۷۔ مدراس ریڈ یو اورٹیلی ویژن کو ایسے پروگرام تیار کرنے چاہئیں،جن میں اس بات پر روشنی پڑتی ہو کہ آج ہریجنوں کو چند ایسی واضح سہولتیں اور فوائد حاصل ہوئے ہیں، جو پہلے نہیں تھے۔ ریاستی حکومتوں کو ایسے پمفلٹ اور مضامین شائع کرنے چاہئیں، جن میں مرکزی اور ریاستی سرکاروں کے ذریعے ہریجنوں کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیل درج ہو۔
سیاسی اقدامات
۱۔ اعلیٰ ذاتوں اور ہریجن طبقے سے متعلق سیاسی پارٹی کے لیڈروں کو ان متأثرہ علاقوں کی پدیاترا کرنی چاہیے، تاکہ وہ ذاتی طور پر ہریجنوں کے جائز مسائل سے آگاہ ہوسکیں اوران سے مقامی انتظامیہ کو باخبر کریں، جو ان کے فوری حل کی تدبیر کرے۔ معاملات کو طول دینے اور ڈرامائی بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ مثلا پانڈیچری میں، ہریجنوں کے مسائل کا تعلق مکانات کی کرایہ داری سے تھا۔ جب ذمہ داروں کو اس کی خبر ہوئی، تو انھوں نے انتظامیہ کے متعلقہ افراد سے مداخلت کے لیے کہا اور انھیں مشورہ دیا کہ وہ ہریجن کرایہ داروں کو عدالتی چارہ جوئی سے باز رہنے پر آمادہ کریں، نیزیا تو مکان مالکوں سے کہیں کہ وہ آپس میں یہ معاملہ طے کر دیں، یا پھر یہ دیکھیں کہ آیا ان کے قبضے میں جو سرکاری زمینیں ہیں، وہ انھیں دی جاسکتی ہیں یا نہیں۔
۲۔ مٹھوں کے سربرا ہوں اور دیگر مذہبی قائدوں سے گزارش کی جائے کہ وہ ہریجنوں اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مابین کشیدگی اور نفرت کو ختم کرنے میں مدد کریں اور یک جہتی اور افہام و تفہیم کی فضا ہموارکریں۔
۳۔ مسلم لیڈروں سے لازمی طور پر گفتگو کی جائے، جس میں انھیں خبر دار کیا جائے کہ لالچ اور زور و جبر کے ذریعے کرائے گئے قبول اسلام کے سبب ہندو فرقہ پرستی کا خطرناک رد عمل ہو گا اور ان کے خود غرضانہ عزائم کی شکست ہو جائے گی۔(الجمعیۃ ویکلی، 14/ جنوری 1983ء، ص/۱، و ۰۱)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close