مضامین

سو دن میں تکمیل حفظ قرآن کریم یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

محمد انظر حسین قاسمی

سرزمین بہار کے بارے میں یہ بات بہت کہی جاتی ہے کہ,, بہار کی سرزمین مردم خیز ہے،، اور اس کا اندازہ یہاں کے علماء، فضلاء محدثین، مفسرین، مؤرخین اور مختلف میدانوں میں یہاں کے باشندوں کی محنت ،لگن کچھ کر گذرنے کےجذبے اور اپنے اپنے میدان میں گراں قدر خدمات اور ان کے چھوڑے ہوئے انمٹ نقوش سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
سردست تحریر درحقیقت صوبہ بہار کے ضلع بانکا کے,, بنسی پور،، گاؤں سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد شعیب ابن محمد ارشاد کے ایک ایسے کارنامے پر خراج تحسین ہے جسے معجزات قرآن کریم ہی میں سے کہا جاسکتا ہے، محمد شعیب نامی طالب علم نے اپنی جد وجہد اور محنت سے جامعہ اشاعت العلوم اکل کواں مہاراشٹر میں محض سو دن میں حفظ قرآن کریم مکمل کیاہے۔
ظاہر ہے کہ یہ بہت انوکھا کارنامہ ہے ماضی میں بہت سے جلیل القدر علماء اور اساطین علم ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اللہ تعالٰی کے فضل و کرم اور اپنی محنت سے بڑی کم مدت میں حفظ قرآن کریم مکمل کیا، چنانچہ مولانا عتیق الرحمن صاحب اعظمی نے اپنے ایک مضمون میں ایسے ہی چند حفاظ کے نام ذکر کئے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ امام محمدؒ جب امام ابوحنفیہؒ کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو امام صاحب نے آپ کو قرآن شریف حفظ کرنے کا حکم دیا، امام محمدؒ ایک ہفتہ غائب رہے پھر آکر فرمایا پورا قرآن یاد کرلیا۔ (الجواہر المضیئۃ ۲/۵۲۸)

شیخ عزالدین ابن جماعہ تیس علوم میں مہارت رکھتے تھے، قرآن مجید کو ایک ماہ میں یاد کرلیا تھا۔ (اسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ۹۹)

ہشام کلبیؒ کا بیان ہے کہ میں نے ایسا یاد کیا ہے کہ کسی نے نہ کیا ہوگا اور بھولا بھی ایسا کہ کبھی بھولا نہ ہوگا، فرماتے ہیں کہ میرے چچا ہمیشہ مجھے قرآن یاد نہ کرنے پر ملامت کیا کرتے تھے، ایک دن مجھے بڑی غیرت آئی میں ایک گھر میں بیٹھ گیا اور قسم کھائی کہ جب تک کلام باری تعالیٰ حفظ نہ کرلوں گا اس گھر سے باہر نہ نکلوں گا؛ چنانچہ پورے تین دنوں میں قرآن کریم کو حفظ کرکے اپنی قسم پوری کرلی اور بھول جانے کا قصہ یہ ہے کہ میں نے آئینہ میں دیکھا کہ داڑھی لمبی ہوگئی ہے تو میں نے اس کو چھوٹی کرنا چاہا ایک مشت سے زائد کو قطع کرنے کے لیے داڑھی مٹھی میں لی اور بجائے نیچے کے اوپر قینچی چلادی؛ چنانچہ داڑھی صاف ہوگئی۔ (وفیات الاعیان (۶/۸۲) واسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ۸۴ و شامی ۵/۲۶۱ یا ۶/۴۰۷ تاریخ خطیب بغدادی ۱۶/۶۸)

اللہ تعالیٰ نے ایسا اس لیے کرایاکہ ان کے اندر اس سے کبر نہ پیدا ہوجائے کہ تین دن میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔ (ملفوظات فقیہ الامت ۲/۲۵۳ طبع جدید کراچی)

قاضی ابوعبداللہ اصبہانی نے فرمایا کہ میں نے پانچ سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔ (مقدمہ ابن الصلاح ص۱۳۱، النوع ۲۴ واسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ص۲۰۲)

مولانا فضل حق خیرآبادیؒ (م۱۲۷۸ھ) نے صرف چار ماہ میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔ (ایضاً، ونزہۃ الخواطر ۷/۴۱۳)

حضرت روح اللہ لاہوریؒ نے مکہ معظمہ میں ماہ رمضان مبارک کے اندر بیس دنوں میں پورا قرآن حفظ کرلیا۔ (ایضاً ص۲۰۶)

حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ جب حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو سمندر میں جہاز پر رمضان شریف کا چاند نظر آگیا، رفقاکی خواہش ہوئی کہ تراویح پڑھی جائے؛ مگر کوئی حافظ نہیں تھا لوگوں کے اصرار پر ایک پارہ روزانہ دن میں حفظ کرتے اور رات کو تراویح میں سنادیا کرتے؛ اس طرح پورا قرآن (ایک ماہ میں ) یاد کرکے سنادیا۔ (اسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ۲۰۷)

معلوم ہوا کہ ماضی میں ایسے بہت سے حفاظ گذرے ہیں جنہوں نے بڑی کم مدت میں حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کیں، لیکن موجودہ وقت میں سو دن میں حفظ قرآن کریم کی تکمیل بندۂ ناچیز نے پہلی مرتبہ سنی ہے۔
اس کارنامے پر طالب علم اور ان کے والدین نا صرف اپنے جامعہ اور اپنے علاقہ، بلکہ پورے ملک اور پوری امت مسلمہ کی طرف سے مبارک بادی اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہمیں ایسے لعل و گہر کی قدر و قیمت کو پہچاننا چاہئیے کہ ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حافظ صاحب نے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت کی ہے، جس کا اندازہ ان کے استاذ کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے استاذ جب انہیں بسکٹ وغیرہ کھانے کے لئے دیتے تو وہ بسکٹ ان کی جیب میں اگلے دن اسی طرح ملتی ،جب استاذ محترم ان سے بسکٹ نا کھانے کا سبب پوچھتے تو طالب علم جواب دیتے ہیں میرے پاس کھانے کا وقت نہیں ہے، قربان جائیے اس جذبہ پر ! یہ جذبہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے جذبہ سے ملتا جلتا جذبہ ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے معالج سے فرمایا تھا کہ سالن کے ساتھ روٹی کھانے کا میرے پاس وقت نہیں ہے، خدا کرے کہ موصوف طالب علم کی محنت اور کچھ کر گذرنے کے جذبہ سے طالب علم کو ایسا علمی مقام حاصل ہوجس کی روشنی سے سماج سے جہالت کی تاریکی کافور ہو اوروہ دوسرے طلبہ کے لیے ایک تحریک ثابت ہو!
مضمون نگار جامعہ رحمانی کے استاذ ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close